Tera Ashiq May Diwana Ho Awara Mehwish Ali Novels Episode 11 to 15

MEHWISH ALI URDU BEST NOVELS TERA ASGUQ NT DUWABA GI AWARA EOUSIDE 11 TI 15 ONLINE READ AD PDF DOWNLOAD.

EPISODE 11 Tera Ashiq May Diwana Ho Awara Mehwish Ali Novels 

Tera Ashiq May Diwana Ho Awara Mehwish Ali Novels Episode 11 to 15


#تیرا_عاشق_میں_دیوانہ_ہوں_آوارہ💞
#از__مہوش_علی
#قسط_11

اچھا بات بڑھانے کے لیے تو پہلے ایسا بولنا پڑتا ہے ۔۔۔فون تو کافی کچھ کہنے کے لیے کیا ہے ۔۔۔ پر پہلے تمہاری خیریت بہت ضروری ہے میرے مستقبل کے لیے۔۔۔وہ مسکراتا معنی خیزی سے کہنے لگا۔۔۔مشال پہلے تو اپنی بات پر شرمندہ ہوگئی پھر اسکی دوسری بات سن کر بلش کر گئی۔۔۔
کچھ دیر دونوں کے بیچ خاموشی بولنے لگی ۔۔۔مشال کبھی ناخونوں کو دیکھتی کبھی ہاتھوں کی پشت کو ۔۔۔اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کیا بولے ۔۔۔۔دوسری طرف دراب کا بھی یہی حال تھا اسے بھی کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کیا بولے۔۔۔
مشال ۔۔۔دراب نے اسے سرگوشی کے انداز میں پکارا ۔۔۔جس پر مشال کا دل دھڑکنے لگا ۔۔۔اسکے ماتھے پر ننھے ننھے پسینے کے قطرے نمودار ہوئے ۔۔۔۔۔
جج۔۔جی۔۔۔
مشی کیا تم اس نئے بندھنے والے بندھن سے خوش ہو ۔۔۔آئی مین کیا تم میرا ساتھ قبول ہے۔۔۔یا تم پر زب۔۔۔اسکا جملہ منہ تھا جب مشال جلدی بولی۔۔۔۔
نہیں میں خوش ہوں۔۔۔مجھے قبول ہے۔۔۔۔پھر ایکدم اپنی غلطی کا احساس ہوا تو سر پر ہاتھ مارتی زبان دانتوں میں دبا گئی ۔۔۔جب تک دراب کا قہقہہ اٹھا۔۔۔
کیا ہے آپنے پوچھا تو مینے بتایا اس ہنسنے والی کیا بات ہے۔۔۔وہ اپنی جھینپ مٹانے کے لیے اسے جھڑکنے لگی۔۔۔
لڑکی ابھی سے غصہ مجھ معصوم پر ۔۔۔۔؟؟
اسکی بات پر مشال نے منہ بنایا ۔۔۔ہونہہ۔۔۔ معصوم۔۔۔۔اگر اتنے معصوم ہوتے تو شادی نہیں کرتے۔۔۔۔
شادی تو کرنی ہے پھر چاہے معصوم ہوں یا نہیں۔۔۔۔شادی کے معاملے میں پاگل بھی ٹھیک ہوجاتے ہیں میں تو پھر بھی اللہ کا شکر ہے ٹھیک ہوں۔۔۔۔۔دراب بھی لگتا تھا مشال کو تنگ کرنے کے موڈ میں تھا۔۔۔۔۔
اور میں کتنا معصوم ہوں یہ میں تمہیں شادی کی رات بتائونگا۔۔۔۔۔پھر ہوسکے تمہیں میری معصومیت پر شک نا ہو۔۔۔۔اسکی ذو معنی لہجے پر مشال سرخ ٹماٹر ہوگئی۔۔۔۔۔ایک بار پھر دونوں کے بیچ خاموشی چھائی رہی ۔۔۔۔نا مشال کچھ بولی نا دراب مشال 

کی سانسوں کو سننے کے سوا کچھ بولا ۔۔۔۔۔
اچھا سنو میں رفیق ملازم  کو بیج رہا ہوں تم اسے میرے کمرے میں ٹیبل پر رکھی بلیک فائل دے دینا ۔۔۔۔حماد صاحب کے فائل مانگنے پر دراب کو یاد آیا وہ تو گھر پر ہی رہ گئی ۔۔پھر مشال سے بات کر رہا تھا تو کچھ نا بولنے کی وجہ سے بول پڑا۔۔۔۔۔۔
پر دراب آپ کسی اور کو کہیں مما لوگ کیا سمجھیں گی۔۔۔۔۔اسے شرم آرہی تھی گھر میں سب موجود ہونے کے بعد اس سے کہنے پر ۔۔۔۔۔ کچھ نہیں سمجھیں گی تم لادو۔۔ویسے بھی آگے سب تمہیں ہی کرنا ہے ۔۔۔۔ مشال نے بنا کچھ کہہ کال بند کردی اسے بہت شرم آرہی تھی کیسے وہ دراب کے ساتھ ایک کمرے میں رہے گی۔۔۔۔وہ انہیں سوچوں بیٹھ گئی ملازم کے آنے تک ۔۔۔۔۔وہ پہلے روم میں نہیں جانا چاہتی تھی ۔۔۔۔۔۔
۔

شیری کے ناک منہ سے خون بہہ رہا تھا ۔۔۔۔اسے کافی چوٹیں آئی تھی پر ان تینوں لڑکوں کو بھی اسنے صحیح سلامت نہیں چھوڑا تھا ۔۔۔۔۔وہ لڑکے آخر میں مزید لہولہان ہونے سے پہلے کار سمیت  بھاگ گئے ۔۔۔۔۔۔

اب شیری زمین پر بیٹھا آستینوں سے اپنے منہ ناک سے نکلتا خون صاف کرتا اٹھا۔۔۔
پری جو انہیں کب سے روتی الجھتے دیکھ رہی تھی ۔۔۔وہ تینوں لڑکے شیری کو زیادہ تو نہیں پر کافی زخم دے گئے تھے ۔۔۔۔۔اپنی بیوقوفی پر ماتم کرتی پیچھے کو ہونے لگی ۔۔۔اسکی ٹانگیں اسپرنگ کی طرح چل رہی تھی شیری کے ڈر سے ۔۔۔
شہریار اٹھا اور پری کی طرف مڑا ۔۔۔۔اسکی آنکھیں سرخ تھی جیسے لہو نکل رہا ہو۔ ۔۔اسکے ماتھے پر بھی کوئی بھاری چیز مارنے کی وجہ سے خون منہ پر ٹپک رہا تھا ۔۔پری روتی کبھی اسکی آنکھوں میں دیکھتی کبھی سر سے نکلتے خون کو ۔۔۔اور پیچھے کو ہونے لگی ۔۔۔۔

دے۔ ۔دد۔ ۔دیکھو مینے کچھ نن۔ ۔نہیں کیا ،یی۔ ۔یہ سب ان۔۔۔ ان لڑکوں نے کیا ہے ۔۔۔ آآپ انکو ماریں مم۔۔مجھے نہیں پپ۔۔پلیز۔ ۔۔وہ اس سے دور ہوتی ہچکیوں کے درمیان میں بولی ۔۔۔۔
یہاں آئو۔ ۔۔ایکدم شیری دھاڑا ۔۔۔ جس پر پری کی ڈری ہوئی چیخ سنسان راستے پر گونجی ۔۔۔۔آہہہہ۔۔۔۔وہ اپنے منہ پر ہاتھ رکھتی مزید چیخیں دبانے لگی اپنے حلق میں ۔۔۔۔
اسکی۔ حالت دیکھ کر شیری کو پتا نہیں کیا ہوا کہ وہ ایکدم نرم پڑ گیا ۔۔۔۔۔
یہاں آئو پری مجھے پٹی کرو یار ۔۔۔دیکھو کتنا خون بہہ رہا ہے ۔۔۔۔وہ ہاتھ  سے اسے ٹپکتے خون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا ۔۔

شیری کو خود کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ اسے ڈرتا ہوا کیوں نا دیکھ سکا ۔۔۔۔وہ تو واپس آیا ہی اسے تڑپانے کے لیے تھا جس کی وجہ سے اسکے باپ نے زندگی میں پہلی دفعہ اس پر ہاتھ  اٹھایا تھا ۔۔۔۔ جس پر وہ اتنے دن تڑپا تھا ۔۔ اور غصے میں امریکہ چلاگیا تھا ۔۔۔اسکا ارادہ ہمیشہ کے لیے وہیں رہنے کا تھا۔۔۔ وہ صرف اپنی ماں کو دکھ نہیں دینا چاہتا تھا اسلیے گھر پر وہ کچھ مہینے گھومنے کا بولکر گیا  ۔۔۔۔

دو مہینے گذارنے کے بعد اسے احساس ہوا کہ جس نے یہ سب کیا وہ تو خوشی سے جی رہی تھی ۔۔۔سب کا پیار سمیٹتی تو وہ کیوں ایسے جی رہا تھا ۔۔۔۔ پھر کچھ سوچنے کے بعد اسنے دماغ سے کام لیا اور پری کو تڑپانے کا طے کیا ۔۔۔ وہ اس پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتا تھا کیونکہ اس سے وہ اپنوں سے کافی دور ہوجاتا ۔۔۔۔بلکہ اسنے پری کو نکاح کے ذریعے ہی تڑپانے کو سوچا وہ کافی چھوٹی تھی اور ایسے رشتے سے انجان ۔۔۔۔

اسکے بعد اسنے حماد صاحب اور احمد صاحب سے معافی مانگی ۔۔۔انہیں یقین دہانی کرائی کہ وہ سچ میں بدل گیا ہے اور اپنے کئے پر شرمندہ ہے ۔۔۔سب نے یقین بھی کر لیا۔۔۔

 پر اسے کیا پتا تھا یہاں آنے پر اسکے دل نے ہی اسے تڑپانا شروع کردینا تھا ۔۔۔۔۔ پری کی سادگی معصومیت انجاناپن اسے لے ڈوبا ۔۔۔۔آج تک اسکا جس لڑکی سے پالا پڑا تھا وہ کافی بولڈ ہوتی تھیں ۔۔۔۔ انکے پاس جانے سے اسے کچھ نہیں ہوتا تھا ۔۔۔ ناکوئی ہلچل مچتی تھی دل میں ۔۔۔۔پر پری نے وہ سب کردیا جس کا کبھی اسنے سوچا نہیں تھا ۔۔۔اسکے سوئے سارے احساسات کو جگہ دیا ۔۔۔

شیری نے اسے نہیں بلکہ اسنے شیری کو تڑپانا شروع کردیا تھا ۔۔۔ یہ اسکے لیے سزا تھی اللہ پاک کی ذات کی طرف کی معصوم کو اذیت دینی کی اسکا مذاق بنانے کی۔۔۔ یا نکاح جیسے پاک رشتے میں بندھنے کا نتیجہ ۔۔۔۔

اسکی نرم لہجے پر پری نے بے یقینی سے اسکی طرف دیکھا ۔۔اسے یقین نہیں ہورہا تھا یہ خواب ہے یا حقیقت ۔۔۔وہ اسی کشمکش میں تھی کہ شیری نے اسے کلائی سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا جس پر وہ ایک چیخ کے ساتھ اسکے سینے سے لگی ۔۔۔۔
آہہہہ ۔۔۔۔

کچھ دیر آنکھیں بند کرتی آنسوں بہاتی اسکے سینے سے چپک کر کھڑی رہی ۔۔۔وہ  الگ نہیں ہونا چاہتی تھی ،اسکی پھٹی شرٹ کو اپنی مٹھیوں میں جکڑ کر کھڑی رہی۔۔۔ جس پر شیری کا دل زور شور سے دھڑک اٹھا۔۔۔وہ شیری کی حالت کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے بچائوں کے لیے اسکے ساتھ چمٹتی کھڑی تھی ۔۔۔ کیونکہ وہ سمجھتی تھی الگ ہوئی تو وہ اسے مارےگا ۔۔۔

