Tera Ashiq May Diwana Ho Awara Episode 21 to 25

Mehwish ali Urdu novels Tera Ashiq May Diwana Ho Awara Episode 21 to 25 oline read and pdf download.

Episode 20 Tera Ashiq May Diwana Ho Awara 

Tera Ashiq May Diwana Ho Awara Episode 21 to 25



#تیرا_عاشق_میں_دیوانہ_ہوں_آوارہ💕
#از__مہوش_علی
#قسط__٢٠

💕💕💕💕💕
ابھی سوئے انہیں کچھ ہی دیر ہوئے تھی کہ۔۔۔ پری کو بہت بھوک لگنے لگی ۔۔۔وہ اٹھ کر حور کو دیکھنے لگی جو نیند کے مزے لے رہی تھی ۔۔۔۔اسنے ایک بار کوشش کرکے حور کو پکارا۔۔۔

حور۔۔؟پر وہ ہوش کی دنیا میں ہوتی تو جواب دیتی۔۔سونے کے بعد وہ پری کے بھی ٹکر کی تھی ۔۔مطلب دنیا ادھر کی ادھر ہوجائے پر ان دونوں کو ہوش نہیں رہتا تھا ۔۔۔پر آج پری کا بھوک سے برا حال تھا۔۔۔۔اس لیے نیند بھی رخصت ہوگئی تھی ۔۔۔

حور کی طرف سے اندھیرا ہی ملا تو وہ بیڈ سے اٹھی ۔۔۔اور قالین پر چکر لگانے لگی پر بھوک نے بھی سوچ لیا تھا آج اسے تڑپا کے ہی رہے گی ۔۔۔۔

آخرکار مجبور ہوکر وہ ایک نظر حور پر ڈالتی پھر اپنے نائیٹ سوٹ کو دیکھا ۔۔۔۔پنک شارٹ شرٹ اور سفید گھیریدار شلوار میں وہ کوئی ڈول ہی لگ رہی تھی ۔۔۔اسنے دوپٹہ اٹھا کر شانوں پر ڈالا ۔۔۔

ایک نظر حور پر ڈالتی سفید گلابی نازک ننگھے پائوں کو قالین پر رکھتی آہستہ سے دروازہ کھول باہر نکلی۔۔۔

 دل میں یہ سکون تھا کہ ظالم شیر یہاں نہیں تھا ورنہ وہ پائوں بھی باہر نا نکالتی کمرے سے ۔۔۔۔

سارے گھر میں سکوت چھایا ہوا تھا سب ٹھک ہار کر کچھ گھنٹو کا آرام کرنے اپنے کمروں میں موجود تھے ۔۔۔ وہ آہستہ سے سیڑھیاں اترتی نیچے آئی۔۔۔۔

وہ کچن کی طرف آئی تو وہاں کی لائیٹ روشن تھی ۔۔۔ اور اندر سے کھٹ پتھ کی آواز آرہی تھی ۔۔۔۔
پہلے تو وہ ڈر گئی ۔۔۔ پر پھر ملازمہ کا خیال آتے اندر کی طرف آئی ۔۔۔۔

اسکے قدم وہیں تھم گئے جب اسکی نظر کائونٹر پر پڑی وہاں کوئی اور نہیں شہریار موجود تھا ۔۔شاید ابھی آیا تھا ۔۔۔۔اور برتنوں کی آواز اس لیے تھی کیوں کے وہ کافی بنا رہا تھا ۔۔۔۔

اسکی بھوک پیاس اندر ہی مر گئی شیری کو دیکھ کر ۔۔۔شیری صرف سائیڈ فیس دیکھ رہا تھا ۔۔۔وہ بنا آواز کیے بغیر سانس لیے مڑی۔۔۔۔

ہنی میں تمہارے پہنچنے سے پہلے ہی تمہاری مہک سے جان جاتا ہوں کہ تم آرہی ہو ۔۔اس لیے واپس جانے سے بہتر ہے اندر آئو۔۔۔۔

اسکا لہجہ وارنگ دیتا ہوا تھا۔۔۔پری اسکی باتوں کی طرف دھیان دیے بغیر جانے لگی اس وہ نہیں رکنا تھا ۔۔۔بھوک جائے بھار میں اسے اپنی جان عزیز تھی ۔۔۔

پری یار میں ابھی غصہ  کرنے کی خوائش میں نہیں ہوں سر میں شدید درد ہے اس لیے ۔۔۔شاباش آجائو ۔۔۔۔۔اسکا لہجہ بلکل عام سا ہوگیا پر پری کو اس میں بھی خوف سا آنے لگا تھا ۔۔۔۔

مم۔۔میں صرف آواز س۔۔سن کر آئی تھی ۔۔۔وہ جھوٹ بولنے کی بھرپور سی کوشش کرنے لگی جو شیری کے سامنے بلکل بھونگی تھی ۔۔۔۔

غلط بات جھوٹ نہیں بولتے ۔۔۔۔اسکے ٹھنڈے نرم لہجے پر پری کو لگا شاید اسے دورے پڑتے ہیں ۔۔۔۔کبھی چیختا ہے کبھی نرم کبھی غصہ کبھی جنون والا ۔۔۔پتا نہیں کون سی بیماری تھی اسکو ۔۔۔۔جو پری کا چھوٹا سا دماغ سمجھنے سے رہا۔۔۔۔
یہ نہیں تھا وہ بیمار تھا ۔۔بات یہ تھی کہ۔۔۔پہلے نفرت پھر اس سے محبت ، پیار عشق میں سے جنون سب نے ملکر اسکا دیواناپن بنا ڈالا تھا ۔۔۔۔جو ہر حدوں کو جانتا تھا ۔۔۔۔اب یہ دیوانہ پن پتا نہیں کیا کرے آگے۔۔۔۔۔

وہ کافی کپ میں ڈالتا اسے پوز کر رہا تھا جیسے وہ اسکے حکم سے انکار نہیں کرے گی ۔۔اور وہ سچ ہی تو تھا ۔۔۔پری نے کب اسکی بات کا انکار کیا ۔۔۔۔ابھی بھی اندر میں غصہ سمائے چہرے پر معصومیت منہ پھولا کر اندر آئی ۔۔۔۔

شیری نے خاموشی سے کپ ٹیبل پر رکھا اور ایک نظر اسے دیکھا ۔۔۔اپنی رنگت کی جیسی گلابی  شرٹ سفید شلوار اور سفید دوپٹہ ۔۔۔اس پر نظر پرتے ہی پری نے ہڑبڑا کر سر پر دوپٹہ اوڑھ لیا۔۔۔۔ننگھے نازک پائوں فرش پر رکھے ۔۔۔۔اسے اسکے ننگھے پائوں چلنا ذرا بھی پسند نا آیا پر ابھی کچھ نا بولا۔۔۔۔۔ بھوری آنکھیں اس پر مرکوز کیے کپ اٹھا کر ایک سپ لیا اور واپس رکھ کر کرسی کھسکا کر اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔۔۔

 جس پر پری ڈرتی ہوئی کبھی ہاتھ مسلتی اور کبھی گھنی پلکوں کے جالر سے اسے دیکھتی آہستہ سے کرسی پر بیٹھ گئی ۔۔۔۔

اسکے بیٹھنے کے بعد وہ بنا کچھ کہے فریج میں دیکھنے لگا ۔۔۔۔اور وہاں سے ہلکی سی ڈشز نکال کر مائکرو ویو اون میں انہیں گرم کر کے پلیٹ میں نکالنے لگا۔۔۔۔

پری جو ہونٹ کاٹتی اسکے حملے کے انتظار میں تھی پر جب کافی ٹائم ہوگیا شیر نا غرایا تو جیسے اسکے اندر میں حیریت کے پہاڑ ابلنے لگے ۔۔۔۔ وہ بلکل بھی نہیں سمجھ پارہی تھی کہ یہ اسکی زندگی میں ہوکیا رہا ہے ۔۔۔۔۔

وہ انہیں سوچوں میں الجھی ہوئی تھی ۔۔۔جب شیری نے بغیر اسکے بتائے اسکے سامنے کھانا رکھا ۔۔۔۔ اسے لگ رہا تھا وہ خواب دیکھ رہی ہے ۔۔۔آہستہ سے ہاتھ نیچے کرکے اپنی کلائی میں چٹکی کاٹنے لگی ۔۔۔۔جو کچھ تیز ہی کاٹی گئی درد تو ہوا پر یہ بھی یقین ہوگیا کہ خواب نہیں ہے ۔۔۔۔۔اسکی یہ حرکت شیری کی تیز نظروں سے پوشدہ نہیں رہ سکی جس پر اسکے چہرے پر نا محسوس سی مسکراہٹ تھی۔۔۔۔
وہ کبھی ڈشز کو دیکھتی کبھی سامنے بیٹھے ٹیبل پر بجتی اسکی انگلیوں کو ۔۔اوپر دیکھنے کی ہمت جو نہیں تھی ۔۔۔۔۔جب اسکے کانوں میں شہریار کے اسی لہجے میں الفاظ پڑے۔۔۔۔

ہاتھ دیکھائو اپنے۔۔۔۔۔
نا چاہتے ہوئے بھی ڈرتے ہوئے مہندی سے سجے  ہاتھ اپنے ٹیبل پر رکھے ۔۔۔خوف تھا کہ اسکے رحم کرم پر ہونے کی وجہ اور اتنی دیر چپ ہونے کے بعد پھر کچھ کہہ نا دے ۔۔۔

شیری نے آہستہ سے ہاتھ  اپنی نرم پکڑ میں لیکر اسے ہاتھ دیکھنے لگا۔۔۔۔۔اسکی پکڑ ایسی تھی جیسے کوئی نازک سی چیز جو ذرا سا چھونے سے ٹوٹ نا جائے ۔۔۔۔۔

اب پری کو سچ میں اسکی دماغی حالت پر شک ہونے لگا۔۔۔۔بے ساختہ اسکی نظر اوپر اٹھنے لگی جو پکڑے تو اسکے ہاتھ ہوا تھا پر نظر پری کے معصوم الجھے چہرے پر تھی ۔۔۔۔۔

اسنے سٹپٹا کر سر ہی جھکا لیا ۔۔۔۔ سرمئی آنکھوں میں جو الجھن تھی وہ شیری نے وہ ساری سمجھ گیا تھا۔۔۔۔اور چہرے پر خوبصورت سی مسکراہٹ نے آن گھیرا۔۔۔۔۔

 
کھانا کھائو ۔۔۔بغیر اسکی الجھن سمجھائے اسے دوسرہ حکم دیا جس پر پری نے فوراً عمل کیا۔۔۔۔
کل کمیل کیا کہہ رہا تھا ۔۔۔۔۔کپ ٹیبل پر رکھے اسکے کناروں پر انگلی پھیرتے نرم سے سرد لہجے میں پوچھا۔۔۔۔۔پری جو جلدی جلدی کھا کر بھاگنا چاہتی تھی۔۔۔۔

اسکے پوچھنے پر نوالا گلے میں ہی اٹک گیا ۔۔۔۔ وہ بری طرح کھانس نے لگی جس کی وجہ سے آنکھوں سے آنسو اور چہرا سرخ ہوگیا تھا ۔۔۔۔پر شیری کو کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا ۔۔۔۔وہ ابھی بھی آرام سے کافی کے سپ لیتے اسکے جواب کے منتظر تھا ۔۔۔ پری نے اسے دیکھ کر جیسے تیسے کر کے جگ سے پانی نکال کر پیا تو سانس میں سانس آئی ۔۔۔
 م۔۔مجھے ج۔۔جانا ہے ۔۔۔وہ اپنی گھٹی سی آواز میں بولتی سسکیاں لینے لگی ۔۔۔ اسے اب حقیقت میں سمجھ آیا تھا کہ یہ اتنی دیر کیوں چپ تھا اور اگر کمیل کی بات بتاتی تو شاید کمیل سے پہلے خود کی لاش یہاں پڑی ہوتی ۔۔۔۔

مجھے وہ لوگ بلکل بھی پسند نہیں جو کھانا بیچ میں چھوڑ دیں اور کسی کے سوال کا جواب نا دیں ۔۔۔ میرا دل کرتا ہے ایسے لوگو کے یا تو زبان کاٹ دوں یا ہاتھ ۔۔۔۔سرد پراسرار سا لہجہ۔۔۔
مجھے یہ بھی پسند نہیں کہ میری پری میں ایسی کوئی بھی عادت ہوجو مجھے نا  پسند ہو۔۔۔۔اسکا لہجہ ایسا تھا کہ پری کی ریڑھ کی ہڈی میں سنساہٹ پھیل گئی اور آنکھیں پھٹنے کے قریب ہی ہوگئی۔۔۔۔اسکا معصوم سا دل سکیڑنے لگا ۔۔۔۔ہاتھ پائوں سرد پڑ گئے۔۔۔۔۔وہ خود کو سنبھالتی ٹیبل کو سختی سے پکڑ گئی ۔۔۔۔

 کھانا کھائو ہنی ۔۔۔۔۔پلیٹ کو اسکی طرف کرتے وہ منتظر نظروں سے دیکھنے لگا۔۔۔۔نا چاہتے ہوئے بھی اسکا ہر روپ پری کے سامنے بے پردہ ہورہا تھا۔۔۔۔۔

 ااا۔۔۔اسنے کہا وہ۔۔۔۔۔وہ آنکھیں مسلتی کچھ سوچنے لگی ۔۔۔۔وہ۔۔۔بولا۔۔۔کہ۔۔ہچکیاں سی آنے لگی ۔۔۔ اتنی مشکل ہوگئی تھی زندگی۔۔۔۔

ہاں۔۔۔۔۔شیری نے سر ہلا کر جیسے کہہ میں سن رہا ہوں۔۔۔۔اب آگے بڑھو۔۔۔
وہ۔۔۔میں گر ر۔۔رہی تھی ۔۔ تو بولا ۔۔۔۔کہ س۔۔سنبھال کر دوپٹہ بڑا ہے گ۔۔گر جائوں گی پھر ۔۔۔۔وہ اتنی صفائی سے جھوٹ بولی کہ شیری تو صرف اسکے چہرے کو دیکھتا رہ گیا ۔۔۔

پھر اپنی کافی اسکی طرف بڑھائی۔۔۔۔۔اور آنکھوں کے اشارے سے اسے پینے کا کہہ ۔۔۔۔البتہ بھوری  آنکھوں میں ایک چمک تھی۔۔۔

پری چمچ رکھ کر گھبرا گئی ۔۔۔اور نفی میں سر ہلانے لگی۔۔۔۔مم۔۔۔میں نہیں پ۔۔پیتی۔۔۔
 اپنی بھرائی آواز میں گویا ہوئی۔۔۔۔

پتا نہیں کیوں تمہیں ایک بار میرے لفظ سمجھ نہیں آتے ۔۔۔۔ وہ ایک ایک لفظ غصے سے چبا چبا کر بولا ۔۔۔
جس پر پری نے بنا اسکی طرف دیکھے اندر میں گھٹتی خاموشی سے کپ اٹھا گئی ۔۔۔اور ایک نظر شیری پر ڈال کر آنکھیں میچے کالے پانی کا ایک گھونٹ بھرنے سے اسکی چیخ نکل جاتی اگر شیری کا بھاری ہاتھ اسکے منہ پر نا آتا ۔۔۔۔
وہ جو کوئی چیز تھی پر اسے کافی نا لگی ۔۔۔۔اتنی کڑوی تھی کہ مردے کو بھی پلایا جائے تو وہ بھی توبہ کرکے اٹھ جاتا ۔۔۔۔۔

