Ehd E Ulfat by Mehwish Ali Urdu Novels Complete

Ahad Ulfat means "commitment of love" so people this article is about Mehwish Ali's novel Ahad Ulfat. Towards the end of this article, download the Connect in PDF organization of this total novel, as well as a sketch of the novel.
Ehd E Ulfat by Mehwish Ali Urdu Novels Complete



Mehwish  Ali is a notable online entertainment essayist and author. In a short time, he gained a lot of recognition for his extraordinary and extraordinary composing abilities.

Currently, you can download Mehwish  Ali's complete novel Ehd E Alfat in PDF format by tapping on the download button below. We provide books in HD quality for consumers. Clients can download without a doubt, without any stacking or ad serving. You can of course download it to your computer or mobile phone.

Ehd E Ulfat by Mehwish Ali Urdu Novels Complete Pdf Download all Episode



عائشہ انکے سامنے والے گھر میں رہتی تھی گلابی رنگت اور بڑی سنہری آنکھوں والی عائشہ مہکار کو پسند تو تھی پر اس کی نظر میں عائشہ کی ایک بڑی خامی تھی اور  وہ تھی تقویٰ سے دوستی جو اسے بالکل بھی پسند نہیں تھی تبھی اس سے کھینچی کھینچی رہتی البتہ کبھی موڈ بنا تو چند باتیں ضرور کرلیا کرتی  ۔۔۔
"ہاں بھابھی وہ تقوی سے کچھ کام تھا" ۔۔۔۔۔۔ ساحل کے گال پر چٹکی کاٹ کر مسکرائی ۔۔۔۔۔ 
"ارے عاشی یہ تمہارے چہرے پر پمپل کتنا بڑا ہے" ۔۔۔۔۔۔ ساحل کے سامنے دودھ کا گلاس رکھتے جب اسکی نظر عائشہ کی گلابی گال پر سرخ سے پمپل پر پڑی تو شدید حیرت سے بولی جس پر عائشہ کا منہ اتر گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ 
"شکر آپنے تو نوٹس لیا ورنہ اس تقویٰ کے سامنے منہ گھما گھما کر دیکھانے کی کوشش کر رہی تھی پر" ۔۔۔۔۔۔ اسکے کہنے پر مہکار ہنس پڑی ۔۔۔۔ 

"اگر وہ ان سب کا نوٹس لیتی تو آج خود کالا منہ لیکر  نہیں گھوم رہی ہوتی خیر"  ۔۔۔۔۔۔ 
"مما آپی کالی نہیں ہے بہت پیاری ہے" ۔۔۔ دونوں کی باتیں سنتا ساحل اپنی ماں کی کالی والی بات پر غصے سے بولا اور دودھ کا گلاس پرے کردیا ۔۔۔۔
مہکار نے عاشی کے سامنے اسکی کہے گئے لفظوں پر دانت پیسے اور عائشہ نے مسکراہٹ ہونٹوں میں دبائی ۔۔۔۔۔ 
"دیکھا کتنا بدتمیز ہوگیا ہے جب سے اسے ہارون نے تقویٰ کے پاس پڑھنے کا چھوڑا  ہے تب سے بڑوں کے بیچ ایسی بدتمیزی کرتا ہے ۔۔۔۔ پتا نہیں کیا پڑھاتی ہے بچے کو کہاں سے ہوشیار ہے گائوں کی مٹی کے بنے کالج میں ٹاپ کرنے سے کوئی غیر معمولی ذہن کا مالک نہیں بن جاتا ہونہہ " ۔۔۔۔ حسب عادت موقع ملتے وہ شروع ہوگئی تھی اور ساحل کو خونخوار نظروں سے گھور رہی تھی ۔۔۔۔۔ 
"اچھا میں تقویٰ کے پاس جارہی ہوں" ۔۔۔۔۔۔ وہ کہہ کر جانے لگی ۔۔۔۔ تبھی پیچھے سے بولی ۔۔۔۔۔ 
"سنو اسنے کل ہی مجھے الوویرہ جل سے کریم بنا کر دی ہے پمپل کی چاہو تو وہ دوں " ۔۔۔ 

