Intehai Junooniyat by Mehwish Ali Urdu Novel Complete All episode Online read and Pdf Download Epi 1 to Epi 52.
Mehwish Ali Urdu Novelist is a social media writer we have a number of talented people who have unique and fantastic writing skills and Mehwish Ali is also one of those gifted writers.
Episode 1 Intehai Junooniyat Mehwish ali Novel Pdf Download
امریکہ کی سنہری شام کے سنہری سائے سالار محل پر پڑنے سے گھبرا رہے تھے ۔۔۔ آج پھر جیسے اس پر
وحشت کا دورہ پڑا تھا ۔۔۔ کمرے کی ہر چیز تہس نہس تھی ۔۔ نیلی سرد آنکھیں خطرناک حد تک سرخ لال انگارہ تھی ۔۔۔ سرخ عنابی لب ایک دوسرے میں سختی سے بھیجے ہوئے تھے ۔۔۔ ایسے کہ سفید گردن کی نیلی رگے بالکل واضح ہوگئی تھی ۔۔۔الگ الگ ممالک سے لائی گئی چھوٹی بڑی مہنگی سے مہنگی چیز ۔۔۔ وہ اٹھا کر جنونیت سے مرر اور دیواروں پر مار رہا تھا ۔۔۔ جو بکھر کر ٹکروں میں تقسیم ہوکر اپنی نا قدری پر رو رہی تھی ۔۔۔ اگر انہیں چیزوں کی رقم کسی غریب کو دی جائے تو شاید وہ خود کو غریب نا کہلاتا۔۔۔۔پورا کمرا کانچ کے ٹکروں سے بھرا ہوا تھا ۔۔۔ کمرے میں بکھرے ٹوٹے ہوئے قیمتی پرفیومز کی خوشبو ونڈو سے نکل کر پورے محل میں بکھر کر چھائے ہمیشہ کے وحشت کو خود میں سمیٹ رہی تھیں ۔۔۔
پیچھے بنے بڑے سے گارڈن میں جہاں دنیا کا ہر پھول جو عام لوگوں نے تو اسکے ہونے کا سوچا بھی نہیں ہوگا مگر امیر آدمی بھی اسکا حقدار بننے کا خواب دیکھنا اپنے بس کی بات نہیں سمجھتا تھا ۔۔۔۔
مختلف کنٹریز کے حسین مگر خوشبو کی پہنچ سے دور وہ گلاب آج پھر ہمیشہ کی طرح فضا میں پھیلی ہوئی بےبس خوشبو کو اپنے طرف اسے التجا کرتے پاس بلانے کے لیے ہوا کی مدد سے یہاں وہاں جھومنے لگے۔۔۔۔ پر انکے چہرے پر پھیلی مایوسی تھی کہ اپنے مالک کی وحشت سے یہ خوشبو پھر انکی پہنچ سے دور ہوجائے گی اور وہ ہمیشہ کی طرح سب پھیکے رہ جائیں گے ۔۔۔
کبھی کسی کا محبت بھرا لمس محسوس نہیں کر سکیں گے ۔۔۔ اور ناہی خود میں خوشبو بسا پائیں گے ۔۔۔۔
باہر لائونج میں کھڑے ملازم اسکی درد بھری دھاڑ اور کمرے کی ٹوٹ پھوٹ کی آواز پر ٹھر ٹھر کانپ رہے تھے ۔۔۔ اور اپنی مقامی زبان میں بولتے خدا سے پناہ مانگ رہے تھے ۔۔۔ یہاں کا ذرا ذرا بھی اسکے غصے سے خوفزدہ رہتا تھا ۔۔۔۔ انہیں پتا تھا اگر انکا صاحب تھوڑا بھی بگڑا تو انکی شامت آجاتی تھی ۔۔۔ ویسے یہ دورے تو اسے مہینے میں دو یا تیں بار پڑتے رہتے تھے پر اسکا بگڑا موڈ ہمیشہ سوا نیزے پر رہتا تھا ۔۔۔
وہ پورے ہال نما خوبصورت کمرے کا نقشہ بگاڑ کر گہرا سانس لیتا سگریٹ سلگاتا صوفے پر بیٹھ گیا ۔۔۔ اور نیلی سرخ آنکھیں موند کر سر اسکی پشت سے لگا دیا ۔۔۔۔خود کو ریلیکس کرنے کے لیے۔۔۔۔
نسرین بیگم اور فیاض صاحب کو اسنے اپنی بیس سال کی عمر میں ہی پاکستان بیجھ دیا تھا ۔۔۔ وہ جانے کے لیے راضی تو نہیں تھے پر اسکی ضد اور غصے سے مجبور ہوکر چلے گئے ۔۔۔اسکے بعد بھی انہونے کافی آنے کے لیے منت کی پر اسنے سختی سے منا کردیا ۔۔۔۔ اور پیچھے اسنے سارا کاروبار اکیلے ہی سنبھالا بلکہ اسے بلندیوں پر لےگیا ۔۔۔۔اور اب کئی مرتبہ وہ بزنس مین آف دی یئر (Business Man of the Year) کا ایوارڈ جیت چکا تھا ۔۔۔