زبردستی اسکو گھونٹ پلایا گیا اسکے ہاتھ کے دبائو سے۔۔۔
پھر اسکے کان کے قریب ہوکر بولا۔۔۔اگر تمہاری بات میں ذرا بھر بھی جھوٹ ہوا تو میں جھوٹے لوگوں کے لیے میں اتنا کڑوا ہوں۔۔۔۔تو سب سچ بتادو۔۔۔۔اسکے منہ سے ہاتھ ہٹا وہ سرد لہجے میں بولا۔۔۔پری کو کافی پینے سے ابکائی سی آنے لگی۔۔۔۔

یہ۔۔یہی سچ تھ۔۔۔تھا۔۔۔وہ۔کہتی پانی جگ سے نکال کر ایک ہی سانس میں سارا گلاس ختم کرگئی۔۔۔

اور وہاں سے نکل کر جانے والی تھی جب شیری نے اسکو کمر سے پکڑ لیا ۔۔۔۔پھر جھٹکے سے اپنی طرف کھنچ کر اسے کمر سے پکڑ کر کائونٹر پر بٹھایا۔۔۔۔یہ سب اتنی اچانک ہوا کہ پری کو کچھ سمجھنے کا موقعہ بھی نہیں ملا۔۔۔۔جب سنبھلی تو شیری اسکے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیکر اسکی مہندی کی خوشبو اپنے اندر اتارنے لگا ۔۔۔وہ بوکھلا سی گئی۔۔۔پر اپنی ہاتھ کو کھنچ نا سکی ۔۔۔

ویسے تو مجھے مہندی کی خوشبو اچھی نہیں لگتی پر تمہارے ہاتھوں میں سج کر وہ اپنی مہک کو بھی تمہارے جیسا نشیلا بنا گئی ہے ۔۔۔۔
وہ اسکی ہاتھ کی ہتھیلیوں کو چومتا پیار بھرے لہجے میں گویا ہوا ۔۔۔ ایک دم وہ بدل گیا تھا ۔۔۔۔ پری کے مطابق دوروں کی طرح۔۔۔۔

کیا مہندی پسند ہے تمہیں جانم۔۔۔۔اسکے چہرے پر آئے بالو کو پیچھے کرتا پوچھنے لگا ۔۔۔۔ پری کوئی بھی جواب نہیں دیا اور اپنا ہاتھ آہستہ سے اسکی گرفت سے  نکالنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔۔

اسکی حرکت اور جواب نا دینے پر شیری صرف سرد سی بھوری آنکھیں اسکی سرمئی آنکھوں میں گاڑھی ۔۔۔۔اسکی آنکھوں میں پتا نہیں ایسا کیا تھا جس سے پری کے پور پور میں خوف سا پھیل گیا ۔۔۔اور منہ سے ہڑبڑا کر جلدی سے جواب نکلا ۔۔۔۔
Read more: 
ہہہ۔۔۔۔ہاں پ۔۔پسند ہے ۔۔۔بب۔۔بہت۔۔
اور کیا کیا پسند ہے ۔۔۔۔؟؟اسکی نازک گلابی گال پر اپنے ہاتھ کی پشت سے سہلانے لگا ۔۔۔پری کو لگا اگر آج یہاں سے زندہ بچ کر نکلی تو زندگی کی نئی شروعات ہوگی۔۔۔

س۔۔۔سب کچھ۔۔۔وہ نظر جھکائے معصومیت سے ایسے بولی جیسے گناھ کا اطراف کر رہی ہو۔۔ 

سب کچھ میں میں بھی شامل ہوں کیا؟؟۔۔۔۔۔وہ اسکے جھکے سر کو دیکھ کر شرارت سے گویا ہوا ۔۔۔۔

اسکی بات نے جیسے پری کو ہزاروں وولٹ کا جھٹکا دیا۔۔۔۔بوکھلا کر جلدی سے بولی۔۔۔

نن۔۔نہیں ۔۔صرف م۔۔مہندی ۔۔پھ۔۔پھول برف پانی ۔۔او۔۔اور بارش۔۔۔اسکی بات پر شیری کا دل کیا قہقہے لگا پر سب کا خیال کرکے اور اسکے سیریس چہرے کو دیکھ کر دبا گیا۔۔۔

کھانا نہیں پسند۔۔۔؟؟وہ اسکے پانی لفظ سن کر مذاق میں بولا پر پری کو سمجھ آتا تو۔۔۔

پ۔۔پسند ہے۔۔۔۔بولتی اسکی شرٹ کے بٹنس کو دیکھتی جیسے التجا کرنے لگی۔۔۔
ک۔۔کیا اب مم۔۔میں جائوں ۔۔۔

اسکی بات پر وہ اسکے دونوں ہاتھ اپنے لبوں سے لگا کر پھر بولا۔۔۔

 ہنی تمہں نہیں پتا میں آج سارا دن تمہارا چہرا دیکھنے کے لیے کتنا تڑپا ہوں ۔۔۔ایک پل کے لیے بھی سکون نہیں مجھے ۔۔۔پھر شاید اللہ پاک مجھ پر رحم آگیا تو اسنے میری بے سکونی میرا مزید امتحان لینے کا ارادہ ترک کرکے تمہیں بیجھ دیا۔۔۔۔اور اب تم اتنی جلدی جانے کا کہہ رہی ہو ۔۔۔۔

اب تمہیں دیکھنے کے بعد سکون کی نیند لوں گا ۔۔۔ پری خاموشی سے سر جھکائے ڈر سے ہونٹ کاٹ رہی تھی اور شہریار اسے اپنے دل کا حال بتانے کے ساتھ سرخ ہونٹوں کے ساتھ اسکی حرکت دیکھنے لگا۔۔۔

یہ ظلم ہے ڈارلنگ اس پر صرف میرا حق ہے ۔۔۔اسکے زخمی لبوں کو آزاد کرواکر کچھ سرد آواز میں بولو  ۔۔۔تیز کاٹنے پر سرخ ہونٹوں سے خون کی بوندیں نکلنے لگی تھی ۔۔۔ جنہیں شیری نے دیکھ کر اپنی پینٹ کی جیب سے رومال نکال کر اس سے اسکا خون صاف کرکے ۔۔ اسی خون پر اپنے ہونٹ رکھ دئے۔۔۔پری جو اسے دیکھ رہی تھی اسکی حرکت پر دل حلق میں آگیا ۔۔۔دھڑکن تھی کہ دھول کی طرح دھک دھک کر رہی تھی۔۔۔

وہ ہڑبڑا کر اترنے لگی تو شیری نے دونوں طرف کائونٹر پر ہاتھ دئے۔۔۔۔اور پری کو پیچھے کھسکنے پر مجبور کردیا۔۔۔۔۔
اسنے اپنے سفید پڑتے چہرے کے ساتھ سرمئی سہمی نظریں اٹھا کر اسے دیکھنے لگی ۔۔۔پر اسکی بھوری سرد نظریں اپنے لبوں سے نکلتے خون کی طرف تھی۔۔۔۔اسکا گلا خشک ہوگیا جلدی سے ہاتھ کی پشت سے اسے صاف کرنا چاہا تو شہریار نے بیچ میں ہی اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچا۔۔۔۔وہ کائونٹر سے سڑکتی اسکے گلے سے  لگی۔۔۔۔۔

اور شیری نے اسکے ہونٹوں سے بوند بوند نکلتے خون کو اپنے لبو سے صاف کرنے لگا ۔۔۔ تم بہت قیمتی ہو شیر کے لیے ۔۔۔۔شاید شہریار اتنا جنونی نا ہوتا پر تمنے شیر کو جگا دیا ہے ۔۔۔جس سے رہائی نا مناسب ہے ۔۔۔جس کی ڈکشنری میں پری کے نام کی رہائی کا لفظ ۔۔۔پیج سمیت جلادیا گیا ہے ۔۔۔۔۔

وہ پراسرار سا سرگوشی میں اسکے کان میں کہتا اسکے لرزتے وجود کو نیچے اتار کر ۔۔۔۔اسکے بالوں کلپ سے آزاد کرواکر اسکی خوشبو کو اندر اتارتا شدت دیوانگی سے بولا۔۔۔۔

Honey you are  mine ...only mine.....
ہلکی سی بڑھی ہوئی شیو سے اسکی نازک گال کو ٹچ کیا جس پر پری دہشتزدہ ہوگئی۔۔۔۔
کہنے کے ساتھ اسے آزاد کیا تو وہ بنا مڑے بھاگنے والی تھی جب دوپٹہ شیری نے پکڑ لیا۔۔۔۔۔وہ لرزتی کانپتی بھاری آواز میں گویا ہوئی ۔۔۔۔۔

مم۔۔۔مجھے نیند آ۔۔آرہی ہے۔۔۔اسکے کہنے پر شیری نے آہستہ سے دوپٹہ چھوڑا ۔۔۔۔تو وہ بھاگتی ہوئی کچن سے نکلتی اوپر چلی گئی۔۔۔۔۔۔

وہ کچن کی چوکھٹ پر کھڑا اسے جاتا دیکھاتا رہا۔۔۔۔۔۔دیکھتا نہیں ساکت ہوگیا منظر دیکھ کر جہاں ۔۔۔۔کمر پر لہراتے گھنے کالے بالوں کی آبشار ۔۔۔سیڑھیوں پر بچھے سرخ ململ کے قالین پر گلابی ننگھے پائوں جماتی۔۔۔آدھے شانوں پر رکھے دوپٹے اور آدھا زمین کو چھوتا وہ کوئی ۔۔۔۔ پریوں کے دیس کی پری ہی لگی۔۔۔۔۔۔اتنا حسین منظر تھا کہ اسکا دل بلند آواز میں دھڑک اٹھا ۔۔۔۔۔ایک سحر سا جادو تھا پری میں  ۔۔۔

وہ تو چلی گئی تھی پر شیری ابھی بھی اسکے سحر میں تھا۔۔۔۔
پھر اس سحر کو موبائل کی رنگٹون نے توڑا ۔۔۔۔۔

وہ ہوش میں آتے جھنجھلا گیا ۔۔۔۔ ہاتھ کو حرکت دی تو کچھ محسوس ہوا جسے دیکھنے پر خوبصورت چہرے پر جھنجھلاہٹ کی جگہ پیاری سی مسکراہٹ نے لےلیا۔۔۔۔وہاں کچھ اور نہیں پری کے بالوں کا کلپ تھا ۔۔۔۔۔

جسے چوم کر جیب میں رکھا ۔۔۔۔اب یہ تمہیں تب ملے گا جب تم مکمل میری دسترس میں آئوگی۔۔۔۔۔۔ اور موبائل نکال کر دیکھا تو عزل کی کال تھی ۔۔۔۔ 

وہ اوکے کرتا موبائل کان سے لگائے واپس گھر سے نکلتا چلاگیا۔۔۔۔۔۔۔

💕💕💕💕💕💕

Episode 22 Tera Ashiq May Diwana Ho Awara 

#تیرا_عاشق_میں_دیوانہ_ہوں_آوارہ💕
#از_قلم__مہوش_علی
#قسط__22
Surprise 🎉
💕💕💕💕💕💕

بہت پیاری لگ رہی ہو اینجل ۔۔۔۔پری جو اپنے لہنگے کو سنبھالتی حور کی طرف جارہی تھی ۔۔۔ اچانک سامنے آکر کمیل بولا جس پر پری ایکدم ہڑبڑاتی دل پر ہاتھ رکھتی گھبراتی ٹکرانے سے خود کو بچانے لگی۔۔۔۔۔پر پائوں لہنگے میں آنے سے گر جاتی اگر کمیل اسکے بازو سے نا پکڑ لیتا۔۔۔۔
 اس سب میں پری کے دونوں ہاتھ کمیل کے سینے پر لگے ۔۔۔ اور کیمرہ مین نے چالاکی سے اس منظر کو اپنے کیمرہ میں قید کر لیا۔ ۔۔ آآ۔ ۔۔پ دور ہٹے ۔۔۔پری سنبھلتی اس سے دور ہوئی اور کمیل کا ہاتھ اپنے بازو سے نکالنے لگی جو مکمل کھو سا گیا تھا۔ ۔۔پری میں۔ ۔۔اسکے جھٹکنے پر وہ کچھ ہوش میں آیا اور جلدی سے سوری بولتے شرمندہ سا ہوکر دور ہوا۔۔۔۔

میرے پسندیدہ کلر میں بہت خوبصورت لگ رہی ہو ۔۔۔وہ اسکے بلو کلر میں جلملاتے سراپے کو دیکھ کر جزبات سے چوڑ لہجے میں گویا ہوا۔۔۔۔

پری گھبرا سی گئی ۔۔۔کل بھی پتا نہیں کیسے ہمت کرکے شیری کے سامنے جھوٹ بولا تھا ۔۔۔اسی طرح کی بات پر اور اب ۔۔۔
وہ نفی میں سر ہلاتی ایکدم مڑی تو جسم میں سے روح جیسے پرواز کر گیا ۔۔۔
شہریار کی سرد نظریں کمیل پر موجود تھی ۔۔۔۔وہ تھوڑی دیر پہلے ہی آیا تھا ۔۔۔دراب حسن سے گلے مل کر انہیں مبارک دیتا  اپنی بہنوں کو خوشی کی دعائیں دیتے ۔۔۔۔۔۔ احمد صاحب سے ملکر انکے دوستوں سے ملا۔ ۔۔۔۔اور اس سب سے فارغ ہوکر اسنے اپنی چاہت بھری نظروں سے پری کو ڈھونڈنے لگا ۔۔۔۔کیونکہ کچھ ہی دنوں میں اسے کام سے جانا تھا ۔۔۔۔۔ پاکستان میں کونسی جگائوں کہاں  یا پاکستان سے باہر ۔۔۔۔۔پر اس سب میں پورا مہینہ لگ جانا تھا ۔۔۔۔اور پری کی اس سارے وقت میں کتنی یاد آتی یہ وہ خود بھی نہیں بتا سکتا تھا۔ ۔۔۔

پری کو وہاں سے قہربرساتی نظروں سے جانے کا اشارہ کرتا کمیل کے پاس آیا۔ ۔۔۔پری تو رب کا شکریا ادا کرتی وہاں سے کسی جن کی طرح غائب ہوگئی۔ ۔۔۔
تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی پری کی طرف اپنی ناپاک نظریں اٹھانے کی ۔۔۔۔۔پری کے جاتے ہی شیری کمیل کے کندھے میں ہاتھ ڈال کر ۔۔جو سب کو بات کرنے جیسا لگ رہا تھا ۔۔۔۔پر اسکی سخت ہاتھ کی پکڑ کتنی سخت تھی یہ کمیل کے سرخ چہرے سے پتا لگ رہا تھا ۔۔۔اور یہ سب پری دور سے دیکھتی اور بھی خوفزدہ ہوگئی شیری سے اسکے اندر شیری کا ڈر پورے طرح سے چھاگیا تھا ۔۔۔۔اسکے پورے جسم میں اپنی جڑیں گاڑھ چکا تھا ۔۔۔۔

یہ کیا کر رہے ہو شیر ہاتھ ہٹا میرا کندھا سن ہورہا ہے ۔۔۔وہ لوگوں کا خیال کرتے دھیمے سے کہراتے بولا ۔۔۔۔