شیری نے اسکے کانپتے وجود کو گرد اپنا حصار باندھ  لیا ۔۔۔کچھ دیر تو اسکی کپکپاہٹ اور دھڑکنوں کو اپنے اندر سماتا رہا اسے اتنی تکلیف اتنے درد کے باوجود بہت سکون مل رہا تھا اسکے نازک وجود سے ۔۔۔جب اسے کچھ چکر آنے لگے تو پری کو دیکھا ۔۔ پری کو بھی جب احساس ہوا کہ وہ اسے اتنی دیر میں نہیں مارا۔ ۔۔  تو ڈرتے ہوئے الگ ہونے لگی پر شیری نے اسکی کوشش کو ناکام کرکے اسکی کمر سے پکڑ کر کار کے اوپر بٹھایا ۔۔۔ پری کچھ نا سمجھی سے اسے دیکھا اور نیچے اترنے لگی جس پر شہریار کچھ سخت آواز میں بولا۔ ۔۔

بیٹھی رہو ۔۔۔وہ اس سے بول کر کار کی اندر جانے لگا ۔۔۔پری کی تو سانس روکے  اسے دیکھنے لگی ۔۔اسے لگا وہ اسے اوپر بٹھاکر کار ڈرائیو کرے گا ۔۔۔۔ خوف سے وہ نیلی پڑ گئی ۔۔۔ اور پھر سے رونے لگی ۔۔۔۔بریک اسے تب لگی جب شیری کار کے اندر سے فرسٹ ایڈ باکس لے آیا اور اسے پاس رکھا ۔۔۔۔
پری اپنا رونا بھول کر آنکھیں پھاڑ اسے دیکھنے لگی ۔۔۔ مطلب اتنی خراب ہوتی حالت میں ڈاکٹر کے پاس نہیں جا رہا تھا ۔۔۔۔ وہ اپنے دماغ سے صرف یہ ہی سوچ سکی بغیر یہ سوچے کہ گاڑی ڈرائیو کیسے کرتا۔۔۔۔

کار کے اوپر شیری نے اسے اس لیے بٹھیا تھا کہ شہریار کے چھ فٹ سے نکلتے قد کے سامنے وہ تو صرف اسکے سینے تک ہی آتی تھی ۔۔۔کہاں کہ اسکے سر پر پٹی کرنا ۔۔۔۔

چلو اب یہ سب صاف کرو ۔۔۔ اتنا پٹوایا ہے تو ۔۔۔ محنت بھی کرو ۔۔۔وہ اسکے گھٹنو پر اپنے دونوں بازوں رکھ کر اسکی طرف ہوا۔۔۔
پری تو اسے خون میں رنگے اور اپنے اوپر اسکے بازوں کو ہی دیکھ کر بدحواس ہو گئی ۔۔۔۔


ممم۔۔۔میں کیسے ۔۔۔مطلب بہت ہے خخ۔۔خون مجھ سے نن۔۔نہیں ہوگا ۔۔۔۔وہ نظریں جھکائے کہتی اپنے سرخ لب کاٹنے لگی ۔۔۔۔
شیری کی نظر اسکے گھبراتے سرخ چہرے سے ہوتی ہونٹوں پر آئی ۔۔۔۔تو چلو  تم ڈرائیو کرکے مجھے ہاسپٹل لیکے چلو ۔۔۔نظریں اسکے ہونٹوں پر ہی تھی ۔۔۔۔
مم۔۔مجھے ڈ۔ڈرائیو نہیں آتی ۔۔۔۔وہ اپنے ہاتھ مسلتی کہنے لگی ۔۔۔۔

تو پھر جلدی کرو ورنہ میں اور تم ساری رات اسی گاڑی میں گذارینگے ۔۔۔ وہ اسکے لبوں پر اپنا انگوٹھا پھیرتا بولا ۔۔۔ پری تو اسکی بات پر ہی پسینہ ہوتی جلدی میں ہڑبڑاتی روئی سے اسکا خون صاف کرنے لگی ۔۔۔اسنے جیسے تیسے چہرے کو صاف کردیا تھا اور سر پر الٹی سلٹی پٹی باندھ لی۔۔اب صرف ناک اور ہونٹوں تھے ۔۔۔۔
یہ کون صاف کرے گا ؟؟۔۔۔اسنے ہونٹوں کی طرف اشارہ کرتے روب سے بولا ۔۔۔
مم۔۔میں۔۔پری اسکے روب سے بکھلائی بولی۔۔۔
تو کرو۔۔۔۔وہ مسکراہٹ دباتا بولا ۔۔۔۔ پھر جب پری نے اسکے ناک سے خون صاف کرتی کانپتے ہاتھوں سے ہونٹوں کی طرف آئی ۔۔۔ خوفزدہ نظریں جیسے اٹھائی تو شیری کی آنکھوں سے ٹکرائی پری نے سٹپٹا کر نظریں جھکالی ۔۔۔۔ اور روئی سے اسکے ہونٹوں کو صاف کرنے لگی جب شیری نے اسکی انگلی ہلکی سی دانتوں میں دبائی۔۔۔۔ پری چیختی ہاتھ کھینچ لیا ۔۔۔ جس پر شیری انجان ہوکر پوچھا ۔۔۔۔

کیا ہوا  رک کیوں گئی ؟؟۔۔۔۔
آآ۔۔آپنے ۔۔۔ اسنے اسکی حرکت کی طرف اشارہ کیا ۔۔۔
کیا مینے جانم ۔۔۔۔اسنے جذبے سے چوڑ لہجے میں پوچھا جو پری کی بولتی بند کروایا گیا ۔۔۔۔

 اب کچھ نہیں کرتا کرو ۔۔۔۔وہ اسکو خوفزدہ دیکھ کر بولا۔۔۔
جس پر پریا نے نفی میں سر ہلایا ۔۔۔
اوکے ۔۔۔ وہ کندھے اچکا کر بولتا اس سے دور ہوا پھر اپنی پھٹی شرٹ اتار کر اس سے اپنے ہونٹ صاف کرتے پھیکی ۔۔۔
اب اسکے وجود پر بلو پینٹ اور بلیک بنیان تھی ۔۔۔۔ پری اپنی غیر ہوتی حالت کے ساتھ اسکی کاروائی دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔ وہ اتنی ڈری ہوئی تھی کہ بغیر شرم کے سفید پڑتے چہرے سے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔

شہریار نے اسکے پاس سے فرسٹ ایڈ باکس اٹھا کر واپس کار میں رکھا اور پھر اسکی طرف بڑھا ۔۔۔ اسکے کچھ بھی کرنے سے پہلے اپنے بازوں میں اٹھایا ۔۔۔۔ جس پر پری نے روتے چیختے اسکے سینے پر مکوں کی برسات کردی ۔۔۔ اور اسکے بانہوں میں ہی اچھل اچھل کر خود کو اتارنے لگی ۔۔۔
چھ۔۔۔چھوڑو ممم۔۔مجھے کمینے انسان ۔۔۔ مم۔۔میں بڑے پاپا بتائونگی ۔۔ شیری کے بانہوں میں اٹھانے پر اسکے اندر عجیب خوف گھبراہٹ پیدا ہوا جسے وہ خود بھی سمجھنے سے کاثر تھی ۔۔۔

شیری اسکے ڈر کو سمجھتے ہوئے بولا۔۔۔کیا کر رہی ہو گھر نہیں چلنا کیا پہلے ہی کافی دیر ہوگئی ہے تمہاری وجہ سے ۔۔۔پھر اسے فرنٹ سیٹ پر بیٹھا کر خود دوسری طرف آگیا ۔۔۔

سفیان نے پورچ میں کار روکی ۔۔۔تو حور آنکھیں صاف کرتی باہر کو نکلنے لگی جب سفیان نے ایک جھٹکے سے اسے اپنی طرف کھینچا ۔۔۔
اور اسکے کان میں بولا ۔۔۔۔
تیار رہنا کل ۔۔۔۔ حور اسکا مطلب تو نہیں سمجھ سکی پر اسکی دوسری حرکت پر سرتاپا سلگ اٹھی ۔۔۔

سفیان نے اسکی پیشانی  سے اپنے ہونٹ ہٹا کر کار اسٹارٹ کی ۔۔۔حور اسے کوستی جلدی سے باہر نکلی ۔۔۔۔
کچھ بھی ہوجاتا چاہے میرے جوتے بھی پڑ جاتے پر یہ کمینہ نہیں سدھرنے والا ۔۔۔۔

 episode 12 Tera Ashiq May Diwana Ho Awara Mehwish Ali Novels 

Tera Ashiq May Diwana Ho Awara Mehwish Ali Novels Episode 11 to 15


#تیرا_عاشق_میں_دیوانہ_ہوں_آوارہ\
\

\شہریار کی گاڑی جیسے پورچ میں رکی پری بھاگنے کے انداز میں سے نکلنے کو تھی جب اسکے بالوں سے شیری نے پکڑ لیا ۔۔۔وہ کہرا کر وہیں جم گئی ۔۔۔
چھوڑو مم۔۔میرے بال ۔۔۔ وہ بغیر پلٹے ہاتھوں سے اپنے بال چھڑوانے لگی ۔۔۔
ایسے ہی ڈارلنگ۔۔ مجھے اتنی تکلیف دی اسکا کیا ۔۔۔وہ اسکا رخ اپنی طرف کرتے بولا ۔۔۔۔اسکی بات پر پری کی جان منہ کو آگئی، آنکھوں میں پھر سے خوف کے سائے لہرانے لگے ۔۔۔۔ وہ تو اسے انسانوں کے روپ میں دیکھ کر اللہ کا شکر کرتی آئی تھی ۔۔پر اسے کیا پتا تھا وہ صرف کچھ دیر کا تھا۔۔۔

مم۔۔مینے کہاں دی وہ۔۔وہ تو خود آگئی ۔۔۔وہ معصومیت سے رونی جیسے شکل بنا کر بولی ۔۔پھر اپنا حلق تر کرنے لگی ۔۔۔جھوٹ جو بولا تھا ۔۔۔۔۔اسکی بات پر شیری کی آنکھیں سکیڑی۔۔۔
جتنا معصوم سمجھنے لگا تھا اتنی ہوتو نہیں ۔۔۔ مطلب منہ پر ہی جھوٹ۔۔۔ ڈارلنگ ۔۔۔۔ پر شاید تم بھول گئی مینے کہا تھا جیسے غلطیاں کروگی انکی  سزا بھی ملے گی ۔۔۔ تاکہ تم آگے کچھ سیکھو بغیر غلطیوں کے ۔۔۔۔  اسکے جبڑے سے پکر کراسکا منہ  اپنے چہرے کے قریب کیا  ۔۔۔
اسکی پکڑ اتنی سخت نہیں پر نرم بھی نہیں تھی کہ پری خود چھڑوا سکے ۔۔۔۔
اسکے منہ کو قریب آتے دیکھ کر پری بد حواس ہوکر شیری کے چہرے کو خود سے دور کرنے لگی ۔۔۔

یہ ۔۔یہ کیا کر رہے ہیں ۔۔۔مم۔۔ میں چیخ دونگی ۔۔۔چھ۔۔چھوڑیں ۔۔وہ اسکے منہ پر ہاتھ رکھتی التجا اور دھمکاتے بولی۔۔
اوکے چیخو ۔۔۔۔ اسے اجازت دینے کے ساتھ ۔۔اسکے بالوں کو چھوڑ  کر اسکے ہاتھ پکڑ لیے اور  کوئی بھی موقعہ دئے بغیر اس پر جھکا اور اسکے ہونٹوں کو قید کر کے اپنے لبوں سے الجھا دیا ۔۔۔پری کے آنسوں شیری کے چہرے کو بھگونے لگے ۔۔۔
وہ پوری طرح اسکے قید میں تھی ۔۔۔خود کو اس ظالم سے بچا بھی نہیں پارہی تھی ۔۔۔۔
اسکا پورا وجود لرز رہا تھا ۔۔ شیری نے اسے آہستہ سے الگ کیا ۔۔۔ پھر اسکی سہمی ہرنی جیسی آنکھوں میں دیکھ کر اسکے بالوں کو کان سے پیچھے کرکے سرگوشی