پیسہ اسکے پاس بہتے دریا کی طرح تھا ۔۔۔ کہ فضول میں بہاتا رہے تب بھی اسکے پاس کمی نا آئے ۔۔۔۔
ہزاروں کنال پر پھیلا اسکا سفید ماربل سے بنا محل قیمتی فرنیچر سے سجا جس میں چھوٹی سی چھوٹی بھی چیز اپنی قیمت کی منہ بولتا ثبوت تھی ۔۔۔ ہال میں لگا خوبصورت فانوس جس میں سے نکلتی سنہری روشنی ہر کونے کو جگمگا رہی تھی ۔۔۔۔ سفید پردے لگے اسکی خوبصورتی کو مزید نمایا کر رہے تھے۔۔۔
ہزار ایکڑ پر پھیلا لان جس کی رکھوالی کے لیے کئی مالی موجود تھے ۔۔۔ کچن کے لیے الگ شیف اور صفائی کے لیے الگ ملازم ۔۔۔۔ ان سب افراد کے ہوتے ہوئے بھی ایک الگ سی وحشت ہوتی تھی ۔۔۔
آوازیں آنا کم ہوئی تو سب یہاں وہاں بکھر کر اپنے اپنے کاموں میں الجھ گئے ۔۔۔۔ سب کے چہرے پر اپنے باس کے لیے ترس رحم تھا ۔۔۔ اور دعا تھی کہ ایسی اینجل آئے کہ اسکی ساری وحشت اکیلا پن اور مایوسی سمیٹ لے ۔۔۔۔
اور اب روم کی صفائی کرنے والا ملازم کھڑے سب کی رحم بھری نظروں کا مرکز تھے ۔۔۔۔
سگریٹ پر سگریٹ پیتا پورے کمرے کو اسکی بو سے نہا دیا ۔۔۔۔ پرفیوم سگریٹ کی بو مل کر ایک الگ ہی فضا پیدا کر رہی تھی ۔۔۔۔
سگریٹ کا آخری کش لیکر ایش ٹرے میں مسلا اور واپس صوفے کی پشت سے سر ٹکا کر آنکھیں موند گیا ۔۔۔۔ اسکی خونخوار نیلی آنکھوں میں آج کے دن کا واقعہ گھومنے لگا جب اسنے بڑا پروجیکٹ جیتا تھا تو اسکے مخالف نے جلن اور حسد میں اسے باسٹرڈ بولا ۔۔۔ اسکے اندر اس لفظ سے تو جیسے طوفان سا اٹھا ۔۔۔ اور وہیں پر اسنے بغیر میڈیا کا خیال کیے اس شخص کا نقشہ ہی بگاڑ دیا ۔۔۔
اگر آج اسکا مینجر اور باقی لوگ اسے نا سنبھالتے تو شاید وہ اسکا خون کر چکا ہوتا ۔۔۔ حالت تو اسکی پہلے ہی بگاڑ چکا تھا ۔۔۔
ہر چیز وہ حاصل کرچکا تھا ۔۔۔ اسے لگا پیسا ایسا نشہ ہے جو ہر غم بلا دیتا ہے تو اسنے دن رات اسکے پیچھے بھاگا جب وہ بھی کچھ ناکرسکا تو اسنے کلب میں جانا اور ڈرنک کرنا شروع کردی تب بھی اسکے اندر بیٹھا وحشی اسے خود کی حقیقت بھولانے نہیں دیا ۔۔۔ اس داغ کو ۔۔۔ اسنے سب کے سامنے تو یہ ثابت کردیا تھا کہ وہ ایک جائز کمیل ملک کا بچا ہے ۔۔۔ پر خود کو اس نقلی ثبوتوں اور گنواہوں سے نا بہلا سکا ۔۔۔۔۔
اسکے اندر بیٹھا وحشی سالار اسے ہر خوشحال فیملی کو تباھ کرنا چاہتا تھا ۔۔۔ اسے ہر دم بےسکونی کے عالم میں لٹکائے بیٹھا رہتا تھا ۔۔۔۔ اور وہ شاید یہ تسلیم بھی کرچکا تھا کہ اسکو کبھی سکون نصیب نہیں ہوگا ۔۔۔۔ وہ کبھی جان ہی نہیں پائے گا کہ سکون خوشی اور پیار محبت کیا ہے ۔۔۔۔ وہ تو آج تک صرف تڑپنا تڑپانا جانتا تھا ۔۔۔۔ خود بے سکون ہونا اور دوسروں کو خوفزدہ کرنا ۔۔۔۔ یہی اسکی زندگی تھی ۔۔۔
وہ اپنی ہی سوچ میں تھا جب دروازہ ناک ہوا ۔۔۔۔اور ساتھ ہی اسکی سرخ آنکھیں کھلی ۔۔۔۔ وہ تیش کے عالم دھاڑہ ۔۔۔۔
کم ۔۔۔۔ دونوں نے اپنا گلا تر کیا ۔۔ اگر لیٹ آتے تبھی بھی ظلم اگر جلد آتے تبھی بھی یہی حال ۔۔۔
دونوں بوکھلائے گھبرائے اندر داخل ہوئے ۔۔۔ اور روم کی حالت دیکھی جو ویسی تھی جیسی سوچی تھی ۔۔۔۔ اب انکا صرف پھیلے کانچ اٹھانے کا کام تھا ۔۔۔۔
کم ان ۔۔۔ وہ پھر سے سرد لہجے میں بولا ۔۔۔ جس پر وہ دونوں سر جھکائے فق چہرے سے اسکے سامنے آئے ۔۔۔