 اور تم یہ کیا کہہ رہے تھے۔ ۔۔ہاتھ اسکے کندھے کے گرد دوستوں کی طرح ڈال کر ۔۔۔۔سرد سے آواز میں پوچھا۔ ۔۔

تمہیں اس سے کیا تکلیف ہے پیار کرتا ہوں میں اس سے ۔۔۔۔اسکی ہمت پر  شہریار نے ایک جھٹکے سے اسے ہال سے باہر لایا اور گھسیٹتا میرج ہال کی بیک سائیڈ پر سنسان جگہ پر لایا ۔۔۔ جہاں ان دونوں کے سوا کوئی بھی نہیں تھا ۔۔۔
یہ کیا بد تمیزی ہے شیر ۔۔۔۔وہ خود کو اسکے شکنجے سے آزاد کروا کر غصے سے کندھا سہلاتا چیخا جس پر شیری کا بھرپور مکہ اسکی بولتی بند کروا گیا ۔۔۔
وہ بلبلاتا منہ پر ہاتھ رکھ کر کہراتے دور جا گرا۔ ۔۔۔۔

تم کیا سمجھے میں تمہیں نہیں جان سکوں گا۔ ۔۔کمینے انسان ۔۔۔اتنی گرلفرینڈز اور ایک ناجائز اولاد کے ہوتے تمنے شہریار کی پری کی طرف بد نیت سے دیکھا ۔۔۔اسے اپنے ان گندھے ہاتھو سے چھوا ۔۔۔۔وہ زمین پر پڑے اس پر قیمتی شوز سے لاتے 

مارتے اسکے ہاتھ کو اپنے بوٹ سے کچلتے دھاڑہ۔ ۔۔۔

کمیل کو سنبھلنے کا موقعہ نا ملتے زمین پر پڑا منہ ناک سے بہتے خون اور اسکی شوز سے کچلے ہاتھوں کے کربناک درد پر چیختا کہرانے لگا۔ ۔۔۔
شیری میں مرجائونگا ۔۔۔۔۔
اسکے ہاتھ اسنے کچل دئے تھے جس سے خون نکل کر زمین کو خونآلودہ کرگیا۔۔۔۔اسکی چمکتی دھمکتی حالت سے ابتر ہوگئی تھی ۔۔۔۔۔

پر وہ نا رکا ۔۔۔جب اسے کل رات اپنے آدمیوں جہیں اسنے کمیل کے بارے میں جاننے کے لئے کہا تھا ۔۔۔۔انسے پتا لگا کہ اسکا ایک ناجائز بیٹا بھی ہے جسے وہ اپنا کہنے سے انکاری ہے اور اپنی گرلفرینڈ جو ایک امریکی ہونے کے ساتھ بھی اسے سے وفادار تھی اس پر بدکرداری کا  الزام لگا کر جان چھڑوائی تھی ۔۔۔ اور اس بیچاری نے اپنا بچا دوست کے حوالے کرکے خودکشی کرلی تھی ۔۔۔۔

اور کمیل اس سب سے بچ کر پاکستان آگیا تھا ۔۔۔ شیری کے ساتھ۔ ۔۔
اسکی حالت ایسی ہوگئی ایک زخمی شخص کی طرح۔۔۔پر شیری نا رکا اس کے آنکھوں کے سامنے ابھی بھی اسکا پری کے بازوں پکڑنے والا سین چل رہا تھا ۔۔۔۔

اسے ٹھوکر مار کر دور ہوا اور بازو کو جھٹکا جس سے ایک ہاتھ جتنا تیز چمکتا خنجر اسکے ہاتھ میں آیا ۔۔۔۔ وہ بلکل پاگل ہوگیا ۔۔۔
اسکی بھوری آنکھیں خطرناک حد تک لہولہان تھی ۔۔۔

وہ ابھی اسکے ذرے ذرے کردیتا اگر وقت پر بلال نا پہنچتا ۔۔۔۔۔پاگل ہوگئے ہو شیر کسی نے دیکھ لیا تمہیں تو ۔۔۔۔۔وہ اس سے دور دھکیلتا ہوا چیخا۔۔۔تمہاری پوری فیملی یہاں ہے ۔۔۔بلال اسکے قریب جاکر شانوں ہر ہاتھ رکھ کر اسے ریلیکس کرنے لگا ۔۔۔۔
تم نہیں جانتے اس حرامخور نے کیا کیا ہے ۔۔۔ وہ اسے دھکیلتا پھر زمین پر کہراتے کمیل کی طرف لپکا ۔۔۔ جب سمیر اور رضا بھی وہاں پہنچ کر تینوں نے ملکر اس بپھرے شیر کو سنبھالا ۔۔۔۔

شیری تمہیں اپنی محبت کی قسم کہ تمنے اب اسے ہاتھ بھی لگایا ۔۔۔وہ پہلے ہی سنگل پسلی ہے تمہارے ایک وار پر ہی جان سے چلا جائے گا ۔۔۔۔
اور سبنے تمہیں اسے باہر لاتے دیکھا ہے تم پھنس سکتے ہو اور عالم کا سوچو ۔۔۔۔ اسکا کیا ری ایکشن ہوگا تمہارے پہچان جانے پر ۔۔۔۔

تم اسکے چھپے ہتھیار ہو ۔۔۔۔وہ تو اپنی محبت کے قسم پر ہی ساکت ہوگیا تھا ۔۔۔ پر وہ تینوں اسکے قہر سے ڈرتے اسے سمجھانے لگے ۔۔۔

کیمرے والا حرامزادہ کہاں ہے ۔۔۔وہ ایکدم دھاڑا جس پر وہ تینوں بل کھا کر دور ہوئے ۔۔۔۔
اس۔ ۔۔اسے فہد اور مہک لیگئے ہیں ۔۔۔۔بلال نے ہمت کرکے جواب دیا ۔۔۔
اسے کیسے بھی کرکے پاکستان سے نکالو ۔۔۔۔شیری گہرا سانس لیتا بیہوش پڑے کمیل کی طرف اشارہ کرکے تینوں سے بولا جس پر جلدی سے اثبات میں سرہلایا ۔۔۔۔۔اور انکوں کمیل کو اٹھاتے دیکھ کر خود واپس ہال کی طرف روانہ ہوا ۔۔۔۔

💕💕💕💕💕

تم کیوں کانپ رہی ہو ۔۔۔حور اسکے کہکپاتے وجود کو دیکھ کر پریشانی سے پوچھنے لگی۔۔۔
جس پر پری نے نفی میں گردن ہلاکر کہا ۔۔۔کک۔۔۔کچھ نہیں م۔۔مجھے پیاس لگی ہے ۔۔۔۔ابھی پ۔۔پانی پی کر آتی ہوں۔۔۔۔وہ کہتی ہاتھ مسلتی ویٹر کی طرف چلی گئی ۔۔۔۔
اسے شیری سے دہشت سی ہونے لگی تھی اسکے بس میں ہوتا تو شاید یہیں سے کہیں غائب ہوجاتی ۔۔۔۔
کک۔۔کیا وہ سب کو اسے تکلیف د۔۔دیتا ہے ۔۔۔منہ رونے جیسا تھا ۔۔۔کہ ابھی رو دے گی کمیل کا سرخ چہرا ابھی بھی اسکی آنکھوں کے سامنے تھا۔۔ایسے تھا جیسے بدن کا سارہ خون منہ پر ۔۔۔ اور اس دبائو سے اسکی آنکھیں ۔۔۔اففف پری نے سوچ کر جھرجھری لی ۔۔۔۔کک۔۔۔کاش پاپا آپ مجھے شش۔۔شیری سے بہت دور لے جائیں ۔۔۔اسکے منہ سے دعا نکلی ۔۔۔۔جو قبولیت کے منزلوں پر پہنچی۔۔۔۔۔ 
اگر دل ایمان بھرا ہو اندر معصومیت چھائی ہو ۔۔۔۔تو کیسے اسکی دعا رد ہوتی ۔۔۔۔

اسنے ویٹر سے پانی کاگلاس لے کر پیا ۔۔۔۔اور واپس دیکر جیسے مڑی تو ساکت رہ گئی ۔۔۔۔۔ہال میں چلتے گانے شور شرابے اسے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا  ۔۔اسے بس سامنے موجود ہستی دیکھائی اور اسکے منہ سے "بیٹی"لفظ سنائی دیرہا تھا ۔۔۔۔
آنکھیں جیسے پتھرا سی گئی ۔۔۔۔

اسے لگا وہ خواب دیکھ رہی ہے ۔۔۔ جیسے سونے سے پہلے اٹھتے چلتے کبھی خوف سے کہیں چھپی ڈر سے آنے کی دعا اپنے یاد دلانے کی دعا کرتی نا تھکتی تھی وہ سامنے موجود تھا ۔۔۔۔اپنی کمزور سی حالت میں آنکھوں کے گرد ہلکے سفید بڑھی ہوئی شیو ۔۔۔۔جہاں وہ اسے خوش اور جوان چھوڑ کر آئی تھی ۔۔۔۔وہیں آج وہ سامنے کمزور بلکل اپنی عمر سے بھی بڑھا لگ رہا تھا ۔۔۔
کیا وہ اسکا باپ تھا جسے وہ ایک ایسے شخص کو دے رہا تھا اپنی بیوی کے کہنے پر جو اسکی بھی عمر سے بڑا تھا ۔۔۔۔اور آج سامنے پانی سے بھری سرمئی آنکھوں جن میں بلکل ویرانی تھی ۔۔۔اپنی اجڑی خالی پن سے اپنے بیٹے کا ہاتھ پکڑے اسکے سامنے کھڑا تھا ۔۔۔
آنکھوں میں دھیروں التجا لیکر ۔۔۔
اسے ابھی بھی لگا وہ خواب دیکھ رہی ہے ۔۔۔اور اسکے سامنے ٹوٹنے سے گھبراتی آنکھوں میں دھیر سا پانی بہاتی الٹے قدموں سے وہاں سے بھاگی ۔۔۔۔

الطاف صاحب جو اتنی ہمت جمع کرکے یہاں پہنچے تھے ۔۔۔ اسکی یادوں اور ان دیکھوں میں سے نکل کر ہمت کی تھی اسے اپنی زندگی میں لانے اور اسے وہ سب خوشیاں دینے کی جو وہ اپنی بدقسمتی سے دونوں ماں بیٹی کو نا دیسکا ۔۔۔۔۔اپنے گناھوں کی معافی چاہتا تھا ۔۔۔۔
اسے پتا تھا وہ اتنے دکھ دینے کے بعد معاف نہیں کرے گی اسے پر پھر بھی کوشش کرنے کو آگیا ۔۔۔۔

وہ تڑپا تھا یہ یاد کرکے جب وہ پانچ سال کی تھی اور بہانے بہانے سے ان سے بات کرنے کی کوشش کرتی تھی ۔۔۔ تب اسکی زبان بہت اٹکتی تھی اور وہ دونوں اسے چڑ کر جھڑک دیتے تھے ۔۔۔ جس وجہ سے وہ کمرے میں بند رہتی سارے سارے دن رات صرف اسکول کے علاوہ کہیں نہیں جاتی۔۔۔ کسی بھی رشتے کو نا سمجھتے اور ہر اپنوں کے احساس جزبے  سے عاری ۔۔۔۔وہ ایک کت پتلی تھی بالکل۔۔۔۔۔ جس کے پاس ہر رشتا ہوتے ہوئے بھی وہ یتیم کی طرح تھی ۔۔۔۔

اور جب الطاف صاحب کو اسکی دوسری بیوی نے اپنے منگیتر سے ملکر دوکھا دیا اور اپنا بیٹا چھوڑ کر ساری رقم گھر میں موجود لیکر اپنی چھوٹے سے بیٹے کو چھوڑ کر بھاگی تھی ۔۔۔۔اسے طلاق دے دی تھی کہ اور بیٹے کہ بھی کہہ دیا تھا کہ تم جانو تمہارا بیٹا میرے راستے میں نا آنا ۔۔۔۔ 
اور اسنے بدنامی کی وجہ سے کسی کو بھی نہیں پتا چلنے دیا اور اسے طلاق دے کر واپس پاکستان آگیا ۔۔۔۔اپنے پرانے گھر میں جہاں نرگس اور اسنے بہت خوبصورت پل بتائے تھے ۔۔۔۔۔وہیں اکیلے پن سے رہ کر اسے پری کا احساس ہوا ۔۔۔۔ تب اسنے سوچا تھا اسے ۔۔۔۔تڑپا تھا ۔۔رویا تھا ۔۔۔۔۔

کہ کیسا گناھ کر بیٹھا ۔۔۔۔اپنی خون کو باپ ہوتے ہوئے بھی دربدر ہوتے سوچتے ۔۔۔۔اور کسی بھی رشتے کی ناسمجھ کو ایک مضبوط اور تاحیات نباھنے والے پاک رشتے میں بندھ ہوا سوچ کر ۔۔۔۔۔کتنی مشکل سے جی رہی ہوگی ایک باپ کو جب احساس ہوا تو سوچ کر اسکا دل بندھ ہونے لگا ۔۔۔۔

پاپا آپی تو چلی گئی پھر ہمیں چھوڑ کر ۔۔۔۔ساتھ کھڑے چھوٹے سے بیٹے نے اسے ہوش کی دنیا میں لایا ۔۔۔
نہیں بیٹا اب میں اسے دور ہونے نہیں دونوں گا ۔۔۔آنکھوں سے آنسوں صاف کرتے ہوئے کرب بھرے انداز میں گویا ہوا۔۔۔۔اسنے پری کی آنکھوں میں اپنے لیے محبت اور ایک انجانا سا خوف محسوس کیا تھا جسے وہ سمجھنے سے کاثر تھا ۔۔۔۔
پر اب اسکو اتنا سکون مل گیا تھا اس تک پہنچ کر جو اسے میلو دور لگ رہا تھا ۔۔۔۔

وہ سب سے نظریں بچاتا ہال کے بیک دور سے نکلتا چلا گیا پر حماد صاحب کی نظروں سے پوشیدہ نہیں رہ سکا ۔۔۔۔

💕💕💕💕💕

وہ الٹے قدموں سے دور ہوتی بغیر دیکھے لوگوں سے ٹکراتی ۔۔۔جارہی تھی ۔۔۔۔سب اسٹیج پر ہوتی دلہا دلہن کی رسموں میں مصروف اور اسکے اردگرد تھے ۔۔۔ کسی کو اسکی اجڑی بے بسی حالت نہیں دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔وہ پیچھے کو ہوتی سن دماغ سے پلٹی تو سامنے شہریار موجود تھا ۔۔۔۔اسے یہ بھی نہیں محسوس ہورہا تھا کہ سامنے کون ہے جس سے کچھ دیر پہلے وہ خوف محسوس کر رہی تھی اسکے قہر سے چھپنے کی کوشش کر رہی تھی وہ اپنی سرخ آنکھیں لیے موجود تھا ۔۔۔اسکے سامنے ۔۔۔۔اگر ہوش میں ہوتی تو شاید وہیں دم توڑ دیتی ۔۔۔۔۔

شیری نے اسکے بازو سے پکڑ کر ہال سے گھسیٹتا باہر لے آیا اور اسکے سن وجود کو کار کی فرنٹ سیٹ پر دھکیلا اور خود دوسری طرف سے آکر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا ۔۔۔۔ بغیر اسکی حالت کی طرف دیکھے فل سپیڈ سے اسٹارٹ کردی اور گاڑیوں کی بھیڑ میں خود بھی ایک حصہ بن گیا ۔۔۔۔

