Tera Ashiq Me Dewana Ho Awara Mehwish Ali 26 to 30

Tera Ashiq Me Dewana Ho Awara Mehwish Ali 26 to 30 oline read and pdf download 
Tera Ashiq Me Dewana Ho Awara Mehwish Ali 26 to 30


Tera Ashiq Me Dewana Ho Awara Mehwish Ali 26

#تیرا_عاشق_میں_دیوانہ_ہوں_آوارہ💕
#از__مہوش_علی۔ ۔
#قسط__25
💕💕💕💕💕

صبح دراب کی ونڈو سے آتی سورج کی روشنی پر آنکھ کھلی تو اسنے ٹائم دیکھا گیارہ  بج رہے تھے رات کو لیٹ آنے  سے شاید اس لیے کوئی انہیں جگانے نہیں آیا تھا   ۔۔۔

اسنے مسکرا کر اپنے بازو پر سر رکھے ایک ہاتھ اسکے سینے پر رکھے سکون سے سوئی ہوئی مشال کو دیکھا ۔۔۔ اسکے ماتھے پر بوسہ دیتے آہستہ سے اسکا سر تکیے پر رکھ کر اٹھا اور ونڈو کو بند کرتے پردے برابر کردئے ۔۔۔۔
پھر مڑ کر چلتا سوئی ہوئی مشال کو واپس اپنے قریب کرتے ۔۔۔

آہستہ سے اسکے گھنے بیڈ پر پھیلے بالوں میں اپنی انگلیاں چلائی ۔۔۔جس پر وہ تھوڑا کسمسائی ۔۔۔پھر قریب ہوکر سوگئی ۔۔۔۔اسکی حرکت پر دراب کے خوبصورت چہرے پر شرارتی مسکراہٹ سی چھائی ۔۔۔ 
لگتا ہے مسز ۔۔اٹھنے کا موڈ نہیں ۔۔۔۔میرا بھی نہیں  تو کیا خیال ہے ۔۔۔۔
اسکے کان سے بالوں کو پہچھے کرتی گھمبیر سی سرگوشی کی اور کان کی لو پر اپنے ہونٹ رکھ دیے ۔۔۔۔مشال کی آنکھیں پھٹ سے کھل گئی پہلے تو کچھ سمجھ نا آیا۔۔۔۔۔پھر رات کا سارہ منظر آنکھوں کے سامنے لہرایا تو۔۔۔۔ وہ سرخ ٹماٹر جیسی ہوگئی۔۔۔۔خود پر جھکے دراب کو واپس پٹری سے اترتے دیکھ کر وہ ہڑبڑا کر اسے پیچھے دھکیلنے لگی ۔۔۔۔۔

دد۔۔۔دراب یہ۔۔یہ کیا کر رہے ہیں ۔۔۔ہٹیے پیچھے سب ہمارا انتظار کر رہے ہوں گے ۔۔۔۔اسکی شرم سے جھجھکتی آواز کانوں میں پڑی ۔۔۔۔۔

کوئی انتظار نہیں کر رہا جانِ دراب ۔۔ سب کو پتا ہے ٹھکے ہوئے ہیں ۔۔۔کہتے اسکے سرخ ہونٹوں کو فوکس کرتے پیار بھری جسارت کرگیا ۔۔۔مشال کی تو واپس سانسیں اٹکنے لگی ۔۔۔۔
اسکی واپس بھرتی شدتوں سے گھبراتی بولی ۔۔۔ دد۔۔۔دراب مجھے ک۔۔کچھ کہنا ہے ۔۔۔اسکی اٹکتی آواز پر دراب نے سر اٹھا کر اسے دیکھا ۔۔۔وہ اسکی خمارزدہ ہوتی آنکھوں میں دیکھنے سے کترا رہی تھی ۔۔۔۔
ہاں بولوں میں تمہیں ہی سننا چاہتا ہوں ۔۔۔اسکی پیشانی سے اپنی پیشانی ٹکرائے گھمبیر بھاری آواز میں بولا ۔۔۔
آ۔۔آپکو کچھ دیکھانا ہے ۔۔۔۔
 کیا ؟؟ وہ  تھوڑا دور ہوکر بولا ۔۔
یہ ۔۔۔مشال کہتی  اسے پوری طاقت سے پیچھے دھکیلتی ۔۔۔ایکدم اٹھ کر بیڈ سے دور  بھاگی ۔۔۔اسکی چالاکی پر دراب کے قہقہے تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے ۔۔۔

وہ بھی چہرے پر شرمائی سی مسکراہٹ لیے ایک نفیس گرین سوٹ لیے باتھروم میں بند ہوگئی ۔۔۔۔ 

ہاہاہا ۔۔مسز بہت تیز ہو ۔۔۔۔۔ پر خیر آگے ہم بھی دراب ملک ہیں ۔۔۔ ہم سے بچنا اب آپکے لیے دنیا کا مشکل ترین کام ہے ۔۔۔۔۔وہ ہنستہ باتھروم کے بند دروازے کو دیکھتے بولا ۔۔۔۔ اسکی باتیں مشال کی دھڑکنوں کو بے ترتیب کرتی ادھم مچانے لگی تھی ۔۔۔

پھر کچھ دیر بعد وہ فریش باتھروم سے نکلتی اپنے لمبے بھیگے  بالوں سے چھوٹی چھوٹی پانی کی بوندیں ٹپکاتی ڈریسنگ آئینے کے سامنے آئی ۔۔۔۔

دراب ویسے ہی بیڈ پر پڑا اسے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔
وہ بالوں کو خشک کرتی انہیں کلپ میں جکڑنے لگی ۔۔۔جب پیچھے سے دراب نے واپس انہیں کلپ سے آزاد کروا دیا ۔۔۔اور اپنے گھیرے میں لیکر اسکے نازک کندھے پر اپنی ٹھوڑی رکھ دی ۔۔۔
انہیں اسے ہی رہنے دو جانِ دراب ۔۔۔اسکے بالوں میں منہ دئے اسکا رخ اپنی طرف کیا ۔۔۔۔
مشال تو سمٹ سی گئی ۔۔۔جب دراب نے اپنے دہکتے لب اسکی گردن پر رکھے ۔۔۔۔اور کمر پر پکڑ مضبوط کرلی ۔۔۔۔

وہ سانس روکے اسکے سینے پر ہاتھ رکھے کھڑی تھی ۔۔۔دراب اسکا چہرا اوپر اٹھائے اس پر جھکنے لگا جب دروازے پر دستک ہوئی ۔۔۔
مشال ہڑبڑا کر دور ہوئی ۔۔۔۔
دد۔۔دیکھا مینے کہا تھا نا کوئی آجائے گا ۔۔۔۔وہ بوکھلائی ایسے لگ رہی تھی جیسے کسی چھاپا مار دیا ہو ۔۔۔۔
تمنے یہ کب کہا ۔۔۔۔تم تو خود قریب آکر میری نیت خراب کر رہی تھی صبح صبح ۔۔۔دراب نے بھی اپنا کچھ دیر پہلے کا بیوقوف بننے کا حساب برابر کیا ۔۔۔ اسکی بات پر مشال کی آنکھیں پھٹ گئی ۔۔۔

مینے آپکی نیت خراب کی ۔۔۔۔وہ رونے جیسی ہوگئی ۔۔۔۔
اور نہیں تو کیا ۔۔۔دراب اسکی شکل دیکھ مسکراہٹ دبائے اپنا ڈریس نکالنے لگا ۔۔۔۔

آ۔۔آپ کتنے جھوٹے ہیں خود جو سا۔۔۔۔باقی کی بات وہ شرم سے بول نہیں پائی اور منہ بناکر دروازے پر ملازمہ کو جواب دیا جو سب انکا انتظار کر رہے تھے ناشتے کی ٹیبل پر ۔۔۔۔کہنے آئی تھی ۔۔۔۔

ہاں ہاں بتائو مینے کیا سا۔۔۔۔وہ بھی محظوظ ہوتا اسکے سرخ چہرے کو دیکھ اسے آگے کہنے پر اکسانے لگا ۔۔۔۔

کچھ نہیں ۔۔۔۔وہ کہتی جانے لگی جب دراب نے اپنی طرف کھینچ کر ۔۔۔اسکے ماتھے پر اپنے ہونٹ رکھ کر بولا ۔۔۔
مزاق کر رہا تھا ۔۔۔۔۔جانِ دراب ۔۔۔۔پھر اسکی آنکھوں میں نمی کو صاف کرتے اسے اپنے ساتھ لگا لیا ۔۔۔

💕💕💕💕💕

عالیہ بیگم اور حور نوشین کا ناشتا لیکر گئی تھی ۔۔فراز صاحب والو کے یہاں ۔۔۔
مشال دراب دونوں ساتھ آکر ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھے ۔۔۔عائمہ بیگم مشال کے   شرمائے سے چہرے کو دیکھ کر سدا خوش رہنے کی دعا کرنے لگی ۔۔۔۔
سب وہاں موجود تھے سوائے شیری کے جو ہمیشہ نہیں ہوتا تھا ۔۔۔۔

وہ رات کو دیر تک کام کرتا رہا۔۔۔صبح ہی اسکی آنکھ لگی تھی تو ابھی تک سورہا تھا ۔۔۔۔اسے دو دن میں نکلنا تھا ۔۔۔۔اس لیے وقت کم تھا تو ساری رات سگریٹ نوشی کے دوران لیپ ٹاپ پر اپنا ورک فنش کرتا رہا ۔۔۔۔

 احمد صاحب کی نظروں نکما بنتے۔۔۔۔
رات کو ولیمہ تھا ۔۔۔۔پھر سب تیاریوں میں لگ گئے ۔۔۔۔

💕💕💕💕💕

زہے نصیب بڑے بڑے لوگ آئے ہیں ۔۔۔۔سفیان اسے نوشین کے کمرے کی طرف جاتے دیکھ اچانک سامنے  آکر  بولا ۔۔۔۔وہ ابھی فریش ہوکر ناشتے کی ٹیبل پر جارہا تھا ۔۔۔۔اسکے وہم گمان میں بھی نہیں تھا کہ صبح صبح اسے دیکھے گا ۔۔۔۔اور اب جب دیکھا تو چہکتا بولا ۔۔۔

حور اس اچانک سامنے آنے پڑ خود کو نا سنبھال پائی تو  ۔۔۔ زور سے سر اسکے سینے سے لگا ۔۔۔ جس سے اسکو صبح صبح رات کے تارے دیکھنے لگے ۔۔۔
اتنی جلدی کیا ہے ابھی تو بھابھی آئی ہے ۔۔۔۔۔تھوڑا صبر کرو جب تک میں اسے مسکے لگائوں تو وہ ہماری بات چلائے ۔۔۔۔وہ اسکے گرد حصار بنائے شرارت سے بولا ۔۔۔اسکا اشارہ حور کا اپنے سینے سے لگنے کی طرف تھا۔۔۔۔
 حور اسکے اچانک سامنے آنے اور اس پر بات ڈالنے پر غصے سے لال پیلی ہوگئی ۔۔۔۔
اور اسے دھکا دے کر دور ہوئی ۔۔۔۔۔

ہٹو پیچھے کمینے تمہارے ساتھ بات چلے گی کسی بندریا کی ۔۔۔۔۔ وہ اپنا سر مسلتی دور ہوئی اور غصے سے بولی ۔۔۔۔
ہاں سمجھوں بندریا ہی نصیب میں ہے ۔۔۔۔ جو آبھی گئی ہے ۔۔۔اور تو اور سامنے بھی کھڑی ہے چشمش چھوٹی ناک والی ۔۔۔۔۔
اور اسے ذرا بھی تمیز نہیں کہ شوھر کو کمینہ نہیں بولتے اگر وہ کمینہ ہوگیا تو بیچاری چشمش کو چشمے میں بھی دن کو تارے دیکھا دے گا ۔۔۔وہ اسکی چھوٹی غصے سے سرخ ناک کو چھوتے بولا ۔۔۔

ہمیشہ بکواس ہی کرتے رہنا ۔۔۔۔۔وہ اسکا ہاتھ جھٹکتی ہوئی جانے لگی ۔۔۔جب پیچھے سے وہ دوپٹے سے پکڑ اسے روک گیا ۔۔۔

اجازت  تو دو  بہت کچھ کر سکتے ہیں بکواس کے علاوہ ۔۔۔۔سرگوشی میں کہتے ۔۔۔ حور کو ساکت چھوڑ کر وہاں سے چلا گیا ۔۔۔۔
اییی۔۔۔۔۔وہ مٹھیا بھیچ کر غصہ خود پر ہی نکالنے لگی ۔۔۔۔کمینہ ۔بےہودہ ۔ ناہو تو ۔۔۔۔۔ہوں دعا کرو شیری کو نہیں پتا تمہاری بے ہودگی کے بارے ورنہ وہ تو تمہیں زندہ گاڑھ دیتے زمین میں ۔۔۔۔

اسکی پشت کو دیکھتی بولی ۔۔۔۔۔

پھر کڑتی جلتی ۔۔۔۔نوشین کو بلاکر واپس ڈائیننگ ٹیبل پر بیٹھ گئی ۔۔۔پر وہاں بھی سفیان کی نظروں سے پریشان ہوتی رہی ۔۔۔۔

💕💕💕💕💕

ولیمہ شاندار طریقے سے ہوچکا تھا ۔۔۔۔اب سب اپنی اتنے دنوں کی نیند پوری کرنے چلے گئے اپنے رومز میں ۔۔۔۔حور بھی اپنے روم میں چینج کرکے سوچکی تھی ۔۔۔۔

پری بھی سونے کی پوری کوشش کر رہی تھی پر جب آنکھیں موندتی تو الطاف صاحب کا بے بس چہرا سامنے آجاتا ۔۔۔کچھ بھی تھا وہ ایک بیٹی اور نرگس جیسی حساس رحم دل تھی ۔۔۔نا وہ کسی کو تکلیف دیتی تھی ۔۔۔ نا تکلیف میں دیکھ سکتی تھی پر یہاں تو بات اسکے سگے باپ کی تھی ۔۔۔۔۔

کچھ بھی تھا کیسا بھی تھا اسکا باپ تھا کوئی بھی اولاد جوان ہو یا نا سمجھ پر اپنے باپ کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا ۔۔۔۔ تو یہ حساس دل کیسے دیکھتی اپنو کو تکلیف میں۔۔۔ اسکا ماں کی ممتا باپ کی محبت احساس سے پیاسا دل ۔۔۔ اسے بے چین کر رہا تھا ۔۔۔۔
اسے اکسا رہا تھا کہ وہ جائے اپنے باپ کی چھائوں کو محسوس کرے ۔۔۔۔ اس سے لاڈ اٹھائے باتیں کرے جو وہ کسی بھی جھنجھلاہٹ کے بغیر اسکی اٹکتی باتیں سنے ۔۔۔۔۔

یہ سب سوچتے کب اسکی آنکھیں بہنے لگی اسے بھی پتا نا چلا ۔۔۔۔

💕💕💕💕💕💕

رات کے تین بج رہے تھے ۔۔۔۔ سب سو گئے تھے ۔۔۔۔ وہ اٹھا اور آہستہ سے بغیر آواز کیے دروازہ کھولا ۔۔۔۔باہر نکلا ۔۔۔۔گھر پر نظر ڈالی تو پورے گھر میں سکوت چھایا ہوا تھا ۔۔۔ 
پھر دروازہ بند کرتے کمرے واپس آیا ۔۔۔۔اسنے بلیک ہُڈ پہنی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔آہستہ سے کھڑکی کھول کر وہ اسے سے لان کو دیکھنے لگا صرف دو گارڈز موجود تھے دور گیٹ پر ۔۔۔۔
وہ کھڑکی سے نکل کر آہستہ آہستہ پائپ کے ذریے کھسکتے نیچے کی جانب اترنے لگا وہ اتنی احتیات سے یہ سب کر رہا تھا کہ سامنے موجود گارڈز بھی اسے نہیں  دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔
ویسے بھی وہ انکے سامنے چلا جاتا تو بھی کچھ نا ہوتا پر وہ یہ سب ابھی کسی پہ بھی ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا کہ وہ کون ہے ۔۔۔

وہ جانتا تھا عالم کے کتنے دشمن ہیں اور وہ اسکے ساتھ ہے یہ جانتے اسے پتا تھا کہ اگر اس سب کی کسی  کو بلک  بھی لگ گی کہ وہ عالم کے ساتھ ہے یا وہ ایک میجر ہے تو اسے  فیملی کے ذریے ٹورچر کیا جاتا ۔۔۔ جو وہ کبھی برداش نہیں کر سکتا تھا کہ اسکی وجہ سے اسکی فیملی کو کچھ ہو ۔۔۔ اس لیے وہ زیادہ دور رہتا تھا اپنی فیملی سے ۔۔۔۔

یہ سب کر کے وہ جانتا تھا کہ اپنے باپ کو تکلیف دے رہا ہے ۔۔۔۔پر وہ مجبور تھا اپنے ضمیر کے آگے وہ نہیں دیکھ سکتا تھا کہ کوئی ۔۔۔۔ ان معصوموں کو نوچے ۔۔انہیں اپنے ہوس کا شکار بنائے ۔۔۔۔ انکو اپنا کاروبار بنا کر انکے خاندان مان باپ سے جدا کرے کے دوسرے ملکوں میں انہیں بیجیں ۔۔۔۔ وہ ایک مسلمان تھا ۔۔۔۔ اور ایک مسلمان خاموشی سے گناھ ہوتے نہیں دیکھ سکتا تھا ۔۔۔۔