"نہیں بھابھی میں اس سے کہتی ہوں وہ بنادے گی یہ آپ رکھیں شاید اس سے میل میرا مطلب پمپل ختم ہوجائیں  " ۔۔۔ مسکرا کر کہتی وہاں سے چلی گئی ۔۔۔۔۔۔۔ 
"ہونہہ چمچی کہیں کی "۔۔۔۔۔۔ 
"پیو سارا " بڑبڑاتی گلاس ساحل کے منہ سے لگا کر اپنا غصہ ٹھنڈا کرنے لگی ۔۔۔۔۔۔ 
**********
"کچھ دیر بعد فریش ہوجائیے گا پھر دیکھیے گا کمر گھٹنوں کا درد کیسے چٹکیوں میں بھاگتا ہے" ۔۔۔۔۔۔ واش روم سے ہاتھ دھو کر دوپٹے سے پونچھتی بیڈ پر پڑی سائرہ بیگم سے بولی ۔۔۔۔۔۔۔ 
"اللہ بھگائے اس موئے درد کو مجھے تو ساری رات سونے نہیں دیا" ۔۔۔۔۔۔۔سائرہ بیگم کی آہ پر تقویٰ کو اس پر ترس سا آگیا اور ماضی میں  اپنے بابا کی کمر کا درد یاد آیا  ۔۔۔۔۔۔۔ 


"ہاں جب میں گائوں میں ہوتی تھی اور بابا حیات ہوتے تھے تو انہیں بھی ایسے درد ہوتا تھا تو میں یہ تیل بنا کر بھائی کو دیتی تھی وہ بابا کو لگاتے تھے اور" ۔۔۔۔۔۔۔ 
"ہاں ہاں اچھا میرے کپڑے نکال کر بیڈ پر رکھو پھر جاکر مہکار کے ساتھ ناشتہ لگائو ہارون اٹھ گیا ہوگا" ۔۔۔۔۔۔۔
 اسکی بات کاٹ کر سائرہ بیگم جلدی سے بولی تو تقویٰ نم آنکھوں سے مسکرائی اور سر ہلانے لگی ۔۔۔۔۔۔ 
باہر کھڑی باتیں سنتی عائشہ کا دل کیا وہ تقوی کا گلا دبا دے آخر کس مٹی سے بنی تھی یہ لڑکی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
"عاشی خیریت تم ابھی یہاں ہو " ۔۔۔۔

" افف اللہ۔۔۔  میں تم سے آنے کی وجہ تو پوچھنا بھول ہی گئی" ۔۔۔۔۔۔ سائرہ بیگم کے روم کا دروازہ بند کرکے سامنے کھڑی لال ٹماٹر سی گڑیا جیسی عائشہ کو نظرانداز کرکے وہ آگے بڑھ گئی ۔۔۔۔۔۔۔ 
"ہاں اور میں بھی یہی وجہ بتانے آئی ہوں تمہیں کہ مہربانی کرکے میڈیکل چھوڑ کر حکیمہ بن جا اور سب کو ٹوٹکے دیتی پھر "۔۔۔۔۔۔۔ غصے سے کہتی پائوں پٹختی جانے لگی ۔۔۔۔۔۔ 
"عاشی یار کیا چاہتی ہو تم کہ کسی کو تکلیف میں دیکھ کر ذرا سی مدد بھی نا کروں "۔۔۔۔۔ تقویٰ نے روہانسی لہجے میں اسکے پیچھے آتے کہا ۔۔۔۔۔ 