 سے معصومیت کی انتہائی سے بولا ۔۔۔آئندہ خیال رکھنا جانم  میں بہت کمزور دل کا ہوں بار بار ایسے ستم برداش نہیں کرسکتا ۔ٹوٹ پھوٹ بھی  سکتا ہوں۔۔۔ پھر اسکی سانسیں بھرتی حالت کی پروا کیے بغیر اپنے ہونٹوں سے اسکے بہتے آنسوں صاف کرنے لگا ۔۔۔۔پری کا پور پور کانپ رہا تھا آنکھیں سختی سے میچ لیں۔۔۔ وہ لرزتی ہچکیاں بھرتی شیری کے چھوڑنے پر منہ پر ہاتھ رکھتی کار سے نکلتی اندر کو بھاگی ۔۔۔

یہ تو شکر تھا کوئی اسے نہیں دیکھا نا کسی نے اس کی حالت کو نہیں دیکھا، وہ بھاگنے کے انداز میں چلتی اپنے کمرے میں آئی ۔۔۔ 
حور کے کمرے میں نہیں گئی کیونکہ اسکے اوپر بھی شیری کے خون کے نشان تھے اگر حور یا کوئی بھی دیکھ لیتا تو اس سے بہت سوال کرتے تو وہ کیا جواب دیتی کہ اسنے پٹوایا ہے شیری کو ۔۔۔

کمرا اندر سے لاک کرتی بیڈ پر گر گئی ۔۔۔اور خوب سارا رونے لگی ۔۔ وہ اپنے آپ پر ابھی بھی شیری کی گرفت اور لمس محسوس کرتی ۔۔۔۔   مزید رونے پر مجبور   ہو رہی تھی ۔۔۔

اسکے بھاگنے پر شیری مسکراتا مرر میں اسکی کی گئی پٹی پر ہاتھ پھیرتا اپنے ہونٹ کو دانتوں میں دبا گیا ۔۔۔

وہ کار سے نکلا تو رفیق ملازم اندر کو دیکھتا کمینگی سے مسکرا رہا تھا ۔۔۔اسکے ہاتھ میں فائل تھی جس سے شیری سمجھ گیا دراب کے کام سے آیا ہوگا یہاں،  پر یہ مسکرا کیوں رہا ہے ۔۔۔

وہ آگے آیا اور  اندر کو دیکھا تو پری روتی سیڑھیاں چرھتی اوپر کو جارہی تھی ۔۔۔۔شیری کے چہرا غصے سے سرخ ہوگیا ۔۔۔
کیا چیز ہے ایکدم کمسن کلی پر ایسی چیزیں ہمارے نصیب میں کہاں، ہائے کاش مل جاتی  میری تو عید ہوجاتی۔۔۔ پتا نہیں کون ہے بجلی۔۔۔۔اس ملازم نے پری پر بے ہودہ تبصرا کیے اپنے نصیب کو رونے لگا ۔۔۔ شہریار کا تو دماغ ہی جیسے سن ہوگیا پری کے خلاف ایسے بےہودہ لفظ سنکر۔۔۔ اسکے اندر جیسے آگ جلنے لگی تھی ۔۔۔۔ آنکھوں میں سرخی پھیل گئی ۔۔۔

کاکا ۔۔۔ اسنے دھاڑنے کے انداز میں گھر کے دوسرے ملازم کو پکارا ۔۔۔۔جس پر رفیق اچھل کر مڑا تو شہریار کو خونخوار نظروں سے خود کو گھورتا پایا ۔۔۔۔اسکا چہرا فق ہوگیا آنکھوں میں خوف کے سائے لہرانے لگے ۔۔۔۔سب شہریار کے غصے سے واقف تھے ۔۔۔۔ کہ وہ کتنا غصیلا تھا غلطی کرنے پر وہ کسی کو بخش نہیں کرتا تھا ۔۔۔۔

جج۔۔جی چھوٹے صاحب ۔۔۔۔ اکبر بڑی عمر کا ملازم تھا گھر میں سب اسے کاکا کہتے تھے ۔۔۔۔شیری کی دھاڑ پر گھبراتا دورتا وہاں پہنچا ۔۔۔
جی چھوٹے صاحب ۔۔۔وہ پھر بولا ۔۔۔۔
یہ فائل لو دراب تک پہنچائو ، خود جائو یا کسی سے بجوائو ۔۔۔اگر رفیق کا پوچھے تو کہنا اسکا اکسیڈنٹ ہوگیا ہے  اور وہ ہاسپٹل میں نازک حالت میں پڑا ہے ۔۔۔۔ یہ فائل اسکے پاس سے ملی ہے ۔۔۔کہنے کے ساتھ فائل اسے دیتے رفیق ملازم کو گلے سے پکڑے گاڑی میں ڈالا اور اسکے کچھ بھی کرنے پہلے کار اسٹارٹ کرتا ملک ولا سے نکلتا چلا گیا۔۔۔۔

اکبر ملازم ہکا بکا رہ گیا ۔۔۔ رفیق تو ٹھیک تھا ۔۔۔ پھر یہ چھوٹے صاحب کیا کہہ رہا تھا ۔۔۔ وہ خود سے الجھ کر بولا ۔۔۔ پھر کندھے اچکا کر اسکے حکم کی تعمیل کرنے کو چلا گیا ۔۔۔ ویسے بھی اسکا کیا، کون اسکے مسئلے میں ٹانگ اڑائے ۔۔۔
💞💞💞💞

مشی آپی پری کہاں ہے ۔۔۔ حور جو کب سے پری کو ڈھونڈ رہی تھی ۔۔۔ مشال کے کمرے آئی اور اس سے پوچھنے لگی ۔۔۔
وہ اپنے کمرے میں ہے ۔۔میں گئی تھی کھانا دینے پر دروازہ نہیں کھولا میرے پوچھنے پر بھی نہیں بتایا کیا ہوا ہے کمرے میں کیوں بند ہے صرف اتنا بولی ، سونا ہے مجھے ڈسٹرب نا کرے کوئی ۔۔۔

مما کو بتایا تو انہونے کہا ٹھک گئی ہوگی بچی ہے جب بھوک لگی گی تو خود  آکے کھالے گی تم لوگ اسے پریشان نا کرو ،،، تو میں واپس آگئی ۔۔۔۔ شاید ابھی بھی کمرے میں ہوگی اپنے ۔۔۔۔مشال کے بتانے پر حور ٹھیک ہے بول کر پری کے کمرے کی طرف آئی ۔۔۔

پری بیڈ پر آنسوں بہاتی وہیں سو گئی تھی حور کے دروازا ناک کرنے پر بھی نا اٹھی ۔۔۔۔ حور بھی پھر اسکی نیند کا خیال کرتی واپس اپنے کمرے میں چلی آئی پر ابھی بھی پریشان تھی کیوں کہ شیری نے اسے کہا تھا اسکی طبعیت ٹھیک نہیں تھی ۔۔۔
دوسرا وہ سفیان کی وجہ سے بھی پریشان تھی ۔۔۔پتا نہیں کس بات پر اسے تیار رہنے کا کہہ کر گیا تھا کرنا کیا چاہتا تھا اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا ۔۔۔۔پر یہ بات تھی کہ اب اسے دیکھ کر راستا ہی بدلنا تھا ۔۔۔۔

ہاں رحیم سب انتظام ہوگیا کل کے لیے، دیکھو ایک بھی کمی نہیں رہنی چاہیے پورا روم سرخ پھولوں سے سجا دینا ۔۔۔سفیان ڈریسنگ آئینے کے سامنے کھڑے موبائل کان سے لگائے رحیم کو ہدایت کرتا دلکشی سے مسکرانے لگا ۔۔۔
دوسری طرف سے کچھ کہا گیا پھر وہ بولا ۔۔۔سب کو سمجھا دینا کسی کو شک نہیں

 ہونا چاہیے اگر کچھ بھی گڑبڑ ہوئی تو اپنی سلامتی کی دعا کرنا ۔۔۔۔
اوکے ٹھیک ہے میں پھر میسج کردونگا کل ۔۔۔تم لوگ تیار رہنا ۔۔۔
کہنے کے ساتھ کال کاٹ کر موبائل بیڈ پر پھینکی اور خود سیٹی بجاتا روم سے باہر نکلا ۔۔۔۔ بس انتظار نہیں ہورہا اب تو میری چشمش ۔۔۔۔ہاہاہاہا۔۔۔۔۔

💞💞💞💞

دد۔۔۔دیکھو سر آپکو غلط فہمی ہوگئی ممم۔۔میں صرف دراب سر کے کہنے پر فائل لینے آیا تھا ۔۔۔۔ مینے کچھ نہیں کیا ۔۔جو آپ میرے ساتھ ایسا کرنے جارہے ہیں ۔۔۔۔۔رفیق گھبراتا اپنی صفائی دینے لگا ۔۔۔اور بار بار کار کا دروازہ کھولنے کی کوشش کر رہا تھا جو لاک تھے ۔۔۔۔اس پر شیری نے بنا کچھ بولے کار کی سپیڈ تیز کردی ۔۔اسکے چہرے پر خطرناک حد تک سنجیدگی پھیلی ہوئی تھی۔۔۔۔جب اس سے کچھ نا ہوا تو وہ اپنے اصلیت میں آیا۔۔۔

اگر مجھے کچھ ہوا تو میں تمہارے خاندان کی جریں  ختم کروا دونگا، جانتے نہیں ہو مجھے میرے بڑے بڑے لوگوں سے تعلقات ہیں اگر چاہوں تو دو منٹ میں اس کلی کو اپنے قدموں میں پائوں ۔۔۔۔ تم میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔۔۔۔اسکی بکواس پر شہریار نے جھٹکے سے گاڑی روکی اور ایک زوردار پنچ اسکے منہ پر مارا جس پر وہ کہرا کر دور ہوا ۔۔۔

پھر منہ پر ہاتھ رکھ کر چیخہ ۔۔۔کمینے میں تمہیں جان سے مار دوں گا ۔۔۔۔
چلو نکلو اگر خود کو بچانا چاہتے ہو تو بھاگو ۔۔۔ کار کا دروازہ کھول کر شیری سرد آواز میں اس سے بولا ۔۔۔
رفیق تو موقعے کی تلاش میں تھا ہڑبڑا کر کار سے نکلا اور تیز تیز بھاگنا شروع کردیا ۔۔۔

اس پر نظریں گاڑھے کار سٹارٹ کردی ۔۔۔۔پھر اسکے پیچھے بھگانے لگا ۔۔۔۔
رفیق جیسے مڑ کر دیکھا تو کار اسکے پیچھے ہی تھی ۔۔۔پھر اسکے کان میں شہریار کے الفاظ گونجے "اسکا بڑا اکسیڈنٹ "
الفاظوں کے ساتھ وہ تیز تیز گاڑیوں کے بیچ بھاگنے لگا ۔۔۔پسینے میں پورا بھیگ گیا تھا سورج کی تپش موت کا خطرا دونوں نے ملکر اسکے آنکھوں کے آگے اندھیرا کر دیا اور سامنے سے آتی کار سے ٹکراتا  خون میں لتھڑا دور جاگرا ۔۔۔تھوڑی دیر میں