انکی سزا دینے کا طریقہ غلط تھا پر انہیں ایسے سزا دے کر وہ اپنے اندر کی آگ کو ٹھنڈا کرتے تھے ۔۔۔ انہیں احساس دلاتے تھے کہ جہیں وہ اپنے ہوس کا شکار بناتے ہیں ، جنکے ساتھ کھیلتے انکی زندگی دردندگی سے چھین لیتے ہیں انہیں کتنی تکلیف ہوتی ہے انکے ماں باپ اچانک ، مدرسے ، اسکول کالج یونیورسٹی یا گھر کی گلی میں  یا بازار سے انکی پھولوں پلی نازک پریاں غائب ہوجاتی ہیں ۔۔۔تو ان پر کیا بیتتی ہے ۔انکا جینا کیسا ہوتا ہے دن رات اپنی جوان بیٹیوں کے اچانک غائب ہونے پر کیسے تڑپتے ہیں ۔۔۔۔۔ویسے ہی وہ انہیں تڑپاتا تھا ۔۔۔۔
یہ سب احساس وہ انہیں انکے وجود سے دلاتے تھے ۔۔۔۔ 

وہ عالم کے ساتھ تھا ۔۔۔اسکے ہم قدم تھا ۔۔۔۔
عالم کوئی عام آدمی یا کوئی آفیسر نہیں تھا ۔۔۔۔ وہ ایک ورلڈ ڈان تھا ۔۔۔ایک گینگسٹر  تھا ۔۔۔حیوان تھا وحشیوں کے لیے۔۔۔۔جس کے قہر تو دور نام سنتے ہی لوگ کانپ جاتے تھے ۔۔۔۔
اس کے پاس ہر طرح کا سپورٹ حاصل تھا ۔۔۔ جیسے شیری گھر کا ایک نکما لڑکا ۔۔ یونی میں لڑکیوں کا کرش اور آرمی کا جیدار  میجر شہریار ۔۔۔۔اور عالم کا شیر ۔۔۔۔۔۔

💕💕💕💕💕

پائپ سے اترکر وہ دبے قدموں سے دیوار کی طرف بڑھنے لگا ۔۔۔ وہاں پہنچ کر جمپ لگایا اور دیوار پھیلانگ کر گھر کے باہر تھا ۔۔۔۔

ابھی کچھ قدمیں لیے تھے کہ سامنے ہی بلال گاڑی لیے اسکے انتظار میں تھا ۔۔۔۔
وہ خاموشی سے آکر گاڑی میں بیٹھ گیا ۔۔۔ اور سگریٹ سلگاکر عنابی ہونٹوں میں دبا لیا ۔۔۔۔اسکی بھوری آنکھوں میں سرد پن سا اتر آیا تھا ۔۔۔ چہرے پر پراسرار سی چمک تھی ۔۔۔۔

بلال تو آگے کا سوچ کر جھرجھری لی اور گاڑی اسٹارٹ کردی ۔۔۔۔۔

💕💕💕💕💕💕

Tera Ashiq Me Dewana Ho Awara Mehwish Ali 27



#تیرا_عاشق_میں_دیوانہ_ہوں_آوارہ🌹
#از__مہوش_علی🌷
#قسط__27
💕💕💕💕💕

بس مجھ سے نہیں دیکھا جاتا یہ ظلم ۔۔۔۔ سفیان کچن میں آتے نوشین کو کافی بناتے دیکھ چیئر پہ بیٹھ کچھ احساس دل سے بولا ۔۔۔
جس پر نوشین مسکراتی اسے دیکھا جو بالکل سنجیدہ تھا ۔۔۔
اچھا کون سا ظلم نہیں دیکھا جاتا ہمارے بھائی پلس دیور جی سے ۔۔۔
یہی کہ ابھی دو دن نہیں ہوئے شادی کو اور آپ کچن میں کام کر رہی ہیں مجھے بہت دکھ ہورہا ہے ۔۔۔۔میری بیوی ہوتی تو بالکل بھی میں آپکو کام نہیں کرنے دیتا ۔۔۔ بالکل حسن بھائی کی رانی بنا کر بیٹھاتا میری بہن پلس بھابھی کو ۔۔۔
اسکی بات پر نوشین ہنسنے لگی ۔۔۔۔
یہ کہیں نا دیور جی کہ اب بیوی چاہیے ۔۔۔۔مجھے رانی بنا کر بٹھانے کا صرف بہانا ہے ۔۔۔۔ 
بھائی صدقے اللہ کا شکر ہے بہت اچھی بھابھی ماں دے دی اب مطلب میرے بھی زخموں کو سمجھنے والی آگئی ہے ۔۔۔۔وہ ہاتھ شکرانے ادا کرنے کے انداز میں اٹھائے مسکراہٹ روکے بولا  .۔۔

 ہاں جی آگئی آپکی بھابھی ماں ۔۔۔ اور یہ آپکے زخموں کے لیے نہیں آپکے بھائی کے لیے ہے ۔۔۔ تو یہ صدقے اپنی بیوی پر ہونا ۔۔۔ میری والی کو مسکے لگانے سے تھوڑا گریز کریں ۔۔۔۔پیچھے سے حسن نے کندھوں سے پکڑ جو خوشی سے اپنے مقصد کی طرف جاتے چہک رہا تھا حسن نے اسے زمین پر پٹکا ۔۔۔۔
 
نوشین تو حسن کے لفظوں پر ہی شرما گئی تھی ۔۔۔ پر سفیان کی مسکینی شکل دیکھ ہنس دی ۔۔۔۔

کچھ رحم کرو ظالم سماج پلس جلاد بھائی ۔۔۔ گھر میں جوان بھائی بیٹھا ہے ۔۔۔۔ اور تم یو فخر سے سر اٹھائے چل رہے ہو پیچھے لوگ پتا نہیں کیا کیا کہہ رہے ہونگے کہ گھر میں جوان بھائی کنوارہ بیٹھا ہے اور یہ سر ایسے اٹھا کے چل رہا ہے جیسے سارہ کندھوں پر بھوج اتار دیا ہو ۔۔۔۔  
اسکی بات پر حسن اور نوشین کے قہقہے ساتھ گونجے ۔۔۔۔ پر وہ تو ایسا کھڑا تھا جیسے سچ میں کوئی ۔۔۔ شرم دلانے والی بات کی ہو ۔۔۔
لوگ کچھ نہیں کہتے انہیں پتا ہے انکا جوان بچا بہت صابرو ہے ۔۔۔۔ تو جب تک کچھ سال نہیں گذر جاتے اسکی شادی نہیں ہوگی ۔۔۔ حسن کی بات نے تو جیسے سفیان کی چیخ نکلی ۔۔۔

کچھ سال ۔۔۔۔۔ آپ لوگ اتنا ظلم کیسے کر لیتے ہیں ہم جیسوں پر ۔۔۔۔اپنی تو ایسے کرلی جیسے خیرات میں ملی ہماری باری آئی تو کچھ سال ۔۔۔۔۔ میں یہ بالکل برداش نہیں کرپائونگا ۔۔۔اتنا صبر ۔۔۔ 

کچھ مہینے لیں لڑکی دیکھ لی ہے نکاح پڑھ واکر لیکر آئیں گے ۔۔۔ اسے بھی تو کچھ کام کروانا چاہیے ایسے ہی چپ چاپ میں اپنی بھابھی ماں پر ظلم ہوتے نہیں دیکھ سکتا ۔۔۔۔وہ پہلے چیختا پھر مظلوم شکل بنا کر آخر حکم دیتے اور کچھ ہنستی نوشین کو مسکے مارتے وہاں سے نکلتا چلا گیا ۔۔۔۔ 

وہ دونوں وہیں ہنستے رہے ۔۔۔۔ بالکل ایکٹر ہے نوٹنکی کہیں کا ۔۔۔ وہ ہنستا سر جھٹک کر نوشین کو دیکھا جو کپ میں کافی ڈال رہی تھی ۔۔۔ 

 حسن یہ کیا کر رہے ہیں ہٹے کوئی آجائے گا ۔۔۔۔ اسکو پیچھے سے حصار میں لیتے سر اسکے شانے پر رکھتے حسن سے کہا ۔۔۔

کوئی نہیں آنے والا ۔۔۔ملازمہ کام میں ہیں پاپا چاچو کے ساتھ امریکہ گئے ہیں کمیل کی اکسیڈنٹ ہونے کی وجہ سے ۔۔۔۔ اور سفیان روم میں چلا گیا ۔۔۔ بچے ہم دونوں تو ۔۔۔۔۔ وہ کہتا اسکی گردن پر اپنے ہونٹ رکھ گیا ۔۔۔۔ نوشین لال ٹماٹر ہوگئی ۔۔۔۔
کچھ تو خیال کریں  یہ کچن ہیں آپکا بیڈروم نہیں ۔۔۔ وہ بمشکل بولتی اسکا حصار توڑنے لگی ۔۔۔ 
تو مسز آپکا مطلب ہے ہم بیڈروم میں چلیں ۔۔۔۔ وہ بھاری سرگوشی میں بولا جس پر وہ سٹپٹا گئی ۔۔۔
ہہ ۔۔ہم نے ایسا کب کہا ۔۔۔۔ میرا مطلب تھا سیفی بھائی آجائے گا ۔۔۔۔ وہ جلدی سے صفائی دینے لگی کہیں سچ میں ایسا نا سمجھ لے ۔۔۔۔

تو آنے دیں ۔۔۔ یہی کہے گا نئی شادی ہوئی ہے تو ایسی چھوٹی موٹی شرارتیں تو چلتی رہتی ہیں ۔۔۔ کیوں ہم ٹھیک کہہ رہے ہیں نا ۔۔۔وہ کہتا حصار کو تنگ کرنے لگا ۔۔۔۔اسے پتا تھا اب سفیان واپس نہیں آنے والا ۔۔۔۔ 

آپ تو بلکل شرم چھوڑ چکے ہیں ۔۔۔ وہ اسکے حصار کو توڑتی اسے  ہاتھوں کی مدد سے دور کرنے لگی ۔۔۔ البتہ چہرا سرخ تھا ۔۔۔ 
ویسے سیفی بھائی کس لڑکی کی بات کر رہے ہیں ۔۔۔وہ کچھ دیر سفیان کی بات لڑکی دیکھ لی ہے یاد آتے پوچھنے لگی ۔۔۔۔اور اسکا دھیان خود سے ہٹانے کے لیے۔۔۔

جس پر حسن منہ پر ہاتھ پھیر مسکراہٹ چھپا گیا کہ یہ اسکا سیفی بھائی کس کی بات کررہا تھا ۔۔۔۔ شاید جان جاتی تو جوتے مارتی کہ یہ سب حور کے بارے میں تھا ۔۔۔۔ اور یہ رانی بنانے والے مسکے بھی اسی کے لیے تھے ۔۔۔۔
تم چھوڑو اس کو۔۔ ہے کوئی جس کے لیے بچپن سے پاگل ہے ۔۔وقت آنے پر آپکو بھی بتا دیں گے پر ابھی ہماری بات ہورہی ہے یہاں تو بات گھمائے نہیں ۔۔۔۔

اسکے چہرے پر آتے بالوں کو کان کے پیچھے کرتے بولا ۔۔۔
آہم آہم ۔۔۔۔اچانک  سفیان واپس دروازے میں نمودار ہوا اور انہیں قریب دیکھ سر جھکائے گلا کھنکارنے لگا ۔۔۔۔

اے دل۔۔۔ اے دل ۔۔۔تو یہ سب بھول جا ۔۔۔۔
ظالم سماج ہے ۔۔۔ تیری کوئی نہیں سنے گا ۔۔۔۔ وہ ایک شرارتی نظر  دانت پیستے حسن  پر ڈال کر دکھ بھرے انداز میں گنگناتا کافی کا کپ لیے جب دروازے پر پہنچا ایک زوردار قہقہہ لگاتے نوشین کو تو شرم سے  لال کیے   حسن کو اپنی طرف آتے دیکھ بھاگا ۔۔۔

پھر حسن نے سر کھجا کر نوشین کو دیکھا جو شرم سے لال پیلی ہوئے اسے دیکھ خفگی سے  بولی ۔۔۔۔
دیکھ لیا ۔۔۔ کپ اسے تھما کر وہ واپس کائونٹر پر آئی۔ ۔۔ ۔۔۔ جب پھر سے حسن بولا ۔۔۔
نہیں ابھی کہاں ۔۔ آپکا ویٹ کر رہے ہیں روم میں ۔۔۔۔نوشین تو صرف اسے جاتے دیکھتی رہ گئی ۔۔۔۔۔

💕💕💕💕💕

وہ بیڈ پر لیٹی تھی جب اسکا موبائل بجا ۔۔۔ نمبر دیکھا تو  صبح جو انجان نمبر سے کال کر رہا تھا وہی سفیان تھا ۔۔۔۔
اسنے دیکھ واپس رکھ دیا ۔۔۔۔
پر وہ بھی سفیان ڈھیٹوں کا راجہ  تھا کرتا رہا کال ۔۔۔
تنگ آکر اسنے موبائل کو دیکھا ۔۔۔ اور پھر صوفے پر بیٹھی پری کو جو چاکلیٹ ایسے کھا رہی تھی جیسے کوئی چھین رہا ہو ۔۔۔۔ اسکے سرخ رخسار اور منہ پر پھیلا ہوا تھا ۔۔۔ جسے وہ زبان نکال کر چاٹنے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔۔

پری ۔۔۔ حور اسکے کیوٹ چہرے اور حرکت پر ہنستے اسے پکارنے لگی ۔۔۔ 
ہوں ۔۔۔ پری نے مصروف انداز میں کہا ۔۔۔
یہ کیا فیس بنا لیا ہے ۔۔۔ بلکل کارٹون لگ رہی ہو ۔۔۔۔ہاہاہا ۔۔۔چاکلیٹی کیڑے ۔۔۔۔

اسکی بات پر پری نے منہ بنایا ۔۔۔
مم۔۔۔میں  کیڑا لگ رہی ہوں ۔۔۔؟ 
لگ نہیں رہی۔۔ ہو بالکل ۔۔۔۔ہاہاہاہا ۔۔ ذرا مرر میں فیس دیکھو ۔۔۔۔

پری اسے دیکھ ایک چاکلیٹ سے بائٹ لیے آئینے کے سامنے آئی ۔۔۔ جہاں پر اپنی شکل دیکھ وہ کھلکھلا کر ہنسنی لگی ۔۔۔۔ وائو ۔۔۔ میرا فیس چاکلیٹی ہوگیا ۔۔۔۔ اپنی پسند سے مجبور یہ نہیں دیکھا کیا حال کیا ہے۔۔۔ یہ دیکھ رہی تھی منہ بھی پسند کا ہوگیا ۔۔۔۔

ہاں اور اسے بھی کھاجائو ۔۔حور کہتی موبائل آئے میسج کو دیکھنے لگی ۔۔۔جہاں لکھا تھا ۔۔۔اگر کال پک نا کی تو تیرے ستم میں یہ آوارہ زہر کھا کر جان دے دیگا ۔۔۔

مر ہی جائو ۔۔ ہوں ۔۔۔میسج پڑھ کر بڑبڑائی ۔۔۔  
پری یار تم یہ چاکلیٹ مشی آپی کو دے آئو ۔۔ اسے بہت پسند ہیں تمہاری طرح۔۔۔ اسنے اپنے پاس سے چاکلیٹ اٹھا کر پری کی طرف بڑھایا ۔۔۔ جیسے وہ چپ چاپ اٹھائے ۔۔ اپنا کھاتی باہر نکلی ۔۔۔ 

اسکے جانے کے بعد حور نے کال پک کرکے کان سے لگا ئے غصے سے بولی ۔۔۔۔
مرے نہیں ابھی تک ۔۔۔۔اسکی غصے بھری آواز پر سفیان کا قہقہ لگا ۔۔۔۔
تمنے اتنا ٹائم کہاں دیا ۔۔ مطلب کچھ تو فیلنگس ہیں تمہارے بھی دل میں ۔۔۔۔ویسے خیر وہ تو آنی ہی تھی اتنا خوبصورت ہینڈسم ڈیشنگ شوھر جو ہے ۔۔۔۔ 
وہ بیڈ پر کروٹ بدل کر اسے چڑانے لگا ۔۔۔۔
کرلی اچھے سے بکواس یا ابھی باقی ہے ۔۔۔ بندر کے منہ جیسے ۔۔وہ ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولی ۔۔۔۔

ہائے جانم جب ایسے غصہ کرتی ہو تو سچ میں شوھر والی فیلنگس آجاتی ہیں ۔۔۔۔ وہ اسکی بندر والی بات کا بدلا لینے لگا ۔۔۔۔

اور مجھے تمہاری شکل دیکھ شوٹ کرنے والی فیلنگس آجاتی ہیں ۔۔۔ دل کرتا ہے پٹھر سے کچل دوں ۔۔۔ کمینے نا ہو تو ۔۔۔۔ہوں ۔۔۔

تو آجائو کمرے میں جہاں صرف میں ہوں ۔۔۔۔ تم اپنی خوائش پوری کرو۔۔ میں اپنی ۔۔۔۔ایک جواب میں ہی وہ اسکی بولتی بند کرگیا ۔۔۔۔
اسکے بات پر حور موبائل دور کئے ۔۔ پسینے سے نم پیشانی صاف کرنے لگی ۔۔۔۔