Read more: 

اسے ایک سیکنڈ بھی اسکے وجود پر یہ سوٹ اور کمیل کا ہاتھ کی انگلیوں کے نشان برداشت نہیں ہورہے تھے ۔۔۔۔۔

کار جھٹکے سے رکنے پر وہ نکلا اور اسکی طرف آیا ۔۔۔۔پری کو جھٹکے سے کار روکنے پر ہوش آیا اسکے حواس بحال ہوئے ابھی سیکنڈ نا گرزا جب شیری نے کار کا دروازہ کھول کر اسے بازو سے پکڑ کے باہر نکالا ۔۔۔۔

Episode 23 Tera Ashiq May Diwana Ho Awara 


#تیرا_عاشق_میں_دیوانہ_ہوں_آوارہ💕
#از__مہوش_علی۔۔
#قسط__23

جب وہ کار سے باہر نکلی اور اپنے سامنے شیری کو دیکھ چیخ جاتی اگر اسکے منہ پر شیری کا ہاتھ نا آتا ۔۔۔
چپ ایکدم چپ اگر چیخنے کی کوشش کی تو سب کے سامنے تمہاری زبان کاٹ دونوں گا ۔۔۔۔وہ قہربرساتی نظروں سے اسے دیکھتا  جبڑے سے پکر کر اسکا منہ  چہرے کے قریب کرتے اور سرد آواز میں غرایا ۔۔۔۔
پری فق چہرے اور کانپتے وجود سے ٹھرٹھر لرزتی رونے لگی ۔۔۔ جب اسکے بازو سے پکڑ کر وہ اسے بڑے سے مال کے اندر لایا ۔۔وہ روتی اسکے ساتھ گھسیٹتی آرہی تھی ۔۔۔۔آس پاس کے سب لوگ انہیں حیرت بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے ۔۔۔پر اس سب کا شہریار پر کوئی اثر نہیں ہورہا تھا اسے بس کمیل کا اسے چھونا اور اس کے بازو پر موجود اسکا لمس پاگل بنا رہا تھا ۔۔۔
وہ کیسے بھی کرکے اس پر سے یہ سب کچھ ختم کرنا چاہتا تھا ۔۔۔۔اگر وہ اسے قسم نا دیتے اپنی محبت دیوانگی کا تو وہ شاید سیکنڈ میں ہی اسے دوسری سانسوں سے محروم کر دیتا ۔۔۔۔
وہ خاندان رشتہ یا اپنا کچھ بھی نا دیکھتا ۔۔۔۔ 
مم۔۔۔مجھے م۔۔میرے پاپا ۔۔۔کے پاس جانا ہ۔۔ہے ۔۔پلیز مجھے ج۔۔جانے دیں ۔۔۔پری اپنا بازو چھڑوانے کی کوشش کرتی التجا کرنے لگی ۔۔۔

پر شیری کو تو صرف دو ہی لفظ سنائی دیے ۔۔۔"جانا اور جانے دیں"۔۔۔ایک زوردار جھٹکے سے اسے اپنے مقابل کیا ۔۔۔۔اور پوری طاقت سے دھاڑا ۔۔جس پر مال میں موجود سب لوگ انکی طرف اور اس دھاڑ پر کچھ گھبرائے متوجہ ہوئے ۔۔۔

کہیں نہیں جائوگی تم سمجھی ۔۔۔میرے علاوہ کہیں نہیں ۔۔۔۔میں مار دونگا اس انسان کو جس کے پاس جائوگی ۔۔۔وہ اسے جھٹکا دیتے دھاڑنے لگا ۔۔۔پری سفید چہرے کے ساتھ چیختی کانوں پر ہاتھ رکھ گئی ۔آہہہہہہ۔۔ وہ بن پانی کی مچھلی کی طرح کانپ رہی تھی ۔۔۔اسکی ٹانگیں ٹھرٹھر لرزنے لگی۔۔
 عورتیں اسکا حال دیکھ کر خوفزدہ ہوگئی ۔۔۔۔ اور کچھ ہمت کرکے اسے شیری سے آزاد کروانے کو آگے بڑھے پر جب شیری کی سرخ بھوری آنکھیں انکی طرف اٹھی تو کانپ کر سو قدم پیچھے ہوگئی ۔۔۔۔

یہ کیا ہورہا ہے کیوں لڑکی کو خوفزدہ کر رہے ۔۔۔۔ایک انسپکٹر جو باہر ہی تھا ۔۔۔لوگوں کے بلانے پر اندر آکر شیری کے شکنجے میں پری کو روتے خوفزدہ کانپتے دیکھا تو غصے سے آگے آکر بولا ۔۔۔۔

پورے مال میں موجود لوگ جمع ہوگئے تھے ۔۔۔
تمیز سے بات کرو اور آہستہ آواز میں ۔۔۔۔شیری نے پری کو اپنی طرف کھینچتے اس انسپکٹر سے سرد آواز میں بولا ۔۔۔۔وہ آنکھیں بھینچے سپرنگ کی طرح ٹھرٹھرکتی اسکے سینے سے لگی شرٹ کو مٹھیوں میں خوف سے بحال جکڑ گئی ۔۔۔۔

اب تم جیسے آوارہ لڑکیوں کو ہراسا کرنے والے پولیس کو تمیز سکھائیں گے ۔۔۔۔اسکا ہاتھ گلے میں پڑنے سے پہلے ہی شیری نے اسے جھٹکا دیا جس پر وہ لڑکھراتا دور ہوا ۔۔۔اور پری کو دور کرتا اسکی طرف آکر اپنی پاکٹ سے ایک کارڈ نکال کر اسکی منہ پر رکھا ۔۔۔

ہاں میں ہی سیکھائوں گا تمیز ۔۔۔وہ سرد سی آواز میں گویا ہوا۔۔۔

لوگ تو اس کی پولیس کے ساتھ حرکت پر ہی گھبراتے یہاں وہاں غائب ہونے لگے کس کو اس جلاد سے مرنا تھا اور کچھ مزے سے اس تماشے کو دیکھ رہے تھے۔۔
۔۔۔ اسکے چہرا ہی ایسا لگ رہا تھا جیسے سینے پر وار ہوئے زخمی شیر ۔۔۔۔اوپر سے اس پر ظلم سرخ سپید چہرے پر بھوری لال آنکھیں جن کو دیکھتے انسان بھی توبہ کرے ۔۔۔۔

انسپکٹر کی نظریں ناک کے سامنے   کارڈ پر پڑی تو ہڑبڑا کر بولا ۔۔۔۔
 میجر شہریار ۔وہ بڑبڑایا۔۔۔۔آئی ایم سوری سر ۔۔ہمیں بیچ میں نہیں آنا چاہیے تھا ۔۔۔ یہ آپکا اپنا ذاتی معملا ہے ۔۔۔۔یہ کہتے وہ بھیڑ کو وہاں سے ختم کرنے لگا ۔۔۔۔

چہرے پر مسکراہٹ سجائے وہ ایکدم مڑا تو سامنے کھڑی روتی خوفزدہ آنکھوں سے اسے دیکھتی ۔۔۔بلو بھاری لہنگے میں وہ آہستہ سے پیچھے قدم اٹھانے لگی ۔۔۔۔
قق۔۔۔قسم کھاتی ہہ۔۔ہوں ۔۔۔مم۔۔مینے کچھ ۔۔نہیں ۔۔کیا ۔۔۔وہ۔۔وہ کمیل ن۔۔نے کہا۔۔۔میں ج۔۔جھوٹ ۔۔نہیں بول رہی ۔۔۔وہ ہچکیاں لیتی اسکی سرخ بھوری آنکھوں میں دیکھتی صفائی دینے لگی۔۔

شیری ایک لمبا سا قدم بھر کر اس تک پہنچا ۔۔۔اور اسے اپنے بازوں میں اٹھا کر اسکے ٹھنڈے پڑتے کانپتے وجود کو  سینے سے بھینچ لیا ۔۔۔۔
مینے تمہیں کچھ کہا ہنی اس کمینے کے بارے میں ۔۔۔بس دماغ سے نکال دو سب کچھ ۔۔۔اور دور جانے کا نا بولو ۔۔۔بازوں کی مدد سے اسے تھوڑا اوپر کرکے سینے میں چھپے اسکے چہرے کو دیکھتے کان کو چوم لیا ۔۔۔پری اور بھی سمٹتی اسکے چوڑے سینے میں چھپنے لگی ۔۔۔وہ بھی اسکے کانپتے وجود کو اپنے آپ میں چھپانے لگا۔۔۔

اور قدم بڑھاتا بغیر لوگوں کی پھٹی نظروں اور پھسر پھسر پر متوجہ ہوئے  خوبصورت سے پنک فراک پر کو دیکھا تو مسکرا کر رک گیا ۔۔۔اس فراک کے گرد کافی لڑکیاں آنکھوں میں پسندگی کے تاثر لیے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔شاید نیوں ڈزائن تھی ۔۔۔
اور مہنگا بھی لگ رہا تھا لڑکیوں کی شکلوں کو دیکھ ۔۔۔
پر شیری کو پری کے لیے پسند آگیا تھا۔۔۔پری کے سامنے کیا پیسہ کیا خزانہ ۔۔۔
شیری کے آنکھوں کے سامنے پری کا اس فراک پہنے خوبصورت منظر گھوم گیا ۔۔۔جس پر اسکے لبوں پر مسکراہٹ سی آگئی ۔۔۔
لڑکیاں اسے پری کو بازوں میں اٹھائے کسی بچے کی طرح سینے سے لگائے دیکھ کر مسکراتی اسے سائیڈ دینے لگی ۔۔۔۔

اور آپس میں مسکراتی کچھ کہنے لگی ۔۔۔۔جس پر شیری کا دھیان نہیں تھا۔۔۔۔
دیکھو ہنی اس فراک میں تم بالکل میری پرنسس لگوگی ۔۔۔۔وہ اسے فراک کی طرف متوجہ کرنے لگا پر پری نفی میں سر ہلاتی چمٹ گئی اسکے کوٹ میں وہ ابھی بھی ڈری ہوئی تھی اور اسکے ڈر سے منہ سے کچھ بھی نہیں نکال رہی تھی ۔۔۔۔

اسکے ایسا کرنے سے وہ مسرور سا ہوگیا اور فراک لیکر لڑکیوں کی آنکھوں میں ستائش کو اگنور کرکے آگے اس سے میچ ہجاب لیا پھر اسکے میچ شوز لینے کے لیے آگے بڑھا ۔۔۔اور اس دوران پری کو اپنے بازوں میں ہی اٹھائے رکھا ۔۔۔۔۔

جو نیو آرہے تھے وہ شرماکر مسکرا کر دیکھ رہے تھے باقی کی آنکھوں میں اسے پاگل سمجھنے کے تاثرات تھے ۔۔۔۔۔

پھر پنک کلر کی خوبصورت سی ہیل پسند کی ۔۔۔۔۔
یہ کیا کر رہے ہو ۔۔۔۔وہ لڑکے کو پری کے پیر کی طرف بڑھتا دیکھ غصے سے بولا ۔۔۔۔۔
لڑکا ہڑبڑا گیا ۔۔۔۔س۔۔سر وہ ناپ پائوں کی ۔۔۔اسے پہنا کر دیکھنا ہے ۔۔۔۔وہ اسکی آنکھوں اور غصہ دیکھ کر جلدی صفائی دی اپنی ۔۔۔

کیا مینے کہا ایسا ۔۔۔۔وہ ایک ہاتھ میں بیگ اٹھائے دوسرے پری کو سینے سے لگائے کڑے تیور سے پوچھا ۔۔۔۔
ن۔۔نہیں سر ۔۔۔وہ بولتے دور ہٹا ۔۔۔شیری نے ایک پائوں سے پری کے ہیل نکال کر اسے دیکھایا پھر اسکی ناپ پے لیکر ہیل واپس اسے پہنائے بیگ سنبھالتا چہرے پر پری کو دیکھتے خوبصورت سی ہونٹوں پر مسکراہٹ لیے مال سے باہر نکلا ۔۔۔۔۔
کار کا دور کھول کر پچھلی سیٹ پر بیگ پھیکے اور اسے بند کرتے آگے کی طرف آیا ۔۔۔
💕💕💕💕💕

ہنی ۔۔۔واپس نہیں چلنا ۔۔۔یا ساری رات ایسے ہی گذارے ۔۔۔اسکے کان کے قریب جھک کر بولا ۔۔۔۔تو پری نے ڈرتے ڈرتے چہرا کوٹ سے نکالا اور اپنی سرخ سرمئی سوجی آنکھوں سے اسے دیکھا ۔۔

آ۔۔آپ ماریں گے ت۔۔۔تو نہیں ۔۔۔؟؟اسکے منہ سے ہلکی سی بڑبڑاہٹ نکلی جو شیری نے بمشکل سنی ۔۔۔۔

میں کیوں ماروں گا اپنی ہنی جانم کو ۔۔۔ وہ اسکی آنکھوں کو چومتے سنبھال کر اسے فرنٹ سیٹ پر کسی نازک موم کی گڑیا سمجھ کر بٹھایا ۔۔۔۔پھر دور بند کرتا اپنی طرف آیا تو پری کھسک کر دور ہوئی ۔۔۔۔اور بالکل دوڑ سے چمٹ گئی ۔۔۔۔شیری یہ سب دیکھتے بغیر کچھ کہے کار اسٹارٹ کردی ۔۔۔۔

پھر راستے میں دونوں کی سانسوں اور گاڑیوں کے شور کے علاوہ صرف کبھی کبھی پری کی زیادہ رونے سے ہچکی نکلتی ۔۔۔

وہ کار کو سجے ملک ولا میں پارکنگ میں روکتے دیکھ کر گھبرا کر شیری کو دیکھا ۔۔۔۔۔
مم۔۔مجھے وہاں ج۔۔باقی کے لفظ جانا آنے کی وجہ سے بول نا سکی پر آنکھوں میں امڈنے والے خوف صاف ظاہر تھا ۔۔۔۔۔

چلیں گے ہنی صرف کچھ دیر میں ۔۔۔۔کہتے اسکا گال تھپتھپاکر کار سے نکلا اور بیگس نکال کر اسکی طرف آیا ۔۔۔۔پری اکیلے گھر کو دیکھ کر کھسک کر دور ہوئی ۔۔۔
مم۔۔مجھے نن۔۔نہیں آنا ۔۔۔وہ کہتی ڈرائیونگ سیٹ کی طرف آگئی ۔۔۔۔
شیری نے جو ہاتھ بڑھایا تھا واپس ہوکر کندھے اچکاکر بولا ۔۔۔۔
ٹھیک ہے یہی رہ جائو بھوتوں یا چڑیلوں کا ڈنر بن جائو ۔۔۔مجھے کیا ۔۔۔۔
ویسے بھی کئی خون ہوچکے ہیں یہاں خوبصورت روتی لڑکیوں کہ اور اتفاق سے انکے نام بھی پریہ ہی ہوتے ہیں ۔۔۔۔وہ اسکے سفید پڑتے چہرے کو دیکھتے لاپروائی سے بولتے جیب سے سگریٹ نکال کر سلگائے اندر کی جانب قدم بڑہایا ۔۔۔۔۔
پری کا تو مانوں سانس رک گیا ۔۔کافی بار حور نے اسے چڑیلوں والی فلم دیکھائی تھی جو دونوں چیختے چیختے ختم کرتی تھی ۔۔۔اور اب شیری کا یہ بولنا اسکا حال ہی برا کر گیا۔ ۔۔۔
اسنے گردن موڑ کر دیکھا جہاں دور گیٹ پر گارڈ کھڑے تھے۔۔۔ پر کیا وہ اسے بچائیں گے چڑیلوں سے ۔۔۔