سالار نے نظریں دونوں پر گاڑھی ۔۔۔۔ اور انکا فق چہرے کو دیکھتے تیش سے اٹھا اور انہیں سنبھلنے کا موقعہ دیے بغیر ایک کو زور دار تھپر مارا جس سے وہ نیچے قالین پر جا گرا ۔۔۔ اس ملازم کی سرخ ہتھیلیاں دیکھ دوسرا گڑگڑاتا معافی مانگتا دور ہوا ۔۔۔۔
سوری سر ۔۔۔ ہمیں معاف کردیں ۔۔۔۔ ہم سے غلطی ہوگئی ۔۔۔ آئندہ ایسا نہیں ہوگا ۔۔۔۔ وہ روتا دوسرے ملازم کی ہتھیلیوں میں چھبے کانچ کے ٹکرے دیکھتا گڑگڑا رہا تھا ۔۔۔۔۔ جب وہ اسکی حالت پر قہقہہ لگاتا اسکے کالر سے پکڑ کر گھسیٹا اور ایک زوردار مکہ اسکے منہ پر مارا ۔۔۔ جس پر اسکی چیخیں پورے لائونج میں گونجی ۔۔۔۔ اور سب کی نم آنکھیں ہوگئی ۔۔۔۔
یہ سزا ہے تمہاری میرے سامنے منہ کھولنے کی ۔۔۔۔ وہ اسے ٹھوکر مارتا دھاڑا ۔۔۔۔
وہ اسکے پیٹ میں لات مارنے ہی والا تھا جب موبائل چیخنے لگا ۔۔۔ اور وہ دونوں کھسک کر دور ہوئے ۔۔۔۔۔
سالار نے اپنی غصے بھری نظروں سے موبائل کو گھور کر دیکھا تو اسکے مینجر کی کال تھی ۔۔۔ دو منٹ میں مجھے یہ صاف چاہیے اور دوسرے سیکنڈ میں اپنی شکلیں دفعہ کرجانا ۔۔۔۔۔ انکو حکم دیتے وہ
اوکے کرکے کرخت آواز میں بولا۔۔۔
بولو ۔۔۔۔ جس پر مینجر گھبرا کر جلدی سے معذرت کرتے ہڑبڑائی آواز میں بولا ۔۔۔
سس۔ ۔۔۔سر وہ ڈیمنس (اسکا مخالف) گیم اوور ۔۔۔۔ اسنے گڑبڑا کر اسکی آواز پر کہہ ۔۔۔
ہونہہ ۔۔۔ وہ کہتا موبائل بند کرگیا اور مینجر نے سکھ کا سانس لیا ۔۔۔ رومال نکال کر اس سے پسینہ صاف کرنے لگا ۔۔۔۔۔
اب وہ ریلیکس سا دیوار میں لگی بڑی سی ایل سی ڈی میں آج کی ہنگامی صورت حال دیکھ رہا تھا ۔۔۔ جہاں مشہور بزنس ٹائکون ڈیمنس۔۔ سالار ملک( The King of the business world) سے اپنی ہار نا تسلیم کرنے پر اس سے الجھ پڑا اور غصے سے وہاں سے نکلنے کی صورت میں خطرناک ایکسیڈنٹ کا شکار ہوگئے ۔۔۔۔
نیوز کے ساتھ سالار کا قہقہہ گونجا ۔۔۔۔
ہاہاہاہا ۔۔۔ اور وہ دونوں ملازم اسکی نفسیاتی حالت کو دیکھ کمرے سے نکلے اپنی زخمی حالت میں ۔۔۔۔۔۔۔
*****************
وہ ٹھکا ہارا ملک ولا میں قدم رکھتا اندر داخل ہوا ۔۔۔۔ تو سامنے ہی لائونج میں دراب نیوز دیکھتے مشال سے کسی بات پر تبصرہ بھی کر رہے تھے ۔۔۔۔ پر سالار کا نام سن کر وہ سمجھ گیا تھا ضرور اسکی ہمیشہ کی طرح نیوز میں ہوتی آج سالار ملک نے یہ کیا آج سالار ملک نے وہ کیا کی چرچا ہوگی ۔۔۔
وہ سر جھٹکتا کیپ اتار کر ہاتھ میں پکرتا ہوا اندر آیا تو ملازم کے سلام پر دراب کی نظریں اسکی طرف اٹھی ۔۔۔ اور چہرے پر شفقت بھری مسکراہٹ پھیلی ۔۔۔۔ جسے دیکھ کر شہروز کو بھی ٹھکن کے باوجود مسکراہٹ آگئی ۔۔۔۔
آگیا میرا شیر ۔۔۔ وہ کہتا اسے پاس بیٹھنے کا اشارہ کرنے لگا ۔۔ جس پر وہ سر کو خم دیتا بیٹھ گیا ۔۔۔۔
لگتا ہے آج اے ایس پی صاحب بہت ٹھکے ہوئے ہیں ۔۔۔۔ مشال نے اسے دیکھتے پیار سے چھیڑا جس پر وہ مسکراتا اپنی کیپ اسے پہناتا بولا ۔۔۔
بہت ۔۔۔۔ اور گلے میں بازو ڈال کر اسکے ماتھے پر اپنے لب رکھے ۔۔۔۔۔
دراب گھور کر اسے دیکھنے لگا جس پر وہ قہقہہ لگا اٹھا ۔۔۔۔ پاپا آپ بھی نا ۔۔۔۔
بیٹا میں کچھ نہیں صرف میری جان کو میرے سامنے نا بوسہ دیا کرو ۔۔۔۔یہ صرف میرا حق ہے ۔۔۔۔ وہ اپنے لفظوں سے جیلسی دیکھانے لگا ۔۔۔۔