کمینے تم ایک بےہودہ لوفر آوارہ جنگلی ۔۔ تمیز شرم سے دور جاہل گوار ہو ۔۔۔ کچھ دیر بعد وہ موبائل منہ کے سامنے کیے چیخی ۔۔۔۔اور جو منہ میں آتا گیا بولتی گئی ۔۔۔۔

اب اتنی بھی تعریف نا کرو سچ میں شرم آرہی ہے ۔۔۔ سفیان نے شاید آج قسم کھاکر کال کی تھی اسے چڑا کر مارنے کی ۔۔۔

ہوں شرم دیکھی ہے کبھی آیا بھرا شرم کرنے بے شرم کہیں کا ۔۔۔۔ 
وہ ہی تو کہہ رہا ہوں آجائو تم سے کچھ شرم ہی لےلوں ۔۔۔۔

مرو جاکر نالے میں ۔۔۔ وہ غصے سے غراتی کال کاٹنے والی تھی جب وہ بولا ۔۔۔
اگر کال کاٹی تو رات تمہارے کمرے کی کھڑکی سے اندر آجائوں گا ۔۔۔ پھر سوچ لو کیا کیا ہوگا ۔۔۔۔وہ جلدی سے تیز رفتاری سے بولا کہیں کاٹ نا دے ۔۔۔اسکی دھمکی پر وہ دھڑکتے دل کے ساتھ چپ ہوگئی ۔۔۔
آخر تم چاہتے کیا ہو سفیان کیوں  جینا حرام کردیا ہے ۔۔۔۔کچھ دیر بعد وہ غمزدہ سی بولی۔ ۔۔جس پر سفیان کو خود تکلیف ہوئی ۔۔۔

حور میں صرف تمہیں چاہتا ہوں ۔۔میں یہ چاہتا ہوں کہ جتنا میں تمہیں چاہتا ہوں اتنا تم بھی مجھے چاہو۔ ۔۔۔

پر ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ ۔۔ میں تمہیں کبھی نہیں چاہوں گی ۔۔۔تمنے جو میرے ساتھ کیا وہ میں مرکر بھی نہیں بھول سکتی ۔۔۔ وہ روتی ہوئے بولتی سفیان کو تڑپا گئی ۔۔ 
حور۔ ۔۔۔۔ اسکی ابھی لفظ ادا نہیں ہوئے تھے جب وہ کال کاٹ کر موبائل بند کر گئی ۔۔۔۔
پر اسکی سانسیں سامنے دروازے پر عائمہ بیگم کو دیکھ ساکت ہوگئی ۔۔۔۔ 
انکے چہرے کے تاثرات سے لگ رہا تھا وہ سب کچھ سن چکی ہے ۔۔۔۔عائمہ بیگم بغیر تاثرات لیے دروازہ بند کرتے اسکی طرف آئی ۔۔۔

کس سے یہ سب کہہ رہی تھی ۔۔۔ کس کو نا چاہنے کی بات کر رہی تھی ۔۔۔ وہ اسکے پاس بیٹھ کر بے یقینی سے پوچھنے لگی ۔۔۔ کچھ بھی تھا اسے اپنی اولاد پر یقین تھا بات پوری جاننے سے پہلے وہ کوئی تاثر نہیں دینا چاہتی تھی ۔۔۔
حور جو پہلے ہی ڈر سے رو رہی تھی ۔۔۔ عائمہ بیگم کا نارمل برتائو دیکھ انکے لگے لگی ۔۔۔ اور بھی پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی ۔۔۔۔ 

عائمہ بیگم کو اب گھبراہٹ ہونے لگی ۔۔۔ مطلب بات کوئی بڑی تھی ۔۔۔
حور مجھے بتائو کیا بات ہے ورنہ میرا دل پھٹ جائے گا ۔۔۔وہ اسکی پیٹھ تھپتھپاکر پوچھنے لگی ۔۔۔

مم۔ ۔مما وہ ۔۔۔۔ وہ ہچکیوں کے درمیان بولی ۔۔۔
ہاں بولو ڈرو نہیں کچھ بھی ہوگا میں تمہارے ساتھ ہوں ۔۔۔ تم بتائو میری جان ایسے رو کر ماں کو تکلیف دے رہی ہو ۔۔۔اسکے پیار بھرے لفظوں کا احساس تھا ۔۔ جو وہ روتی سفیان کے زبردستی نکاح کرنے کے بارے سب بتا ڈالا ۔۔۔۔۔

کئی دیر تک کمرے میں خاموشی چھائی رہی  صرف حور کی ہچکیوں کے علاوہ ۔۔۔۔
عائمہ بیگم تو سکتے میں چلی گئی تھی ۔۔۔ کئی دیر تک ان میں کوئی حرکت نا ہوئی ۔۔۔۔ تو حور کو خوف آنے لگا ۔۔۔
مما آپ ٹھ۔ ۔۔ٹھیک ہیں ۔۔۔وہ اسکے کندھے پر ہاتھ کر پوچھنے لگی تو وہ ہوش میں آئی ۔۔۔۔

تمنے ہمیں پہلے کیوں نہیں بتایا جب اسنے یہ سب کیا ۔۔۔ کیوں اتنے دن اندر ہی گھٹتی رہی آج بھی میں نا سن لیتی تم شاید کبھی نا بتاتی ۔۔۔  خود بھی آئے آنکھوں میں آنسوں صاف کرتی بولی ۔۔۔

نہیں مما ایسی بات نہیں ۔۔  میں ڈر گئی تھی ۔۔۔ کہ ۔۔۔ کہ آپ لوگ میری بات کا یقین نہیں کریں گے ۔۔۔۔وہ کہتی عائمہ بیگم کے گلے لگ گئی ۔۔۔
پھر کافی دیر ایسے ہی لگی روتی رہی ۔۔۔۔ عائمہ بیگم کو جب اسکے سر درد جس وہ پوچھنے آئی تھی ۔۔۔ خیال آیا تو اسے خود سے الگ کرکے چپ کروانے لگی ۔۔۔۔ پھر کافی دیر اسے بہلا پھسلا کر سر تکیے پر رکھا ۔۔۔ اور اسے آرام کرنے اور سب ٹھیک ہوجائے گا ۔۔۔ کا کہتی خود پریشان دکھ اور غصے سے روم سے نکلی ۔۔۔ 
اسنے تہہ کرلیا تھا وہ فراز صاحب سے بات کریگی اسے سفیان کی اس گھٹیا حرکت کے بارے میں باتئے گی پر ابھی وہ یہاں نہیں تھا ۔۔۔
گھر میں وہ کسی سے نہیں کہہ سکتی تھی حور کو بھی منا کر دیا تھا ۔۔۔ اگر کسی کو تو دور شہریار یا دراب کو پتا لگ جاتا تو شاید وہ اسے زندہ زمین میں گاڑھ دیتے ۔۔۔۔ کچھ بھی تھا وہ اسکا بھائی کا بیٹا تھا ۔۔۔ اسنے حور کو ہمیشہ سفیان کی لیے ہی سوچا تھا پر آج جو اسکی گھٹیا حرکت کے بارے پتا لگا جو اسنے اسکے جگر کے ٹکرے کو تکلیف دی اسکی سزا تو وہ اسے فراز صاحب سے  دلوا کر ہی رہے گی ۔۔۔۔

چلتے اسکی آنکھیں کب بھیگ گئی کب وہ کچن میں اپنی سوچوں پہنچی اسے کچھ پتا نا چلا ہوش تو تب آئی جب عالیہ بیگم نے اسے کندھے سے پکڑ کر ہوش دلایا ۔۔۔۔

اور انکے پوچھنے پر عائمہ بیگم نے ساری حقیقت اسے بتائی ۔۔۔۔ عالیہ بیگم کی بھی حالت عائمہ بیگم سے الگ نہیں تھی ۔۔۔۔۔
اور عالیہ بیگم نے بھی اسے کسی کو بھی بتانے سے مناکرکے سیدھا فراز صاحب سے بات کرنے کا طے کیا ۔۔۔۔

💕💕💕💕💕

مشال چائے لیکر  کمرے میں داخل ہوئی جہاں دراب لیپ ٹاپ پہ کام کر رہا تھا ۔۔۔ اسنے بہت کہا تھا چلنے کو آفس پر حماد اور احمد صاحب نے منا کردیا کہا ۔۔۔ ابھی دو ہی دن ہوئے ہیں شادی کو اور تم آفس آنے کی بات کر رہے ہو ۔۔۔ انہونے دراب سے کہہ کہ مشال کو کہیں لیکر جائے گھومانے پر مشال نے منا کر دیا ۔۔۔۔۔اب دراب گھر بیٹھے ہی آفس کا کام کر رہا تھا ۔۔۔۔

مشال کو چائے لے آتے دیکھ لیپ ٹاپ بند کرکے سائیڈ ٹیبل پر رکھا ۔۔۔ اور اسے اپنی طرف آنے کا کہہ ۔۔۔۔۔
آپ کتنی دیر سے کام کر رہے دراب ٹھک نہیں گئے ہونگے ۔۔۔۔ وہ اسے ٹی دیتے ہوئے بولی ۔۔۔
تو کیا کروں تم تو لفٹ نہیں کرواتی تو بور ہونے سے بہتر ہے کچھ کام ہی کرلوں ۔۔۔۔کپ لیکر ٹیبل پر رکھتے اسے اپنے پاس بٹھایا ۔۔۔۔ اور خفگی سے بولا ۔۔۔

میں آپکو لفٹ نہیں کرواتی دراب کتنے جھوٹے ہیں ۔۔۔۔۔وہ منہ بنا کر بولی ۔۔۔۔۔
کہاں جھوٹ بول رہا ہوں ۔۔ ابھی ہی دیکھ لو ۔۔۔ وہ کہتے چہرے کو اسکے قریب لےگیا ۔۔۔ جب وہ بدک کر پیچھے ہوئی ۔۔۔۔
دیکھ لیا ابھی بھی کہو میں جھوٹ بول رہا ہوں ۔۔۔۔وہ مصنوعی سنجیدگی سے بولتا ایسے ہی اسے دیکھانے کے لیے لیپ ٹاپ اٹھانے لگا ۔۔۔۔۔

دراب ہم باتیں کرتیں ہیں نا ۔۔۔۔ وہ کہتی اس سے لیپ ٹاپ لے کر واپس رکھ گئی ۔۔۔۔
چلو یہ بھی ٹھیک وہ مسکراتا ہوا اسے اپنی طرف کھینچ کر بیڈ پر گرا گیا ۔۔۔۔۔اور خود اس پر جھک گیا ۔۔۔۔ مشال پوری بوکھلا گئی ۔۔۔۔

ایسے کیسے باتیں کریں گے ۔۔۔۔ وہ اٹھنے کی کوشش کرتی بولی ۔۔۔ 

ایسے جیسے تم باتیں کرو میں سنو پھر میں کچھ کہوں تو تم سنو ۔۔۔۔وہ بھاری سرگوشی میں کہتا اسکی گردن پر جھک گیا ۔۔۔۔

دراب نہیں ہٹو پیچھے ۔۔۔۔۔ وہ اسکے سینے پر ہاتھ رکھتی اسکی بڑھتی جسارتوں سے گھبراتی دور کرنے لگی ۔۔۔۔
تم ایسے نہیں سدھرنے والی جانِ دراب ۔۔۔ وہ کہتا اسکے دونوں ہاتھ جکڑے  بیڈ سے لگا گیا ۔۔۔۔۔

آپ بہت بدتمیز ہیں ۔۔۔ جب مشال ہر ممکن کوشش کرکے بھی آزاد نا ہوئی تو بے بسی سے کہنے لگی ۔۔۔۔۔
جس پر دراب کا قہقہہ لگا ۔۔۔۔ ہاہاہاہا ۔۔۔۔ وہ تم دیکھ کر ہوجاتا ہوں ۔۔۔جان ۔۔۔۔
کہنے کے ساتھ اسے کچھ اور کہنے کی مہلت نا دیتے ہوئے اسکی سانسیں بند کرگیا ۔۔۔۔۔ 

دروازے پر دستک ہوئی تو وہ ایک نظر اسے دیکھ کر دور ہوا ۔۔۔۔ 
مشال کا پورا چہرا سرخ تھا ۔۔۔۔۔
وہ اپنا دوپٹہ درست کرتی بغیر اسکی طرف دیکھے دروازے کی طرف آئی ۔۔۔۔۔
دروازہ کھولا تو پری تھی سامنے ۔۔۔
م۔۔مشی آپی حور نے یہ دی ہے ۔۔۔۔ وہ اسے چاکلیٹ آگے کرتی بولی ۔۔۔۔
منہ صاف کرو گڑیا ۔۔,۔۔ وہ ہنستی اس سے بولی ۔۔۔۔۔
پھ۔۔پھر ایسا ہوگیا ۔۔۔۔ وہ یہا۔ آنے سے پہلے ہی تو صاف کرکے آئی تھی پر واپس پھر سے ایسا ہوگیا ۔۔۔۔

ہاں پھر سے ایسا ہوگیا ۔۔۔ وہ تھوڑی سی چاکلیٹ اسکی چھوٹی سرخ ناک پر لگاتی بولی ۔۔۔۔ 

مت کرو صاف گڑیا بہت پیاری لگ رہی ہو بلکل چاکلیٹی ڈول ۔۔۔۔ مشال کے پیچھے سے دراب نے بھی چاکلیٹ ناک پہ لگایا اور بولا ۔۔۔۔
جس پر وہ کھلکھلا کر ہنسی ۔۔۔۔ ہاہہاہاہا۔۔۔
پر حح۔۔ حور تو بول رہی چاکلیٹی کک۔۔کیڑا لگ رہی ہوں ۔۔۔۔
اسنے منہ بنا کر کہہ ۔۔۔۔۔
حور مزاق کر رہی ہوگی ۔۔۔۔ بہت پیاری لگ رہی ہو ۔۔۔ اسے چھوڑو جائو چہرا واش کرلو ۔۔۔۔۔
مشال نے دراب کو دیکھ کر کہہ ۔۔۔۔ پھر اس کی گال تھپتھپائی ۔۔۔۔ جس وہ سر ہلا کر گئی ۔۔۔۔۔
حور کہاں ہے دیکھ نہیں رہی ۔۔۔۔۔ مشال اسے جاتے دیکھ پیچھے سے بولی ۔۔۔۔

وہ ۔۔۔وہ روم میں ہے آرام کر رہی ہے ۔۔۔۔۔ پری کہہ کرجانے لگی ۔۔۔۔۔

میں تو کافی پریشان تھا کہ تم اتنی میٹھی کیسے ہو ۔۔۔۔ پر یہ زار بھی معلوم ہوگیا ۔۔۔۔۔اسکے دروازہ بند کرنے بعد دراب نے اسے بازو میں اٹھائے بولا ۔۔۔۔۔

آپ نہیں سدھرنے والے ۔۔۔۔ وہ اسکے سینے پر بلش کرتی چہرے کے ساتھ ہلکہ سا مکہ مار کر چہرا چھپا گئی ۔۔۔۔۔جس پر دراب کا قہقہہ لگا ۔۔۔۔۔

بلکل بھی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔

💕💕💕💕💕

شیری پری کے  روم میں کیمرا لگا کر ہاتھ جھاڑتے ہوئے پیچھے ہٹا ۔۔۔ اور اپنا موبائل نکال کر اس میں دیکھنے لگا ۔۔۔۔ جہاں اسنے پہلے ہی کیمرا سے کنیکٹ کر لیا تھا ۔۔۔۔۔
اسنے کیمرا اس طرح روم میں لگایا کہ اسے پورا روم بیڈ سے لیکر دروازے تک  دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ یہ اس لیے لگایا تھا کہ وہ جارہا تھا ۔۔۔۔ اور اتنے دن اس کے بغیر کیسے رہتا ۔۔۔۔اسلیے سب سے آسان طریقا اسے یہی لگا ۔۔۔۔ کہ وہ اسکی آنکھوں کے سامنے ہو ۔۔۔۔

ایک نظر روم پر ڈال کر وہ دروازہ بند کرتے باہر نکلا ۔۔۔۔۔ تو سنجیدہ چہرے پر مسکراہٹ سی پھیل گئی ۔۔۔۔۔۔
وہ دیوار پر ٹیک لگائے اسکے قریب آنے کا انتظار کرنے لگا ۔۔۔جو سامنے دراب کے روم سے آتی ناک منہ پر چاکلیٹ لگے اور کھاتے خوشی سے بھرپور چہرا لیے بغیر اوپر دیکھ چاکلیٹ کی ہائیٹ ماپ رہی تھی کہ باقی کتنا بچا ہے ۔۔۔۔۔
وہ جیسے جیسے آگے آرہی تھی ۔۔۔ شیری سامنے کھڑا ہوگیا ۔۔۔۔۔ جس کی وجہ سے وہ دیکھ نا پائی اور ٹکراتی اسکے باہوں میں جھول گئی ۔۔۔۔۔

اس اچانک حادثے پر وہ چیخ جاتی اگر شیری اسکے منہ پر اپنا مضبوط ہاتھ نا رکھ دیتا ۔۔۔۔۔
پھر اسکی پھٹی آنکھوں میں دیکھ اسکے ہی کمرے میں لےگیا ۔۔۔۔۔اور دروازہ بند کردیا ۔۔۔۔ 