 اسکے گرد لوگوں کا مجمع ہوگیا ۔۔ اور کوئی اسے لیکر ہاسپٹل لیجانے لگا ۔۔۔۔یہ سب دیکھ کر شیری بھرپور انداز میں مسکراتا واپس کو ہولیا ۔۔۔
آیا بڑا دھمکی دینے والا ۔۔۔۔ہاہاہہاہاہاہا۔۔۔
💞💞💞💞
دروازے پر مسلسل دستک کی آواز پر پری کسمسائی ۔۔پھر ایک دم آنکھیں کھولی ۔۔۔بیڈ پر اوندھی پڑی تھی ۔۔جلدی سے سیدھی ہوئی اور آنکھیں مسل کر اٹھی۔۔۔۔پھر چلکر دروازہ کھولا تو نوشین تھی ۔۔۔
کیا ہوا گڑیا طبعیت ٹھیک ہے تمہاری ۔۔۔اسنے اسکا ماتھا چھو کر پوچھا ۔۔۔

جج۔۔جی ٹھیک ہوں وہ۔۔وہ آنکھ لگ گئی ۔۔۔پری نے جیسے انگڑائی لینے کے لیے ہاتھ اٹھائے تو سامنے سیڑھیوں سے اوپر آتے شیری کودیکھ کر ایک دم پیچھے ہوئی دروازہ بند کرنے کو تھی جب نوشیں بولی ۔۔۔
سنو گڑیا ڈنر تیار ہے سب ویٹ کر رہے ہیں آجائو لنچ بھی نہیں کیا تمنے ۔۔۔اب آجائو ورنہ پاپا آرہے ہیں تمہیں لینے ۔۔۔پری نے اسکی بات مکمل کرنے کے ساتھ اوکے کہتی دروازہ شیری کے ڈر سے اسکے منہ پر بند کیا ۔۔۔جس پر نوشین گھبرا کر ایکدم پیچھے ہوئی ۔۔۔
اسے کیا ہوا ۔۔۔وہ دروازے کو دیکھ کر بولی ۔۔۔
کسے ؟؟پیچھے سے شیری نے سن لیا تو اس سے پوچھا ۔۔۔
یہی پریا کو دروازہ منہ پر ہی بند کر دیا ۔۔۔اسنے حیریت سے بند دروازے کو دیکھ کر شیری سے بولی ۔۔۔جس پر شیری مسکرادیا ۔۔۔۔
کچھ نہیں جن دیکھ لیا ہوگا ۔۔۔نوشین کے سر پر ہاتھ پھیرتا دروازے کو دیکھ کر شرارت سے بولا ۔۔۔ اور پری کی حرکت سمجھ کر قہقہہ لگاتا اپنے کمرے کی طرف چلدیا۔۔۔

وہ پہلے تو باہر نہیں جانا چاہتی تھی پر پھر بھوک سے مجبور ہوکر فریش ہوتی باہر نکلی ۔۔۔۔
پری جب کھانے کی ٹیبل پر آئی تو سب موجود تھے سوائے شیری کے ۔۔۔رب کا شکر ادا کرتی وہ دوسری چیئرز چھوڑ کر حور کے ساتھ بیچ والی چیئرز پر بیٹھ گئی ۔۔۔طبعیت کیسی ہے تمہاری پری؟؟ ۔۔۔۔حور نے اسکی سرخ آنکھوں میں دیکھ کر پوچھا۔۔۔
ٹھیک ہے اب ۔۔۔ کہنے کے ساتھ کھانا نکال کر کھانے لگی ۔۔۔وہ جلدی جلدی کھارہی تھی اسے ڈر تھا کہیں شیری نا آجائے وہ اتنی مگن ہوگئی تھی تیز تیز کھانے میں کہ اسے پتا ہی نہیں لگا کہ کب حور اٹھی اور کب شہریار آہستہ سے اسکے ساتھ والی چیئر پہ بیٹھ گیا ۔۔۔پتا تو اسے تب لگا جب اسکے گود میں رکھے اپنے ہاتھ پر کسی کی

 گرفت محسوس ہوئی ۔۔۔اسنے گھبرا کر جیسے ہی سر اٹھایا تو حور کی جگہ پر شیری کو دیکھ کر اسکا سانس رک گیا ۔۔۔پھر سب کی موجودگی کی وجہ سے تھوڑی ہمت کرکے ۔۔۔۔غصے سے اپنے ہاتھ کو آزاد کروانے کی کوشش کی تو اسکی پکڑ اور سخت ہوگئی ۔۔۔جس پر اسکے منہ سے کہرانے کی آواز نکلی۔۔۔
آہہہہہ۔۔۔۔وہ تڑپ کر رہ گئی ۔۔۔شیری بغیر اسکے درد کی پرواہ کیے ایسے کھانا کھا رہا تھا جیسے اسنے کچھ سنا ہی نا ہو ۔۔۔حماد صاحب اور سب کو لگا شاید وہ شیری

 سے ڈر گئی ہے ۔۔۔اس لیے دراب بولا ۔۔آجائو گڑیا یہاں بیٹھو ۔۔۔اسنے اپنے پاس والی چیئر کی طرف اشارا کیا۔۔۔
شہریار نے ایسی نظروں سے عائمہ بیگم کو دیکھا جیسے کہہ رہا ہو دیکھا ابھی بھی آپ کہہ رہی تھی سب کے ساتھ کھانا کھائو ۔۔پھر نیچے سر کئے اپنی چالاکی پر مسکرادیا۔۔۔

دراب کے کہنے پر پری ایسا کرتی بھی جب شیری کی سرگوشی نما آواز اسکے کان میں پڑی ۔۔۔۔
"اگر یہاں سے اٹھی تو کل جو کیا تھا اس سے بھی برا حال کروں گا "شیری کی دھمکی پر وہ سر سے پیر تک کانپ گئی اور پھر جلدی سے نفی میں سر ہلانے لگی ۔۔۔

Tera Ashiq May Diwana Ho Awara Mehwish Ali Novels Episode 13 

#تیرا_عاشق_میں_دیوانہ_ہوں_آوارہ💞
#از__مہوش_علی۔۔
#قسط__13

دراب نے پہلے شیری کو دیکھا جو خاموشی سے کھانا کھارہا تھا پھر پری کو  جو کبھی ٹیبل پر رکھے کانٹے کو دیکھتی کبھی نیچےاور پھر  سے اپنے ہونٹ کاٹنے لگتی  ۔۔۔۔ وہ کچھ نا سمجھتے ہوئے دونوں دیکھا پھر اپنے کھانے کی طرف متوجہ ہوگیا۔۔۔

پھر کس سے مار پیٹ کی ہے جو خود کو پٹیوں میں جکڑ کر آئے ہو۔۔۔احمد صاحب کی نظر جب اسکی طرف اٹھی تو اسکے سر پر بندھی پٹی کی طرف گئی جس پر غصے سے شیری سے پوچھا۔۔۔۔
یہ بات سن کر پری نے  ڈر سے اپنی ہاتھ کی انگلیوں سے الجھتی شیری کی انگلیوں پر اپنی پکڑ مضبوط کرلی ۔۔جس پر شیری سمجھ گیا تھا کہ ڈر رہی کہیں وہ اسکے بارے میں نا بتادے ۔۔۔پر بیوقوف یہ نہیں سوچ رہی تھی کہ جب سب کو پتا لگتا کہ شیری اسے کہیں لیکر جارہا تھا تو حماد صاحب اور احمد صاحب شیری کا کیا حال کرتے ۔۔۔۔خیر اتنا تو دماغ پری میں نہیں کہ وہ اسے استعمال کرسکے۔۔۔
شہریار نے اپنی مسکراہٹ روکے احمد صاحب سے سنجیدہ ہوکر بولا۔۔۔
فارم ہائوس  گیا تھا ،وہاں سیڑھیوں سے گر گیا۔۔۔اس نے سب کو بھی یہی بتایا تھا ۔۔۔
تو یہ منہ ناک پر کیسے چوٹ آئی ۔۔۔۔احمد صاحب کو شک تھا کہیں پہلے کی طرح کسی سے غصے میں جھگڑا تو نہیں کرکے آیا ۔۔۔۔

اسکے پوچھنے پر شیری نے پھر سے اپنی مسکراہٹ  روکی  ۔۔۔۔سب کھانے کے دوران کبھی شیری تو کبھی احمد صاحب کو دیکھتے عائمہ بیگم تو پہلو بدل کر رہ جاتی اس سرپھرے بیٹے کے جوابوں پر۔۔۔
مجھ پر شک کرنے کے علاوہ کبھی باتوں اور حادثوں پر بھی دماغ دیا کریں ابا صاحب۔۔اور میں گرنے سے پہلے منہ پر ہاتھ  رکھ کر نہیں گرا تھا کہ میرا حسین چہرا خراب نا  ہوجائے ۔۔۔اسکی بات پر سب نے بڑوں کی موجودگی کی وجہ سے اپنے قہقہے کو دبایا ۔۔۔۔

حماد صاحب کے چہرے پر بھی مسکراہٹ چھاگئی ۔۔۔احمد صاحب تو اسکی بات پر تھوڑا غصہ اور تھوڑا شرمندہ ہوگئے ۔۔۔
ایسی بکواس کرنے میں ماہر ہو تو ذرا اپنی ذمیداریوں کی طرف بھی دھیان دیا کرو ۔۔۔۔وہ بھی اپنے سر لیا کرو ان پٹیوں کے علاوہ ۔۔۔۔احمد صاحب اچھا خاصا غصہ ہوگئے ۔۔۔
تو دے دیں میری ذمیداری دیکھئے گا کیسے سنبھالتا ہوں ۔۔۔اسکی بات کا مطلب سمجھ تو سب گئے تھے پر پھر سوچا شاید ایسا نا ہو ۔۔۔
کیوں جانم ٹھیک کہہ رہا ہوں نا ۔۔۔ اسنے سرگوشی میں پری کے قریب کی ۔۔اسکا کہنا تھا کہ پری نے اپنے گود میں پڑے کانٹے جو اسنے آہستہ سے گرایا تھا  سب کی نظروں سے بچاکر ۔۔۔۔

وہ شیری کے ہاتھ پر پوری طاقت سے گاڑھ دیا ۔۔۔۔شیری نے ایکدم اپنا ہاتھ کھینچا ۔۔۔جس کی پشت سے خون نکل رہا تھا ۔۔۔۔
اسکے اندر تک درد کی لہر اٹھی اور سختی سے ہونٹ بھینچ لیے ۔۔۔۔چہرا سرخ ہوگیا تھا۔۔

ایک قہربرساتی نظر پری پر ڈالی جو اسے بغیر دیکھے سب سے شب بخیر  بولتی سیڑھیاں طے کرتی طرف اپنے کمرے کی طرف جا رہی تھی۔۔ 
وہ تو اسکی اچانک بڑھتی ہمت پے دھنگ رہ گیا تھا ۔۔۔ اپنے ہاتھ میں اٹھتی درد کی ٹیسوں کو اپنے اندر اتارتا ۔۔ایکدم اٹھا اور غصے سے ڈائیننگ روم سے نکلتا کار میں بیٹھ کر گھر  سے  چلاگیا ۔۔۔۔ 

پیچھے سب کی پکاروں کی پروا کیے بغیر ۔۔۔۔
یہ لڑکا کبھی نہیں سدھرے گا۔۔اسکی اچانک جھٹکوں والی طبعیت پتا نہیں کہاں لیکر جائے گی اسے ۔۔باپ ہونے کی وجہ سے اسکے آواز میں بہت فکرمندی تھی ۔۔۔۔ پریشان رہتے تھے اسکی بےپروہ طبعیت اور غصے سے ۔۔۔احمد صاحب کہتے اٹھ کر چلے گئے۔۔۔۔سب نے نا سمجھی سے شہریار کی پشت کو دیکھا کہ ہوکیا گیا اسے اچانک ۔۔۔