نن۔ ۔۔نہیں وہ کیسے بچائیں گے ۔۔۔یہ۔ ۔یہ تو بوڑھے ہیں مووی میں ۔۔۔تو شش۔ ۔۔شیری جیسا ہیرو تھا ۔۔۔۔وہ خوف سے خود سے کہتی اپنے بچائو کے بارے میں سوچنے لگی ۔۔۔۔پر ۔۔۔پر وہ تو مجھے مارے گا ۔۔۔
اور گھر م۔ ۔میں کوئی بھی نہیں ۔۔۔
وہ چہرے پر آئے پسینے کو صاف کرتی شیری کو دیکھنے لگی جو دھنوا ہوا میں چھوڑتا اندر کو جارہا تھا ۔۔۔۔
اگر ش ۔۔شیری چلاگیا تو وہ مجھے کھالیں گی ۔۔نن۔ ۔۔نہیں۔ ۔۔

اسنے ابھی دو ہی قدم لیے تھے جب پیچھے سے اسکی خوفزدہ سی آواز نے شیری کو ساکت کرکے قدم روک دئے ۔۔۔
شش۔۔شیری مجھے س۔۔ساتھ لے چلو ۔۔ڈر لگ رہا ہے پپ۔۔۔پلیز وہ ۔۔کھا جائیں گی ۔۔۔۔
کانوں نے جب یہ الفاظ دماغ تک پہچائے تو وہ خوشی سے سرشار مڑا ۔۔۔اسے نہیں بتا سکتا تھا کتنا خوش کردیا تھا اسنے اور کتنی چاہت کے پھول کھل اٹھے تھے پہلی بار اسکے نام لینے پر ۔۔۔۔وہ اندازہ نہیں لگا سکتا تھا اپنی خوشی کا ۔۔۔۔

اور جو دوقدم اٹھائے تھے ایک دم وہاں پہنچا اور پری کے خوفزدہ چہرے کو دیکھتے چاہت سے بھرپور اپنا ہاتھ بڑھایا ۔۔۔۔ پھر دوسرہ جھٹکا تب لگا جب اسنے اپنا سرخ چھوٹا سا ہاتھ اسکے چوڑے ہاتھ میں رکھا پر اسکے ہاتھ میں کپکپاہٹ موجود تھی ۔۔۔
وہ تو جیسے جھوم اٹھا ۔۔۔۔اسکے لیے اتنا ہی کافی تھا اسنے اسے پکارا ۔۔۔

احتیات سے اسے باہر نکالا سگریٹ کو پھینک کر اسے پھر سے بازوں میں اٹھا لیا ۔۔۔۔

میرے ہوتے ہوئے تمہیں کوئی چھونا تو دور دیکھ بھی نہیں سکتا میرے علاوہ ڈارلنگ ۔۔۔۔گھمبیر آواز میں کہتا سرشار سا اسکے ماتھے پر اپنے لب رلھ لیے ۔۔۔۔پری جو اسکے اٹھانے پر ہی گھبرائی ہوئی تھی اسکے سر پر بوسہ دیتے دیکھ وہ معصومیت سے ڈر کر کوٹ میں منہ چھپا گئی ۔۔۔۔

اسکی اس ادا پر شیری کا دل کیا اسے سینے میں بھینچ لے ۔۔۔اور اسنے ایسا ہی کیا اسے اپنے سینے سے بھینچا  جس پر پری کہرا اٹھی ۔۔۔۔
آہہہ۔۔۔۔۔مم۔۔۔مجھے نیچے اا۔۔اتاریں۔۔۔وہ درد سے کہتی اترنے کی ناکام کوشش کرنے لگی۔ ۔۔

اچھا۔۔۔ پر یہ اب ناممکن ہے ۔۔۔میرے بس میں ہوتا تو تمہیں چلنے کی بھی تکلیف نا کرنے دوں جانم ساری زندگی اپنے سینے سے لگا چلتا رہوں ۔۔۔۔بس تم میں کھویا رہوں ۔۔۔۔وہ اس سے کہتا گھر میں داخل ہوتا  سیڑھیاں طے کرتا اوپر اسکے روم میں لیکر آیا ۔۔۔۔۔اور پیر کی ٹھوکر سے دروازہ بند کردیا۔۔۔۔۔

سب ملازمہ آنکھیں پھاڑے اپنے چھوٹے صاحب کو دیکھ رہے تھے کہ وہ کیا کرنے والا ہے ۔۔۔۔پری بی بی کے ساتھ ۔۔۔۔

پر وہ بےخودی میں سب کچھ نظرانداز کرگیا ۔۔۔

پری جو چڑیلوں کے ڈر سے ایسے ہی شیری کے سینے سے لگی آنکھیں پھاڑے اسکی باتوں پر حیران ہوتی گھبرانے لگی اس طرح ساری عمر شیری کے اٹھانے کا کہنے پر ۔۔۔۔
شیری نے آہستہ سے اسے بیڈ پر لیٹایا اور کچھ اس پر جھکا دیکھتا رہا ۔۔۔پری اسکے جھکنے پر چہرے پے اپنے مہندی سے سجے ہاتھ میں چہرا چھپا گئی ۔۔جس سے چوڑیوں سے بھری کلائیوں کی چھنک سی خوبصورت آواز خاموش کمرے میں گونجی ۔۔۔

بہت پیار کرتا ہوں ہنی تمسے۔۔۔۔ کبھی الگ ہونے کا نا سوچنا ۔۔۔میں مرجائوں گا تمہارے بن ۔۔۔ 
تم میری رگوں میں کسی نشے کی طرح سماگئی ہو ۔۔۔۔ کسی خطرناک مرض کے مریض کی طرح ہوں میں اب۔۔۔ جس کے جینے کی دوا صرف تم ہو ۔۔۔ جو اسے ایک سیکنڈ بھی نا ملے تو وہ اگلی سانسیں نا لے ۔۔۔۔وہ اس پر جھکا جزبات میں اسکے چھپے چہرے کو دیکھتے حال دل سنانے لگا ۔۔۔۔

پری کی تو جان حلق میں آگئی تھی یہ سب سن کر ۔۔۔وہ تو کیا کیا سوچ کر بیٹھی تھی اب کیسے نکلے گی اسکے چنگل سے ۔۔۔وہ تو زندگی بھر اس سے بھاگنا چھپنا چاہتی تھی اس کی ایک سیکنڈ کی بات تھم سی گئی تھی ۔ ۔  

کیا وہ کبھی آزاد نہیں ہوپائے گی اس سے ۔۔۔یہ سوچتے اسکی آنکھوں سے آنسوں نکل کر کان میں پھسل گیا ۔۔۔۔

میرے علاوہ کچھ نا سوچو ہنی ۔۔۔ اسکے چہرے سے ہاتھ ہٹا کر اسکی سرخ چھوٹی سے ناک کو چوم لیا ۔۔۔جس پر پری نے آنکھیں میچی چہرا موڑ لیا ۔۔۔۔
پپ ۔۔پلیز ن ۔۔۔وہ گھبراتی دہشتزدہ سی بولنے لگی جب شیری نے اسکے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر بولا۔۔۔۔۔ششش کچھ نہیں کر رہا ۔۔

پھر دور ہوکر اسے اٹھایا اور بیگ اسے پکڑا کر بولا ۔۔۔۔جائو فریش ہوکر چینج کر کے آئو ۔۔۔۔گو فاسٹ ۔۔۔۔اسے باتھروم کی طرف موڑا پر پری نے ہلکی سی مزاہمت کرنے کی کوشش کی جس پر شیری کے آنکھیں پھر غصے سے رنگ بدلنے لگی جسے دیکھ کر پری بھاگ کر اپنی جان بچاتی باتھروم میں گھسی ۔۔۔۔

شیری ایک خاموش نظر باتھروم کے بند دروازے پر ڈالکر سگریٹ سگلانے لگا ۔۔۔۔بار بار غصہ ڈلا کر کہتی ہے مارتا ہوں ۔۔۔

پھر ہونٹوں میں دباکر اسکے انتظار میں بیڈ پر بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔
انتظار اتنا طویل نا تھا ۔۔۔۔اسنے دوسرا سگریٹ سلگایا جب وہ آہستہ سے کانپتے ہاتھوں سے فراک سنبھالتی  سر پر دوپٹا لیے بھیگے بالوں کو اس سے چھپائے بھاری پھولوں سے سجے فراک کے اندر سے قدم آگے بڑھائے  سر جھکائے نکلی ۔۔۔۔

وہ تو جیسے ساکت ہوگیا ۔۔۔۔ ہاتھ جو سگریٹ کو منہ کی طرف لے جارہا تھا وہیں رک گیا ۔۔۔۔آنکھوں جیسے اس پرسے نا ہٹنے کا قسم کھایا ۔۔۔۔

وہ بےخود سا ہوکر اٹھا ۔۔ اور اسکی طرف قدم بڑھنے لگے ۔۔۔۔اور ہاتھ سے پکڑ کر کمرے کے بیچوبیچ لیکر آیا ۔۔۔پری کی آنکھوں کے سامنے کچھ دن پہلے کا منظر گھوم گیا ۔۔۔۔ وہ سوچ کر یہاں وہاں دیکھتی کچھ ڈھونڈنے لگی اپنے بچائو کے لیے ۔۔۔۔۔۔

اسے بہت کچھ نظر آیا اپنے بچائو کے لیے ۔۔اسنے جیسے جھٹکے سے بےخود کھڑے شیری کی گرفت سے نکل کر فروٹ میں لگی چھڑی کی طرف ہاتھ کیا جب شیری نے اسے ایکدم قریب کیا اور ایک زوردار قہقہہ لگایا ۔۔۔۔

تم بھی پرنسس کمال ہو بندہ کتنا بھی سیریس یا کھویا ہوا کیوں نا ہو سیکنڈ نہیں لگائوگی اسے زمین پر پٹکنے میں۔۔۔ ظاہر ہے ہو کس کی ۔۔۔شیر کی ۔۔۔
وہ مسرور سا کہتا اسے ہاتھ سے پکڑ کر گول گول گھمانے لگا ۔۔۔اور وہ اپنی ناکامی پر خوفزدہ ہوتی شیری کے ہنستے سرشار سے چہرے کو دیکھنے لگی ۔۔۔شیری کو وہ اتنی پیاری لگ رہی تھی کہ اسکے پاس الفاظ نہیں تھے بیان کے لیے ۔۔۔پھر اسے بازو پڑ گرایا ۔۔۔وہ ڈر کر اسکے کوٹ کو پکڑ گئی ۔۔۔
بھاگ چلیں یہاں سے ہر چیز سے دور ایکدوسرے کے لیے ۔،۔ وہ اس پر جھکا گھمبیر میں شرارت سے بولا ۔۔جس پر پری نے گڑگڑا کر نفی میں سر ہلایا ۔۔نن۔ ۔نہیں کبھی نہیں ۔۔۔اسکی بات پر وہ ہنس دیا ۔۔۔
کبھی تو ایسا ضرور ہوگا ۔۔ہنی ۔۔۔

پھر آہستہ سے اسکے کانپتے سرخ ہونٹوں کو چھولیا ۔۔۔۔پری کا گلا خشک ہوگیا شیری کی حرکت پر ۔۔۔۔
شیری نے اسے کسی موم کی گڑیا کی طرح سنبھال کر ڈریسنگ آئینے کے سامنے کھڑا کیا ۔۔۔۔اور اسکے دوپٹے سے چھپے بالوں آزاد کیا انکی نکلتی خوشبو کو اپنے اندر اتارتے ۔۔۔پھر کچھ دیر میں ہی پیار سے اسکے بالوں کو خشک کرکے انہیں اچھی طرح کلپ سے جکڑ کر اسکا رخ اپنی طرف کرلیا ۔۔۔جو نم آنکھوں سے سر جھکائے چپ چاپ اسکے رحم کرم پر کھڑی تھی ۔۔۔
وہ اس سے کچھ کہتا  اس سے پہلے ہی  موبائل بجا وہ ۔۔۔ایک نظر اس پر ڈالکر موبائل جیب سے نکال کر دیکھا تو سفیان کالنگ لکھا تھا ۔۔۔اسنے اوکے کرکے کان سے لگایا ۔۔۔البتہ نظریں پری پر ہی تھی ۔۔۔

کہاں ہو شہریار ۔۔۔وہ کچھ پریشانی سے پوچھنے لگا ۔۔۔
شیری نے بھی اسکی پریشان آواز نوٹ کرکے بولا ۔۔۔گھر پر ہوں کیوں سب خیریت ۔۔۔
نہیں یار پری نہیں مل رہی ہے ۔۔۔۔سارا میرج ہال ڈھونڈ لیا پر وہ کہیں نہیں سب کافی پریشان ہیں ۔۔۔اور کچھ کا کہنا ہے کہ کوئی لڑکا اسے باہر لیکر جا رہا تھا ۔۔۔۔پھر یہاں کمیل بھی نہیں دکھ رہا ۔۔۔
حماد انکل اور احمد انکل کا پریشانی سے برا  حال ہے کیونکہ انہوں نے پری کے غائب ہونے سے پہلے الطاف انکل کو دیکھا ہال میں ۔۔۔اسکی اتنی پریشانی پر وہ مسکرادیا ۔۔
کمیل کا تو نہیں پتا پر پری میرے ساتھ ہے ۔۔۔جوس گرنے سے اسکے کپڑے خراب ہوگئے تھے تو وہ ہی چینج کرنے آئی ہے ۔۔۔۔پری کو اپنے ساتھ لگاتا وہ اسے بتانے لگا ۔۔۔۔

Episode 24 Tera Ashiq May Diwana Ho Awara 


#تیرا_عاشق_میں_دیوانہ_ہوں_آوارہ💕
#از__مہوش_علی
#قسط_24

ایک منٹ یہ پری تو تم سے ڈرتی تھی تو کیسے تمہارے ساتھ آگئی ۔۔۔سفیان سے اسے بات ختم کرتے دیکھا تو جلدی میں حیریت سے پوچھا ۔۔۔جس پر شیری پری کو دیکھ جو اسے ہی سر اٹھائے دیکھ رہی تھی ۔۔۔دیکھا اور بولا ۔۔۔
تو تمہارا کیا مطلب ہے ساری زندگی ایسے ہی ڈرتی رہے ۔۔۔۔

پھر اسکی ایک بھی سنے فون بند کرکے کچھ ٹائپ کرتے  بیڈ پر پھینک دیا ۔۔۔۔

اگر کبھی تمہیں بھگانے کی کوشش کی  تو ، اپنے اردگرد اتنےسیکیورٹی  گارڈز پال رکھے ہیں کہ یہ سب تو مجھے زندہ زمین میں گاڑھ دیں ۔۔۔۔
وہ شرارت سے کہتا حجاب نکال کر اسے پہنانے لگا بالکل کسی ماں کی طرح جو اپنے بچے کو تیار کرتی ہے ۔۔۔