اسکی بات پر عائشہ مڑکر اسکی نم آنکھوں میں  دیکھنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔ 
"کیا تمہیں میری تکلیف دیکھائی دی " ۔۔۔۔ اسکے روٹھے انداز پر تقویٰ کی مسکراہٹ مچلنے لگی پر جانتی تھی اگر ہنسی تو پھنسی ۔۔۔۔ اسلئے اپنی پیاری سی دوست کو مزید ستانے کا ارادہ ترک  کرکے بولی ۔۔۔۔۔۔۔۔ 
"ہاں دیکھائی دی اپنی پیاری سی دوست کی تکلیف تبھی تو کہہ رہی ہوں جاتے ہوئے میرے روم سے بھی چکر لگاتی جانا" ۔۔۔ روٹھی عائشہ اسکی بات کو سمجھ کر جھوم اٹھی ۔۔ 
"اوہ تقویٰ کتنی پیاری ہو یار تم ۔۔۔ گائوں کے لوگ بڑے کمال کے ہوتے ہیں سچی یار " اسے گلے سے بھینچ کر چیخی ۔۔۔۔۔

"پر ابھی تو کوئی کہہ رہا تھا مجھے میڈیکل چھوڑ کر حکیمہ بننا چاہیے" ۔۔۔۔۔۔۔ 
"اچھا ۔۔۔! کس پاگل نے کہا نام بتا اسکا " ۔۔۔ اسکے سیریس انداز پر تقویٰ ہنس پڑی ۔۔۔۔۔۔۔ 
"اچھا چل اب چلتی ہوں کل ملیں گے یونی میں اور پلیز بھابھی صاحبہ کو کوئی آنکھوں کا سرمہ بنا کر دو جس سے وہ انسان کے باطن حسن کو بھی دیکھ سکے " ۔۔۔۔۔ کہنے کے ساتھ منہ بناکر چلی گئی اور پیچھے تقویٰ دیکھتی رہی ۔۔۔۔۔۔۔
"پاگل ہے دوستی میں سب سے جھگڑنے لگتی ہے "۔۔۔۔۔۔۔ اسکی محبت کو محسوس کرتے وہ مسکرادی ۔۔۔۔۔۔۔ 

***********
تقویٰ اپنے بھائی دانیال فاروق کے ساتھ گائوں میں رہتی تھی ۔۔۔۔ ماں باپ کا انتقال بچپن میں ہی ہوگیا تھا ۔۔۔۔ 
ماں باپ کے بچھڑنے کے بعد دونوں بھائی بہن  کو انکی پھپھو نے ہی پالا ۔۔۔۔۔ 
دانیال نے اپنی تعلیم مکمل کی تو اسے ایک اچھی کمپنی میں جاب مل گئی اور تب تقوی نے اپنی  محنت سے  کراچی کے میڈیکل کالج میں انٹری ٹیسٹ میں پاس ہوئی تو دونوں بھائی بہن کراچی شفٹ ہوگئے ۔۔۔۔ انہونے اپنی پھپھو کو بہت کہا پر وہ اپنے گائوں کو چھوڑنے پر تیار نہیں تھی ۔۔۔۔۔ 
دانیال کے باپ کی گائوں میں کچھ اپنی زمین تھی جس پر اسنے ہسپتال بنوانے کا خواب دیکھا تھا پر زندگی نے انہیں اتنی مہلت نہیں دی ۔۔۔۔۔۔ 
دونوں بھائی بہن اپنے باپ کے خواب سے آگاہ تھے تبھی اپنے باپ کے بعد یہی خواب ان دونوں کی آنکھوں میں پلنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
کراچی میں انکی بہت اچھی زندگی گذر رہی تھی دانیال کی دوستی ہارون شاہ سے ہوئی جو کمپنی میں مینجر تھا، ہارون شاہ بہت اچھا اور سیدھے سلجھے مزاج کا مالک تھا ۔
 دو سال میں دونوں کی دوستی بہت گہری ہوگئی ، فیملی سے ملنا ملانا ہوگیا اور آنے جانے لگے وہیں تقویٰ کی ملاقات عائشہ سے ہوئی ۔۔۔ 