کچھ تو شرم کریں جوان بچے کے سامنے ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں ۔۔۔ وہ شہروز کو ہنستا دیکھ کر شرمندہ ہوتی دراب سے بولی ۔۔۔۔
تو کیا ہوا ہم تو اپنے پوتا پوتی کے سامنے بھی ایسے ہی الفاظ استعمال کریں گے ۔۔۔۔ اسکی بات پر جہاں شہروز کا زوردار قہقہہ گونجا وہیں مشال سرخ سی ہوگئی ۔۔۔۔اور اس سب سے دروب محظوظ ہونے لگا ۔۔۔۔۔
تم کیوں ہنس رہے ہو ۔۔۔۔ وہ شہروز کے کان سے پکڑتی سختی سے بولی ۔۔۔۔ سوری یار میرا کیا قصور اب آپکا سرتاج ہی ایسا ہے ۔۔۔۔ وہ ڈرنے کی ایکٹنگ کرتے شرارت سے گویا ہوا ۔۔۔۔
سرتاج پہلے ایسا نہیں تھا تمہاری مما نے اس اپنے سرتاج کو ایسا بنادیا ۔۔۔ دراب بھی مزہ لیتا مزید گویا ہوا جب مشال جھنجھلائی بولی ۔۔۔۔ اب تم دونوں چپ ہوگے یا میں اٹھائوں ڈنڈا ۔۔۔۔
اسکی دھمکی پر دونوں اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر چپ ہونے کی بھرپور کوشش کرنے لگے ۔۔۔۔
پر دراب کی پُرشوق نظریں محسوس کرتی غصے سے شہروز سے بولی ۔۔۔۔
تم چھوڑو اسے میری بات سنو ۔۔۔
جی مام آپ چھوڑیں اسے مجھ سے بات کریں ۔۔۔۔ وہ دراب کو آنکھ دباکر مشال کی جانب متوجہ ہوا ۔۔۔۔
میں کہہ رہی تھی اس اتوار کو پریہا یہاں آرہی ہے تو اسے پک کرنے تم جانا ۔۔۔ پریہا کا نام سن کر شہروز کا اچھا خاصا موڈ خراب ہوگیا ۔۔۔۔
میں معذرت کرتا ہوں مما پر اس دن مجھے ایک کیس کے سلسلے میں شہر سے باہر جانا ہے ۔۔۔ وہ کہتا دل میں ماں سے جھوٹ بولنے پر خود کو کوستا دراب کی نظروں سے بچنے کے لیے پانی کا گلاس لبوں سے لگا گیا ۔۔۔
کیا تمہارے پاس ایک دن بھی اپنا نہیں ہوتا ۔۔۔۔ دراب کو اسکا یوں انکار کرنا ذرا بھی پسند نا آیا ۔۔۔ تبھی کچھ ناپسندگی سے بولا ۔۔۔۔ جس پر شہروز شرمندہ ہوگیا ۔۔۔
آئی ایم سوری ڈیڈ ۔۔۔۔ وہ سر جھکائے اپنی غلطی تسلیم کرتا بولا ۔۔۔۔
میں کوشش کرونگا ۔۔۔۔ وہ جواب دیتا مشال کے مسکرائے چہرے کو دیکھ سمائل پاس کرتا اوپر اپنے روم کی طرف جانے لگا ۔۔۔۔
دل میں تو وہ پریہا کو کوس رہا تھا جسنے پیدا ہوتے ہی اسکے گلے میں پھنڈا ڈال دیا تھا ۔۔۔۔۔ وہ دور ہوکر بھی ہر بات میں اٹکے نوالے کی طرح گلے میں پھنسی ہوئی تھی ۔۔۔
ایک بار آنے دو یہاں چھوڑونگا تو میں بھی نہیں تمہیں ۔۔۔ جس طرح مجھے ہر بات پہ جھوٹ بلواتی ہو ۔۔۔ بس کیا کہوں اس مینڈکی سے کون جیتے ۔۔۔ افففف ۔۔۔۔۔ وہ کوفت سے سوچتا سیڑھیاں طے کرتا اپنے روم کی طرف جانے لگا ۔۔۔۔
******************
وہ کمرے میں یہاں سے وہاں چکر لگاتا اپنا غصہ کم کرنے کی کوشش میں تھا ۔۔۔۔ پر آج جو حیا نے حرکت کی تھی وہ سوچتے ہی اسکی رگوں میں خون لاوا بن کر ابل پڑتا ۔۔۔۔
سس۔۔سوری مم۔۔مصطفیٰ بھائی میں نہیں گئی تھی مجھے لیلیٰ فردوس زبردستی ساتھ لیکر گئی ۔۔۔ حیا اسے غصے میں یہاں وہاں چکر لگاتے دیکھ شرمندہ اور گھبرائی رونی آواز میں بتانے لگی ۔۔۔۔
وہ کب سے اسے اپنے روم میں لاکر ایسے ہی مسلسل اپنا غصہ ٹھنڈا کر رہا تھا ۔۔۔ اور حیا کبھی اسے دیکھتی کبھی اپنی ناخون کترنے لگتی ۔۔۔
اتنی دیر خاموشی کے بعد بھی وہ کچھ نا بولا تو وہ اسکی خاموشی سے جھنجھلا کر ڈرتی خود ہی بولنے کی کوشش کرتی۔۔۔۔ اسے دیکھنے لگی ۔۔۔