کار میں بیٹھا وہ ایک کے بعد ایک سگریٹ ختم کر رہا تھا پر غصہ تھا کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا ۔۔۔

سارے موڈ کا ستیاناس کردیا  چپکلی نے ۔۔۔ پتا نہیں کیا دماغ میں چلا رہی ہے ۔۔۔۔ خود سے کہتا اپنے ہاتھ کو دیکھا جہاں اسکے ناخون اور کانٹے کے گہرے نشان تھے ۔۔۔۔پھر خاموشی سے سگریٹ پیتے راستے پر آتی جاتی گاڑیوں کو دیکھتا رہا۔۔۔۔

لگتا ہے میرے بلڈ بہانے کا دن منایا تھا آج جانم نے ۔۔۔سگریٹ کا ایک گہرا کش لیکر زخموں کو دیکھ کر بولا ۔۔۔غصہ آہستہ آہستہ گیا تو اسکی حرکت پر ہنسی آنے لگی۔۔۔۔ ڈرپوک کہیں کی۔۔۔۔پھر گہرا سانس لےکر خود سے بڑبڑانے لگا۔۔۔
ہائے میری پری پتا نہیں کہاں اڑا کر لیجائوگی مجھے۔۔۔۔ایک تو اتنی نازک ہو چھوتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے کہیں ٹوٹ نا جائو (توبہ 😂)۔۔۔پتا نہیں میری بڑھتیں شدتیں کیسے برداش کروگی ۔۔۔دوسری ناسمجھ ۔۔۔۔
بس بیٹا شہریار تیرا تو رب مالک ہے۔۔۔۔۔سیکھاتے رہنا جب تک عقل آجائے۔۔۔۔۔

\
 بیڈ پڑ پڑی اپنے کیے پر بے سکونی سے کروٹیں بدلتی رہی ۔۔۔پتا نہیں کیا انجام کرے گا ۔۔۔یہی فکر اسکو کھائے جارہی تھی۔۔۔ہمت تو اسنے دیکھالی تھی اب پتا نہیں شیری اسکے ساتھ کیا کرے گا ۔۔۔

پر اب تک ملنے والی غلطیوں کی جیسی سزائیں تھی اس سے اسکا گلا خشک ہورہا تھا ۔۔۔۔بار بار اے سی میں بھی آنے والے پسینے کو اپنے چھوٹے سے ہاتھوں سے صاف کرتی ہونٹوں کو کاٹنے لگتی۔۔۔۔وہ خود بھی نہیں سمجھ پارہی تھی کہ کیسے اسنے جلاد پر اچانک حملا کردیا ۔۔۔ کیسے اور اسکے ہاتھ بھی نہیں کانپے ۔۔۔۔ پر یہ اتنی ہمت بھی سب کی موجودگی کی وجہ سے آئی تھی ۔۔۔اور اب اکیلے میں شیری کی سزا سے کانپ رہی تھی۔۔۔۔

اچانک دماغ میں خیال آیا تو کروٹ بدل کر حور کی طرف ہوئی۔۔۔۔
حح۔۔۔حور ؟؟اسنے آہستہ سے پکارہ۔۔۔۔
حور جسے عجیب سی بے سکونی کی وجہ سے نیند نہیں آرہی تھی ۔۔۔پری کی پکار

 پر اسکی طرف منہ کیا ۔۔۔
ہوں بولو۔۔۔۔پیار سے اسکا گال تھپتھپا کر بولی ۔۔۔جس سے اس میں تھوڑی اور ہمت بڑھی۔۔۔۔
پری حور کے کافی کلوز تھی ۔۔۔سب اس سے پیار محبت سے بات کرتے تھے پر حور کے میٹھے انداز میں بات ہی کچھ اور تھی ۔۔۔ اور حور اسکا اتنا خیال رکھتی جیسے اپنی چھوٹی بہن کا۔۔۔۔۔
حح۔۔۔حور کیا مم۔میں ایک بات پوچھوں؟؟۔۔۔۔۔۔اسنے اپنے سرخ لبوں پر زبان پھیر کر اجازت لی۔۔۔۔
ہاں پوچھو اجازت کیوں لیرہی ہو۔۔۔۔۔۔

حور اگر ۔۔۔۔تت۔۔تم کوئی ۔۔۔غغ۔۔غلطی کرو اور اسکے بدلے  سس۔۔۔۔سزا کی طط۔۔طور پر کوئی تت۔۔تمہاری سانسیں(انگلی سے اسکے منہ کی طرف اشارہ کر کے سمجھایا) بب۔۔۔بند کردے تو کیسے بچنا چچ۔۔۔۔چائیے۔۔۔۔
اسنے کہہ کر جواب کے لیے حور کو دیکھا ۔۔۔۔ جسکی آنکھیں اسکی بات پر پھٹ گئی تھی ۔۔۔اور مثال کا رخ اپنی طرف ہونے پر چہرا سرخ ہوگیا تھا۔۔۔۔وہ ایکدم غصے سے اٹھی۔۔۔۔

یہ کیا بکواس کر رہی ہو کسنے تمہارے دماغ میں یہ گندی بات ڈالی ہے؟؟ حور نے غصے سے پوچھا ۔۔۔جس پر پری بھی ایکدم اٹھ بیٹھی اور خوف سے پھیلی آنکھوں سے حور کو دیکھنے لگی۔۔۔۔
پری بتائو کس نے ایسی بات پوچھنے کو کہا ہے ۔۔۔۔ اگر تم یہ بات کسی اور سے پوچھ

 لیتی تو تمہیں پتا نہیں کتنی انسلٹ ہوتی تمہاری۔۔۔یہ تو شکر ہے یہ بکواس مجھ سے کرلی ۔۔۔پری تو آنکھیں پھاڑ حور کو غصہ کرتے دیکھ رہی تھی ۔۔۔اگر اتنی گندی حرکت تھی تو شیری اسکے ساتھ ایسا کیسے کر سکتا ہے ۔۔۔۔مطلب وہ اتنا گھٹیا شخص ہے ۔۔پری کو اچانک پہلے سے بھی زیادہ شیری سے نفرت محسوس ہونے لگی ۔۔۔وہ خالی آنکھوں سے حور کو دیکھتی کروٹ بدل کر لیٹ گئی اور سختی سے آنکھیں میچ لی ۔۔۔۔ دل کر رہا تھا اگر شہریار سامنے ہوتا تو وہ اسکے ٹکروں میں تقسیم کردیتی ۔۔۔۔اتنی نفرت تھی اسے شیری سے۔۔۔۔۔
پری تم نہیں بتا رہی ۔۔۔۔حور نے بازو سے پکڑ کر اسکا رخ اپنی طرف کر کے پوچھا ۔۔۔۔جس کے چہرے پر سختی چھائی ہوئی تھی۔۔حور کو لگا شاید وہ اس سے ناراض ہوگئی ہے ۔۔۔۔۔

پری یار سوری مجھے ایسے غصے میں نہیں پوچھنا چائیے تھا پر جو بھی تمہیں یہ سب بتا یا سیکھا رہی ہے پلیز اس سے دور رہو ۔۔تم ابھی بہت چھوٹی ہو یہ باتیں تمہارے دماغ کے لیے ٹھیک نہیں ۔۔اگر بڑی مما یا مما کو پتا لگا تمہاری ایسی باتوں کا تو وہ بہت ناراض ہوں گی ۔۔۔۔ حور نے پیار سے اسکا چہرا اپنے ہاتھوں میں لیکر سمجھایا ۔۔ جس پر پری نے ہاں میں سر ہلادیا۔۔۔۔پھر بولی۔۔۔
تو ایسے انسان کے ساتھ کیا کرنا چائیے۔۔۔۔۔
حور نے پہلے اسے دیکھا پھر بولی۔۔۔۔جوتے مارنے چائیے ایسی گندی سوچ والے کو۔۔۔۔۔

پھر کافی دیر حور اسے ایسی لڑکیوں سے دور رہنے کے بارے میں سمجھاتی رہی۔۔۔۔حور نے سمجھا شاید اسکے کالج کی لڑکیوں میں سے کسی نے ایسی باتیں کی ہونگی پری کے ساتھ۔۔۔۔۔
حور تو سو گئی ۔۔۔پر پری سوچ سوچ کر پریشان ہو رہی تھی کہ میں شیری کو جوتے کیسے ماروں۔۔۔۔۔۔وہ ایسا کرنے پر شاید جان سے ماردے۔۔۔


حور اور پری نے یونی سے چھٹیاں لے لی تھی۔۔۔۔کیونکہ شادی کو کچھ ہی دن رہ گئے تھے۔۔۔۔۔
عالیہ بیگم اور آئمہ بیگم کو کچھ شاپنگ کرنی تھی۔۔۔۔باقی سب تو انہونے کرلی تھی بس اب کچھ ہلکی پھلکی رہ گئی تھی۔۔۔۔حور کو صبح ہی اپنی فرینڈ صبا کی کال آئی تھی ۔۔۔کچھ ضروری کام تھا اسے ۔۔۔حور نے کہہ تھا تم آجائو پر اسنے کہا میری مما کی طبعیت ٹھیک نہیں اس لیے پلیز آجائو۔۔۔۔حور کی وہ بیسٹ فرینڈ تھی اس لیے اسنے ہاں کردی۔۔۔۔

اس نے پری کو کہا ساتھ چلنے کا پر اسنے منا کردیا تو وہ عالیہ بیگم اور عائمہ بیگم کے ساتھ چلی گئی۔۔۔۔
بیگم صاحبہ یہ آگے بہت چھوٹی گلی ہے اس لیے گاڑی اندر نہیں جا سکتی۔۔ڈرائیور نے انہیں سامنے گلی کی طرف اشارہ کر کے بتایا۔۔۔۔

تو حور انسے بولی ۔۔۔۔ میں چلی جائوں گی۔۔گلی میں داخل ہوتے ہی سامنے صبا کا گھر ہے۔۔۔۔عالیہ بیگم نے اسے کہا کہ وہ اسے چھوڑ دیں گی تو حورنے منا کردیا اور خود کار سے نکلتی اندر گلی میں داخل ہوگئی۔۔۔۔۔
صبا ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتی تھی ۔۔۔۔ اور حور کو وہ اپنی اچھی نیچر کی وجہ سے بہت پسند تھی دونوں کی دوستی یونی کے فرسٹ دے  سے ہوئی تھی۔۔۔۔۔صبا کی فیملی میں صرف اسکی بیمار ماں تھی۔۔۔۔باپ کی ڈیتھ ہوگئی تھی۔۔۔۔
عالیہ بیگم اور عائمہ بیگم کچھ دیر کے بعد چلی گئی۔۔۔کیونکہ حور نے کہہ تھا وہ خود کال کر دے گی ۔۔۔۔ 


وہ ابھی جا ہی رہی  تھی جب اسے اپنے پیچھے قدموں کی چاپ سنائی دی حور گھبرا کر جیسے مڑی تو سامنے دو عورتوں اور ایک آدمی کو دیکھا عورتوں نے عبایا پہنا ہوا تھا تو وہ انکا چہرا نہیں دیکھ سکی۔۔۔۔
آدمی بھی انجان تھا ۔۔۔ اسکے رکنے پر وہ بھی رک گئے ۔۔۔گلی میں سوائے ان چاروں کے اور کوئی نہیں تھا۔۔۔۔حور کو ڈر لگنے لگا ۔۔وہ ان پر ایک نظر ڈال کر سائیڈ  ہوتی جیسے مڑی تو پیچھے سے ان میں سے کسی نے اسکے منہ پر رومال رکھ دیا ۔۔۔۔ حورنے چلانے اور بھاگنے کے لیے کافی ہاتھ پیر مارے پر ۔۔۔۔کچھ نا ہو سکا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ہوش و حواس سے بیگانا ہوگئی۔۔۔۔۔
💞💞💞💞