دونوں میڈیکل کالج میں ایک دوسرے کی چھوٹی موٹی ہیلپ کو اگنور کرتی رہتی تھی پر یہاں پر مل کر ملاقات دوستی میں بدل گئی ۔۔۔ اور آگے چلکر گہری دوستی بن گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ 
ہارون شاہ کے گھر میں تقویٰ کو گائوں کا ہونے اور سانولی رنگت پر دونوں ساس بہو مفت کےمشورے دے کر مزاق طنز کرتی جس پر اسنے اپنے بھائی کے آئندہ کہنے پر وہاں جانے سے انکار کردیا اور وجہ نہیں بتائی ۔۔۔۔۔
دانیال نے بھی اسکی بوریت محسوس کرکے مزید اسرار نہیں کیا ۔۔۔۔۔۔۔
 پر اس پاک ذات کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔۔۔۔۔

دانیال کو کمپنی کی طرف سے دو سال کیلئے ملک سے باہر جانا تھا  اور وہ تقویٰ کا سوچ کر پریشان تھا بہت ۔۔۔۔
تب اس مشکل وقت میں ہارون شاہ نے اسکا ساتھ دیا ۔۔۔۔۔۔۔ 
اور تقویٰ کو اپنی بہن بنا کر دوسال تک اپنے گھر رہنے کی ذمیداری لی ۔۔۔۔۔ 
دانیال نے کچھ سوچ وچار کے بعد تقویٰ کی پڑھائی کا خیال رکھتے ہاں کہہ دی ۔۔۔۔۔ 
اور تقویٰ اپنے بھائی کی پریشانی دیکھ کر کچھ کہہ نا سکی اس طرح دونوں بہن بھائی ایک دوسرے کو اپنا دھیر سارہ خیال رکھنے کی ہدایت کرتے الگ الگ راہوں پر نکل پڑے  ۔۔۔۔۔۔ 
تقویٰ کی طویل موجودگی کا جانکر اندر ہی اندر دونوں ساس بہو نے احتجاج کرنے کی کوشش کی پر ہارون شاہ کو دوستی پر جان قربان والے ارادوں کو دیکھ کر خود ہی چپ ہو گئیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
دانیال جانے کے بعد روز اسکا حال احوال پوچھتا اور پھپھو کو بھی ہر ماہ تقویٰ کے پاس چکر لگانے کی ہدایت کی کہ کسی بھی وجہ سے وہ خود کو اکیلا نا سمجھے  ۔۔۔۔۔۔۔ 
***********

"مہکار تمہارے بھائی کی کال ہے" ۔۔ روم سے آتی ہارون کی آواز پر مہکار کے جلتے دل پر جیسے ٹھنڈک سی پڑ گئی ہو اور سالن بناتے اسکے ہاتھ ٹھٹک گئے  ۔۔۔۔۔۔۔ 
" تقویٰ " ۔۔ "ذرا آکر بات سنو " ۔۔۔۔۔ گیس بند کرکے اسنے تقویٰ کو آواز دی ۔۔۔۔۔۔۔ 
"جی بھابھی" ۔۔۔۔۔۔ آج سنڈے تھا تو کھانہ مہکار کو ہی پکانا تھا پر یہاں شاید اسکے بھائی کو بھی یہ پسند نہیں تھا کہ ایک دن بھی وہ کوئی کام کر لے تبھی اسکے کام کے وقت ہمیشہ ٹپک پڑتا ۔۔۔۔۔۔۔ 
"جی بھابھی کو چھوڑ اور کتاب یہاں رکھ "۔۔ اسکے ہاتھ سے کتاب لیکر ٹیبل پر رکھی اور اسے کندھے سے پکڑ کر اپنی جگہ پر کھڑا کیا ۔۔۔۔۔۔
 
"تم ذرا سالن کو دیکھو اگر ہوسکے تو روٹیاں بھی ڈال دینا میں ذرا بھائی سے بات کرکے آتی ہوں بچارہ کب سے کال کر رہا ہے "۔۔۔۔۔ اسکی خوشی دیکھ کر تقویٰ مسکرادی ۔۔
"جی بھابھی آپ فکر نا کریں میں کرلوں گی" ۔۔۔۔۔ 
"اچھا ٹھیک اور اگر ہارون پوچھے تو کہہ دینا تمنے خود مجھے بھیجا ہے" ۔۔۔۔ "ٹھیک ہے" ۔۔