کیا تم بچی تھی جو وہ تمہیں اپنی گود میں اٹھا کر گئی تھی ۔۔۔۔ وہ اپنی گرے آنکھوں اسکی کالی بڑی جھیل جیسی آنکھوں میں گاڑھتا غصے بولا ۔۔۔۔ جس پر وہ اسکی غصے بھری آنکھوں میں دیکھتی ایکقدم پیچھے کو ہونے لگی ۔۔۔۔
وہ دوپہر کو اپنے کلائنٹس سے میٹنگ کے بعد جب واپس آرہا تھا تو اسکا گذرنا سنیما ہال سے ہوا اور اسکی نظریں ایسے ہی سنیما ہال کی طرف اٹھی تو شاک کے انداز میں پیر بریک پر لگا اور ماتھے پر ہزار کی تعداد میں بل پڑے ۔۔۔۔
سامنے ہی حیا اپنی یونی کے دوستوں کے ساتھ سنیما ہال کی طرف جارہی تھی ۔۔۔۔ مصطفیٰ کو پہلے تو یقین نہیں ہوا تو اسنے اپنی موبائل نکال کر جب اسے کال کی پھر ایسے ہی پوچھ بیٹھا تم اس وقت کہاں ہو ۔۔۔ اور وہ دور سے ہی اسکا گھبرانا ہڑبڑا نا اور اپنی دوستوں کو چپ کہنا دیکھ رہا تھا ۔۔۔
حیا نے کال پک کی اور اسکے پوچھنے پر بھولے سے انداز میں بولی کہ مصطفیٰ میری کلاس کا ٹائم ہوگیا ہے اور مجھے دیر ہورہی ہے ۔۔۔۔ وہ کہتی جلد سے کال کاٹ کر گہرا سانس لینے لگی۔۔۔
اور پھر اندر کو جانے ہی والی تھی جب پیچھے سے کرخت آواز اسکے پائوں ساکت کرگئی ۔۔۔۔
کیا آج کی تمہاری کلاس یہاں ہو رہی ہے ؟۔۔۔۔مصطفیٰ کو ایک تو غصہ اور دوسرا اسکا جھوٹ بولنا پسند نہیں تھا جب بھی کوئی بات آتی تو بچنے کے لیے ہمیشہ جھوٹ کا سہارا لیتی ۔۔۔۔
ہاں ۔۔۔ہاں ۔۔۔۔ وہ پیچھے ہی آنکھیں میچے ہڑبڑا کر بولی ۔۔۔ اسکی دونوں دوستیں مصطفیٰ کے ماتھے پر بل دیکھ کر آہستہ وہاں سے واک آئوٹ کر گئی ۔۔۔
مصطفیٰ نے ایک غصے بھری نظر اسکی پشت پر ڈالکر بازو سے پکڑ کر اپنی کار کی طرف آیا اور اسے فرنٹ سیٹ پر دھکیلتا خود دوسری طرف آگیا .۔۔۔۔۔
اور حیا تب سے چوری چوری اسکے غصے سے سرخ چہرے کو دیکھتی ناخون کو کترتی ۔۔۔یہ اسکی عادت تھی جو ہزاروں بار ڈانٹ پڑنے پر بھی نہیں گئی ۔۔۔۔۔ آگے بچنے کا سوچنے لگی ۔۔۔۔اللہ جی بس اس بار ولن سے بچا لو کل پرامس فجر کے ٹائم ڈبل حاضری دونگی ۔۔۔ پلیز ۔۔۔ وہ ایک آنکھ میچے دعا کرنے لگی اور اپنی سستی کی وجہ سے جو فجر کی نماز نہیں پڑھتی تھی ۔۔۔ اللہ کو بھی لالچ دینے لگی ۔۔۔
اور مصطفیٰ اتنے غصے کے باوجود بھی اسکی دعائیں سمجھتا گہرا سانس لیکر رہ گیا ۔۔۔۔۔پتا نہیں کب سدھرے گی ۔۔۔۔ وہ دل میں بولا ۔۔۔۔
میں بچی نہیں تھی پر انہونے مجھے دھمکایا تھا ۔۔۔ وہ نقلی آنسوں بہاتے بولی ۔۔۔۔
جس پر وہ ٹھٹھکا ۔۔۔۔ کیسا دھمکانا ؟؟؟۔۔۔۔ مصطفیٰ کو پریشانی ہونے لگی پتا نہیں کونسی بات پر دھمکایا ۔۔۔کہیں پھر سے کسی کا بیڑا غرق تو نہیں کیا یونی میں ۔۔۔۔
ایسا ہفتے میں ایک دو بار ضرور ہوتا تھا ۔۔۔۔ جسکی وجہ سے سفیان یا مصطفیٰ کو حاضری دینی پڑتی تھی پرنسپل کے سامنے ۔۔۔ اور انہیں یقین ڈلانا پڑتا تھا کہ آگے وہ کسی سے نہیں لڑے گی ۔۔۔
ایسی بات پر وہ پرنسپل کو کہہ دیتی کہ " سوری میری غلطی نہیں تھی وہ خود بیچ میں آئی میں تو دوسری سے لڑ رہی تھی ۔۔۔آگے بھی بولتی جب مصطفیٰ کی آنکھوں کو دیکھ سر جھکائے دانت پیسنے لگتی ۔۔۔۔
وہ ۔۔ وہ میری دوست کہہ رہی تھی کہ تمہارا کزن کتنا ڈیشنگ ہینڈسم ہے اور بولی ہائے اسکی گرے آنکھیں ۔۔۔اوپر سے سیل نمبر مانگنے لگی آپکا اور میں آپکا سیل نمبر دوں اسے ۔۔۔.