ک۔۔کیا آپ سسچ میں ۔۔مجھے بھگا رہے تھے ۔۔۔پری نے ہمت کرکے ذرا سی نظریں اٹھاکر معصومیت سے پوچھا ۔۔۔
جس پر حجاب کو پنوں سے سیٹ کرتے اسے دیکھا ۔۔۔پھر منہ میں لگی آخری پن کو نکال کر لگائی اور اسکے معصوم چہرے کو اپنے مضبوط ہاتھوں کے پیالے میں بھر کر پوچھا ۔۔۔
کیا تم چلوگی میرے ساتھ ؟؟۔۔۔اسکی بات پر پری ہڑبڑا کر نفی کی ۔۔۔ شیری تو اسکے پرنور چہرے کو ہی دیکھتا رہ گیا ۔۔۔۔اور اسکے نفی کرنے پر مسکرادیا ۔۔۔
تو ڈرو نہیں کہیں نہیں لیکے جارہا ۔۔۔۔۔پھر اسکے جھلملاتے سراپے پر سر سے پائوں تک نظر ڈالی ۔۔۔۔منہ کو گول شیپ میں دے کر ایک آنکھ دبائے آوارہ اسٹائل میں سیٹی بجائی ۔۔۔۔

پری تو آنکھیں پھاڑے اسکی حرکتیں دیکھ رہی تھی ۔۔۔

بس ایسے ہی ٹھیک ہے ۔۔۔اس میں بھی سب لڑکیوں کی آنکھیں پھاڑ سکتی ۔۔اور میں نہیں چاہتا تم پر میرے علاوہ کسی کی بھی آنکھ ٹھرے۔۔۔
اسے کہتے بیڈ کی طرف لے آیا اور احتیات سے بیٹھا کر ۔۔بیگ سے ہیل نکال کر اسکے سامنے نیچے گھٹنو کے بل بیٹھا ۔۔۔۔اور پھر زمین پر پھیلے اسکے فراک کو اٹھاکر اس میں سے اسکے چھپے سرخ پائوں میں پہنائی ۔۔۔ پری پوری سمٹ سی گئی ۔۔۔اتنے بھی ہمت نا کرپائی کہ اسکے ہاتھوں سے اپنے پائوں کو آزاد کر سکے ۔۔۔۔

شیری نے اسے ہیل پہناکر اسکے سرخ چہرے کو دیکھا ۔۔۔ جس پر نئے رنگوں نے آنا شروع کیا تھا ۔۔۔ وہ سمجھ کر مسکرادیا اور دونوں پائوں پر فراک پھیلا دیا  ۔۔۔
پھر ہاتھ بڑھا کر اسکے ہاتھ کو تھاما اور اسے لیکر اپنی موبائل اٹھائے  کمرے کے بیچ لایا ۔۔
پھر اسکا ہاتھ دانس کی طرح اوپر اٹھائے خوبصورت سے پوز اپنی موبائل میں قید کرلیے ۔۔۔پری اس ساری کاروائی دوران چپ چاپ سر جھکائے کھڑی تھی ۔۔۔۔
so beautiful my pretty doll ....

تم میرے لیے ایک قیمتی تحفہ ہو پاک  اس ذات کی طرف سے ۔۔۔جس کا شکریہ ساری زندگی نا ادا کرپائوں ۔۔۔کہ اسنے مجھ ناچیز گناھ گار بندے کو ایسا انمول نایاب اپنے نور کی روشنی میرے نصیب میں لکھی ۔۔۔۔وہ اسکے دونوں ہاتھوں کو پکڑ کے اپنی خوش قسمتی کا بتا رہا تھا ۔۔۔پری خاموشی سے سنتی رہی ۔۔۔۔کیا کہتی اس باتوں پر اسے سمجھ نہیں آرہا تھا ۔۔۔۔
صرف اتنا بولی ۔۔۔مجھے لے چ۔۔چلیں پلیز ۔۔۔
شیری سن کر مصنوعی خوشی سے چہکا ۔۔۔۔سچ چلوگی میرے ساتھ، ہماری دنیا میں ۔۔۔اسکی بات پر وہ ہڑبڑا کر جلدی سے صفائی دینے لگی ۔۔۔۔
نن ۔۔نہیں وہ س۔۔سب کے پاس ۔۔۔۔اور تھوڑا دور ہٹی ۔۔۔۔کہیں سچ میں نا لے جائے ۔۔۔۔شیری بھی پھر اسکے خوفزدہ سے چہرے کو دیکھ کر اسکے پیشانی پر اپنے ہونٹ رکھ دیے ۔۔۔۔

اور موبائل پر کسی کو کال کی ۔۔۔اور اسکی ایک رنگ پر ہی اٹھالی۔۔

۔کیا ریڈی ہو سب ؟؟۔۔۔اسکی یکدم سرد سی آواز کچھ پل والی آواز سے بالکل بدلی ۔۔۔۔ پری نے جھٹکے سے اپنا جھکا سر اٹھاکر اسے دیکھا ۔۔جو محبت سے چوڑ نظروں سے اسے دیکھتے دوسری طرف سے مختلف آواز میں بولا ۔۔۔

وہاں سے مثبت جواب ملنے پر موبائل بند کرتے جیب میں رکھا ۔۔۔۔اور اسکی طرف قدم بڑھایا جس پر پری نے بھی قدم پیچھے کو لیا ۔۔۔
کچھ نہیں کر رہا جانم ۔۔۔واپس چلیں ۔۔۔اسے ہاتھ سے پکڑ کر پھر بازوں میں اٹھالیا ۔۔۔۔
ظاہر ہے اب اتنے بڑے فراک سے چلنے سے تو رہی ۔۔۔۔اور پھر دروازہ ایک ہاتھ سے ان لاک کرتے ۔۔۔سیڑھیاں اترتا لائونج میں آیا جہاں سب ملازم منہ کھولے دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔شیری کے ماتھے پر لکیریں ابھرنے لگی ۔۔چہرے پر غصے کے عنصر ظاہر ہونے لگے ۔۔۔

کیا دیکھ رہے ہو ۔۔۔وہ ایکدم انہیں ساکت دونوں کو گھورتے دیکھ دھاڑا ۔۔۔۔ اسکے اتنے قریب دھاڑنے پر پری کے اوسان خطا ہوگئے ۔۔۔۔
جس پر اسکا چہرا غصے سے اور بھی سرخ ہوگیا کہ وہ کسی دوسری وجہ سے وہ ڈری۔۔۔
 ۔۔مطلب کسی دوسرے کی طرف سے تکلیف ۔۔۔۔اسکی آنکھیں یکایک سرخ ہوگئی ۔۔۔۔ان ملازموں پر ۔۔۔جسے دیکھ کو وہ گھبراتے ہڑبڑاتے سب یہاں وہاں غائب ہوگئے ۔۔۔۔
 اگر سب کے بیچ نا ہوتے تو دیکھاتا اس حرکت کا انجام ۔۔۔میری جانم کو تکلیف دینے کا انجام پر شکر کرو رب کا ۔۔۔۔جہیں شاید تم لوگوں کو بچانا چاہتا ہے میرے انجام سے ۔۔۔۔

وہ آہستہ سا بڑبڑاتا پری کے کانپتے وجود کو تھپتھپاتا باہر نکلا ۔۔۔کچھ نہیں ہوا ۔۔۔ڈرو نہیں میں ان حرامخوروں سے تھا ۔۔۔۔
کہتے اسے کار کا دور کھول کر فرنٹ سیٹ پر بٹھایا اور اسکا فراک سنبھال کر اندر گاڑی میں رکھ دیا۔۔۔

اور دوسری طرف خود آکر بیٹھ گیا ۔۔۔۔ڈرائیونگ کے دوران کبھی کبھی اسے بھی دیکھ لیتا ۔۔۔۔
کچھ دیر بعد کار رکی پری اپنے ہاتھوں کو مسلتی پریشانی سے سوچ رہی تھی کہ کیسے وہ اتنا بھاری فراک لیکر چلے ۔۔۔اسکے دھان پان جیسے وجود پر وہ جھلملاتے سفید نگینوں اور ہم رنگ پھولوں سے سجے بھاری فراک  جو پورا آگے پھیلا ہوا تھا ۔۔۔یہ سب سوچ کر  اسکے میک اپ سے پاک چہرے پر پریشانی کے پسینے ماتھے پر نمودار ہوئے ۔۔۔۔جنہیں شیری دیکھ کر فوراً سمجھ گیا ۔۔۔۔

پھر آہستہ سے اسکے چہرے کا رخ اپنی طرف کرتے بولا ۔۔۔دیکھو کوئی بھی اس فراک کے بارے میں یا اتنی دیر کہاں تھی پوچھے تو کوئی جواب نا دینا ۔۔۔۔صرف خاموشی سے سر جھکا دینا باقی کا سفیان سنبھال لےگا ۔۔۔اسکے سمجھانے پر پری نے اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔جس پر شیری محبت بھری نظروں سے دیکھتے اسکی رخسار پر ہاتھ کی پشت پھیری ۔۔۔پری تو کانپ کر رہ گئی اسکی حرکت پر ۔۔۔۔

  پری کی طرف سے کسی نے کار کا دروازہ کھولا اسنے پہلے شیری کو دیکھا جسنے آنکھوں سے اسے ریلیکس رہنے کا اشارہ کیا ۔۔۔

پھر اسنے باہر کھڑی تین پینٹ کوٹ میں عورتوں کو دیکھا جس میں سے ایک اسکا کسی شہزادی کی طرح فراک کا باہر نکال رہی تھی اور دو نے اسکی طرف ہاتھ بڑھایا ۔۔۔۔
اسنے بوکھلائے اپنے دونوں ہاتھ انکے ہاتھ میں رکھے ۔۔۔جب شیری کی سرد سی آواز پیچھے آئی ۔۔۔
احتیات سے کوئی بھی تکلیف نا پہنچے ۔۔۔۔اس کے حکم پر سب نے ساتھ گھبراتے جواب دیا ۔۔۔۔۔
یس سر ۔۔۔اور کہنے کے ساتھ سفید روش پر اسے لیکر کسی شہزادی کی طرح اسے سنبھالتی   ہال کی طرف جارہی تھی ۔۔۔۔
پہلے تو پری کو کچھ سمجھ نا آیا جب کچھ لوگوں کی وائو کی آوازیں بیوٹیفل جیسے لفظ کانوں میں پڑے تو وہ رک کر خود کو دیکھنے لگی ۔۔۔وہ جب شیری کے ساتھ تھی تب اسنے اپنے آپ پر توجہ ہی نہیں دی تھی اور اب ان عورتوں کو دیکھ اپنے آپ کو دیکھ وہ ایکدم کسی بچی کی طرح خوش سے کھلکھلا اٹھی ۔۔۔۔

اسکی چہکتی کھلکھلاہٹ شیری کے کانوں میں پڑی تو وہ دل پر ہاتھ رکھ عنابی گداز لبو پر پیار بھری مسکراہٹ لیے سر سیٹ لگا گیا ۔۔۔۔
💕💕💕💕💕

Oh! My God she is look like princess ...
پھر دوسرے فقرے کانوں میں پڑے ۔۔۔۔
Yeah...  Like real princess in  the world..

پری بچوں کی طرح اپنی تعریف پر خوشی سے سرشار ہورہی تھی ۔۔۔ساتھ چلتی عورتیں بھی اسکے معصوم چہرے کو دیکھتی مسکرا رہی تھی ۔۔۔
اور کار میں بیٹھے شیری کو اسکے علاوہ اور کیا چاہیے تھا کہ وہ اسکی پسند پر خوش ہورہی تھی ۔۔۔

وہ ہال میں داخل ہوئی تو سب کے منہ کھل گئے ۔۔۔۔سب اسے دیکھ کر اسکی طرف لپکے ۔۔۔سفیان نے بتایا تھا کہ الطاف صاحب لیکر گئے تھے اسے ۔۔۔۔ تب سے وہ پریشان تھے ۔۔پر یہاں پری کا خوشی سے جھلملاتے چہرے کو دیکھ سب خاموش ہوگئے ۔۔۔۔سب سمجھے الطاف صاحب نے اسے ایسا بنا کر بیجا ہے ۔۔۔۔

سفیان دیکھ کر مسکرادیا ۔۔۔سالے صاحب تو ہم سے بھی تیز نکلے ۔۔۔۔واھ کیا بنا ڈالا ۔۔۔۔کیا کہنا تیرا شہریار ۔۔۔۔ہر کام میں ٹاپ ۔۔۔

وہ عورتیں اسے ہال میں چھوڑے سبکی حیرت سے پھٹی آنکھوں کو نظرانداز کرتی ایک دوسرے کے پیچھے سائیڈ پر کھڑی ہوگئی  ۔۔۔۔

اب پری سب کی نظریں خود پر محسوس کرتی جو تھوڑی دیر پہلے جو مسکرا رہی تھی اب گھبرانے لگی ۔۔۔۔

جب حور اور باقی کی لڑکیاں اسکی طرف آئی اور اسے سنبھالا ۔۔۔۔
پری کسنے تمہیں پرنسس بنا ڈالا ۔۔۔۔حور اسکے اردگرد پھر کر دیکھتی ہوئی حیریت سے پوچھنے لگی ۔۔۔
اسنے کچھ کہنا چہا پر پھر شیری کی بات یاد آئی تو چپ ہوگئی جس سے حور کو لگا شاید سفیان ٹھیک کہہ رہا تھا ۔۔۔۔
💕💕💕💕💕

سب رسمیں ختم ہونے کے بعد دلہا دلہن کو ملک ولا لایا گیا ۔۔۔وہاں پر انکا پھولوں کی برسات میں اچھے  سے ویلکم کیا گیا ۔۔۔۔

اسی دوران وہ عورتیں پری جہاں جہاں جاتی اس کے پیچھے پیچھے تھی ۔۔۔۔پری کو بھی مزا آنے لگا تو وہ بھی انکو بھرپور ستانے لگی ۔۔۔۔جس پر حور اور باقی لڑکیوں کا ہنس ہنس کر برا حال تھا ۔۔۔پھر بیچاریاں وہ بھی مسکرا دیتیں ۔۔۔پری کی حرکتوں کو بریک تب لگا جب رخصتی میں شیری بھی آگیا ۔۔۔۔

آدھے لوگ نوشین کے ساتھ تھے اور آدھے مشال والوں کے ساتھ ۔۔۔۔۔
مشال کو سجے دراب کے کمرے میں پہنچایا گیا ۔۔۔۔اور اب وہ گھونگھٹ میں سر جھکائے شور کرتی دھڑکنوں اور گھبرائے  اسکے پھولوں سے سجے مہکتے کمرے میں بیڈ پر بیٹھی تھی ۔۔۔۔ٹھکن سے چوڑ بدن کے ساتھ ۔۔۔آنکھیں بھی نیند سے بند ہونے کو تھی ۔۔۔

دراب کو اسکے دوستوں نے گھیر لیا ۔۔۔۔جس پر وہ اندر سے تو جھنجھلایا ہوا تھا پر منہ پر زبردستی مسکراہٹ لیے گھیرا  کھڑا تھا ۔۔۔۔
لڑکوں کے قہقہے تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے ۔۔۔۔
یار چھوڑ دو بیچارے بھائی کو بھابھی کو دیکھنے کے لیے کیسا چہرا بنا لیا ہے ۔۔۔جیسے قیدی کھڑا ہے ۔۔۔۔دراب کے دوست تھا جسے شاید اسکے اندر کی حالت پہ رحم آگیا تھا ۔۔۔۔
ایسے کیسے چھوڑ دیں پہلے نیک تو لینے دو ۔۔۔۔دوسرے کے کہنے پر سب کے قہقہے اور ساتھ دینے کا شور مچا ۔۔۔۔۔
ہوش میں تو ہو لڑکیاں ہو جو نیک لوگے ۔۔۔دراب نے حیرت سے بھرپور کہا ۔۔۔۔۔
دلہے صاحب دینا ہے تو دو ورنہ ہمارہ کیا پیسے نہیں تو کسی کی دعائیں ضرور مل جائیں گی ۔۔۔۔جس کی وجہ سے شاید ہماری بھی لاٹری لگ جائے ۔۔۔۔