حور کو جب ہوش آیا ۔۔تو خود کو ایک انجان کمرے میں بیڈ پڑ پایا۔۔۔۔اسے صرف کچھ دیر کے لیے ہی بے ہوش کیا گیا تھا۔۔۔وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھی اور اپنے اوپر پڑی چادر کو ہٹا کر  اپنا چشمہ ڈھونڈنے لگی جو  سائیڈ ٹیبل پر رکھا تھا۔۔۔۔۔اسے اٹھا کر پہنا اور بیڈ سے اتر کر بند دروازے کی طرف بھاگی ۔۔۔ ڈر خوف سے اسکا برا حال تھا ۔۔۔اسی وجہ سے اسے اپنے علاوہ کسی کی موجودگی کا احساس نا ہوا ۔۔۔۔میں کہاں ہوں ۔۔۔۔یہاں مجھے کون لایا ہے پلیز شیری بھائی دراب بھیا پلیز مجھے بچالیں۔۔۔
وہ چیختی بند دروازے کو پیٹنے لگی ۔۔۔کون  میرے ساتھ ایسا کرسکتا ہے ۔۔۔۔پلیز مجھے کوئی بچائو۔۔۔۔۔

اسکی ٹانگیں کانپنے لگی تھی اس سوچ سے کہ کہیں اسے کسی نے کڈنیپ تو نہیں کرلیا ۔۔۔۔۔ یا کسی غلط لوگوں کے ہاتھ تو نہیں آگئی۔۔۔۔ 
یہ سب سوچ کر وہ مزید زور سے چیخ کر دروازہ پیٹنے لگی۔۔۔کوئی ہے پلیز میری مدد کرو۔۔۔۔مجھے یہاں پر کس نے بند کردیا ہے پلیز مجھے بچالیں۔۔۔۔۔
پاپا  میری مدد کریں ۔۔۔۔۔وہ دروازے پر سر ٹکا کر اسے پر اپنے نازک ہوتھوں کے مکے مارنے لگی اور سسکتی احمد صاحب کو پکارنے لگی۔۔۔۔۔چیخ پکار سے اسکا

 گلا سوکھ گیا تھا ۔۔۔آنکھیں میں جیسے کسی نے مرچیں ڈال دیں ہوں ۔۔۔رونے سے ایسے جلنے لگی تھی۔۔۔۔ڈر خوف تھا کہ اسے مارنے کے در پر تھا ۔۔۔۔۔۔
وہ خاموشی سے صوفے پر بیٹھا اسکی ساری کاروائی دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔اسکے اندر میں یہ چل رہا تھا کہ مجھے بھی اتنی ہی تکلیف ہوئی تھی حور جب تمنے میری محبت میرے پیار کو ہوس کا نام دیا تھا۔۔۔۔باربار اسکی بےعزتی کی تھی۔۔۔۔۔
اس سے منہ موڑ لیا تھا ۔۔۔۔آج تمہاری باری ہے تڑپنے کی ۔۔۔۔۔

Tera Ashiq May Diwana Ho Awara Mehwish Ali Novels Episode 14

#تیرا_عاشق_میں_دیوانہ_ہوں_آوارہ
#از__مہوش_علی۔۔
#قسط_14

حور کو اچانک باہر کچھ قدموں کی آواز سنائی دی۔۔۔جس سے اسکے اندر ایک خوشی کی لہر اٹھی ۔۔۔۔وہ ابھی تک یہ سوچ رہی تھی کہ شاید کسی نے غلطی سے اسے یہاں رکھا ہو کوئی اور سمجھ کر ۔۔۔۔۔
پلیز کوئی میری ہیلپ کرو میں یہاں بند ہوں ۔۔۔۔۔وہ دروازے کو پھر سے پیٹتے چیخ کر کہنے لگی۔۔۔۔

کیسے کریں گے مدد جب انکا صاحب خود اندر ہو۔۔۔۔۔
 اچانک پیچھے سے جانی پہچانی آواز آئی۔۔۔ وہ ڈر سے اچھل کر مڑی تو ساکت رہ گئی سامنے موجود شخص کو دیکھ اسکا چہرا سفید پر گیا جیسے کسی نے سارا خون نچوڑ لیا ہو۔۔۔۔ 

سفیان۔۔۔۔۔اسکے منہ سے ہلکی سی بڑبڑاہٹ نکلی۔۔۔۔اسے لگا وہ گر جائے گی  اسے چکر آنے لگے۔۔۔ دماغ  جیسے سن ہوگیا جب یہ سوچ پیدا ہوئی ۔۔۔۔کہ سفیان نے کڈنیپ کیا ہے اسے ۔۔۔اسکے اپنے کزن نے ایسی نیچ حرکت کی ہے ۔۔۔کتنا یقین کرتے تھے سب اس پر ۔۔۔۔وہ ایسا کیسے کر سکتا ہے ۔۔۔اسکے اندر کی دنیا جیسے تباھ ہوگئی تھی۔۔۔۔کیا اتنا گر گیا ہے ۔۔۔۔

او میرے خدا یہ کیسا امتحان ہے ۔۔۔گھر میں تو کسی کو پتا بھی نہیں ہوگا کہ وہ کہاں ہے کس ظالم کے پاس ہے جو اس سے محبت کا بھی کہہ ریا ہے اور اجاڑ بھی خود رہا ہے اپنی محبت کو۔۔۔۔کون بچائے گا پلیز اللہ رحم کرو ۔۔۔کرب بھرے آنسوں زمین کو بھگونے لگے ۔۔۔۔پھر غصے کی ایک شدید لہر اسکے دماغ میں اٹھی۔۔۔۔۔
حور نے ایک جھٹکے سے اسکا گریبان پکڑ کر جھنجھوڑتی ہوئی غصے سے چیخی۔۔۔۔

آپکی ہمت کیسے ہوئی مجھے کڈنیپ کرنے کی۔۔۔سمجھتے کیا ہو خود کو ۔۔۔۔مسٹر سفیان ۔۔۔میرے بھائی تمہیں جان سے ماردیں گے۔۔۔۔۔اسکے چیخنے یا جھنجھورنے پر بھی سفیان کو کوئی فرق نہیں پڑا ۔۔وہ خاموشی سے اسے دیکھتا رہا ۔۔۔۔حور نے دیکھا کہ اس پر کوئی فرق نہیں ہورہا تھا اسکے چیخنے کا تو وہ دھمکی دینی لگی۔۔۔۔۔
مجھے جانے دو سیفی ورنہ میں اپنی جان دے دونگی۔۔۔۔روتے اسکے سینے پر مکے مارتے بولی۔۔۔۔۔

جس پر سفیان کا قہقہہ لگا ۔۔۔۔ہاہاہاہاہا
ویل مل لیں گے ہونے والے سالوں سے بھی۔۔۔۔پر اب تم جان دینے کا چھوڑو دل دینے کا سوچو۔۔۔وہ اپنی انگلیوں کے پوروں سے اسکے آنسوں صاف کرتا اسکی حالت کی پروہ کیے بغیر بے رحمی سے بولنے لگا۔۔۔۔
اور اب جلد سے تیار ہوجائو کیوں کہ کچھ ہی دیر میں مولوی صاحب آنے والے ہیں ۔۔تمہیں ہمیشہ کے لیے  اس آوارہ کا بنانے۔۔۔اور یار کوئی نخرا نہیں دیکھانا میرا ابھی کوئی موڈ نہیں تمہیں منتیں کرنےکا۔۔۔۔۔وہ اسے بیزاری سے بول رہا تھا جیسے کوئی عام بات ہو۔۔۔۔۔ جیسے سارے احساسات مار کر پٹھر کا بن بیٹھا تھا۔۔۔۔

یہ بھی نہیں سوچ رہا تھا وہ کون ہے اسکی کیا لگتی ہے۔۔۔۔۔
حور کے تو جیسے ساتوں آسمان سر پر آگرے تھے ۔۔۔نکاح کا لفظ سن کر ۔۔۔آنکھیں پٹھرا گئی تھی۔۔۔۔۔ایکدم نیچے بیٹھتی ہاتھ جوڑ کر سسکتی اسے منتیں کرنے لگی۔۔۔۔اسکا پورا وجود لرز رہا تھا ۔۔۔۔ہاتھوں میں بھی کپکپاہٹ واضح تھی۔۔۔۔
تم کیوں کر رہے ہو سفیان میرے ساتھ ایسا، مینے کیا بگاڑا ہے تمہارا پلیز مجھے جانے دو میں کسی کو نہیں بتائوں گی پلیز پلیز سیفی۔۔۔۔۔۔
اگر ایسا کروگے تو میں سچ میں اپنی جان دے دونگی ۔۔۔پلیز مان جائو ۔۔۔۔تم تو کہہ رہے تھے مجھ سے پیار کرتے ہو تو پھر ایسا کیوں کر رہے ہو۔۔۔۔۔

اسکے لفظ  سفیان کے اندر جیسے خنجر سے وار کرنے لگے۔۔۔آنکھوں میں سرخی پھیل گئی۔۔۔۔
وہ بھی گھٹنو کے بل اسکے سامنے بیٹھا اور اسکے جڑے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں لےکر ایکدم اسے کھینچا جس سے وہ کھینچتی اسکے گلے سے لگی ۔۔۔
ایسے نہیں کرتے میری جان ۔۔۔ میں تمہیں اپنے لیے اللہ کا دیا تحفہ سمجھتا ہوں ۔۔۔۔ تمہیں تڑپتا کیسے دیکھ سکتا ہوں...تم میرے روح میں بستی ہو حور میں کبھی تمہارے ساتھ ایسا نا کرتا اگر ۔۔۔۔۔وہ رکا پھر ایک گہرا سانس بھر کر بولا۔۔۔۔
اگر تم میری محبت میری چاہت کو ہوس نا کہتی ۔۔۔۔میری بچپن کے عشق کو غلط مطلب میں نا لیتی ۔۔۔

تمہیں یاد ہے نا کہ جب بھی بچپن میں، میں مما کے لیے روتا تھا یا اداس ہوکر کہیں بیٹھ جاتا تھا تو تم آکر مجھے ہنساتی تھی مجھے کہتی تھی۔۔۔۔۔سیفی ۔۔۔میں مما پاپا شیری بھائی سب تمہارے ہیں۔۔۔۔ تم اداس نا ہویا کرو مجھے اچھے نہیں لگتے۔۔۔پھر بھی میں خاموش ہوتا تو تم مجھے ہنسانے کے لیے اپنی عجیب عجیب شکلیں بناتی  ۔۔۔۔جس پر میں ہنس دیتا تھا ۔۔۔۔وہ بتاتے خود بھی ہنسنے لگا۔۔۔۔حور اپنے کانپتے وجود سمیت اسکے گلے سے لگی آنسوں بہا رہی تھی۔۔۔۔وہ یہ سب کیسے بھول کستی تھی ۔۔۔۔وہ ہی تو تھا جب کوئی اسے چشمش کہتا تو اسے مار مار کر برا حال کر دیتا۔۔۔۔

اور حور خوش ہوجاتی کے آئندہ وہ اسے چشمش نہیں بولے گا۔۔۔پر اسے دکھ تب ہوتا جب فراز صاحب لوگوں کی شکایت پر سفیان کو ڈانٹتے اور وہ خاموشی سے سر جھکائے سب سن لیتا تھا۔۔۔۔۔یہ سب سوچتے وہ اور بھی تیز رونے لگی۔۔۔۔اور اس سے الگ ہوکر  سفیان کو دیکھنے لگی ۔۔۔۔سفیان بھی اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔
تو پھر تم اب ایسا کیوں کر رہے ہو۔۔۔مت کرو ایسا سیفی ۔۔۔۔میں ٹوٹ جائوں گی ۔۔۔۔۔اسکی التجا پر