اسی بابت تھوڑی سی بات کردی جس پر وہ رو دی ۔۔۔۔ (پریہا سے سیکھے اپنے مکوں کو تھوڑی سی بات کرنے میں تبدیل کرنے لگی ۔۔۔پر مصطفیٰ اسکی تھوڑی سی بات سمجھ گیا اور اپنی گرے آنکھوں سے اسے گھورنے لگا )
اب اس میں میری کیا غلطی تھی آپ ہی بتائیں ۔۔۔ کوئی ہمارے سامنے ہمارے گھر کے مردوں کا نمبر مانگے تو کیا ہم چوڑیاں پہن کر بیٹھی رہیں ۔۔۔ اور تو اور وہ آپکا نمبر مانگ رہی تھی ۔۔۔ دیکھو تو صحیح اسکی گستاخی آپ ہوتے تو آپکو بھی بہت غصہ آتا یہ میں تھی جو تھوڑی سی بات کرکے چپ کرگئی ۔۔۔ پہلے وہ ڈرتے ڈرتے بولتی اور پھر شروع ہوگئی تو اور روانی سے کہتی ایک ہاتھ جس کی سفید کلائی میں بلیک چوڑیاں اسکے حسن کو مزید نکھار رہی تھی نچا نچا کر بتانے لگی اور مکمل طور پر اسے نظر انداز کرتے ایپل کو اٹھا کر کھاتی مزید بولی ۔۔۔
ورنہ تو ایسا سبق سیکھاتی ساری زندگی حیا سفیان کو یاد کرتی ۔۔ ہونہہ بندریا نا ہوتو ۔۔۔۔
مصطفیٰ اسکی اداکاری پر جل اٹھا ۔۔۔ اسے پتا تھا یہ سب اسے سنیما والے ٹاپک سے ہٹا نے کے واسطے تھا ۔۔۔
کچھ زیادہ نہیں ہوگیا ۔۔۔ وہ دانت پیس کر اسکے ہاتھ میں موجود ڈائجسٹ لیکر سنجیدگی سے گویا ہوا ۔۔۔ اور حیا اپنی بےوقوفی پر خود ملامت کرتی سر جھکا گئی ۔۔۔ اب یا رب تو ہی ڈلوا سکتا ہے ۔۔۔ وہ ڈائجسٹ کے پکڑنے پر فق ہوگئی (ڈر سے نہیں ۔۔چھیننے کے صدمے سے)اور اسکے ٹیبل پر ڈائجسٹ رکھنے پر دیکھنے لگی ۔۔۔۔
یہ میری نہیں ہیں ۔۔۔۔ مجھے یہ رکھنے کے لیے ملی ہیں ۔۔۔ وہ گھبراتے بولی ۔۔۔
تم یونی سے کیوں نکلی یہ بتائو ۔۔۔۔ وہ اسکی بات کو نظرانداز کرتا غصے سے بولا ،۔۔۔
آپنے دیکھا تو تھا مووی دیکھنے ۔۔۔۔ بے ساختہ اسکے منہ سے نکلا ۔۔۔
تمہارہ دماغ ٹھیک ہے ۔۔۔ نہیں پتا تمہیں کیسے کیسے لوگ آتے ہیں وہاں ۔۔۔ وہ اسکے بازو سے پکڑ کر غرایا ۔۔۔ وہ کیسے برداش کر سکتا تھا کہ اسکی طرف کوئی گندی نظر اٹھائے ۔۔۔
اور کس سے اجازت لی جانے کی ۔۔۔ تمہیں منا کیا تھا نا مووی دیکھنے سے۔۔۔ پھر تم گھر سے نکل کر یوں باہر سرعام لوگوں میں مووی دیکھنے جاتی رہو ۔۔۔۔ مجھے مرا ہوا سمجھا ہے ۔۔۔ جو تم ایسا کروگی اور میں دیکھ نہیں سکوں گا ۔۔۔۔۔ وہ شدید غصے میں اسکا دوسرا بازو بھی اپنے مضبوط ہاتھ میں پکڑے چلایا ۔۔۔
حیا تو جیسے سانس روک گئی ۔۔۔ اور اسکی غصے سے سرخ آنکھوں میں دیکھ آنسوں بہانے لگی ۔۔۔۔
میں سچی کہہ رہی ہوں میں نہیں جارہی تھی ۔۔۔وہ زبردستی ساتھ لیکر گئی ۔۔۔ مصطفیٰ اسکے بہتے ٹسو کو دیکھ کر تھوڑا نرم پڑا ۔۔۔۔
اور ایک گہرا سانس لیکر بولا ۔۔۔ آج سے تمہیں میں پک ڈراپ کروں گا ۔۔۔ وہ اپنا حکم سانتا اسکے بازوں کو اپنی سخت پکڑ سے آزاد کیا ۔۔۔۔ جس وہ وہ مصنوعی ہچکیاں لیتی دور ہوئی ۔۔۔۔
جائو یہاں سے ۔۔۔ اس سے اسکی یہ حالت دیکھی نہیں گئی ۔۔۔ تبھی کرخت آواز میں بولا ۔۔۔ اور وہ دل میں مسکراتی بولی ۔۔۔ یا رب تہمارا شکریہ کہ کچھ تو رحم کرکے آنسوں دے دیے ۔۔۔۔ اور اسکے ساتھ ہی ہچکی لی ۔۔۔
آنکھیں مسلتے انہیں سرخ کرتی مڑی ۔۔۔۔ وہ سنڈے کو پریہا آرہی ہے اب ہم ساتھ جائیں گے یونی آپ تکلیف نا کریں ۔۔۔ اور سرخ آنکھیں اٹھائے بولی ۔۔۔