"جی ٹھیک  "۔۔۔۔۔۔ اسکی جی سننے سے پہلے ہی مہکار کچن سے باہر تھی اور پیچھے اسکی خوشی کو محسوس کرتے مسکراتی تقویٰ کھانا بنانے لگی ۔۔۔۔۔۔ 
**********
"خوش ہو" ۔۔۔۔۔  کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے ہارون نے اسکے مسکراتے چہرے کو دیکھتے بولا ۔۔۔۔۔ 
"ہاں بہت" ۔۔
"اچھی بات ہے "۔۔۔ ہارون نے سر ہلا کر صرف اتنا کہا۔۔  مہکار نے وجہ نا پوچھنے پر دانت پیسے ۔۔۔۔۔ 
"پوچھیں گے نہیں کہ کیوں اتنی خوش ہوں "۔۔۔۔۔ 
"میرے نا پوچھنے پر تم کونسا نہیں بتائو گی " ۔۔۔۔۔۔ 
"آپ بھی نا " ۔۔۔۔ ہنس کر کہتی وہ چیئر کھسکا کر ساتھ بیٹھی ۔۔۔۔ 
"وہ نا حیدر کراچی آرہا ہے سٹردے  کو ہمیشہ کیلئے یہیں اور اپنا بزنس بھی یہیں کراچی میں اسٹارٹ کرنا چاہتا ہے پاپا نے بھی کہا ہے " ۔۔۔۔۔۔۔
"ہے نا خوشی کی بات" ۔۔۔۔۔۔ 
" ہاں یہ تو بہت اچھی بات " ۔۔۔ " رہنے کا بندوبست کہاں کیا ہے " ۔۔۔۔۔۔ ہارون کی بات پر مسکراتی مہکار کے لب سکڑ گئے ۔۔۔۔۔۔ 
"کیا مطلب کہاں رہے گا بہن کے گھر کے ہوتے ہوئے "۔۔ "یہیں رہے گا اور کیا " ۔۔۔۔۔۔۔ مہکار غصے سے اٹھ کر کھڑی ہوگئی جانتی تھی اسکے اعتراض کی واجہ ۔۔۔۔ 
"آہستہ مہکار مما سن لیں گی "۔۔۔۔ " دوسری بات حیدر یہاں نہیں رہے گا اسے کسی ہوٹل میں ٹھہرنے کا کہو وجہ تم جانتی ہو میری جوان بہن گھر میں موجود ہے " ۔۔۔۔۔۔۔۔  ہارون کے مدہم لہجے اور بات پر مہکار ہنس پڑی ۔۔۔۔۔۔۔ 
" واہ ہارون صاحب ایک منٹ میں اپنوں کو غیر اور غیروں کو اپنا بنا لیا ۔۔۔۔ لیکن ایک بات آپ کو بتائوں میرا بھائی کسی گائوں یا گلی سے نہیں آرہا نا ہی کوئی موالی ٹائپ ہے جو جیسی آئی قبول ہے" ۔۔۔۔ 
"آپ کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ وہ امریکہ سے آرہا ہے "۔۔۔۔۔ "اور اسکی پسند ناپسند کو مجھ سے بھتر کوئی نہیں جان سکتا تو یہ آپکو گارنٹی دیتی ہوں کہ کالا رنگ اسے ذرا بھی پسند نہیں تو اسلئے بےفکر رہیں " ۔۔۔۔۔۔۔ 
"کیا بکواس ہے کیا کہنا چاہ رہی ہو "۔۔۔۔!! ہارون بھی اٹھ کر کھڑا ہوگیا ۔۔۔۔۔۔۔ 
"وہی کہنا چاہ رہی ہوں جو آپ سمجھ رہے ہیں" ۔۔ اور ایک اور بات اگر میرا بھائی یہاں نہیں رہ سکتا تو اس منہ بولی بہن کا بھی سامان پیک کروائیں یا میرا " ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہارون کی آنکھوں میں دیکھتے وہ اٹل لہجے میں بولی ۔۔۔۔۔ 
"پاپا کیا ہوا "۔۔۔۔۔۔؟ ساحل اپنے ماں باپ کی تیز آواز پر سہما سا روم میں آیا ۔۔۔۔۔۔ 
"کچھ نہیں میرا بیٹا جائو آپی کے پاس کھیلو "۔۔۔۔۔۔۔ کچھ کہنے کو منہ کھولتا ہارون ساحل کو دیکھ کر چپ ہوگیا اور مہکار پر ایک غصیلی نظر ڈالکر اس سے بولا ۔۔۔۔۔۔۔۔ 
"گیا تھا پاپا پر آپی نے کہا بعد میں کھیلیں گے ابھی کھانا بنا رہی ہیں "۔۔۔۔۔۔۔
 