شش آواز نہیں ۔۔۔۔ وہ اسکی منہ سے ہاتھ ہٹا کر انگلی سے خاموش رہنے کا بولا ۔۔۔۔۔
پری نم اور خوفزدہ آنکھوں اسے دیکھنے لگی ۔۔۔ اور ہاتھ سے ہمت کرکے اسے دروازے سے ہٹانا چاہا ۔۔۔۔
مم۔۔۔مجھے جانا ہے ۔۔۔۔پھر دوسرے ہاتھ سے بھی ہٹانے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔۔ جس میں موجود چاکلیٹ وائٹ شرٹ کو لگ گیا ۔۔۔۔وہ بدک کر پیچھے ہوئی ۔۔۔۔

اور ہراسا ہوکر شہریار کو دیکھا جو اپنی شرٹ کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔وہ کچھ قدم اور پیچھے ہٹی ۔۔۔

بال کیوں کھلے چھوڑے ہیں ۔۔۔۔اپنی شرٹ سے نظریں ہٹاکر اسکا جائزہ لیا ۔۔۔۔ پرپل کلر کے سادہ سے کاٹن کے سوٹ میں بالوں کو کھلا چھوڑ دیا تھا ۔۔۔۔ اسے بالکل بھی اچھا نا لگا اس طرح گلے میں دوپٹہ ڈال کر چلنے پر ۔۔۔۔ تو ذرا غصے سے بولا ۔۔۔

 اور اسکے  چہرے پر کسی سانپ کی طرح جھولتی ایک لٹ کو پکڑ اپنے قریب کرنے لگا ۔۔۔
پری بوکھلائی دور ہونے کی کوشش کرنے لگی جب اسنے کھنچا تو اسکا سر درد کرنے لگا ۔۔۔ اور وہ خود بے خود قریب آتی گئی ۔۔۔۔ 

یہ کونسا طریقہ ہے چاکلیٹ کھانے کا ۔۔۔ جب وہ قریب ہوئی تو اسکے منہ ناک کی طرف  دیکھ پھر اپنی شرٹ کی طرف اشارہ کرتے سرد آواز میں بولا ۔۔۔ 

اسکی سرد آواز پری کے بدن میں خوف کی لہر دورنے لگی ۔۔۔۔
یہ ۔۔۔ یہ مینے نہیں کک۔۔۔کیا خود لل۔۔لگ رہا ہے ۔۔۔وہ نم آنکھوں جھپکتی حقیقت بتانے لگی ۔۔۔۔۔
آنکھیں اسکی شیری کی اسکی لٹ سے کھیلتی انگلی کی طرف تھی ۔۔۔۔۔
💕💕💕💕💕💕

Tera Ashiq Me Dewana Ho Awara Mehwish Ali 28


#تیرا_عاشق_میں_دیوانہ_ہوں_آوارہ🌹
#از__مہوش_علی
#قسط__28

تو تم صاف بھی تو کر سکتی تھی ۔۔۔ اسکی آنکھوں کی ھیرپھیر کو دیکھتے وہ بولا ۔۔۔
شیری کو بھی شاید اسکی بڑی سرمئی آنکھوں کی ھیرپھیر مزا دینے لگی تھی ۔۔۔۔ تبھی وہ بالوں کی لٹ کو کبھی پوری انگلی پر لپٹ لیتا   کبھی چھوڑ کر پھر وہی کرتا کبھی دائیں لےجاتا کبھی بائیں ۔۔۔۔ جیسے جیسے وہ کر رہا تھا ویسے ہی اسکے آنکھوں کے خوبصورت تارے گردش کر رہے تھے ۔۔۔۔۔

جج۔۔جا رہی تھی پر آا۔۔آپنے ۔۔۔۔وہ اسکی سانسیں اپنے چہرے پر چھبتی محسوس کر رہی تھی جس وجہ سے تو اور وہ ڈر رہی تھی ۔۔
م۔۔مجھے حور بلا رہی ہے ۔۔۔؟اسکی انگلی کو اپنے کان پر محسوس کرتی وہ سمٹ گئی دل سکیڑ کر حلق میں آگیا ۔۔۔۔آنکھیں میچے وہ بولی ۔۔۔۔

جھوٹ بولنے پر پنیشمنٹ ملے گی ۔۔۔۔ وہ اسکے کان میں بھاری سرگوشی میں بولا ۔۔۔۔انگلی کو کان سے لیکر اسکی چاکلیٹ لگی ناک پر لایا ۔۔۔
پری کچھ بھی بولے بنا کانپنے لگی ۔۔۔۔ 
مم۔۔مجھے ڈر ل۔۔لگ رہا ہے ۔۔۔پپ۔۔پلیز ۔۔۔وہ تھوڑی سی آنکھیں کھول کر التجاانداز میں گویا ہوئی ۔۔۔۔

میں تو کچھ نہیں کر رہا پھر کیوں ڈر لگ رہا ہے ۔۔۔ 

وہ اسے دونوں شانوں سے پکڑ اپنے اور  قریب کرتے پوچھنے لگا ۔۔۔۔اور اب آواز نا نکلے ۔۔۔میرے پاس زیادہ ٹائم نہیں یہاں رہنے کا اور پھر قسمت کا کیا بھروسہ پھر ملیں یا نا ملیں ۔۔۔

یہ لفظ خوبخود اسکے منہ پر آنے لگے۔۔ 

زندگی کا بھی بھروسہ نہیں جس طرح تمہاری نفرت ہے اور جس طرح کا میرا کام ہے یہ دونوں کبھی بھی میری سانسیں لے سکتی ہیں ۔۔۔۔۔
پر جانتا  ہوں یہ دونوں حق پر ہیں ۔۔۔۔
اسکے گرد مضبوط حصار باندھتے ایسے ہی ساتھ لگائے باتھروم میں لیکر آیا پھر  اسکی کانپتی حالت کو دیکھ اسے خود سے الگ کرگیا ۔۔۔۔

پتا نہیں کیوں دل کی عجیب حالت تھی کہ ۔۔۔۔ اسکا جنونی دل تڑپ رہا تھا ایسے مچل رہا تھا جیسے کوئی سانسیں چھینے والا تھا ۔۔۔وہ مجبور ہوکر اسے اور خوفزدہ نا کرتے ہوئے آنکھیں اور ہونٹ بھینچ گیا ۔۔۔سارہ  درد اپنے اندر اتار کر گہرا سانس لینے لگا ۔۔۔۔
اندر یہ احساس اٹھ رہا تھا کہ وہ چیخے چلائے ۔۔۔۔

پری اچانک اسکے سرخ بھینچی آنکھوں میں دیکھنے لگی ۔۔۔۔ چہرے پر ہی درد کے سائے لہرا رہے تھے ۔۔۔۔اسنے ہمت کرکے ہاتھ بڑھایا ۔۔۔
آْ۔۔آپ ٹھ۔۔ٹھیک ہیں ۔۔۔اسکے بازوں کو چھوتی اٹک اٹک کر پوچھنے لگی ۔۔۔۔
ڈر تھا کہ سانسیں لے رہا تھا ۔۔۔۔۔ 
ہاں ٹھیک ہوں ۔۔۔۔شیری نے مسکرا کر اسکی گال پر اپنے ہاتھ کی پشت پھیر کر بولا ۔۔۔۔اسکے پوچھنے پر وہ خوش ہوگیا ۔۔ پھر سارے احساسات کو ڈباکر جیب سے اپنا رومال نکال کر پانی سے بھگا کر اسے اپنے قریب کیے ۔۔۔
آہستہ سے اسکی چھوٹی ناک صاف کی ۔۔۔۔پھر اس اپنے ہونٹو سے چھولیا ۔۔۔پری کا سانس اور گلا خشک ہونے لگا ۔۔۔

پور پور میں کرنٹ سا پھیل گیا ۔۔۔۔ اسنے گھبرا کر شیری کے سینے پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ دئے ۔۔۔۔جہاں سے اسکی دھڑکن اپنے ہاتھوں میں منتقل ہوتی محسوس ہوئی ۔۔۔

وہ شیری کو اپنے ہونٹ صاف کرنے پر آنکھیں میچ گئی ۔۔۔جب وہاں پر بھی وہی دہکتا لمس محسوس کرکے پوری سمٹ گئی ۔۔۔۔

شیری وہ رومال واپس جیب میں رکھ دیا ۔۔۔۔۔
اب سے تم اس روم میں رہوگی ۔۔۔۔ ڈرنے کی ضرورت نہیں میں نہیں ہونگا یہاں ۔۔۔۔۔وہ اسے باہر لیکر آیا اور اپنے ساتھ بیڈ پر بیٹھاکر بولا ۔۔۔۔۔پر پری کو حکم ہی لگا ۔۔پر اس سے زیادہ خوشی اسکے جانے پر تھی مطلب وہ اب آزادی سے جئے گی اور آزادی سے اپنے پاپا کے پاس جاسکے گی ۔۔۔۔۔اس کی خوشی کا خوفزدہ چہرے سے تو نہیں پر آنکھوں کی چمک سے اندازہ لگا گیا ۔۔۔۔

جس پر وہ بھی مسکرا دیا ۔۔۔
خوش ہو رہی ہو ؟؟چہرے کا رخ اپنی طرف کرتے پوچھنے لگا ۔۔۔۔
پری نے بھی ۔۔۔۔ بھی بغیر سوچے اثبات میں سر ہلادیا ۔۔۔۔پھر احساس کرکے اپنی ہاں کو نفی میں سر ہلانے لگی کہیں ہٹلر جائے ہی نا ۔۔۔۔۔

ایسی معصوم حرکتیں کر کے کہتی ہو گندہ ہوں ۔۔۔۔اپنے ساتھ اسے بھی بیڈ پر گرا کر بولا ۔۔۔۔۔دونوں کی ٹانگیں بیڈ سے نیچے لٹک رہی تھی ۔۔۔۔۔برابر لیٹے ہوئے تھے ۔۔۔ 

کچھ دیر دونوں کی سانسوں کے علاوہ فسوں خیز خاموشی تھی ۔۔۔۔اور اسکو شیری کی گھمبیر آواز نے توڑا ۔۔۔۔

ہنی ۔۔۔۔۔میں صرف ایک ماہ کے لیے جارہا ہوں ۔۔۔۔اور اس ایک ماہ میں تم اس کمرے میں رہوگی ۔۔۔۔۔اسکی بات کا پری نے دوسرہ مطلب لیکر ۔۔۔اسے لگا وہ اسے یہاں پورا ماہ قید کرے گا تاکہ وہ اپنے باپ کے پاس نا جاسکے ۔۔۔۔۔

نن۔۔۔نہیں ۔۔۔وہ بڑبڑاتی جھپاکے سے اٹھی اور وہاں بھاگنا چاہا پر وہ کبھی اس سے جیت نہیں پائی نا ہی کبھی خود آزاد ہوتا محسوس کرنے لگی ۔۔۔۔
کچھ دیر جو سمجھ رہی تھی کہ صرف کچھ دیر ہے پھر چلا جائے گا اسکی زندگی سے ہمیشہ کے لیے یہ سوچ کر وہ ہمیشہ کی طرح یہ بھی خوفدیتی قربت زہر پینے کے برابر جھیلنے لگی ۔۔۔پر اسے کیا پتا تھا وہ ایک سچ کا دیو تھا جو اسے ایک ماہ کے لیے قید کرنے والا تھا روم میں ۔۔۔۔

ابھی اسنے ایکقدم نہیں اٹھایا جب شیری نے لیٹے ہی اسکے کھلے جھولتے بالوں کو مٹھی سے پکڑ کر اپنے اوپر گرایا ۔۔۔۔
آہہ۔۔۔اسکی نکلتی چیخ شیری کے چوڑے ہاتھ نے گلے میں ہی دبالی ۔۔۔۔۔

 اب وہ بند منہ برستی آنکھوں ۔۔کانپتے ٹھرکتے وجود سمیت اسکے اوپر پڑی تھی ۔۔۔۔۔۔اور شیری مسکراتی آنکھوں سے اسکی بھیگی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔

کبھی دماغ کا استعمال نہیں کرنا ۔۔۔۔کہنے کے ساتھ اسے اپنے بازو پر الٹ دیا ۔۔۔۔ جو اب سر اسکے بازو پر رکھی سسک رہی تھی ۔۔۔

مم۔۔۔مجھے نہیں ۔۔رہنا یہاں مم۔۔میں مرجائوں گی تو ۔۔۔؟؟ہچکیوں کے درمیان کہتی ہاتھوں میں منہ چھپاگئی ۔۔۔۔
 
 چپ ۔۔۔ایکدم چپ ۔۔۔۔وہ غصے میں اس پر غرایا  ۔۔۔۔۔خبردار جو آئندہ مرنے کی بات کی ۔۔ ایسا لفظ دوبارہ آنے پر میں تمہاری زبان کاٹ دونگا ۔۔۔۔۔

وہ ایک میجر مضبوط جگر کا ہونے کے باوجود ۔۔۔مجرموں پر اپنے ہاتھوں سے روح کانپے والی سزا دینے پر بھی اسکے اندر کچھ بھی نہیں ہوتا تھا ۔۔۔۔وہ انکی ایسی شکلیں کر دیتا تھا ظلم سے کہ انسان دیکھے تو سانسیں گلے میں اٹک لے پر پھر بھی اسے کچھ نا ہوتا تھا ۔۔۔۔۔پر پری کی مرنے والی بات اسکے اندر کو ہلاکر رکھ گئی ۔۔۔۔۔اس سے الگ یا اسے کھونے کا وہ تصور بھی وہ نہیں کرسکتا تھا ۔۔۔۔کیسے وہ ایسا لفظ برداشت کرتا اسکی سانسیں جیسے بند ہونے والی ہوگئی ۔۔۔۔۔۔

اسکی تیز آواز پر وہ اچھل کر  ایکدم چپ ہوگئی ۔۔۔ اور اسکے بازو میں منہ چھپا گئی ۔۔۔۔۔پر ابھی بھی مدہم ہچکیاں وہ محسوس کررہا تھا ۔۔۔۔۔
وہ گہرا سانس لیکر غصہ ختم کرنے لگا ۔۔۔۔۔
میرا مطلب یہ نہیں تھا ۔۔۔۔ڈارلنگ کہ میں تمہیں یہاں قید کر رہا ہوں ۔۔۔میں یہ کہہ رہا تھا کہ تم یہاں شفٹ ہوجائو ۔۔۔۔ اسکے بالوں میں انگلیاں چلاتے وہ اسے ریلیکس کرنے لگا ۔۔۔۔

میں چاہتا ہوں میں جہاں بھی رہوں تم میرے حصار میں رہو ۔۔۔۔مجھ سے ڈرو نہیں ۔۔۔۔ میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں ۔۔۔۔
تم پر آئی تکلیف اپنے سر لینا چاہتا ہوں ۔۔۔۔۔ایسے ہی وہ اسے کتنی دیر اپنے بازوں میں لیے سمجھاتا رہا ۔۔۔۔ کہ اچانک اسے کچھ احساس ہوا ۔۔۔۔

اسنے جیسے بازو تھوڑا پھیلا کر اسکا چہرا دیکھا ۔۔۔۔ تو چہرے پر بھرپور خوبصورت سی مسکراہٹ آگئی ۔۔۔۔ بھوری آنکھوں میں پیار بھری چمک پیدا ہونے لگی ۔۔۔۔

جب شیری غصے سے غرایا تو وہ آنکھیں میچ گئی ۔۔۔اور برستی آنکھیں کب بوجھل ہوتی نیند کی وادیوں میں چلی گئی اسے پتا بھی نا لگا ۔۔۔۔ وہ شیری کی ایک بھی بات نا سمجھ سکی ۔۔۔۔ پر اسکے دماغ میں جو خوف تھوڑا کم ہوا تھا ۔۔۔۔ پھر سے پورا پھیل گیا ۔۔۔۔۔ اور اسکے دماغ نے اسے پاگل قرار دیتے ۔۔۔۔ بدگمانیوں کی جڑوں سے جکڑا گیا ۔۔۔۔۔

وہ اسکی دہشت سے  سو گئی تھی ۔۔۔ پر نیند کے دوران بھی اسکی ہچکی آجاتی ۔۔۔ 
شیری بغیر سانس لیے بہت قریب کہ پری کی مدہم نرم  سانسیں اپنے چہرے پر محسوس کررہا تھا ۔۔۔۔۔اسے بغیر پلکیں جھپکائے اپنی آنکھوں میں جزب کر رہا تھا ۔۔۔۔۔
پھر آہستہ سا اسکا سر بازو سے ہٹا کر اٹھا اور تکیہ ٹھیک کرکے ۔۔

اسے اٹھا کر سر اس پر رکھ  ٹھیک سے لیٹایا ۔۔۔اور نظریں اسکے بھیگے چہرے پر جمائے اس پر چادر ڈالی ۔۔۔۔

فنا کر دوگی ۔۔۔۔۔وہ بڑبڑاتا اسکے چہرے سے چپکے بال ہٹا کر اپنے ہونٹ ماتھے پر رکھ لیے ۔۔۔۔کبھی مت بھولنا اگر نا آیا ۔۔۔ اور نا ہی دور ہونے کی کوشش کرنا ۔۔۔۔سرگوشی میں کہتے ۔۔۔ایک آخری نظر اس پر ڈالکر ماتھے پر ہاتھ پھیرتا  روم سے نکل کر دروازہ بند کرتا چلاگیا ۔۔۔۔۔

اسے نہیں پتا تھا اتنی خوبصورت پل گذارے گا کہ اسکا رواں رواں سرشار تھا ۔۔۔۔۔

وہاں سے جاتے اسکے قدم حور کے روم کی طرف تھے ۔۔۔۔ کسی ہلچل مچاتے احساس کے تحت اسکی نظر اپنی شرٹ پر گئی ۔۔۔۔ جہاں اسکے چاکلیٹ اور آنسوں سے بھگی ہونے کے ساتھ اسکے لمس اور خوشبو آرہی تھی ۔۔۔۔۔