سفیان کا دل تو کر رہا تھا اسے گلے سے لگائے خود میں بھینچ لے اور اپنے سارے کیے کی گڑگڑا کر معافی مانگے ۔۔۔۔۔پر دماغ میں اسے کھونے کی سوچ  جو حور کے ٹھکرانے کے بعد آئی تھی اس سے وہ گھبرا گیا تھا۔۔۔۔اور اب وہ کسی بھی قیمت میں حور کو اپنا بنانا چاہتا تھا۔۔۔  اور اب وہ اٹل ہوگیا تھا اپنے فیصلے پر۔۔۔۔۔۔

حور تم تیار ہو رہی ہو یا میں کچھ کروں۔۔۔۔۔اور یقینً میں جو کروں گا وہ تمہیں بلکل بھی پسند نہیں آئے گا ۔۔۔اس لیے اٹھو شاباش۔۔۔۔۔جتنی دیر کروگی اتنا ہی میں اپنے دوسرے فیصلے پر عمل کرنے پر دیر نہیں کروں گا۔۔۔۔۔کچھ دیر والی نرمی بے رحمی میں بدل گئی تھی۔۔۔۔
حور بھی ایکدم اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔۔۔اور اسے دھکا دے کر غصے سے اپنی بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔۔۔۔۔اگر ایسا ہے تو تم بھی سن لو میں ہرگز بھی نہیں کروں گی نکاح سمجھے ۔۔۔۔۔مر کر بھی نہیں۔۔۔۔وہ اسکی آنکھوں میں نفرت سے دیکھ کر غصے سے ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولی۔۔۔۔۔

تو ٹھیک ہے ۔۔۔ویسے مجھے کوئی پروبلم نہیں ایسے یا ویسے تم رہوگی تو میری۔۔۔۔۔وہ کہتا آہستہ آہستہ اسکی طرف بڑھنے لگا ۔۔۔۔حور جو پہلے دروازے سے لگی کھڑی تھی سفیان کی آنکھوں اور لفظوں کا مطلب سمجھ کر بدحواس ہوکر دروازے سے چپک گئی۔۔۔۔۔
مم۔۔۔میرے قریب مت آئو سیفی ۔۔۔۔میں تم ۔۔۔تمہیں۔۔۔اسکے لفظ ابھی منہ میں ہی تھے جب سفیان نے اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کر خود کے قریب کرلیا۔۔۔۔۔اور دوسرے ہاتھ میں موجود کی سے دروازہ کھول کر اسے اپنے بازوں میں اٹھاتا باہر نکلا۔۔۔۔۔۔
حور نے جب اسے خود کو اٹھاتے دیکھا تو گھبرا کر چیخنے لگی ۔۔۔۔چھوڑ مجھے ۔۔۔۔سفیان پلیز جانے دو۔۔۔۔۔

پر سفیان اسکی چیخوں اور مکوں کی پروہ کیے بغیر اسے وہاں سے لیکر دوسرے کمرے میں آیا ۔۔۔۔اور نیچے اتار کر واپس دروازہ بند کردیا۔۔۔۔۔۔

یہ۔۔۔یہ کہاں لیکر آئے ہو مجھے۔۔۔۔۔وہ خوف سے نیلی پڑتی اندھیرے میں سفیان سے کہنے لگی ۔۔۔۔۔اسے لگ رہا تھا جس وہ گلابوں کے ڈھیر میں آ کھڑی ہو۔۔۔اسکے پائوں میں بھی گلاب کی پتیاں محسوس ہورہی تھی۔۔۔۔۔اور پھولوں کی خوشبو اتنی تھی کہ اسکا دماغ سن کر رہی تھی ۔۔۔۔۔

وہ اندھیرے میں یہاں وہاں دیکھ رہی تھی جب پورا کمرا روشن ہوا ۔۔۔۔۔حور نے اچانک روشن ہونے سے آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیا۔۔۔

پھر آہستہ سے ہٹایا تو  وہاں کا ماحول دیکھ کر اسکی ریڑھ کی ہڈی میں سنساہٹ پھیل گئی۔۔۔۔ اسکا دل خوف سے دھک دھک کرنے لگا۔۔۔۔پورا وجود پسینے سے بھیگ گیا۔۔۔۔۔جب اسنے پھولوں سے سجائے کمرے کو دیکھا۔۔۔۔۔آنکھیں تھی کے پھٹنے کے قریب تھی۔۔۔۔کانپ ایسے رہی تھی۔۔۔۔جیسے بغیر پانی کے تڑپتی مچھلی۔۔۔
فرش پر بچھے قالیں پورا پھولوں سے سجا تھا۔۔۔۔سفید جہازی سائیز بیڈ پر ہارٹ میں سرخ پھولوں سے "Hoor" لکھا تھا۔۔۔اور چاروں طرف سرخ اور سفید پھولوں کی لڑیاں لٹک رہی تھی۔۔۔

کمرے میں پھلی  روشنی  دونوں کی تنہائی ،گلاب کی خوشبو سے اور پھولوں سے سجا اس پلوں کو اور ہی فسوں بخش رہا تھا۔۔۔۔ 

حور ڈر سے کانپتی اپنے دل پر ہاتھ رکھتی سسکتی پیچھے کو ہورہی تھی کہ سفیان نے اسے پیچھے سے کندھوں سے پکڑ لیا ۔۔۔اور اسکے کان میں مسکراتی آواز میں بولو۔۔۔۔
میری جان مجھے پتا تھا تم ایسے ہینڈل ہونے والی نہیں اس لیے تمہارے ہونے والے شوھر مسٹر سفیان ملک نے پہلے ہی پوری تیاری کرلی تھی ۔۔۔۔ اب یہ سب  اکسپٹ کرو یا بیسٹ اوپشن نکاح کرلو۔۔۔۔جس میں تم اس سب سے بچ جائوگی اور میری بن جائوگی ہمیشہ کے لیے "مسز سفیان ملک"" ۔۔۔۔آگے تم چھوٹی بچی نہیں جو میں تمہیں

 تفصیل سے سمجھائوں۔۔۔۔۔اسکے کان میں سرگوشی سے بولتا چل کر بیڈ پر گر گیا۔۔۔۔۔اور اسے ہچکیاں بھرتے دیکھ کر بولا۔۔۔۔۔
صرف تین منٹس ہیں تمہارے پاس یا سیدھا نکاح کے لیے تیار ہوجائو۔۔۔۔۔اگر نہیں تو چلی آئو یہاں۔۔۔۔۔۔اسنے بیڈ کی طرف اشارہ کرتے کہا۔۔۔۔۔

حور کو اب ایک فیصلا کرنا تھا۔۔۔۔یا اپنے آپکو اپنی نظروں میں گراتی یا اپنے ماں باپ بھائ کی عزت کو بچاتی۔۔۔۔۔پر دونوں فیصلوں میں نقصان اسکا ہی تھا۔۔۔

شیری گھر میں نہیں تھا وہ رات سے جیسے گیا تھا ابھی تک باہر تھا ۔۔۔۔دراب کے فون کرکے پوچھنے پر اسنے بتایا کہ وہ اپنے فرینڈز کے یہاں ہے شام تک آجائے گا۔۔۔۔۔

پورے گھر اور لان کی سجاوٹ شروع ہوگئی تھی۔۔۔۔
کافی ملازم گھر کی اور لان کی سجاوٹ میں مصروف تھے۔۔۔۔
کمیل بھی یہاں موجود تھا وہ لائونج میں دراب کے ساتھ بیٹھا باتیں کم اور پری کو زیادہ دیکھ رہا تھا۔۔۔وہ بھی دراب سے نظریں بچاکر ۔۔۔۔۔
پری حور کے جانے کے بعد اکیلی بیٹھ کر بور ہوگئی تھی ۔۔۔۔حور کو کافی ٹائم ہوگیا تھا وہ ابھی نہیں آئی تھی۔۔۔۔عالیہ اور عائمہ بیگم بھی ویسے ابھی نہیں آئیں تھیں۔۔۔۔۔

مشال اور نوشین سے باتیں کرنے میں وہ ابھی جھجھکتی تھی۔ ۔۔
ٹھک ہار کر باہر ہال میں آئی تو دراب بیٹھا تھا پھر وہ بھی اس کے ساتھ بیٹھ گئی۔۔۔۔اور ہھر دونوں باتیں کرنے لگے ۔۔۔ابھی کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ کمیل آگیا۔۔۔۔پھر دراب اور وہ دونوں آپس میں باتیں کرنے لگے اور پری موبائل میں گیم کھیلنے۔۔۔۔۔۔
وہ کبھی جیتنے پر خوش ہوجاتی تو کبھی ہارنے پر مایوس اور یہی معصوم تاثرات کمیل کے دل کو دھڑکا رہے تھے۔۔۔۔۔

دراب کو آفس سے کال آئی تو وہ  انسے Excuse کرتا چلا گیا۔۔۔۔۔
جس پر کمیل نے ایک شکر بھری نظر اوپر دیکھا اور گلا کھنکھار کر پری کو اپنی موجودگی کا احساس دلانے لگا۔۔۔جس پر پری نے مسکرا کر اسے دیکھا اور پھر اپنی گیم میں گھم ہوگئی۔۔۔۔
ہاں تو مس اینجل کیسی ہیں ؟؟۔۔۔۔کمیل نے اسکے معصوم چہرے کو اپنے نظروں میں لیے پوچھا۔۔۔۔

 پری نے حیریت سے نظریں اٹھائی اور بے یقینی سے پوچھا۔۔۔۔کہاں ہے اینجل؟؟

EPISODE 15 Tera Ashiq May Diwana Ho Awara Mehwish Ali Novels 

#تیرا_عاشق_میں_دیوانہ_ہوں_آوارہ
#از__مہوش_علی


اسکے یہاں وہاں دیکھنے پر کمیل کا قہقہہ لگا۔۔۔۔جس پر پری نے حیریت سے اسے دیکھا۔۔۔
ااس میں ہنسنے وو۔۔والی کیا بات ہوئی۔۔۔آپنے کہا اینجل تت۔۔تو دیکھائیں۔۔۔پری نے اپنی چھوٹی سی ناک سکیڑ کر منہ بنایا۔۔۔کمیل اپنا ہنسنہ بھول کر اسکی معصوم سی ادا میں ہی کھوگیا۔۔۔ 

میں آپکے بارے میں ہوں مس اینجل۔۔۔پھر خود کے دل و دماغ  کو کنٹرول  کرتے ۔۔۔اسکے خوبصورت چہرے کو اپنی نظروں میں لیے ۔۔۔۔نرم لہجے میں بولا۔۔۔
کمیل کے اینجل کہنے پر وہ کھلکھلا کر ہنسی۔۔۔۔درد بھری۔۔۔
مم۔۔۔میں اینجل ہوں۔۔۔۔اسنے انگلی سے اپنے طرف اشارہ کیا۔۔آنکھوں کے کونے میں آنسوں آگئے۔۔۔۔یہ ہنسی اور آنسوں والا منظر کمیل کے زندگی میں سہانے بھار کی طرح لگا ۔۔اسنے دنیا کی حسین لڑکیاں دیکھی تھی  پر پری کے  معصوم حسین چہرے کے آگے کچھ بھی نا لگی۔۔۔ اسکی کھلکھلاہٹ کی آواز دل کے تار کو چھیڑ

 رہی تھی۔۔۔ پر پتا نہیں کیوں اسکی ہنسی میں کرب سا محسوس ہوا۔۔۔۔
مم۔۔میں اینجل نہیں ایک بب۔۔بکری ہوں جسے انسان جھیلنے سے رہے۔۔۔۔وہ شیری کے لفظ خود سے بڑبڑاتی کمیل کو الجھن میں چھوڑتی اپنے آنسوں چھپاتی آہستہ سے اٹھ کر چلی گئی۔۔۔۔