اسکے کے مطلب پر کافی دل کھول ہنسے۔۔۔۔ پھر کیا بیچارے دراب کو بھی بھاری نیک دینا پڑا ۔۔۔۔
شہریار کو لوٹنے کا ٹائم پتا نہی کب آئے گا ۔اس اکڑو کو لوٹنے کا مزہ ہی کچھ اور ہوگا۔۔۔صوفے پر بیٹھے شیری کو دیکھ پیسے گنتے اسکا کزن بولا ۔۔۔۔

مجھے کیا اپنے جیسا بیوقوف سمجھا ہے جو ایسے موقعہ پر تم جیسے مچھروں کے بیچ آئوں ۔۔۔۔ اور ناہی پاگل کتے نے کاٹا ہے جو اتنا ٹائم الو بن کر اسٹیج پر بیٹھوں ۔۔۔
اسکی بات کا مطلب سمجھ کر جہاں اسکے کزن کا منہ کھلا تھا وہیں باقی کے زوردار قہقہے گونجے ۔۔۔۔
اور وہ سیٹی بجاتا جیب میں ہاتھ پھنسائے اوپر سیڑھیاں چرتا اپنے روم کی طرف چل دیا۔۔۔۔اپنی ملازموں کو اسنے یہاں پہنچنے پر ہی بیج دیا تھا واپس ۔۔۔۔
اسنے ہمیں مچھر بولا ۔۔۔۔پیچھے منہ کھلے اسکے کزن نے اسے جاتے دیکھ دوسروں سے کہا ۔۔۔
تو ٹھیک ہی تو کہہ رہا کیوں پھنسے مچھرو میں اور اپنے قیمتی ٹائم ویسٹ کرے ۔۔۔۔۔ہمیں بھی کچھ سیکھنا چاہیے اس سے ۔۔۔۔باقیوں کی رائے ۔۔۔۔

💕💕💕💕💕💕

پھر دراب بیچارے نے دروازے پر لگی لڑکیوں کی لائن میں خیرات دی تب جاکر وہ آزاد ہوا ۔۔۔۔۔پری کو اسنے منہ مانگی قیمت دی اندر جانے کے لیے ۔۔۔کیونکہ اسکا معصوم ہاتھ پھلائے دروازے کے سامنے کھڑی مانگ ہی ایسے رہی تھی کہ کسی کو بھی ترس آجائے ۔۔۔

مشال کی بیٹھ بیٹھ کر کمر اکڑ گئی تھی ۔۔۔ جب آہستہ سے دروازہ کھلا ۔۔۔۔اسکی نیند سے خمارزدہ آنکھوں میں شرم گھبراہٹ پھیل گئی تھی ۔۔۔۔اور دراب کے دروازہ بند کرنے پر وہ سمٹ سی گئی خود میں ۔۔۔۔

دراب آہستہ سا قدم اٹھائے خوشی سے سرشار بیڈ پر آکر سلام کرتا اسکے مقابلے بیٹھا ۔۔۔۔ 
جسکا جواب مشال نے سر کی مدد سے دیا ۔۔
کیسی ہو مسز۔۔۔۔اسنے خاموشی اور اسکی گھبراہٹ کو دور کرنا چاہا ۔۔۔۔
باقی سب تو ٹھیک ہے بس نیند ۔۔۔باقی کے الفاظ منہ میں ہی روک گئی خود کی پوزیشن کا خیال کرتی ۔۔۔اور شرمندگی سے آنکھیں میچے زبان دانتوں میں دے گئی ۔۔۔
اسکے جواب پر دراب کا قہقہہ لگا ۔۔۔۔
آپ ہنس کیوں رہے ہیں منہ میں آگیا ۔۔۔۔اسنے اسکے ہنسنے پر منہ بنا کر کہا ۔۔۔۔
جو بھی منہ میں آیا بالکل ٹھیک آیا ۔۔۔۔کہنے کے ساتھ بازو سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا جس پر وہ کسی کٹی ہوئی ڈھال کی طرح اسکے سینے سے لگی ۔۔۔۔
مشال اس اچانک حملے پر بوکھلا سی گئی ۔۔۔۔بے ساختہ منہ سے نکلا ۔۔۔۔دراب ۔۔۔۔
جی جانِ دراب ؟؟۔۔۔وہ کہتے اسکا گھونگھٹ اٹھانے لگا جب مشال گھبرائے بولی ۔۔۔
دراب مم۔۔میری منہ دیکھائی ۔۔۔وہ خود کو بمشکل اسکے حصار سے نکلتی بولتی اس سے دورہونے لگی ۔۔۔
اففف یار میں تو بھول گیا ۔۔۔۔وہ سر پر ہاتھ رکھے پریشان آواز میں بولا ۔۔۔
مشال کو تو جیسے کرنٹ سا لگا ایکدم گھونگھٹ اٹھائے۔۔۔

کیا ؟؟ آپ میری منہ دیکھائی نہیں لائے ۔۔۔ پھر یہاں کیوں آئے ہیں ۔۔۔۔وہ پہلے حیرت پھر غصے سے بولی۔۔۔

اسکے سجے روپ اور خمارزدہ آنکھوں میں غصہ دیکھ مسکراہٹ چھپائے چہرے پر سنجیدگی چھائے اسکی گود میں سر رکھ دیا ۔۔۔

مینے کب کہا نہیں لایا میں تو کہہ رہا تھا دینا بھول گیا۔۔۔ پر اب خیر کس بات کی منہ دیکھائی ۔۔۔۔منہ تو مجھے فری میں دیکھا دیا ۔۔۔نوزپن کو چھوتے ۔۔۔

 شرارت آنکھوں میں صاف ظاہر تھی ۔۔۔ پر مشال کو کہاں دیکھی وہ تو اسکے سر اپنی گود میں رکھنے پر ہی شرم سے پانی پانی ہوگئی ۔۔۔

آپ ہٹے دور مجھے نہیں کرنی بات پہلی رات میں ہی چیٹنگ ۔۔۔وہ منہ پھلائے اسکا سر اپنی گود سے اٹھائے اٹھی ۔۔۔۔بغیر اپنی بات پر دھیان دئے ۔۔۔

ہاں پہلی رات  چیٹنگ نہیں کرنی چائیے تھی ۔۔۔اسکے لیے تو پوری زندگی پڑی ہے ۔۔۔ معنی خیزی سے کہتے اسے بھی اپنے ساتھ بیڈ پر گرایا ۔۔۔۔اور اس پر جھکا ۔۔۔۔
د۔۔دراب ۔۔۔وہ صرف کہتی رہ گئی ۔۔۔۔دراب کی شدتوں اور جسارتوں اسے جھلسانے لگی ۔۔۔۔پر اسکی سانسوں کو اپنے اندر اتاتے اسکے ہوشربا حسن میں کھوسا گیا ۔۔۔۔

پھر اسکے بھاری شرارے میں ٹھکی حالت پر رحم کھاتا دور ہوا ۔۔
جائوں چینج کرکے آئو ۔۔۔۔اسکا گال تھپتھپاکر دور ہوا ۔۔۔۔
مشال اپنے سرخ انگارہ گلنار چہرے لیے ڈریسنگ آئینے کے سامنے سر جھکائے اپنے زیور اتارتی  دراب کی تپش دیتی نظروں سے گھبراتی جلدی سے باتھروم میں بھاگی ۔۔۔۔۔
 اور دروازہ بند کرتی اس کے ساتھ لگی لمبے لمبے سانس لینے لگی ۔۔۔۔جسم کا سارا  خون منہ پر آگیا تھا ۔۔۔۔سرخ چہرے سمیت وہ آنکھیں موندیں خود کی حالت کو نارمل کرنے لگی ۔۔۔
کچھ دیر بعد وہ فریش ہوتی جب اپنے نائٹ سوٹ کی طرف دیکھا تو شرم سے دہری ہوگئی وہاں پر ہاف سلیو پنک نائٹی ۔۔۔موجود تھی ۔۔۔۔۔
پھر ناچار اس آفت شرارے سے جان بچاتی ۔۔۔ مجبوراً اس وہ پہننی پڑی ۔۔۔۔۔
دراب بیڈ پر بیٹھا اسکے منتظر تھا ۔۔۔۔ جب وہ آہستہ سے دروازے میں پنک نائٹی میں سر جھکائے سرخ چہرے سمیت نمودار ہوئی ۔۔۔۔
 دراب تو جیسے کھو سا گیا اسکے بھیگے چہرے اور نائٹی میں جھلنلاتے ہوشربا حسن میں ۔۔۔۔اور آہستہ سا قدم بھڑا کر اس تک پہنچا ۔۔
مشال اسے سامنے پاکر دور سی ہونے لگی ۔۔۔۔جب دراب نے اسے کھینچ اپنے قریب کر کے ۔۔۔ اسکے پشت پر بیگھے بالو کو آگے کرتے 

آہستہ سے  اسکے گلے میں ہیروں کا نفیس سہ نیکلس پہنا کر وہاں پر اپنے دہکتے لبوں سے چھولیا اور پھر ہاتھ میں ہیروں کا بریسلیٹ پہنایا ۔۔۔۔اور اسکی کلائی کو چومہ ۔۔۔

مشال تو خود میں ہی سمٹ سی رہی تھی ۔۔۔دراب اسے لیکر بیڈ کی طرف آیا ۔۔۔۔
آئی لو یو مشال ۔۔۔کیا تم بھی مجھ سے پیار کرتی ہو؟؟اور کرتی رہوگی؟؟ ۔۔۔اسکے جزبے سے چوڑ لہجے میں پوچھا مشال کا تو حال ہی برا کردیا ۔۔۔وہ شرما کر اسکے سینے میں منہ چھپا گئی ۔۔۔۔جسکا مطلب اقرار کرگئی تھی ۔۔۔۔

دراب بھی اسکے اقرار پر سرشار  ہاتھ بڑھا کر لائیٹ آف کرتے خود بھی آنکھیں موند گیا اسے سینے میں بھینچے ۔۔۔۔۔۔پھر جیسے جیسے رات گذرتی گئی دراب کی شدتیں بھرتی گئی ۔۔۔۔

💕💕💕💕💕

Episode 25 Tera Ashiq May Diwana Ho Awara 



#تیرا_عاشق_میں_دیوانہ_ہوں_آوارہ💕
#از__مہوش_علی۔ ۔
#قسط__25
💕💕💕💕💕

صبح دراب کی ونڈو سے آتی سورج کی روشنی پر آنکھ کھلی تو اسنے ٹائم دیکھا گیارہ  بج رہے تھے رات کو لیٹ آنے  سے شاید اس لیے کوئی انہیں جگانے نہیں آیا تھا   ۔۔۔

اسنے مسکرا کر اپنے بازو پر سر رکھے ایک ہاتھ اسکے سینے پر رکھے سکون سے سوئی ہوئی مشال کو دیکھا ۔۔۔ اسکے ماتھے پر بوسہ دیتے آہستہ سے اسکا سر تکیے پر رکھ کر اٹھا اور ونڈو کو بند کرتے پردے برابر کردئے ۔۔۔۔
پھر مڑ کر چلتا سوئی ہوئی مشال کو واپس اپنے قریب کرتے ۔۔۔

آہستہ سے اسکے گھنے بیڈ پر پھیلے بالوں میں اپنی انگلیاں چلائی ۔۔۔جس پر وہ تھوڑا کسمسائی ۔۔۔پھر قریب ہوکر سوگئی ۔۔۔۔اسکی حرکت پر دراب کے خوبصورت چہرے پر شرارتی مسکراہٹ سی چھائی ۔۔۔ 
لگتا ہے مسز ۔۔اٹھنے کا موڈ نہیں ۔۔۔۔میرا بھی نہیں  تو کیا خیال ہے ۔۔۔۔
اسکے کان سے بالوں کو پہچھے کرتی گھمبیر سی سرگوشی کی اور کان کی لو پر اپنے ہونٹ رکھ دیے ۔۔۔۔مشال کی آنکھیں پھٹ سے کھل گئی پہلے تو کچھ سمجھ نا آیا۔۔۔۔۔پھر رات کا سارہ منظر آنکھوں کے سامنے لہرایا تو۔۔۔۔ وہ سرخ ٹماٹر جیسی ہوگئی۔۔۔۔خود پر جھکے دراب کو واپس پٹری سے اترتے دیکھ کر وہ ہڑبڑا کر اسے پیچھے دھکیلنے لگی ۔۔۔۔۔

دد۔۔۔دراب یہ۔۔یہ کیا کر رہے ہیں ۔۔۔ہٹیے پیچھے سب ہمارا انتظار کر رہے ہوں گے ۔۔۔۔اسکی شرم سے جھجھکتی آواز کانوں میں پڑی ۔۔۔۔۔

کوئی انتظار نہیں کر رہا جانِ دراب ۔۔ سب کو پتا ہے ٹھکے ہوئے ہیں ۔۔۔کہتے اسکے سرخ ہونٹوں کو فوکس کرتے پیار بھری جسارت کرگیا ۔۔۔مشال کی تو واپس سانسیں اٹکنے لگی ۔۔۔۔
اسکی واپس بھرتی شدتوں سے گھبراتی بولی ۔۔۔ دد۔۔۔دراب مجھے ک۔۔کچھ کہنا ہے ۔۔۔اسکی اٹکتی آواز پر دراب نے سر اٹھا کر اسے دیکھا ۔۔۔وہ اسکی خمارزدہ ہوتی آنکھوں میں دیکھنے سے کترا رہی تھی ۔۔۔۔
ہاں بولوں میں تمہیں ہی سننا چاہتا ہوں ۔۔۔اسکی پیشانی سے اپنی پیشانی ٹکرائے گھمبیر بھاری آواز میں بولا ۔۔۔
آ۔۔آپکو کچھ دیکھانا ہے ۔۔۔۔
 کیا ؟؟ وہ  تھوڑا دور ہوکر بولا ۔۔
یہ ۔۔۔مشال کہتی  اسے پوری طاقت سے پیچھے دھکیلتی ۔۔۔ایکدم اٹھ کر بیڈ سے دور  بھاگی ۔۔۔اسکی چالاکی پر دراب کے قہقہے تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے ۔۔۔

وہ بھی چہرے پر شرمائی سی مسکراہٹ لیے ایک نفیس گرین سوٹ لیے باتھروم میں بند ہوگئی ۔۔۔۔ 

ہاہاہا ۔۔مسز بہت تیز ہو ۔۔۔۔۔ پر خیر آگے ہم بھی دراب ملک ہیں ۔۔۔ ہم سے بچنا اب آپکے لیے دنیا کا مشکل ترین کام ہے ۔۔۔۔۔وہ ہنستہ باتھروم کے بند دروازے کو دیکھتے بولا ۔۔۔۔ اسکی باتیں مشال کی دھڑکنوں کو بے ترتیب کرتی ادھم مچانے لگی تھی ۔۔۔