نکاح کرتے اسنے کبھی یہ سوچا نہیں تھا کہ وہ اتنا دیوانہ ہوجائے گا کہ اسکے بغیر سانسیں لینا بھی محال لگے گا ۔۔۔۔
پر کچھ بھی تھا جیسا بھی تھا کہ اپنی سانسیں پہلے پاک ذات پر وارنے کے بعد اپنی رگوں میں بسے وطن کی مٹی اور اس میں بسنے والے کے بعد ۔۔۔۔ پری کے پاس اپنے سب اختیار دے دیے تھے ۔۔۔۔ 
اپنے دریا دل کی ڈوریاں تھما دی تھی ۔۔۔۔

💕💕💕💕💕

کیا ہوا ہے گڑیا ۔۔۔۔۔حور کے دروازہ کھولنے پر وہ اندر داخل ہوا تو اسکی سوجی آنکھیں دیکھ پریشانی سے  پوچھنے لگا ۔۔۔
بھائی نا جائیں نا ۔۔۔۔ وہ کہتی اسکے گلے لگ گئی ۔۔۔۔شیری نے پہلے ہی اجازت لے لی تھی کہ وہ ایک ماہ یا اس سے اوپر اپنے دوست کے پاس جارہا ہے جس کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے ۔۔۔۔

پہلے احمد صاحب نے تھوڑے سوال اٹھائے پر پھر چپ ہوگیا ۔۔۔۔ دراب نے پوچھا کونسا دوست تو وہ بات گھما گیا ۔۔۔۔ دراب اسکے سب دوستوں کو جانتا تھا ۔۔۔۔۔اس لیے پوچھا پر شیری کے چالاکی سے بات گھمانے پر وہ پوچھ نا سکا ۔۔۔۔۔ شاید اسے اپنا سوال ہی بھول گیا ۔۔۔۔

شیری اسکا سر تھپتھپائے بیڈ پر لے آیا اور وہاں بیٹھا کر خود اسکے سامنے گھٹنو کے بل بیٹھ گیا ۔۔۔۔ گڑیا تم تو لگتا ہے پری سے بھی چھوٹی ہوگئی ہو ۔۔۔۔ وہ اسکے آنسوں صاف کرتے اور اسے بہلا پھسلا کر ناجانے والی بات سے ہی ہٹا گیا ۔۔۔۔

پھر ہنسی مزاق میں اسے مسکرا کر سر پر بوسہ دیتے اسکی طبعیت کے بارے میں پوچھا تو حور نے بس تھوڑا سر میں درد ہے ۔۔۔شیری نے دوائی کا کہا تو اسنے کہہ ابھی مما دے کر گئی ہے ۔۔۔۔جس پر شیری نے سر ہلادیا اور اسے اپنا خیال رکھنے کا کہتے ۔۔جانے لگا جب پیچھے سے ۔۔۔حورنے پکارا ۔۔۔۔۔

بھائی ۔۔۔۔۔ اسکے پکارنے پر وہ مڑا ۔۔۔۔جی بھائی کی جان ۔۔۔
کیا آپ پری سے ۔۔۔ میرا مطلب پری کو پسند کرتے ہیں ۔۔۔حور شاید شیری کا پری نام لینے میں موجود محبت کی شدت محسوس کرگئی تھی ۔۔۔۔۔تبھی ڈرتے پوچھ ہی لیا ۔۔۔

اسکے سوال پر شیری نے پہلے آنکھیں نکالی پھر بولا ۔۔۔۔۔اپنا اور اسکا خیال رکھنا ۔۔۔۔

شیری کے جانے کے بعد وہ مسکراتی ہوئی چیخی ۔۔۔۔ہائے مطلب پری اب سچ میں میری بھابھی بنے گی ۔۔۔۔یاہووووو ۔۔۔۔۔۔ خوشی بیڈ پر گر گئی ۔۔۔۔۔

💕💕💕💕💕💕

شیری چلاگیا تھا ۔۔۔ 

پری کی جب صبح آنکھ کھلی اور رات منظر آنکھوں کے سامنے لہرایا تو وہ کانپ کر رہ گئی جلدی سے اٹھ کر دروازے کو دیکھ تو وہ کھل گیا ۔۔۔۔
اسنے سکون کا سانس لیا اور واپس بیڈ پر گر گئی ۔۔۔ اسنے جیسے سانس لیا تو سانسوں کے درمیان اسے شہریار کے مہکتے پرفیوم کی خوشبو ننتھو سے ٹکرائی ۔۔۔۔وہ جی جان سے لرز گئی ۔۔۔ اور جلد سے اٹھ بیٹھی ۔۔۔۔پھر ڈرتے ڈرتے پورا کمرا چیک کرنے لگی ۔۔۔کہیں وہ روم میں تو نہیں چھپکر بیٹھا ۔۔۔۔

 باتھروم، بیڈ کے نیچے ۔۔۔ ٹیرس پر ۔۔۔صوفے کے پیچھے بھی پر وہ کہیں نہیں تھا ۔۔۔۔ 
اسنے شکر کا کلمہ پڑھا ۔۔۔ خوشبو اسے ابھی بھی آرہی تھی ۔۔۔ 

وہ بھاگ کر باتھروم میں گئی اور وہ ڈریس چینج کے فریش ہوکر باہر آئی ۔۔۔ شاید یہ ایک کوشش تھی خود کو اسکے گرد بنتے حصار سے بچانے کی  پر کچھ نا ہوسکا ۔۔۔۔ وہ مہک اسکے دماغ میں رچ بس گئی تھی ۔۔۔۔

آہہہہ ۔۔۔۔ وہ غصے سے چیخنے لگی ۔۔۔۔۔ اور خود کے بالوں کو مٹھیوں میں جکڑ گئی ۔۔۔۔۔۔جب کچھ بھی نا ہوسکا تو بے بسی سے رونے لگی ۔۔۔۔

اور وہاں ڈبئی میں اپنی صبح اسکے چہرے کو دیکھتے شروع کرتے شیری پہلے تو مسکرا دیا پھر جب وہ رونے چیخنے لگی تو وہ کافی پریشان ہوگیا ۔۔۔۔۔
دل میں ایک درد کی لہر جیسے اٹھی ۔۔۔۔۔

💕💕💕💕💕💕

مینے جو بھی کیا نرگس کے ساتھ اس کے لیے میں ساری زندگی روتا رہوں یا معافی مانگتے گڑگڑاتا رہوں پر شاید تب بھی میرے دل کا بھوج نا اترے مجھے تب بھی معافی نا ملے ۔۔۔۔ پر اسکی معافی میں اٹھتے بیٹھتے مانگتا رہتا ہوں ۔۔۔

میں یہاں تم دونوں سے بھی معافی مانگنے آیا ہوں مجھے معاف کردو اور مجھے میری بچی لوٹا دو ۔۔۔۔ میں اب اور اسکے بنا نہیں رہ سکتا ۔۔۔۔۔ ایسا لگ رہا کہ زندگی کے ہی کچھ دن رہ گئے ہیں ۔۔۔۔۔وہ دونوں ہاتھ معافی مانگنے کے انداز میں منہ کے آگے جورتا  روتے ہوئے بولنے لگا ۔۔۔۔۔ الطاف صاحب اس وقت حماد اور احمد صاحب کے سامنے انکی آفس میں بیٹھا اپنی غلطیوں پر روتا ۔۔۔۔ پری کو واپس لینے کی التجا کر رہا تھا ۔۔۔۔۔

اسکا چھوٹا بیٹا بھی پاس کھڑا تھا ۔۔۔۔۔ 

احمد صاحب کو شاید اسکی حالت پر ترس آگیا تھا ۔۔۔۔ آتا بھی کیوں نا وہ اسکا بچپن کا دوست تھا ۔۔۔ اور اسکی لاڈو پلی بہن کی محبت ۔۔۔۔۔

یہ ہاتھ تم ہمارے سامنے نہیں اس پاک ذات کے سامنے جوڑو ۔۔۔۔۔وہ اسکے ہاتھ نیچے کرتے اسے اپنے ساتھ گلے لگا گیا ۔۔۔۔۔

مجھے معاف کردو یار میں غلط راہوں پر چل کر اپنوں کو بھول گیا تھا ۔۔۔۔۔
پھر کافی دیر وہاں بیٹھ کر معافی تلافی کرتا رہا اور حماد صاحب کے کچھ وقت مانگنے پر انکا شکریہ ادا کرتا چلا گیا ۔۔۔۔

تمنے کیا سوچا ہے احمد ۔۔۔۔۔ حماد صاحب نے سوچوں میں گھم احمد صاحب سے پوچھا ۔۔۔۔

میں کیا سوچوں یا کہوں بھائی ۔۔۔۔ 
کیا تم چاہتے ہو پری کو واپس الطاف صاحب کے پاس بیج دیں اور شہریار کے ساتھ اسکا نکاح ۔۔۔۔؟؟ وہ پوچھتے اسکے چہرے کو دیکھنے لگا ۔۔۔۔

اگر آپ پری بٹیا کی بات کر رہے ہیں تو ہم اسے وہاں بیج کر صحیح فیصلا کریں گے ۔۔۔۔۔ہمارے اتنے پیار اور محبت اسکے آنکھوں میں موجود ماں باپ کے خلا کو پُر نا کرسکا ۔۔۔۔
اسکی آنکھوں میں مینے باپ کی چھائوں کو ترسا دیکھا ہے ۔۔۔۔ اگر الطاف کو اپنی غلطی کا احساس ہے اور پری بٹیا بھی اپنے باپ کے پاس رہنے کے لیے راضی ہے تو ہمیں اسکی خوشی کا خیال کرنا چاہیے .  ۔۔۔ آپ خود الطاف کی حالت دیکھ رہے ہیں کہ کیسا تھا کیسا ہوگیا ہے اگر اس بار ہمنے الطاف جیسا کام کیا تو اور کچھ نہیں اسکی سانسیں تھم سکتی ہیں ۔۔۔۔۔ اور رہی شہریار کے نکاح کی بات تو وہ راضی نہیں تھا اس نکاح پر اور دونوں کے نیچر میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔۔۔۔ اسکا  شہریار کے ساتھ  کوئی جوڑ نہیں ہے ۔۔۔۔ وہ میرا بیٹا ہے میں اسے جانتا ہوں ۔۔۔ غصے کا تیز اپنی کرنے والا ۔۔۔۔ بات بات پر جھڑکنا اسکی عادت ہے ۔۔۔۔ اسلیے اس بار جان بوجھ کر ایک اور نرگس نہیں بنا سکتے ۔۔۔۔ اس بچی کی بھی اپنی زندگی پر حق ہے ۔۔۔۔ میں چاہتا ہوں آپ پری بٹیا سے پوچھ اسکی خوش دیکھ کر فیصلا کریں ۔۔۔۔

احمد صاحب کی بات پر حماد صاحب نے اثبات میں سر ہلادیا ۔۔۔۔

💕💕💕💕💕💕

ہفتہ  گذر گیا تھا انہیں فواد کو ڈھونڈتے وہ ان کے پہچنے سے پہلے کہیں غائب ہوگیا تھا ۔۔۔۔ شیری اور اسکی ٹیم کی جہدوجد کی وجہ سے اتنا تو اسے پتا لگ گیا تھا کہ اسکے کافی بار تھے جن میں  غیر قانونی کام چل رہے تھے۔۔۔رات کے اندھیرے میں ۔۔۔ ۔۔۔

 اور وہ رستم کا مین آدمی تھا جو اسے لڑکیاں یہاں سے بیجتا  تھا اور وہ آگے دوسرے ملک میں انہیں کسی کلب بڑے اور امیر آدموں  سے منہ مانگی قیمتوں میں بیجتا تھا ۔۔ ۔۔۔۔

اب انہوں نے ایک پلان بنایا تھا جس پر انہیں بس عمل کرنا تھا ۔۔۔۔اور اسکے پلان سے دونوں مگر مچھ قبضے میں آتے لگ رہے تھے ۔۔۔۔

ان تین دنوں میں اسنے پری کو دیکھنا نہ چھوڑا تھا ۔۔۔۔ جسے دیکھ وہ کتنی پریشانی میں کیوں نا ہوتا گداز لبوں پر خوبےخود مسکراہٹ آجاتی ۔۔۔۔۔

💕💕💕💕💕💕

Tera Ashiq Me Dewana Ho Awara Mehwish Ali 29




#تیرا_عاشق_میں_دیوانہ_ہوں_آوارہ🌹
#از__مہوش_علی۔ 
#قسط__29
💕💕💕💕💕

عائمہ بیگم اور عالیہ بیگم حور سمیت اس وقت فراز صاحب کے ساتھ انکے روم میں بیٹھی تھی ۔۔۔۔حسن بھی شرمندہ سا سر جھکائے بیٹھا تھا ۔۔۔ اسے نہیں پتا تھا سفیان ایسا کریگا ۔۔۔ مطلب کسی کو بھی یقین نہیں ہورہا  تھا ۔۔سفیان اتنا گر گیا ہے ۔۔۔ پر حور کی حالت انہیں یقین کرنے پر مجبور کر رہی تھی ۔۔۔ بھلا کوئی لڑکی کیسے اپنے منہ سے ایسا کہہ سکتی ہے ۔۔۔ اگر کوئی اور ہوتی تو وہ بلکل بھی یقین نہیں کرتا پر یہاں حور تھی سوفٹ نیچر اور سفیان کو اپنا دوست ماننے والی ۔۔۔

فراز صاحب نے عائمہ بیگم اور حور کے منہ سے سسکتے ساری سفیان کی حرکت اور دھمکیاں جو حورنے اپنی طرف سے ڈالی تھی شرمندہ سا ہونٹ بھینچے سنتے سر جھکائے غیض وغضب میں بیٹھے تھے ۔۔۔ وہ کل ہی آئے تھے کمیل کی حالت کچھ بہتر ہونے پر کسی نے اسے بری طرح سے پیٹا تھا جس سے اسکی ناک کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی اور اسے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا ۔۔۔۔مطلب وہ بہرا ہوگیا تھا ۔۔۔فیاض صاحب اپنے ایک لوتے لاڈلے بیٹے کی حالت پر بے ہوش ہوگئے تھے۔۔۔کافی کمیل سے کوشش کرکے پوچھنے پر بھی وہ کچھ نہیں بتا رہا تھا ۔۔۔۔کچھ دن بھائی کے ساتھ رہنے کے بعد یہاں آیا تو یہاں اسکے لیے ایک اور دھماکہ رکھا تھا ۔۔۔۔

 حور رو رہی تھی ۔۔۔
جب سفیان کو بلایا گیا تھا اور وہ حور کا آنے کا سنتے خوشی سے سلام کرتا کمرے میں داخل ہوا ۔۔۔ پر وہاں کا گھمبیر ماحول  دیکھ اسے کچھ گڑبڑ کا انداز لگایا ۔۔۔۔ پھر حور کو روتے اور اسکی آواز پر عائمہ بیگم سے چپک کر بیٹھنا ۔۔۔۔۔ وہ اس سارے معاملے کو سمجھ گیا تھا ۔۔۔۔
 اسکے سلام کا کسی نے جواب نا دیا ۔۔۔ عائمہ بیگم نے دیکھ کر غصے سے اٹھ کر ایک زوردار تھپڑ اسے مارا ۔۔۔۔
چٹاخ۔۔۔۔۔.   کی آواز پورے کمرے میں گونجی ۔۔۔ حور تو جیسے سمٹ سی گئی ۔۔۔ اندر کا جو غصہ تھا ۔۔۔۔ اسکے وجہ سے وہ کچھ جتاتی نظروں سے دیکھا جو وہ سب سمجھ گیا ۔۔۔۔ حور کے بھیگے  چہرے پر نا محسوس کرنے والی ایک تمسخرہ اڑاتی مسکراہٹ تھی ۔۔۔۔

جس نے سفیان کی رنگوں میں لاوا ابل دیا پر وہ چپ کر ہونٹ بھینچے کھڑا رہا ۔۔۔۔
تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری بچی کے ساتھ ایسا کرنے کی تمنے ایسے بلکل سہما دیا اسکے ساتھ ایسی گھٹیا حرکت کرتے تمہیں ذرا بھی شرم نہیں آئی وہ کتنی عزت کرتی تھی تمہاری ۔۔۔۔۔وہ اسے ایک کے بعد ایک تھپڑ مارتی گریبان سے پکڑ کر جھنجھوڑتی پورا حساب لے رہی تھی ۔۔۔۔ آنکھوں میں آنسوں بہہ رہے تھے ۔۔۔ جب عالیہ بیگم نے انہیں سنبھالا ۔۔۔۔۔
اور انہیں واپس صوفے پر بیٹھاکر ریلیکس کرنے لگی۔۔۔۔ جو لمبے لمبے سانس لے رہی تھی ۔۔۔۔۔

سفیان تو خاموش سرخ چہرا لیے بس حور کو تک رہا تھا ۔۔۔۔ جیسے نظروں سے کہہ رہا ہو بہت غلط کردیا تمنے حور اب اس سب کا حساب دوگی ۔۔۔۔۔
حور نے سمجھ کر اپنی چشمے کے پیچھے آنکھیں رگڑتی ۔۔ہونہہ ۔۔کہا ۔۔۔ جیسے سفیان نے پوری شدت سے محسوس کیا تھا ۔۔۔۔اور غصے سے مٹھیاں بھینچ لیں ۔۔۔۔