کک۔۔۔(ہچکی) کیا مجھے ڈائجسٹ مل سکتی ہے ۔۔۔ آپ گھم کردیں گے مجھے کل لوٹانی ہے ۔۔۔
نہیں جائو چہرا واش کرو اور فریش ہوکر۔۔۔۔ لنچ کے لیے نیچے آئو ۔۔۔ جلدی شاباش ۔۔۔۔ اور آئندہ نا تم کسی کی ڈائجسٹ لائو گی اور نا ٹی وی نا ہی کوئی شکایت سنو ۔۔۔ سمجھی ۔۔۔
جی ٹھیک ہے ۔۔۔ وہ ایک نظر ڈائجسٹ پر ڈالکر فرمانبداری سے اثبات میں سر ہلاتی روم سے باہر آئی ۔۔۔
ہونہہ ۔۔۔ ایک تو یہ کھڑوس کبھی مجھ پر رحم نہیں کریگا ۔۔۔ ہائے کتنی حسین کہانی بتائی تھی حنا نے ۔۔۔ کیسے لوں ڈائجسٹ ۔۔۔ دروازے پر نظر ڈالتی ناخون کترنے لگی ۔۔۔ ابھی وہ سوچ ہی رہی تھی جب پیچھے حور کے پکارنے کی آواز آئی وہ ہڑبڑاتی وہاں سے اپنے روم میں بھاگی ۔۔۔ ڈائجسٹ کو تو بعد میں دیکھ لوں گی پر مما کو پتا لگ گیا تو ایک گھنٹہ گیا بےعزتی میں اور اوپر سے سنیما ۔۔۔ خیر وہ تو اپنا سپر ہیرو کسی کو نہیں بتائے گا ۔۔۔۔ پر شرم نام کی بھی کوئی چیز ہے ۔۔۔ جو حیا سفیان میں نہیں پائی جاتی ۔۔۔
خود ہی کہتی قہقہہ لگاتی واش روم میں گھسی ۔۔۔۔
مصطفیٰ ایک افسوس بھری نظر ڈائجسٹ پر ڈالکر انہیں بھی اٹھائے باقی کے ڈھیروں میں جمع کیا ۔۔۔۔
کیا کہتا اسے چاہے جتنا بھی غصہ کرنے کی کوشش کرتا پر اسکو سامنے پاتے کچھ کہہ ہی نہیں پاتا ۔۔۔۔ اوپر سے اسکی نادان ایکٹنگ ۔۔۔
وہ بیچارہ کب تک اسکے وار سے بچتا لڑتا رہتا خود سے ہی ۔۔۔ پر چاہا کر بھی اسے اپنے شکنجے سے آزاد نہیں کرسکتا ۔۔۔۔
اور کبھی کبھی خود کی ایج اور اسکی معصومیت کم عمری دیکھ کر شرمندہ ہوجاتا ۔۔۔
دل بھی ہارہ تو کہاں اپنے سے تیرا سال چھوٹی سے ۔۔۔ جو اسے اپنا سپر ہیرو سمجھتی ہے ۔۔۔ اور اگر اپنے سپر ہیرو کے جزباتوں کے بابت جان جاتی تو شاید چہرا دیکھنا بھی گوارہ نا کرتی اور اسی سے ہی مصطفیٰ کو ڈر تھا ۔۔۔۔ کچھ بھی ہوجاتا وہ اسکی نظروں میں اپنے لیے نفرت برداشت نہیں کرسکتا تھا ۔۔۔۔
اور چاہا کر بھی خود کے اندر اسکے لیے پلتے جزباتوں کو ختم نہیں کرسکتا۔۔۔۔
وہ صبح ہی پری سے بات کرچکا تھا اور اسے پریہا کا بھی پتا چلا تھا کہ وہ یہاں کراچی آرہی ہے اور حیا کے ساتھ ایک ہی یونی میں پڑھنا چاہتی ہے ۔۔۔۔۔
اس فیصلے پر سب راضی تھے سوائے سب کی معصوم گڑیا معصومہ کے جسنے سنتے ہی رونا دھونا شروع کردیا تھا ۔۔۔۔ اور پھر شہروز مصطفیٰ سفیان دراب سب کے سمجھانے پر بھی وہ چپ نہیں ہورہی تھی ۔۔۔۔ اب جانے پریہا کیا کرے ۔۔۔۔ وہ دونوں کے بارے میں سوچتا ہنس دیا ۔۔۔۔
مصطفیٰ کی دونوں ہی لاڈلی تھیں ۔۔۔۔ پر معصومہ کی بات ہی کچھ اور تھی ۔۔۔۔ اسکا سبز آنکھوں سے خوفزدہ ہوکر دیکھنا اور شرمائے بات کرنا سب کے دل میں بسی تھی اپنی معصوم حرکتوں سے ۔۔۔۔
وہ کافی شرمیلی تھی ۔۔۔ ایک شرمیلی گڑیا ۔۔۔ اور پریہا بلیک بیلٹ ماسٹر ۔۔۔ اور شہروز کی دشمن ۔۔۔۔ دونوں ٹام اینڈ جیری تھے ۔۔۔
**************
حیا ۔۔۔۔ حور اسکے کمرے میں آئی اور آئینے کے سامنے کھڑی حیا کو پکارا ۔۔۔
جی مدر ماں ۔۔ وہ مڑی ۔۔۔ بیٹا جلد آئو سب ویٹ کر رہے ہیں ۔۔۔ وہ کہتی وارڈ روب سے نیچے پڑے اسکے کپڑے اٹھا کر ترتیب سے رکھنے لگی ۔۔۔