پھر کچھ دیر بعد وہ فریش باتھروم سے نکلتی اپنے لمبے بھیگے  بالوں سے چھوٹی چھوٹی پانی کی بوندیں ٹپکاتی ڈریسنگ آئینے کے سامنے آئی ۔۔۔۔

دراب ویسے ہی بیڈ پر پڑا اسے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔
وہ بالوں کو خشک کرتی انہیں کلپ میں جکڑنے لگی ۔۔۔جب پیچھے سے دراب نے واپس انہیں کلپ سے آزاد کروا دیا ۔۔۔اور اپنے گھیرے میں لیکر اسکے نازک کندھے پر اپنی ٹھوڑی رکھ دی ۔۔۔
انہیں اسے ہی رہنے دو جانِ دراب ۔۔۔اسکے بالوں میں منہ دئے اسکا رخ اپنی طرف کیا ۔۔۔۔
مشال تو سمٹ سی گئی ۔۔۔جب دراب نے اپنے دہکتے لب اسکی گردن پر رکھے ۔۔۔۔اور کمر پر پکڑ مضبوط کرلی ۔۔۔۔

وہ سانس روکے اسکے سینے پر ہاتھ رکھے کھڑی تھی ۔۔۔دراب اسکا چہرا اوپر اٹھائے اس پر جھکنے لگا جب دروازے پر دستک ہوئی ۔۔۔
مشال ہڑبڑا کر دور ہوئی ۔۔۔۔
دد۔۔دیکھا مینے کہا تھا نا کوئی آجائے گا ۔۔۔۔وہ بوکھلائی ایسے لگ رہی تھی جیسے کسی چھاپا مار دیا ہو ۔۔۔۔
تمنے یہ کب کہا ۔۔۔۔تم تو خود قریب آکر میری نیت خراب کر رہی تھی صبح صبح ۔۔۔دراب نے بھی اپنا کچھ دیر پہلے کا بیوقوف بننے کا حساب برابر کیا ۔۔۔ اسکی بات پر مشال کی آنکھیں پھٹ گئی ۔۔۔

مینے آپکی نیت خراب کی ۔۔۔۔وہ رونے جیسی ہوگئی ۔۔۔۔
اور نہیں تو کیا ۔۔۔دراب اسکی شکل دیکھ مسکراہٹ دبائے اپنا ڈریس نکالنے لگا ۔۔۔۔

آ۔۔آپ کتنے جھوٹے ہیں خود جو سا۔۔۔۔باقی کی بات وہ شرم سے بول نہیں پائی اور منہ بناکر دروازے پر ملازمہ کو جواب دیا جو سب انکا انتظار کر رہے تھے ناشتے کی ٹیبل پر ۔۔۔۔کہنے آئی تھی ۔۔۔۔

ہاں ہاں بتائو مینے کیا سا۔۔۔۔وہ بھی محظوظ ہوتا اسکے سرخ چہرے کو دیکھ اسے آگے کہنے پر اکسانے لگا ۔۔۔۔

کچھ نہیں ۔۔۔۔وہ کہتی جانے لگی جب دراب نے اپنی طرف کھینچ کر ۔۔۔اسکے ماتھے پر اپنے ہونٹ رکھ کر بولا ۔۔۔
مزاق کر رہا تھا ۔۔۔۔۔جانِ دراب ۔۔۔۔پھر اسکی آنکھوں میں نمی کو صاف کرتے اسے اپنے ساتھ لگا لیا ۔۔۔

💕💕💕💕💕

عالیہ بیگم اور حور نوشین کا ناشتا لیکر گئی تھی ۔۔فراز صاحب والو کے یہاں ۔۔۔
مشال دراب دونوں ساتھ آکر ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھے ۔۔۔عائمہ بیگم مشال کے   شرمائے سے چہرے کو دیکھ کر سدا خوش رہنے کی دعا کرنے لگی ۔۔۔۔
سب وہاں موجود تھے سوائے شیری کے جو ہمیشہ نہیں ہوتا تھا ۔۔۔۔

وہ رات کو دیر تک کام کرتا رہا۔۔۔صبح ہی اسکی آنکھ لگی تھی تو ابھی تک سورہا تھا ۔۔۔۔اسے دو دن میں نکلنا تھا ۔۔۔۔اس لیے وقت کم تھا تو ساری رات سگریٹ نوشی کے دوران لیپ ٹاپ پر اپنا ورک فنش کرتا رہا ۔۔۔۔

 احمد صاحب کی نظروں نکما بنتے۔۔۔۔
رات کو ولیمہ تھا ۔۔۔۔پھر سب تیاریوں میں لگ گئے ۔۔۔۔

💕💕💕💕💕

زہے نصیب بڑے بڑے لوگ آئے ہیں ۔۔۔۔سفیان اسے نوشین کے کمرے کی طرف جاتے دیکھ اچانک سامنے  آکر  بولا ۔۔۔۔وہ ابھی فریش ہوکر ناشتے کی ٹیبل پر جارہا تھا ۔۔۔۔اسکے وہم گمان میں بھی نہیں تھا کہ صبح صبح اسے دیکھے گا ۔۔۔۔اور اب جب دیکھا تو چہکتا بولا ۔۔۔

حور اس اچانک سامنے آنے پڑ خود کو نا سنبھال پائی تو  ۔۔۔ زور سے سر اسکے سینے سے لگا ۔۔۔ جس سے اسکو صبح صبح رات کے تارے دیکھنے لگے ۔۔۔
اتنی جلدی کیا ہے ابھی تو بھابھی آئی ہے ۔۔۔۔۔تھوڑا صبر کرو جب تک میں اسے مسکے لگائوں تو وہ ہماری بات چلائے ۔۔۔۔وہ اسکے گرد حصار بنائے شرارت سے بولا ۔۔۔اسکا اشارہ حور کا اپنے سینے سے لگنے کی طرف تھا۔۔۔۔
 حور اسکے اچانک سامنے آنے اور اس پر بات ڈالنے پر غصے سے لال پیلی ہوگئی ۔۔۔۔
اور اسے دھکا دے کر دور ہوئی ۔۔۔۔۔

ہٹو پیچھے کمینے تمہارے ساتھ بات چلے گی کسی بندریا کی ۔۔۔۔۔ وہ اپنا سر مسلتی دور ہوئی اور غصے سے بولی ۔۔۔۔
ہاں سمجھوں بندریا ہی نصیب میں ہے ۔۔۔۔ جو آبھی گئی ہے ۔۔۔اور تو اور سامنے بھی کھڑی ہے چشمش چھوٹی ناک والی ۔۔۔۔۔
اور اسے ذرا بھی تمیز نہیں کہ شوھر کو کمینہ نہیں بولتے اگر وہ کمینہ ہوگیا تو بیچاری چشمش کو چشمے میں بھی دن کو تارے دیکھا دے گا ۔۔۔وہ اسکی چھوٹی غصے سے سرخ ناک کو چھوتے بولا ۔۔۔

ہمیشہ بکواس ہی کرتے رہنا ۔۔۔۔۔وہ اسکا ہاتھ جھٹکتی ہوئی جانے لگی ۔۔۔جب پیچھے سے وہ دوپٹے سے پکڑ اسے روک گیا ۔۔۔

اجازت  تو دو  بہت کچھ کر سکتے ہیں بکواس کے علاوہ ۔۔۔۔سرگوشی میں کہتے ۔۔۔ حور کو ساکت چھوڑ کر وہاں سے چلا گیا ۔۔۔۔
اییی۔۔۔۔۔وہ مٹھیا بھیچ کر غصہ خود پر ہی نکالنے لگی ۔۔۔۔کمینہ ۔بےہودہ ۔ ناہو تو ۔۔۔۔۔ہوں دعا کرو شیری کو نہیں پتا تمہاری بے ہودگی کے بارے ورنہ وہ تو تمہیں زندہ گاڑھ دیتے زمین میں ۔۔۔۔

اسکی پشت کو دیکھتی بولی ۔۔۔۔۔

پھر کڑتی جلتی ۔۔۔۔نوشین کو بلاکر واپس ڈائیننگ ٹیبل پر بیٹھ گئی ۔۔۔پر وہاں بھی سفیان کی نظروں سے پریشان ہوتی رہی ۔۔۔۔

💕💕💕💕💕

ولیمہ شاندار طریقے سے ہوچکا تھا ۔۔۔۔اب سب اپنی اتنے دنوں کی نیند پوری کرنے چلے گئے اپنے رومز میں ۔۔۔۔حور بھی اپنے روم میں چینج کرکے سوچکی تھی ۔۔۔۔

پری بھی سونے کی پوری کوشش کر رہی تھی پر جب آنکھیں موندتی تو الطاف صاحب کا بے بس چہرا سامنے آجاتا ۔۔۔کچھ بھی تھا وہ ایک بیٹی اور نرگس جیسی حساس رحم دل تھی ۔۔۔نا وہ کسی کو تکلیف دیتی تھی ۔۔۔ نا تکلیف میں دیکھ سکتی تھی پر یہاں تو بات اسکے سگے باپ کی تھی ۔۔۔۔۔

کچھ بھی تھا کیسا بھی تھا اسکا باپ تھا کوئی بھی اولاد جوان ہو یا نا سمجھ پر اپنے باپ کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا ۔۔۔۔ تو یہ حساس دل کیسے دیکھتی اپنو کو تکلیف میں۔۔۔ اسکا ماں کی ممتا باپ کی محبت احساس سے پیاسا دل ۔۔۔ اسے بے چین کر رہا تھا ۔۔۔۔
اسے اکسا رہا تھا کہ وہ جائے اپنے باپ کی چھائوں کو محسوس کرے ۔۔۔۔ اس سے لاڈ اٹھائے باتیں کرے جو وہ کسی بھی جھنجھلاہٹ کے بغیر اسکی اٹکتی باتیں سنے ۔۔۔۔۔

یہ سب سوچتے کب اسکی آنکھیں بہنے لگی اسے بھی پتا نا چلا ۔۔۔۔

💕💕💕💕💕💕

رات کے تین بج رہے تھے ۔۔۔۔ سب سو گئے تھے ۔۔۔۔ وہ اٹھا اور آہستہ سے بغیر آواز کیے دروازہ کھولا ۔۔۔۔باہر نکلا ۔۔۔۔گھر پر نظر ڈالی تو پورے گھر میں سکوت چھایا ہوا تھا ۔۔۔ 
پھر دروازہ بند کرتے کمرے واپس آیا ۔۔۔۔اسنے بلیک ہُڈ پہنی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔آہستہ سے کھڑکی کھول کر وہ اسے سے لان کو دیکھنے لگا صرف دو گارڈز موجود تھے دور گیٹ پر ۔۔۔۔
وہ کھڑکی سے نکل کر آہستہ آہستہ پائپ کے ذریے کھسکتے نیچے کی جانب اترنے لگا وہ اتنی احتیات سے یہ سب کر رہا تھا کہ سامنے موجود گارڈز بھی اسے نہیں  دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔
ویسے بھی وہ انکے سامنے چلا جاتا تو بھی کچھ نا ہوتا پر وہ یہ سب ابھی کسی پہ بھی ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا کہ وہ کون ہے ۔۔۔

وہ جانتا تھا عالم کے کتنے دشمن ہیں اور وہ اسکے ساتھ ہے یہ جانتے اسے پتا تھا کہ اگر اس سب کی کسی  کو بلک  بھی لگ گی کہ وہ عالم کے ساتھ ہے یا وہ ایک میجر ہے تو اسے  فیملی کے ذریے ٹورچر کیا جاتا ۔۔۔ جو وہ کبھی برداش نہیں کر سکتا تھا کہ اسکی وجہ سے اسکی فیملی کو کچھ ہو ۔۔۔ اس لیے وہ زیادہ دور رہتا تھا اپنی فیملی سے ۔۔۔۔

یہ سب کر کے وہ جانتا تھا کہ اپنے باپ کو تکلیف دے رہا ہے ۔۔۔۔پر وہ مجبور تھا اپنے ضمیر کے آگے وہ نہیں دیکھ سکتا تھا کہ کوئی ۔۔۔۔ ان معصوموں کو نوچے ۔۔انہیں اپنے ہوس کا شکار بنائے ۔۔۔۔ انکو اپنا کاروبار بنا کر انکے خاندان مان باپ سے جدا کرے کے دوسرے ملکوں میں انہیں بیجیں ۔۔۔۔ وہ ایک مسلمان تھا ۔۔۔۔ اور ایک مسلمان خاموشی سے گناھ ہوتے نہیں دیکھ سکتا تھا ۔۔۔۔

انکی سزا دینے کا طریقہ غلط تھا پر انہیں ایسے سزا دے کر وہ اپنے اندر کی آگ کو ٹھنڈا کرتے تھے ۔۔۔ انہیں احساس دلاتے تھے کہ جہیں وہ اپنے ہوس کا شکار بناتے ہیں ، جنکے ساتھ کھیلتے انکی زندگی دردندگی سے چھین لیتے ہیں انہیں کتنی تکلیف ہوتی ہے انکے ماں باپ اچانک ، مدرسے ، اسکول کالج یونیورسٹی یا گھر کی گلی میں  یا بازار سے انکی پھولوں پلی نازک پریاں غائب ہوجاتی ہیں ۔۔۔تو ان پر کیا بیتتی ہے ۔انکا جینا کیسا ہوتا ہے دن رات اپنی جوان بیٹیوں کے اچانک غائب ہونے پر کیسے تڑپتے ہیں ۔۔۔۔۔ویسے ہی وہ انہیں تڑپاتا تھا ۔۔۔۔
یہ سب احساس وہ انہیں انکے وجود سے دلاتے تھے ۔۔۔۔ 

وہ عالم کے ساتھ تھا ۔۔۔اسکے ہم قدم تھا ۔۔۔۔
عالم کوئی عام آدمی یا کوئی آفیسر نہیں تھا ۔۔۔۔ وہ ایک ورلڈ ڈان تھا ۔۔۔ایک گینگسٹر  تھا ۔۔۔حیوان تھا وحشیوں کے لیے۔۔۔۔جس کے قہر تو دور نام سنتے ہی لوگ کانپ جاتے تھے ۔۔۔۔
اس کے پاس ہر طرح کا سپورٹ حاصل تھا ۔۔۔ جیسے شیری گھر کا ایک نکما لڑکا ۔۔ یونی میں لڑکیوں کا کرش اور آرمی کا جیدار  میجر شہریار ۔۔۔۔اور عالم کا شیر ۔۔۔۔۔۔

💕💕💕💕💕

پائپ سے اترکر وہ دبے قدموں سے دیوار کی طرف بڑھنے لگا ۔۔۔ وہاں پہنچ کر جمپ لگایا اور دیوار پھیلانگ کر گھر کے باہر تھا ۔۔۔۔

ابھی کچھ قدمیں لیے تھے کہ سامنے ہی بلال گاڑی لیے اسکے انتظار میں تھا ۔۔۔۔
وہ خاموشی سے آکر گاڑی میں بیٹھ گیا ۔۔۔ اور سگریٹ سلگاکر عنابی ہونٹوں میں دبا لیا ۔۔۔۔اسکی بھوری آنکھوں میں سرد پن سا اتر آیا تھا ۔۔۔ چہرے پر پراسرار سی چمک تھی ۔۔۔۔

بلال تو آگے کا سوچ کر جھرجھری لی اور گاڑی اسٹارٹ کردی ۔۔۔۔۔

💕💕💕💕💕💕











Post a Comment

Previous Post Next Post