فراز صاحب حور کو روتے سہمتی آنکھوں میں دیکھا جو سفیان کی غیض وغضب سی ڈر رہی تھی ۔۔۔۔ 

ایسا انہیں محسوس ہوا۔۔۔۔۔

پھر سفیان کو دیکھا جو مٹھیا بھینچے اسے قہرآلودہ نظروں سے دیکھ رہا تھا پر اسکی آنکھوں میں موجود لاوا وہ پوری طرح سمجھ رہا تھا ۔۔۔۔۔فراز صاحب تو جیسے بگڑ گئے مطلب وہ اپنی غلطی نہیں مان رہا تھا الٹا ایسے اور ہراسا کر رہا تھا ۔۔۔۔ 
وہ ایک جھٹکے سے اٹھے ۔۔۔۔
حسن بھی گھبرا کر کھڑا ہوگیا ۔۔۔۔ اپنے باپ کی آنکھوں میں موجود تکلیف دیکھ کر ۔۔۔۔۔

چٹاخ ۔۔۔ چٹاخ ۔۔۔۔ایک کے بعد ایک پھر سفیان کی گال سرخ ہوگئی پر اس بار آواز اتنی زور سے تھی کہ حور کا دل سکیڑ گیا ۔۔۔۔
اسنے سہمی نظریں اٹھائی تو وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔

اس بار سفیان کی نظروں میں پتا نہیں ایسا کیا تھا کہ حور کی ریڑھ کی ہڈی میں سنساہٹ پھیل گئی اسنے گھبرا کر عالیہ بیگم کا ہاتھ پکڑا ۔۔۔۔

یہاں دیکھ نافرمان وہاں کیا دیکھ رہا ہے ۔۔۔۔ فراز صاحب نے گلے سے پکڑ جھٹکے سے اسکا رخ اپنی طرف کیا ۔۔۔۔
کیا کیا ہے تمنے ہاں ۔۔۔کیا کیا ہے ۔۔۔۔ وہ دھاڑتے بولے ۔۔۔ پر اسکے منہ پر جیسے قفل لگ گیا ہو ۔۔۔۔ خاموشی سے سر جھکادیا فراز صاحب کے سامنے ۔۔۔۔

بتا کیوں ۔۔۔۔ کیوں کیا تمنے ایسا ۔۔۔ کیا میں مر گیا تھا یا میری زندگی پر بھروسہ نہیں تھا ۔۔۔۔ وہ اتنے کرب سے غرائے کہ وہاں موجود ہرکوئی تڑپ کر رہ گیا ۔۔۔۔۔ 

بھائی ایسا تو نا بولیں ۔۔۔ عالیہ بیگم تڑپ کر بولی ۔۔۔۔عائمہ بیگم کا بھی اس سے الگ نہیں تھا حال ۔۔۔۔۔

پا۔۔پا ۔۔۔۔۔ حسن اور سفیان دونوں ساتھ تڑپ کر بولے ۔۔۔۔ 
نوشین بھی دروازے پر ساکت کھڑی تھی ۔۔۔۔ اسے بھی سفیان پر حیریت اور حور کی حالت پر ترس آرہا تھا ۔۔۔۔

مت بول مجھے پاپا ۔۔۔ مرگیا تیرا باپ ۔۔۔۔ مرگیا ۔۔۔۔۔ وہ بالکل ٹوٹ سے گئے تھے ۔۔۔۔ کیا یہ تربیت کی تھی اسنے اسکی ۔۔۔ تنہا رہ کر انکا خیال رکھا ۔۔۔ لوگوں کے دوسری شادی کا کہنے پر بھی اسنے نہیں کی کہ کہیں دوسری بیوی اسکے بچوں کو تکلیف نا دے ۔۔۔ کہیں ایک پل اسکی توجہ اپنے بیٹوں سے بھٹک نا جائے ۔۔۔ اسی ڈر سے ساری جوانی ان پر وار دی انکے لیے دن رات کماتا رہا خود تھک جاتا پر انہیں احساس نہیں ہونے دیتا ۔۔۔

 کبھی تو ایسی حالت ہوتی کہ ایک ساتھی کی شدت سے ضرورت پڑتی ۔۔۔ پر اسنے ان سب خوائشوں ضرورتوں کا گلا گھونٹ کر اپنا آپ دونوں پر وار دیا ۔۔۔۔ ایک بھی  پل ان دونوں کو بغیر دعائوں کے نا گذارتا ۔۔۔ انہیں دیکھ دیکھ کر جیتا رہا ۔۔۔خوش ہوتا رہا۔۔۔۔۔۔ پر آج ۔۔۔۔

آج شاید وہ ٹوٹ گیا بکھر گیا۔۔۔۔ ایک بار پھر ۔۔۔۔وہ بکھر گیا ۔۔۔۔اسے شدت سے اپنی محبوب بیوی کی کمی محسوس ہونے لگی ۔۔۔۔۔

شا۔۔۔۔ید میں ۔۔۔۔ ہر ممکن کوشش کرنے کے ۔۔۔ بعد بھی ایک اچھا باپ ثابت نا ہوسکا ۔۔۔۔مج۔۔ھے معاف کردو ۔۔۔۔وہ حور کے سامنے ہاتھ جوڑتے دل پر جو درد کی لہر اٹھ رہی تھی اسکو ڈباتے دہرام سے نیچے قالین پر گرگیا ۔۔۔۔

پا۔۔۔پا ۔۔۔۔۔سب سے پہلے سفیان کی چیخ نکلی ۔۔۔۔۔ بھائی ۔۔۔ عالیہ اور عائمہ بیگم بھی اسکی طرف لپکی ۔۔۔۔۔ حسن نے روتے ہوئے ۔۔۔۔ 
سفیان کو دھکا دیا ۔۔۔۔
دور ہٹو ۔۔۔۔ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے ۔۔۔۔ سب تمنے کیا ہے اگر پاپا کو کچھ ہوا تو میں تمہیں زندہ زمین میں گاڑھ دونگا ۔۔۔۔۔ وہ اسے دھکیلتا دھارتے بولا  ۔۔۔۔ اچانک سارہ ماحول ہی بدل گیا تھا ۔۔۔۔

حور کی تو روح فنا ہوگئی ۔۔۔۔ اسے کیا پتا تھا کہ ایسا ہوگا ۔۔۔ یہ سب تو اسکے وہم گمان میں بھی نہیں تھا ۔۔۔۔۔وہ وہیں ساکت سی کھڑی ہوگئی ۔۔۔۔۔ 

سب کی آنکھیں اشک بہارہی تھی ۔۔۔۔ عالیہ اور عائمہ بیگم تو خود کو پیٹ رہی تھی ۔۔۔۔ حسن ایک قہر برساتی نظر ساکت کھڑے سفیان پر ڈالی ۔۔۔اور جیسے تیسے کرکے فراز صاحب کو اٹھایا ۔۔۔ 
دور ہٹو میں شوٹ کردونگا تمہیں ۔۔۔۔۔سفیان کے ہاتھ آگے بڑتے دیکھ وہ پھر غضب میں دھاڑا ۔۔۔۔۔

بھائی اے۔۔۔ایسا نہ کریں ۔۔۔۔۔ حسن کے جاتے پیچھے وہ بھی لپکا ۔۔۔۔ سب اسے گاڑی میں ڈال کر ہاسپٹل روانہ ہوئے عائمہ نے نوشین سے کہہ دیا تھا کہ وہ حور کو لیکر آئے پیچھے ڈرائیور کے ساتھ کیونکہ مزید گاڑی میں جگہ نہیں  تھی اور انہیں کیسے بھی کرکے جلدی ہاسپٹل پہنچنا تھا ۔۔۔۔

اچانک پیچھے سرخ آنکھوں سے آنسوں بہاتے گاڑی کو فراز ولا سے جاتے دیکھتے سفیان کی رنگوں میں سرسراہٹ پھیلی ۔۔۔ اسکے پور پور میں لاوا سا ابلنے لگا ۔۔۔۔۔

اور ایک قہربرساتی نظر فراز صاحب کے کمرے پر ڈالی ۔۔۔۔۔
نوشین روتی اپنے کمرے میں سے چادر اٹھانے چلی گئی تھی ۔۔۔۔

اسکے ڈب ڈب کرتے قدم اس کمرے کی طرف اٹھے ۔۔۔۔ اور ایک دھاڑ کی آواز سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا ۔۔۔ اور نظر سیدھا ۔۔۔۔سامنے کانپتے ساکت آنکھوں سے دروازے کو تکتی آنسوں بہاتی حور پر پڑی ۔۔

جو ایک سپرنگ کی طرح کانپ رہی تھی ۔۔۔۔ وہ شاید سکتے میں تھی ۔۔۔ تبھی دھاڑ کی آواز پر اچھل کر پیچھے صوفے پر گری ۔۔۔۔

اور جب خونآلودہ سرخ نظروں سے دروازے پر کھڑے سفیان پر پڑی تو وہ تیز لرزنے لگی اسکی انگلیاں منہ کو آرہی تھی خوف سے ۔۔۔۔

نن۔۔۔نہیں ۔۔۔نہیں مینے کچھ نن۔۔نہیں کیا ۔۔۔سیفی ۔۔۔۔مجھے ۔۔۔۔معا۔۔۔۔اسکے لفظ ابھی منہ میں ہی تھے جب وہ دھاڑہ ۔۔۔۔۔۔خاموش ۔۔۔۔ایک لفظ بھی مت نکالنا ۔۔۔۔اسکی دھاڑ سے در و دیوار ہل کر رہ گئے تھے ۔۔۔۔ حور نے چیخ کر اپنی کانوں پر ہاتھ رکھ دیے ۔۔۔۔

جب وہ ایک جست میں اس تک پہنچا اور اتنی سخت پکڑ میں اسکے بازوں لیے کہ حور چلا اٹھی ۔۔۔۔

آہہہہ ۔۔۔۔ پر اس سے بھی درد اسے اس پر ہوا جب سفیان نے پوری طاقت سے اسے پکڑ کر دیوار سے لگایا ۔۔۔ اسکی پسلیاں چکناچوڑ ہوتی محسوس ہوئی ۔۔۔۔ایک درد کرب بھری آہ اسکے منہ سے نکلی ۔۔۔یہ تو شکر تھا دیوار سے لگانے پر سر لڑکھ کر اسکے سینے پر نا آتا تو شاید آج وہ لہولہان ہوتی ۔۔۔۔

کیوں کیا تمنے ایسا ۔۔۔۔۔اسکے بالوں کو مٹھی میں جکڑ کر سر اونچا کیا ۔۔۔۔اور منہ پر دھاڑ ۔۔۔۔
حور اسکے پکڑ میں مچلتی رو رہی تھی ۔۔۔۔ اسکا سر بری طرح درد کرنے لگا تھا ۔۔۔۔اسے لگا اگر اسنے تھوڑا بھی پیچھے کیا تو شاید اسکی گردن در سے الگ ہوجائے گی ۔۔۔۔
کان تھے کہ اسکی دھاڑ پر پھٹنے کے قریب تھے ۔۔۔۔
مم۔۔۔مجھے معاف کک۔۔کردو ۔۔۔ م۔۔مجھے نہیں پتا تھا ایسا ہوجائے گا ۔۔۔۔۔مم۔۔۔میں تو ۔۔بس۔۔۔

ہچکیوں ڈر و خوف کے بیچ بمشکل بولی ۔۔۔۔

میرے سامنے جھوٹ نا بولا ۔۔۔ تم یہی چاہتی تھی مجھے تکلیف ہو اور مظلومیت کا ناٹک کرکے تمنے میرے باپ کو اس جگہ پہنچایا ۔۔۔۔وہ اسکے جبڑے سے سختی سے پکڑ ۔۔۔ایسے کہ حور کے جبڑے سے درد نکلتا کان دماغ کو دکھانے لگا ۔۔۔۔۔

وہ آنکھیں میچے درد سے اسکی پکڑ میں کہرانے لگی ۔۔۔ اسکی سسکیاں گھٹ کر گلے میں ڈب گئیں۔۔۔۔

تو میں تمہیں زندہ جہنم دیکھادونگا ۔۔۔۔بتائونگا تکلیف کیا ہوتی ہے ۔۔۔ایسے ظلم کرونگا کہ تم گڑگڑائو گی تبھی میرے ہاتھ نہیں رکیں گے ۔۔۔۔فنا کردونگا تمہیں ۔۔۔۔فنا ۔۔۔۔۔دھاڑنے کے ساتھ اسے قالین پر پھیکا ۔۔۔۔حور چیخ کے ساتھ منہ کے بل قالین پر گری ۔۔۔۔
اور وہیں منہ دئے رونے سسکنے لگی ۔۔۔۔

وہ تھر تھر پڑی نیچے کانپ رہی تھی جب سرد سے سرگوشی کان میں پڑی ۔۔۔۔۔
اور جس عزت کا تم یہاں رونا رونے آئی ہو ۔۔۔ وہ لمحے لمحے میں تمہیں تڑپاتی رہی گی ۔۔۔۔۔۔
سفیان کہتا ایک قہربرساتی نظر اسکے وجود پر ڈالا اور دروازے سے اندر آتی نوشین کو بغیر دیکھے نکلتا چلا گیا ۔۔۔۔۔

حور پوری سمٹتی تیز آواز میں روتی فراز صاحب کے ٹھیک ہونے کی دعا دل میں کرتی گڑگڑا رہی تھی ۔۔۔۔

گڑیا ۔۔۔۔ نوشین تڑپ کر اسکے پاس آئی ۔۔۔ اور اسے زمین سے اٹھاکر اپنے گلے سے لگایا ۔۔۔۔اور اسکے کانپتے وجود کو سنبھالنے لگی ۔۔۔

آآ۔۔۔آپی سب مم۔۔میری وجہ سے ہوا ہے ۔۔۔۔ وہ مجھے ۔۔مار دیگا اگر ۔۔اگر ماموں ٹھیک نا ہوئے ۔۔۔۔۔وہ ہچکیوں کے درمیان ڈر لفظوں میں سمائے بولی ۔۔۔۔

کچھ نہیں ہوگا ۔۔اللہ پاک سب ٹھیک کردیگا ۔۔۔۔سفیان کچھ نہیں بگاڑ سکتا تمہارہ ہمارے ہوتے ہوئے ۔۔۔۔ تم ڈرو نہیں ۔۔۔ ماموں کے لیے دعا کرو ۔۔۔۔وہ اسکے آنسوں صاف کرتی اسے تسلی دینے لگی جب نظر حور کے جبڑے پر پڑی جہاں دونوں طرف سرخ انگلیوں کے نشان تھے ۔۔۔۔ اسنے جیسے چھوا تو حور کہرا اٹھی ۔۔۔۔

یہ سفیان نے کیا ہے ؟؟۔۔۔۔اسنے بے یقینی سے حور کے سرخ چہرے اور سوجی سنہری آنکھوں میں دیکھا ۔۔۔ چشما اسکے پھیکنے پر اتر گیا تھا ۔۔۔۔
میں اسکے لائق تھی ۔۔۔۔ وہ منہ دور کرتی بولی ۔۔۔آنکھیں ابھی بھی بہہ رہی تھی ۔۔۔
تم پاگل ہو ۔۔۔ تمنے کچھ نہیں کیا جو بھی ہوا ہے اسکے عمل کا نتیجا ہے ۔۔۔اسکی وجہ سے ماموں اس حال میں ہے ۔۔۔ تمنے جو کیا وہ ٹھیک کیا ۔۔اگر نہیں بتاتی تو شاید وہ پتا نہیں کیا کر جاتا ۔۔۔۔۔حور خاموش سر جھکا گئی ۔۔۔۔ اندر میں خود کو قصور وار سمجھ رہی تھی ۔۔۔۔

اور پھر نوشین اسے سنبھالتی اپنے ساتھ لے گئی ۔۔۔۔ حور نے آہستہ سے اپنا چہرے کا نچلا حصا دوپٹے سے چھپا لیا ۔۔۔۔۔سفیان کی خوفزدہ باتیں ابھی بھی اسکے کان میں گونج رہی تھی ۔۔۔۔

💕💕💕💕💕

کمرے میں خاموشی پھیلی ہوئی تھی ۔۔۔ 
حماد احمد صاحب اور الطاف صاحب کی موجودگی میں وہ صوفے پر بیٹھی سر جھکائے آنسوں بہارہی تھی ۔۔۔۔۔
اسے کچھ دیر پہلے ہی بلایا گیا تھا ۔۔۔ الطاف صاحب کو دیکھ وہاں وہ ساکت ہوگئی تھی ۔۔۔جب اسنے آگے بڑھ کر پری کو خود میں بھینچ لیا اور کتنی ہی دیر وہ اسے لگائے روتا معافی مانگتا رہا ۔۔۔۔

پری بھی خاموشی سے روتی رہی ۔۔۔۔۔جب الطاف صاحب نے اسے اپنے ساتھ بٹھایا ۔۔۔۔

اور پھر حماد صاحب نے اس سے الطاف صاحب کے ساتھ جانے کی رائے پوچھی ۔۔۔۔اسنے خاموش نظر اپنے باپ پڑ ڈالی جس پر اسنے آگے ہاتھ جوڑ دیے ۔۔۔۔۔
پری کا جیسے دل پھٹنے کے قریب ہوگیا ۔۔۔۔ اسنے تڑپ کر انکے ہاتھ تھامے ۔۔۔۔۔ اور پاپا کہتی ۔۔۔۔ سسکتی انکے گلے لگ گئی ۔۔۔۔۔اگر وہ سخت دل ہوتی تب بھی وہ یہاں نا رہتی ۔۔۔ اسکا باپ صرف باہر سے ہی پکارتا یا پھر ساتھ چلنے کا اشارہ کرتا تب بھی وہ چلی جاتی ۔۔۔