"اچھا تم دادو کے پاس جائو شاباش " ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاروں صاحب کے کہنے پر ساحل سر ہلا کر چلا گیا تو وہ خاموش کھڑی مہکار کی جانب مڑا ۔۔۔۔۔۔۔ 
" تقویٰ کھانا بنا رہی ہے کیوں مہکی "۔۔۔۔۔!! 
"ہاں جی آپکے دل میں تو بڑی چوٹ پڑ گئی "۔۔"وہ کیا ہے آپکی بہن صاحبہ سارہ دن بیٹھ بیٹھ کر ٹھک جاتی ہے تو اسلئے خود ہی مجھے جانے کو بولا "۔۔۔۔۔۔۔ "ویسے ایک بات مجھے سمجھ نہیں آتی  " ۔۔۔۔۔ چہرے پر مکروہ مسکراہٹ سجائے وہ سوچنے لگی ۔۔۔۔۔ 
ہارون نے کچھ نا سمجھتے اسے دیکھا کہ اچانک مسکرا کیوں رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ 

"یہ کہ آج کل کوئی مفت کا مشورہ نہیں دیتا اور آپ کسی غیر کیلئے اپنوں کو دھتکار رہے ہیں یہ بڑی بات نہیں ہے " ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہارون کی شرٹ پر انگلی گھماتے وہ ہنسنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔ 
"اس بکواس کا مطلب کیا ہے مہکار کیا سب کو اپنے جیسا مطلبی سمجھتی ہو "۔۔۔۔!!! ہارون چیخ پڑا ۔۔۔۔
"مطلب وہی ہے جو آپ سمجھے ہیں ہارون صاحب "۔۔۔۔
" تم حد سے بڑھ رہی ہو مہکار "۔۔۔!
"حد آپ نے کردی ہے ہارون اور میں کہہ رہی ہوں میرا بھائی یہیں رہے گا بس " ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہارون کی غصے سے

 سرخ آنکھوں میں دیکھ کر چختی باہر نکل گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
اور ہارون اسے تو یقین نہیں ہورہا تھا یہ اسکی مہکار ہے جو اس سے بےانتہا محبت کرتی جس کیلئے اپنی شاندار زندگی کو چھوڑ کر تین کمروں والے چھوٹے سے گھر میں آگئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ 
کافی دیر خاموش پریشانی میں کھڑا تھا کہ اچانک موبائل کی رنگٹون پر مڑ کر ٹیبل پر دیکھا جہاں  اسکرین پر دانیال فاروق کا نام جگمگا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
" یااللہ یہ کیسا امتحان ہے " ۔۔۔۔ ٹھنڈی سانس خارج کرتے موبائل اٹھائی ۔۔۔۔۔۔۔۔ پر اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کیا بات کرے ۔۔۔۔۔ 




More Related Novels by Mehish ali 

Post a Comment

Previous Post Next Post