حیا اب سدھر جائو ۔۔ کب تک میں یہ سمیٹتی رہونگی ۔۔۔ وہ اسکے یہاں وہاں پھیلائو سمیٹتی بولی ۔۔۔
جب تک میری شادی نہیں ہوجاتی ۔۔۔ وہ ہاف سیلو شرٹ سے نمایا ہوتے اپنے سفید بازو پر لوشن لگاتی جہاں بیچاری کو مصطفیٰ نے غصے میں پکڑا تھا ۔۔۔ لاپروہ سی بولی ۔۔۔
اسکے الٹے جواب پر حورنے گھور کر اسے دیکھا ۔۔۔
اچھا پھر اسکے بعد ۔۔۔ ؟
وہ اسکے بوکس ترتیب سے رکھنے لگی جو آتے ہی پھیکے تھے ۔۔۔
اسکے سوال پر حیا نے ٹھوڑی پر انگلی رکھ کر سوچنے کی ایکٹنگ کی ۔۔۔ اور پھر چہک کر بولی ۔۔۔۔
میرا شوھر ۔۔۔ وہ کریگا یہ سب ۔۔۔ آپ فکر نا کریے گا میرے سسرال کے ظلمات کا میں سب ہینڈل کرلوں گی ۔۔۔ اب اتنی تو بلیک بیلٹ ہے آپکی بیٹی ۔۔۔ کہ میرے مجازی خدا نے تھوڑی بھی اوہ ایی کی تو دو مکے دونگی خودبےخود لائن پر آئے گا ۔۔۔ اور آپ صرف دیکھیے گا انشااللہ ایک نا ایک دن آپکی بیٹی آپکا نام ضرور روشن کریگی ۔۔۔ آمین ۔۔۔
وہ حور کو اپنے زبان کے جوھر سے ساکت کرتی ہوا میں مکے چلاتی اور خود ہی آمین کہتی اسکے گال چوم کر گلے میں دوپٹا ڈالتی روم سے نکلی ۔۔۔۔
یہ کیا تھی ۔۔۔۔ حور صرف بولی تو اتنا ۔۔۔
دیکھتی ہوں آج سفیان کو کیا بن گئی ہے ۔۔۔اب اپنے شوھر کو بھی مکے مارے گی ۔۔۔ یہ حال ہے اس لڑکی کا۔۔۔
وہ اسکی بیانی پر غصے سے بڑبڑاتی ۔۔۔ بیچارے معصوم شوھر کی کلاس لینے کا طے کرنے لگی ۔۔۔
مطلب کرے حیا بھرے سفیان ۔۔۔۔
************
ڈائیننگ ٹیبل پر وہ سفیان کے ساتھ والی چیئر پر بیٹھی کھا کم نظروں سے مقابلے بیٹھے مصطفیٰ کو ڈائجسٹ مانگنے کی منتیں زیادہ کر رہی تھی ۔۔۔ یہ ہمیشہ ہوتا تھا اور سب اس سے واقف تھے ۔۔۔
سفیان اپنی شیرنی کے اداکاری پر مسکراہٹ روکنے لگا ۔۔۔ وہ آج آفیس سے جلد آیا تھا ۔۔۔ اس لیے ابھی سب کے ساتھ لنچ کر رہا تھا ۔۔۔
ششش۔۔۔۔ مصطفیٰ کو اپنی طرف متوجہ نا پاکر وہ شش کرنے لگی ۔۔۔ جس پر سبکی مسکراہٹ بےساختہ تھی ۔۔۔
اسکے ششش کرنے پر مصطفیٰ نے تیور چڑھائی ۔۔۔ اور گرے آنکھوں میں روعب لیے آئی برو اچکائے ۔۔۔
حیا ہڑبڑا گئی اور سر پلیٹ میں جھکا لیا ۔۔۔ تو مصطفیٰ بھی اپنی کھانے کی طرف واپس
متوجہ ہوگیا ۔۔۔
اللہ جی کچھ کرو نا اس ولن کا ۔۔۔ وہ بڑبڑائی سفیان سن کر ہنس دیا اور اسکے سر پر ہاتھ رکھ زارداری بولا ۔۔۔۔
وہ واپس جا رہا ہے آفیس ۔۔۔۔ اپنے باپ کی اطلاع پر اسکی باچھیں پھیلی اور مصطفیٰ کو دیکھا جسکی پلیٹ میں نوشین کھانا ڈال رہی تھی ۔۔۔
اور وہ پہلے ہی اسکے دھمکتے چہرے کو دیکھ کر اسکی خوشی کا مقصد سوچ رہا تھا ۔۔۔ پر اسکی آنکھوں میں لکھے الفاظ سب سمجھاگئے ۔۔۔
اور وہ خاموش سا حور کی طرف دیکھنے لگا ۔۔۔ حیا ہڑبڑا کر نفی کرنے لگی ۔۔۔ یہ صرف اسکی طرف سے وارنگ تھی ۔۔۔
اور حیا سمجھ جانے پڑ خود کو کوسنے لگی کہ کیا ضرورت تھی اسکی طرف دیکھنے کی ۔۔۔ اچھی خاصی پاپا ہلیپ کی سب مٹی میں مل گئی ۔۔۔
پر وہ صاف کرلے گی اپنی محنت کو ۔۔۔۔ یہ سب سوچتے اسکے لب مسکرائے ۔۔۔
Download all Episode Intehai Junooniyat Novel
Tags:
Intehai Junooniyat