اسنے سب سے دور ہونے کی تکلیف ضرور ہوتی پر سب سے بڑا جان لیوا انسان سے چھٹکارے کے لیے وہ ہر درد پی لیتی ۔۔۔۔پر شیری کے واپس آنے سے پہلے ہی وہ اسکی پہنچ سے دور بھاگنا چاہتی تھی ۔۔۔
ہمیں خوشی ہوئی کہ تمنے اپنے حق میں فیصلا لیا ۔۔۔ اور اپنی ماں کی پرچھائی بن کر دیکھایا ۔۔۔۔ حماد صاحب بہن کے ذکر پر آنکھیں صاف کرتے بولے ۔۔۔۔ 
پری خاموشی سے روتی سنتی الطاف صاحب کے سینے میں منہ ہچکیاں لینے لگی ۔۔۔۔ شاید ماں کی کمی محسوس ہونے لگی تھی ۔۔۔۔۔

مم۔۔۔مجھے معاف کردیں ۔۔بب۔۔بڑے پاپا ۔۔میں پاپا کے بغیر نہیں رہ سکتی ۔۔۔۔۔اسے شاید دکھ ہوا تھا انسے الگ ہونے کا تبھی بولی ۔۔۔۔

نہیں میری جان معافی مانگ کر ہمیں شرمندہ نا کرو ۔۔۔ بلکہ معافی تو ہمیں مانگنی چاہیے ۔۔۔۔انکا اشارہ شیری کے پہلے برتائو کی طرف تھا جو یاد کرتے دونوں بھائیوں کو آج بھی تکلیف ہوتی تھی ۔۔۔۔

نن۔۔نہیں آپ نا معافی م۔۔مانگے ۔۔۔۔۔وہ اٹھ کر دونوں کے پاس آئی ۔۔۔۔ اور انسے بولی ۔۔۔۔۔

دونوں پاس بیٹھا کر اس معصوم پری کا سر چوم لیا ۔۔۔۔ جو کسی تکلیف پر بھی افف نا کرتی ۔۔۔ کسی سے شکایت نا کرتی ۔۔۔۔

ہمیں اس پاک ذات نے پھر سے ایک دریا دل کی بیٹی کے روپ میں بہن جو لی تھی واپس دے دی ۔۔۔۔۔۔

پری ہنس دی خوشی سے ۔۔۔۔ اندر ایک سکون کی لہر اٹھی ۔۔۔اس سے چہرا گلنار ہوگیا تھا ۔۔۔۔

پھر کچھ باتوں کے بعد وہ اٹھ کر کمرے میں آگئی ۔۔۔۔۔جب پیچھے دراب کی کال حماد صاحب کو آئی ۔۔۔۔۔ کال پک کرنے پر انہیں فراز صاحب کا ہاسپٹل میں ہے انہیں میجر ہارٹ اٹیک آیا ہے ۔۔۔اور سب لوگ کافی پریشان اور رو رہے ہیں ۔۔۔۔
یہ سب سنتے انہونے احمد صاحب کو بتایا اور تینوں پریشان سے ہاسپٹل کی طرف روانہ ہوئے ۔۔۔۔

💕💕💕💕💕💕

شہریار سب کو اپنا سارا منصوبہ سمجھاتا انکی رائے بھی لینے لگا ۔۔۔.  
سب نے اوکے سر کہا ۔۔۔۔پر سمیر کچھ نا بولا شاید اسے مہک سے یہ سب کرواناپسند نہیں آیا تھا یا وہ اسے ان مگر مچھ کے بیچ نہیں بیجنا چاہتا تھا ۔۔۔۔۔۔جس کا اسکے چہرے پر انکار صاف دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔

کیپٹن سمیر ؟؟کیا آپ ایگری ہیں ۔۔۔۔
نو سر آئی ایم ناٹ ایگری ؟؟اسنے بغیر کسی کی پھٹی آنکھوں میں دیکھتے اپنی رائے دی۔۔۔۔۔

اسکی بات پر مہک نے دانت پیس کر اسے دیکھا ۔۔۔۔اسے پتا تھا وہ کیوں نہیں اس فیصلے سے راضی ۔۔۔۔۔شہریار نے منتظر نظروں سے اسے دیکھا جیسے کہہ رہا ہو اپنی وجہ بتائو ۔۔۔۔

سر اس میں بہت خطرا ہو۔۔۔۔ اسکے مزید بولنے سے پہلے ہی وہ سرد آواز میں بولا ۔۔۔۔
شاید کیپٹن آپ بھول رہے ہو کہ ہم اس پاک وطن کے رکھوالے ہیں ۔۔۔ ہمارا جینا مرنا سب اس سے جڑا ہے ۔۔۔۔کوئی بھی بڑا سے بڑا خطرا یا کوئی دشمن ہمیں نہیں ہرا سکتا ۔۔۔۔ اسکے لیے اگر ہمیں اپنی سانسیں گوانی پڑی اس سے بھی ہم گریز نہیں کرتے ۔۔۔۔ تو آپ کس خطرے کی بات کر رہے ہو ۔۔۔۔اگر اتنا خطرا محسوس ہورہا ہے تو جاکر گھر میں بیٹھ جائو ۔۔۔۔۔ 

اور ہم سب یہاں آپکے خطرے کے وجہ جان چکے ہیں تو میں کلیر کرتا ہوں کیپٹن مہک آپسے پہلے اس وطن سے جڑی ہے ۔۔۔۔ اگر دونوں میں کسی ایک کو چننا پڑا تو آئی ایم شور وہ اس وطن کو چنے گی ۔۔۔۔
شاید تم بھول گئے ہو جب ہم اس فیلڈ میں آتے ہیں اپنے وطن کی رکھوالی اپنے کندھوں پر لیتے ہیں تو پہلے ہی سر پر کفن باندھ دیتے ہیں ۔۔۔۔۔اسنے سمجھاتے ایک گہرا سانس بھرا جیسے ناپسندگی سوال ہضم کر رہا ہو ۔۔۔۔

اینی کوئچشن ؟؟ اسنے سب سے پوچھا ۔۔۔۔ جس سب نے نو سر کہا اور وہ مہک کو حکم دیتا چلا گیا ۔۔۔۔۔
آپ خود کو ریڈی کرلیں۔۔۔۔۔ ؟؟ اور میں کچھ دیر میں سکن بیجتا ہوں ۔۔۔۔

وہ کمرے میں آیا اور اپنا لیپ ٹاپ لے کر ۔۔۔پری کے روم کو دیکھنے لگا ۔۔۔۔جسے دیکھ اسکے گداز لبوں پر مسکراہٹ چھائی اور آنکھوں میں چمک سی پیدا ہوئی ۔۔۔۔اور بڑی دلچسپی سے اسی حرکت دیکھنے لگا ۔۔۔۔۔

آج وہ کافی خوش لگ رہی تھی جس کا اظہار وہ اپنی کارکردگی سے دیکھا رہی تھی ۔۔۔۔۔
شیری مسرور سا دیکھنے لگا ۔۔۔۔ آج وہ جی بھر کر دیکھنا چاہتا تھا پھر اسے شاید وقت نا ملتا ۔۔۔۔۔ 

پری کو دیکھتے اسکی ساری تھکن اور پریشانی جو فراز صاحب کی سیریس حالت کا سن کر ہوئی تھی کہیں ہوا ہوتی لگی ۔۔۔۔

اسکا مضبوط ہاتھ جھومتی پری کو چھونے لگا ۔۔۔۔۔پھر کمرے میں ایک قہقہہ گونجا ۔۔۔

💕💕💕💕💕💕

پری بھاگتی اندر کمرے میں آئی اور کھٹک سے دروازہ بند کیا پھر چلتی ڈریسنگ آئینے کے سامنے آئی ۔۔۔۔اور اپنا دمکتا چہرا دیکھنے لگی ۔۔۔۔

سرخ پنکھڑیوں جیسے ہونٹوں پر پیاری سی مسکراہٹ تھی ۔۔۔وہ سرشار سی خود میں گھم اپنے آزاد کے نشے میں گھم شیری کے حصار میں تھی ۔۔۔۔

اسکی نظر ٹیبل پر رکھے رنگ بے رنگی لپسٹک کی جانب گئی تو ان میں سے پنک جو اسکا پسندیدہ کلر تھا وہ اٹھا کر دیکھی ۔۔۔۔۔پھر اپنے ہونٹوں کو دیکھنے لگی ۔۔۔۔آہستہ سے یہاں وہاں دیکھنے لگی جیسے شیری تو نہیں ۔۔۔۔پر جب احساس ہوا کہ وہ تو یہاں نہیں تو کھلکھلا کر ہنسی ۔۔۔۔
اور دیدہ دلیری سے لپ سٹک اپنے خوبصورت نازک پنکھڑیوں  پر لگانے لگی ۔۔۔۔۔ جب لگا کر دیکھا ۔۔۔۔۔ تو خود حیران رہ گئی ۔۔۔۔اسکی گلابی چہرے کی رنگت پر وہ لپ سٹک جھلملا رہی تھی ۔۔۔۔۔

پری ایک ہاتھ ٹیبل پر رکھ اور آگے کو جھک کر شیشے پر اپنے ہونٹ رکھ دیے ۔۔۔۔۔ اور دور ہٹ کر انہیں دیکھنے لگی ۔۔۔۔جہاں وہ پنکھڑیوں کے  نشان آئینے پر آگئے تھے ۔۔۔۔

وہ کسی بچے کی طرح خوش ہوگئی اور دوپٹا ہوا میں اچھل کر بالوں کو کلپ سے آزاد کرواتی ۔۔۔۔

 بیڈ پر خوشی سے پاگلوں والا ڈانس کرنے لگی ۔۔۔۔۔

کچھ دیر بعد  وہ بغیر دوپٹے اور کھلے بال اپنے کمسن حسن کے ساتھ پنک شارٹ شرٹ اور بلیک ٹرائوزر مبلوس لمبے  لمبے سانس لے رہی تھی ۔۔۔۔۔

تیز خوشی سے جھومنے سے اسکا سانس پھول رہا تھا ۔۔۔۔۔سرخ رخسار دہک رہے تھے اور لپ سٹک کی مزیدار خوشبو جو اسکی نیت خراب کر رہی مجبور ہوکر آنکھ دباتی اس پر اپنی سرخ زبان پھیر گئی ۔۔۔۔
اور کھلکھلا کر بیڈ پر دہرام سے گر گئی ۔۔۔۔۔یہی معصوم ادا شہریار کی نیندیں چرا گئی ۔۔۔۔۔۔

💕💕💕💕💕💕

Tera Ashiq Me Dewana Ho Awara Mehwish Ali 30


#تیرا_عاشق_میں_دیوانہ_ہوں_آوارہ💕
#از__مہوش_علی
#قسط__30
Surprise 🌹🎊🎉
💕💕💕💕💕💕

سب کی دعائوں اور آنسوں پر شاید اس پاک ذات کو رحم آگیا تھا تبھی 24 گھنٹے بعد فراز صاحب کو ہوش آیا ۔۔۔۔۔
ہوش میں آتے انہوں نے عائمہ بیگم اور احمد صاحب  کو اپنے پاس بلایا  ۔۔۔۔

عائمہ بیگم اسے مشینوں میں جکڑے دیکھ احمد صاحب سے لگ کر بے انتہا روئی ۔۔۔۔جب ڈاکٹر نے انہیں مریض کے سامنے ایسا کرنے سے منا کیا ۔۔۔۔ اور انہیں خوش باش انکے سامنے جانے کا کہا ۔۔۔۔کیوں کہ فراز صاحب کی دماغ کسی پریشانی کے دبائو میں تھا ۔۔۔اور اگر وہ سب ایسے جاتے تو اسکا دماغ مائوف ہوسکتا تھا ۔۔۔۔

 اور شاید انہیں وقت پر نا لاتے تو وہ مر سکتا تھا ۔۔۔۔
یہ سب باتیں سفیان کی رگوں میں اور اندر کو کاٹ رہی تھیں ۔۔۔

کسی کی موجودگی کا احساس کرکے فراز صاحب نے اپنی مرجائی آنکھیں کھولی ۔۔۔۔ عائمہ بیگم اور احمد صاحب کو پاکر ہلکا سا مسکرا دئے ۔۔۔۔

عائمہ بیگم چلکر اسنکے پاس آئی اور بیڈ سائیڈ چیئر پر بیٹھ گئی اور انکا ہاتھ اٹھا کر اپنے لبوں سے لگایا ۔۔۔۔البتہ آنکھیں سرخ اور نم تھی ۔۔۔۔۔

احمد صاحب بھی اس منظر پر مسکرا دئے ۔۔۔۔۔اور پاس دوسری چیئر پر بیٹھ گئے ۔۔۔۔

جب وہ مدہم آواز میں بولے ۔۔۔۔ مم۔۔مجھے پتا ہے میں ایک مطلبی باپ ہوکر کچھ مانگ رہا ہوں ۔۔۔۔مجھے معاف کر دینا میری جان ۔۔۔ میں ہاتھ جوڑ کر  اپنے بیٹے کے لیے حوریہ بیٹی کا رشتہ مانگتا ہوں اور اپنی آنکھوں کے سامنے انکا نکاح کروانا چاہتا ہوں ۔۔۔۔
مجھے اپنی سانسوں پر اب بھروسہ نہیں رہا ۔۔۔۔وہ کہتے متظر نظروں سے دونوں کو دیکھنے لگے ۔۔۔
احمد صاحب نے عائمہ بیگم کو دیکھا ۔۔۔ وہ انہیں دیکھ التجائی آنکھ سے دیکھنے لگی ۔۔۔۔تب انہونے بھی مسکرا کر آنکھوں سے ہاں کہا جس وہ مسکرا دی اور فراز صاحب کے ہاتھوں کو چوم کر بولی ۔۔۔

میں خوش ہوں آپکے فیصلے سے اور مجھے سفیان سے اچھا لڑکا کہاں ملےگا اپنی بیٹی کے لیے ۔۔۔۔ اس میں مطلبی کی کوئی بات نہیں ہے ۔۔۔۔عائمہ بیگم احمد کا خیال کرکے بولی ۔۔۔۔

پھر یہ بات سب تک پھیلی حماد صاحب اور عالیہ بیگم خوش ہوگئی احمد صاحب اور عائمہ بیگم کے فیصلے پر ۔۔۔۔۔

سفیان نے تو سنتے ہی ہتھے سے اکھڑ گیا ۔۔۔۔ وہ تو حور کو چھوڑنے اور یہاں سے جانے کا سوچ رہا تھا پر یہ اسکے باپ نے کیا کردیا تھا ۔۔۔

سفیان نے جب حسن سے انکار کیا تو وہ بھڑک اٹھا ۔۔۔۔
بکواس بند کرو ۔۔۔پاگل سمجھا ہے ہمیں پہلے اسکے ساتھ غلط طریقے سے نکاح کیا اور اب یہ نخرے دیکھا رہے ہو ۔۔۔۔
چپ چاپ کرکے یہ نکاح کرو نہیں تو زندگی بھر پاپا کا چہرا دیکھنے نہیں دونگا ۔۔۔۔۔وہ غصے سے کہتے وہاں سے چلا گیا اور پیچھے سفیان نے غصے سے مٹھیاں بھینچ لیں ۔۔۔۔۔

💕💕💕💕💕

شیری سے احمد صاحب نے ذکر کیا اور اسے ساری صورتحال بتائی تو اسنے اپنی رضا دے دی ۔۔۔۔پھر سب راضی تھے ۔۔۔۔۔
ملک ولا سے حوریہ کو لایا گیا وہ کافی ڈری ہوئی تھی اور مسلسل نا کر رہی تھی ۔۔۔۔پر عائمہ بیگم کے حکم کے آگے وہ ہار گئی ۔۔۔اور ابھی ہاسپٹل کے روم میں فراز صاحب کے سامنے بیٹھی سر پر سرخ دوپٹا لیے سر جھکائے آنسو بہا رہی تھی ۔۔۔۔۔

مشال نوشین پری سب گھر تھی ۔۔۔ پھر سفیان کے نا چاہتے ہوئے بھی ۔۔۔۔ سب بڑوں کی موجودگی میں اپنی ماں کے سینے سے لگی ایک بار پھر اپنے سب جملہ حقوق سفیان ملک کے نام کر گئی ۔۔۔فرق صرف اتنا تھا پہلے اکیلے زبردستی میں کیا گیا پر اس بار اپنوں کی رضامندی میں ۔۔۔۔ایک لڑکی کو اور کیا چائیے کہ اسکے ماں باپ اسکی وجہ سے خوش ہیں ۔۔ حور بھی اس میں ہی خوش تھی ۔۔۔پر سفیان کی تپش دیتی خوفزدہ کرتی نظروں سے وہ کپکپارہی تھی ۔۔۔۔

سفیان کے اندر کوئی خوشی نہیں کوئی فیلنگس نہیں تھیں ۔۔۔وہ خاموش کبھی اس پر نظر ڈال کر اپنے باپ کو دیکھتا جو آنکھیں موندیں پڑا تھا ۔۔۔۔

حور کو پھر واپس ملک ولا بیجا گیا ۔۔۔۔اور وہ اپنے کمرے میں آکر پھوٹ پھوٹ کر رودی جب مشال اور نوشین نے اسے سنبھالا ۔۔۔۔
پری خاموشی سے ایک سائیڈ کھڑے دبدباتی آنکھوں سے حور کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔

💕💕💕💕💕💕💕

حماد اور احمد کو فراز صاحب کی اچانک حالت کا سبب نزنس ٹینشن کا بتایا گیا تھا ۔۔۔۔پر وہ تو اچھا خاصا چل رہا تھا ۔۔۔انکے پوچھنے پر کہا گیا کہ مینجر نے کچھ گڑبڑ کردی ہے ۔۔۔۔حسن نے ساری بات سنبھال لی تھی ۔۔۔۔۔

پھر کافی دیر وہاں رہے جب فراز صاحب کی حالت میں بھتری آئی تو وہ واپس ملک ولا آگئے ۔۔۔۔ عالیہ بیگم اور حسن سفیان وہیں تھے ۔۔۔۔

💕💕💕💕💕
دو دن بعد فراز صاحب کو روم میں شفٹ کردیا گیا ۔۔۔۔۔
جہاں اسنے سب سے پہلے سفیان سے ملنے کا اظہار کیا ۔۔۔۔۔ سفیان اپنی سرخ برستی آنکھوں پونچھتا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا ۔۔۔۔
جہاں وہ بیڈ پر آنکھیں موندیں پڑا تھا ۔۔۔۔۔قدموں کی چاپ پر اپنی کمزوری سے نم آنکھیں کھولی ۔۔۔۔

سفیان پاس بیٹھ کر انکا ہاتھ تھام کر رو دیا ۔۔۔۔
مجھے معاف کردو پاپا ۔۔۔۔ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا ۔۔۔۔ پر حور کے لفظوں نے مجھے ایسا کرنے پر مجبور کردیا تھا ۔۔۔۔ میں بہت محبت کرتا ہوں اس سے اسے کھونے کے ڈر سے اتنا بڑا قدم اٹھانا پڑا ۔۔۔۔۔ پر آپ جو چاہیں گے میں وہیں کروں گا اب میں کچھ غلط نہیں کرونگا جس سے آپکو تکلیف ہو ۔۔۔۔۔۔

بس۔۔۔ میرے بچے ۔۔۔۔مجھ سے ہی غلطی ہوئی ہے ۔۔۔تم آئے تھے میرے پ۔۔پاس ۔۔۔۔وہ کہتے اسکے آنسوں صاف کرنے لگا ۔۔۔۔
سفیان نے انکے ہاتھ پکڑ کر چوم لیے اور انہیں اپنی برستی آنکھوں سے لگا گیا ۔۔۔۔۔

اگر تم اس سے محبت کرتے تھے تو تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔۔۔اس بیچاری کا بھی سوچنا چاہیے تھا ۔۔۔۔۔

میں بہت شرمندہ ہوں پاپا ۔۔۔۔وہ سرجھکائے بولے تو فراز صاحب نے۔اسکے سر پو محبت سے بوسہ دیا ۔۔۔۔اسے سفیان اپنی جان سے بھی عزیز تھا حسن بھی تھا ۔۔۔۔پر وہ بچن سے اپنی ماں سے الگ ہوکر اسکے قریب ہوگیا تھا ۔۔۔۔

مرد بنو رو کیوں رہے ہو ؟اسکی نم آنکھیں دیکھ وہ مسکرا کر بولا ۔۔۔۔
آپنے رلا دیا ۔۔۔جان لےلی تھی ۔۔۔۔وہ بھی نم آنکھوں سے مسکراتا ہوا بولا ۔۔۔۔

اس لیے تو کہہ رہا ہوں مرد بنو مجھے تو ایک نا ایک دن جانا ہے کیا پتا ابھی ہی ۔۔۔۔سفیان نے تڑپ کر اسکے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور اسے گلے سے لگا رونے لگا ۔۔۔

نہیں پاپا ایسا کبھی مت بولنا ۔۔۔ابھی اتنا مارا ہے پھر سے اپنی باتوں سے لہولہان کرنا چاہتے ہو ۔۔ابھی تو آپکو میرے چنے منی سے کھیلنا ہے ۔۔وہ شرارت سے بولا تو پیچھے حسن بھی جو ابھی اندر آیا تھا نم آنکھوں سے مسکرادیا ۔۔۔۔۔

میں آپکو اپنے سے الگ نہیں ہونے دونگا ۔۔۔۔ ماں کے جانے کے بعد آپ ہی تو ہیں ہمارا سب کچھ آپ سے ہی ہم دونوں  ہیں ۔۔۔۔۔

بہت بد تمیز ہو ۔۔۔۔۔حسن نے پیچھے سے چیت لگائی ۔۔۔
آپ سے کم ۔۔۔۔ وہ بھی بولا تو حسن نے باپ کے سامنے شرمندہ ہوتے اسے آنکھیں نکالی ۔۔۔جس پر اسکا قہقہہ لگا ۔۔۔۔ اور فراز صاحب بھی مسکرادیے ۔۔۔۔۔
اچھا اب بڑے ہوگئے ہو دم نکالنا ہے کیا میرا،  ۔۔۔۔ وہ مسکرا کر بولے جس پر سفیان بھی ہنس دیا ۔۔۔۔۔ اور اس سے دور ہوا ۔۔۔۔۔

پھر عالیہ اور عائمہ بیگم جو ابھی آئی تھی ہلکی پھلکی باتیں کرنے لگی ۔۔۔۔۔

💕💕💕💕💕💕

فراز صاحب کو گھر لایا گیا تھا ۔۔۔۔ سب کچھ پھر سے ٹھیک ہوگیا تھا صرف سفیان کی دل کی حالت کے علاوہ ۔۔۔۔۔۔حور نے جو کیا وہ چاہ کر بھی وہ بھول نہیں پارہا تھا ۔۔۔۔ اسنے تو ایسا کچھ نا کیا تھا جتنا اسنے واویلا کیا گھر میں اگر آج اسکا باپ ہمیشہ کے لیے اس صدمے سے آنکھیں مود لیتا تو اسکا کیا ہوتا وہ تو ٹوٹ جاتے سب پر اسنے کچھ بھی نا سوچا صرف اپنی کی ۔۔۔۔۔

اور اس سب کو سوچ سفیان نے بھی ایک فیصلا لیا تھا ۔۔۔۔
جو ابھی تو کس سے شیئر نہیں کرنے والا تھا ۔۔۔۔ پر کچھ دنوں بعد جب اسکا باپ بلکل صحت یاب ہوجائے گا تو وہ اپنا فیصلا سب کو سنائے گا ۔۔۔۔۔۔
💕💕💕💕💕

 آج پھر الطاف صاحب ملک ولا میں موجود تھے ۔۔۔۔۔ پری کو لینے کے لیے جس کی اسنے پہلے ہی اپنی پیکنگ کرلی تھی ۔۔۔ پھر عائمہ بیگم کو جب پتا چلا تو اسنے احمد صاحب سے ایسا ناکرنے لیے کہا جس پر احمد صاحب بولے ۔۔۔۔۔

اگر اس خوش فہمی میں ہیں کہ میں پری بیٹی کی شادی آپکے نکمے بیٹے سے کروائونگا تو یہ غلط فہمی اپنے دل سے نکال دیں میں ایسا ہرگز بھی ہونے نہیں دونگا ۔۔۔۔۔ اور کوئی بھی اسے نا روکے نا ہی اپنے آنسوں اس بچی کے سامنے بہاکر اسکا دل دکھائے ہمنے اتنے دن بعد اسے خوش دیکھا ہے تو اسے رہنے دیں بیچ میں نا آئیں اور سب سے بڑی بات اگر بیٹے کی شادی کروانا چاہتی ہیں تو پہلے اسے  اس لائق تو بنائے ۔۔۔۔۔
اسکی بات پر عائمہ بیگم شرمندہ ہوتی سر جھکا گئی ۔۔۔۔ ٹھیک ہی تو تھا کیسے روکتی اسے کس امید سے ۔۔۔۔۔ اسکا بیٹا تو ایسا تھا کہ اپنی بہن کے نکاح میں بھی موجود نا ہوسکا اور تو اور کہہ کہ اسکے فرینڈ کی طبعیت بہت خراب ہے وہ نہیں آسکے گا ۔۔۔ میری طرف سے حور کو سدا خوش رہنے کی دعائیں دے دینا ۔۔۔۔

عائمہ بیگم تو خاموش ہوگئی عالیہ بیگم بھی پری کا خوش باش چہرا دیکھ کر کچھ نا بولی ۔۔۔۔۔۔پر دونوں کی دل میں دکھ برابر کا تھا ۔۔۔۔۔دونوں نے اسے شیری کے لیے سوچا تھا پر شاید قسمت میں ہی ایسا نا تھا ۔۔۔۔۔

لائونج میں بیٹھے سب کی موجودگی میں احمد صاحب بولے ۔۔۔۔

آپ فکر ناکریے گا الطاف میں شہریار کے آنے کے بعد طلاق کے پیپر بیج دونگا ۔۔۔۔۔۔ یہ سب ہمنے صرف پری بٹیا کے تحفظ کے لیے کیا تھا تو اللہ کا کرم ہے سب ٹھیک ہے تو ہمیں اب پری کی خوشی کا سوچنا چاہیے ۔۔۔۔ اور اسے اپنی مرضی سے زندگی گذارنے کا حق دینا چاہیے ۔۔۔۔۔
احمد کی باتوں سے عورتوں کے علاوہ سب متفق تھے ۔۔۔۔۔الطاف صاحب بھی شرمندہ ہوتے سر جھکا گئے ۔۔۔۔۔

💕💕💕💕💕💕

حور کو جب پری کے جانے کا پتا لگا وہ دورتی پری کے کمرے میں آئی جہاں وہ اپنی پیکنگ کر رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ حور نے شیری کے آنکھوں میں پری کے لیے بے پنہا محبت دیکھی اسکے بھائی کو زندگی میں پہلی دفعہ محبت ہوئی تھی اور وہ بھی اسے چھوڑکے جارہی تھی ۔۔۔ حور یہ جانتے کیسے اسے جانے دیتی ۔۔۔ اور شیری کے غصے کو سب جانتے تھے  تو اگر اسکی محبت اسے چھوڑ کر جائے گی وہ تو پاگل ہوجائے گا اور اس پاگلپن میں وہ کچھ بھی کر سکتا تھا ۔۔۔۔۔

پری ۔۔۔؟ حور نے دروازے میں کھڑی اسے پکارا ۔۔۔۔ جس کی آواز سنتے وہ خوشی سے دھمکے چہرے کے ساتھ مڑی ۔۔۔۔

ح۔۔حور میں آرہی تھی آآ۔۔آپ سے ملنے ۔۔ دیکھے مجھ آج س۔۔سب کچھ م۔مل گیا پاپا بھائی اور اتنی ا۔۔۔۔اچھی فیملی ۔۔۔۔میں آج بہت خوش ہوں بہت ۔۔۔۔ وہ کہتی اپنے آنسو صاف کرتی دورتی اسکے گلے لگ پھوٹ پھوٹ کر دو دی ۔۔۔۔۔
م۔۔۔میرے پاپا ۔۔۔واپس آگے ح۔۔حور وہ اپنی بیٹی کو لینے آگئے ۔۔۔۔ اب میں بھی تم لوگوں کی طرح اس سے ب۔۔باتیں کرونگی مزاق کرونگی ۔۔۔۔اپنے بھائی کے ساتھ کھیلوں گی ۔۔۔۔۔وہاں مجھے کوئی نہیں ڈڈ۔۔۔ڈرائے گا میں سکون سے اپنی نیندیں پوری کرونگی ۔۔۔۔۔وہ اسکے گلے سے لگی بچوں کی طرح خوش ہوتی ہر بات بتانے لگی ۔۔۔ اس سے اپنی فیلنگس شیئر کرنے لگی ۔۔۔۔۔

اس کی باتیں سن کر حور ساکت ہوگئی ۔۔۔۔۔ کیا وہ اتنا تڑپتی تھی اپنے باپ کے لیے ۔۔۔ کیا اتنی بے سکونی تھی اسکے اندر کیا اتنا ڈرتی تھی وہ شیری سے ۔۔۔۔ وہ بس خاموشی سے اسکی ہر بات سنتی رہی جو اسے اپنے وہاں زندگی گذارنے کے بارے میں بتا رہی تھی ۔۔۔۔

وہ جب بولی تو صرف اتنا ۔۔۔۔ کیا تمہیں وہاں کسی کی یاد نہیں آئے گی ۔۔۔۔۔؟
پری نے الگ ہوکر اسے دیکھا ۔۔۔۔ اسکا چہرا فق ہوگیا شاید وہ پھر سے شرمندہ ہوگئی تھی ۔۔۔۔

اور مڑ کر بھرائی آواز میں بولی ۔۔۔۔ آآ۔۔۔۔آئے گی نا س۔۔سب کی آئے گی ۔۔۔۔ پر ۔۔۔۔ میں نہیں گئی ت۔۔۔تو میں مرجائونگی ۔۔اپنے پاپا کے سوا ۔۔۔۔وہ کہتی باتھروم میں بھاگ گئی ۔۔۔۔۔وہ اتنی معصوم تھی کہ اسے درد یا آنسو چھپانے بھی نہیں آتے تھے ۔۔۔ اور وہ اتنی خوش کہ اپنی خوش میں وہ سب کچھ چھوڑ کر جانا یا بھاگنا چاہتی تھی ۔۔۔

حور سوچتی اپنے آنسو صاف کرتی اسکی باقی کی پیکنگ کرنے لگی ۔۔۔۔
اسنے بیگ کھول کر اس میں کپڑے رکھنے کے لیے ہاتھ جیسے بڑھایا تو وہاں پر موجود چیز دیکھ وہ پھیکی سی مسکرادی ۔۔۔۔ بہت معصوم ہو تم پری ۔۔۔۔ کچھ نہیں جان سکتی اپنے بارے میں بھی ۔۔۔۔

فیملی فریم دیکھ وہ مسکرادی جہاں سب کی تصویر تھی صرف شیری کی نہیں ۔۔۔۔ اس پر تو اور وہ تیز ہنسی ۔۔۔۔

پھر باتھروم میں پانی گرنے کی آواز پر اسنے پیکنگ مکمل کرکے اسکے منتظر بیٹھ گئی ۔۔۔۔اسکی خوشی کے آگے وہ اسے نہیں روک سکی ۔۔۔۔۔اسے کچھ بھی کہہ نا سکی پر اسکے دل میں اب سکون تھا ۔۔۔ 

💕💕💕💕💕💕

پری حوریہ کے ساتھ جب لائونج میں آئی تو سب کھڑے ہوگے ۔۔۔۔ دراب مشال نوشین ۔۔۔۔سفیان بھی موجود تھا کیوں نا ہوتا ایک سال میں وہ سب کی لاڈلی بن گئی تھی اپنی معصومیت سے وہ سب کا دل جیت گئی تھی ۔۔۔۔۔

عائمہ اور عالیہ بیگم کی ناچاہتے ہوئے بھی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔۔۔۔۔ دراب نے اسے اپنے گلے سے لگا کر سر پر بوسہ دیا ۔۔۔۔
آتی رہنا ۔۔۔۔وہ کہہ کر اسکی گال تھپتھپائی ۔۔۔جس پر روتی مسکرادی ۔۔۔۔پھر باری باری سب سے ملتی سب کا پیار لیتی اپنے باپ کے طرف آئی ۔۔۔اور اسکے ساتھ کھڑی ہوگئی ۔۔۔۔

مم۔۔مجھے بھولیے گا نن۔۔نہیں میں آتی رہوں گی ۔۔۔۔ وہ کہتی سب کی آنکھیں نم کرگی اور خود اپنے باپ کے ساتھ لگ گئی ہچکیاں آنے لگی تھی اسے ۔۔۔۔۔۔جب حماد صاحب نے اسے اپنے ساتھ لگا کر ریلیکس کیا ۔۔۔۔ روتے نہیں میری جان آتے رہیں گے سب ۔۔۔ اور تمہیں بھی یہاں لاتے رہنگے ۔۔۔ یہ جملا حور نے بولا جس پر سفیان نے اسے دیکھا ۔۔۔ حور کی جب نظریں ملی تو گھبرا کر جھکاگئی ۔۔۔۔

کیوں کہ ان میں کوئی تاثر نہیں تھا بلکل انجان آنکھیں حور کو لگی ۔۔۔۔۔

ملازمہ نے بیگ گاڑی میں رکھا اور وہ بھی حماد صاحب کے ساتھ لگی باہر پارکنگ میں آئی ۔۔۔۔ سب اسکے پیچھے آئے ۔۔۔۔

پھر گاڑی میں بیٹھ کر سب کو اپنے چھوٹے سرخ ہاتھوں سے بائے بائے کرتی ملک ولا سے نکلتی چلی گئی ۔۔۔۔ حور روتی احمد صاحب کے گلے لگ گئی مشال بھی نم آنکھوں سے دراب کے ساتھ کھڑی تھی ۔۔۔۔

نہیں میرا بیٹا روتے نہیں دعا کرو خیر سے اپنے گھر پہنچے ۔۔۔۔ اور ہمیشہ خوش رہے اپنی فیملی کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔مجھے تو ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے میری لاڈلی بہن کو سکون ملا ہو ۔۔۔۔۔

اسکی بات پر حماد صاحب نے بھی مسکرا کر ہاں کی ۔۔۔۔
اور واپس گھر میں چلے گئے ۔۔۔۔۔

💕💕💕💕💕








Post a Comment

Previous Post Next Post