یار مینے ایسا کیا کہہ دیا۔۔۔وہ الجھتے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا اوپر جاتی پری کی پشت کو دیکھنے لگا۔۔۔جس کی پشت پر  پونی میں  جکڑے کالے کمر تک آتے لمبے بال لہرا رہے تھے آدھے سکارف میں تھے۔۔۔۔
بہت معصوم ہو ۔۔۔۔شاید اینجل ہو اس لیے۔۔۔۔کمیل کے چہرے پر ایک بار پھر بھرپور مسکراہٹ نے بسیرہ کیا۔۔۔۔

سوری یار ویٹ کرنے کے لیے۔۔۔۔دراب  صوفے پر بیٹھ کر معذرت کرنے لگا۔۔۔ جس پر کمیل دل میں بولا۔۔۔۔معذرت کرنے کی ضرورت نہیں مجھے خوشی ہوئی تم گئے۔۔۔اور چہرے پر مسکرا کر نفی میں سر ہلایا۔۔۔


کون سے خیالوں میں گھم ہو ۔۔۔اکیلے ہی مسکرا رہے ہو۔۔۔بھائی ہمیں بھی کچھ بتائو تاکہ ہم بھی ہنس سکے تیری بد قسمتی پر۔۔۔۔۔رضا کے کہنے پر وہاں موجود سب کے قہقہے لگے۔۔۔۔

وہ سب کب سے شہریار کو دیکھ رہے تھے، جو سگریٹ کے گہرے کش لیتا اپنی سوچ میں مسکرا رہا تھا۔۔۔۔
انکے قہقہوں پر وہ پری کے خیالوں سے باہر آیا۔۔۔۔۔اور مسکراتی آنکھوں اور چہرے پر مصنوعی سنجیدگی سے انہیں دیکھا۔۔۔۔

وہ اپنے دوستوں کے ساتھ اس وقت اپنے  فلیٹ میں موجود تھا۔۔۔۔
باتیں کرتے کرتے شیری کی سوچ کا رخ کب  پری کے سنگ چلنے لگا اسے کچھ خبر بھی نا ہوئی۔۔۔۔ہوش تو اسے تب آیا جب اسکے دوستوں کے قہقہوں کا طوفان اٹھا ۔۔۔۔

شیر بتادے کس ہرنی کو پھنسایا ہے جس کے خیالوں میں دوبا ہوئا ہے۔۔۔۔فہد نے آنکھ دبا کر پوچھا۔۔۔۔جس پر پھر سے سب ہنسنے لگے یہ تو پکی  بات تھی کہ انکا شیر کہیں کسی کے خوابوں میں الجھ گیا ہے۔۔۔۔

 کچھ ایسا ویسا نہیں ہے۔۔۔اپنی بکواس کو بند کرو سب۔۔۔شیری نے مصنوعی غصے سے جھڑکنے لگا ۔۔۔

اچھا ایسا نہیں تو اٹھا اپنی خیالوں والی چڑیل کی قسم۔۔۔۔رضا کو یقین نہیں ہوا تو قسم اٹھانے کو بولو جس پر سب نے زورشور سے ساتھ دیا۔۔۔۔کیوں کہ آج سے پہلے کبھی شیری  انکی موجودگی کو نظرانداز نہیں کیا تھا۔۔۔۔۔

تمہارہ دماغ خراب ہوگیا ہے جو چڑیل بول رہے ہو۔۔۔۔کہنے کے بعد اسے احساس ہوا کہ کیا کہہ گیا ہے ان کمینوں کے سامنے۔۔۔۔۔وہ بولنا تو یہ چاہتا تھا " ایسی بکواس کر رہے ہو" پر دل میں جو اسکی پری کو چڑیل بولنا نا گوار گزرا تھا وہ منہ پر بھی آگیا۔۔۔۔۔۔سب اس پر ہنسنے لگے۔۔۔۔

میں تیرے ساتھ ہوں شیر۔۔۔سمیر نے بلند آواز میں ہاتھ اٹھا کر کہا۔۔۔
ہاں! کیوں نہیں ہوگے ساتھ ، خود جو آج کل محبت کی کشتی  میں تیر رہے ہو۔۔۔۔۔فہد نے اس پر چوٹ کی۔۔۔۔جس پر وہ سر کھجاتا رہ گیا۔۔۔۔
 ہاں بھائی بتا کون ہے ہماری بھابھی جس نے شیر عشق میں مبتلا کردیا۔۔رضا کی سئی ابھی وہیں اٹکی ہوئی تھی۔۔۔۔۔پھر سب کے زور شور کرنے پر صرف اتنا بولا۔۔۔۔

بس یہی سمجھ لو جس کے لیے میں دیوانہ ہوں وہ اس شیر کے آہستہ آہستہ رگوں میں بسنے لگی ہے۔۔۔۔بس دل ہروقت اسے دیکھنے کو مچلنے لگا ہے ،میرے بس میں ہوتا تو اسے خود میں سما لیتا۔۔۔۔۔

بس کیا بتائوں پاگل کردیا ہے جانم نے۔۔۔۔۔۔سب کو انظرانداز کرتا اپنے جزباتوں میں بولتا دونوں ہاتھ پھیلا کر دھڑام سے بیڈ پر گرگیا۔۔۔۔اور مسکراتا آنکھیں بند کرگیا۔۔۔۔۔۔۔
ایسے چھپالوں تمہیں کہ میرے علاوہ کوئی تمہیں دیکھ بھی نا سکے۔۔۔اور جو دیکھنے کی کوشش کرے اسے دنیا ہی دیکھنے نا دوں ۔۔۔۔۔۔جنون کی انتہائی سے بولتا وہ کوئی دیوانہ ہی لگ رہا تھا۔۔۔۔۔اسکے لفظوں میں موجود جنون کی شدتیں سب کو ساکت

 کرگئی۔۔۔۔کسی کو یقین نہیں ہورہا تھا کہ یہ انکا شہریار ہے ۔۔۔جو لڑکیوں کو صرف ٹائم پاس سمجھتا تھا۔۔۔۔۔جسے اپنی ضد اور غصے کے علاوہ کوئی دیکھتا بھی نہیں تھا۔۔۔۔وہ تو سمجھے تھے کہ کوئی ایسے ہی ہوگی بات پر یہاں شیری کے لفظوں کی جنونیت انہیں حیریت میں دوبنے پر مجبور کرگئی۔۔۔۔


سفیان اسکے جواب کے انتظار میں بیٹھا تھا جب اسکے موبائل پر دوست کی کال آنے لگی جو مولوی اور کچھ گواہوں کے ساتھ اسکے منتظر تھے۔۔۔۔
ہاں بول آصف۔۔۔۔بس پانچ منٹس میں جواب دیتا ہوں۔۔۔۔موبائل رکھتا حور کو دیکھا جو التجا بھری نظروں سے کانپتی اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔سفیان نے نظریں چرا لیں۔۔۔۔۔حور ٹائم کم۔ہے یا جواب دو یا۔۔۔۔۔۔وہ چل کر اسکے سامنے آیا اور کلائی پر بندھی گھڑی کو دیکھ کر پوچھنے لگا۔۔۔۔۔

ایسا نا کرو سیفی۔۔۔۔حور نے التجائی انداز میں امید سے اسے دیکھ کر آخری کوشش کرنی چاہی۔۔۔جس پر سفیان اسے کھینچ کر اپنے سینے سے لگایا۔۔۔۔۔تو اسکے منہ سے چیخ نکل گئی۔۔۔۔۔آہہہہ۔۔۔۔

اگر تمہیں نکاح کے بغیر  میرے ساتھ رہنا ہے تو صاف کہہ دو۔۔۔۔وہ اسکے بالوں پر ہاتھ پھیرتا بولا۔۔۔۔۔اور آہستہ سے اسکے کندھے سے چادر کو ہٹانے لگا۔۔۔۔حور کے بدن میں جیسے کرنٹ پھیل گیا۔۔اس پر  بدحواس ہوتی اپنی چادر کو سختی سے پکرتی آنکھیں میچی جلدی سے بولی۔۔۔۔مم۔۔۔میں تیار ہوں نکاح کے لیے پر پلیز ایسا نا کریں۔۔۔۔۔سفیان کی گرفت جیسے دھیلی ہوئی وہ اسے دھکا دیتی دور ہوئی اور اپنی سینے میں اٹکتی سانس پر لمبے سانس لیتی انہیں درست کرنے لگی۔۔۔۔۔۔

یہ ہوئی نا میری حور والی بات۔۔۔۔۔اسکے مان جانے پر سفیان کے چہرے پر زندگی سے بھرپور مسکراہٹ پھیلی۔۔۔۔پھر اسکے چشمے کو درست کرتے پیار سے بولا۔۔۔
اب جائو یہ جو حال بنایا ہے درست کرو اور ایک بات ۔۔۔اسکا ہاتھ پکڑ کر بولا۔۔۔۔یہ نکاح تمہاری مرضی سے ہورہا ہے ۔۔۔۔بعد میں مجھ سے شکایت نہیں کرنا کہ زبردستی کی ہے۔۔۔۔۔اور اگر تمہیں زبردستی لگتی ہے تو آگے تمہاری مرضی۔۔۔نا بھی کرسکتی ہو۔۔۔۔۔حور اسکے ذو معنی لہجے کو سمجھ کر جلدی سے نفی میں سرہلایا ۔۔۔۔۔

میں کر رہی ہوں ۔۔۔۔مم۔۔۔میں نکاح کرنا چاہتی ہوں۔۔۔۔۔اور جھٹکتے سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔۔۔۔۔۔
پھر کچھ ہی دیر میں گواہوں کی موجودگی میں حور احمد سے زبردستی حور سفیان بن گئی۔۔۔۔۔
وہ ہچکیاں لیتی سسکتی صوفے پر بیٹھی تھی۔۔۔وہ کیسے بھی کرکے یہاں سے جانا چاہتی تھی۔۔۔اسکا دم گھٹ رہا تھا یہاں۔۔۔۔آنکھیں سرخ ہوگئی تھی۔۔۔۔وہ خود کو گناہگار سمجھ رہی تھی۔۔اپنے ماں باپ بھائیوں کا۔۔۔۔۔کاش کہ میں پیدا ہی نا ہوتی یا بچپن میں ہی مرجاتی تو یہ ناسور 

جیسے پل نا دیکھنے پڑتے۔۔۔۔پلیز مما پاپا بھائی مجھے معاف کردینا میں مجبور تھی ۔۔۔۔ اپنے کے بیس میں چھپے درندوں کو نا جان پائی۔۔۔۔وہ روتی خود سے کہتی چہرا ہاتھوں میں چھپا گئی۔۔۔۔

سفیان بہت خوش تھا ۔۔۔اسکی خوشی کا کوئی ٹھیکانا نہیں تھا آج۔۔۔فائنلی جسکے خواب ہمیشہ دیکھے اسے پالیا تھا اب صرف ایک سال کی بات تھی پھر سب کی رضا سے حور اسکی ہوجاتی ۔۔۔پر جو اسکے اندر ڈر تھا وہ کہیں دور جا سویا تھا اب اسے تسلی تھی حور اسکی ہے اور ہمیشہ اسکی ہی رہےگا۔۔۔۔۔اسکے نام کی بن کر۔۔۔۔۔۔وہ مانتا تھا کہ اسنے غلط کیا ہے پر اسکے سوا کوئی دوسرا راستا بھی نہیں تھا۔۔۔۔حور سے بات کرتا تو وہ غلط مطلب لے لیتی اسکا۔۔۔۔۔۔پھر مجبور ہوکر اسنے یہ راستہ چُنا ۔۔۔۔

وہ چہرے پر مسکان سجائے اندر داخل ہوا۔۔۔۔تو حور صوفے پر بیٹھی رو رہی تھی۔۔۔۔۔اسے کافی دکھ ہوا اسکی حالت پر۔۔۔۔۔
حور وہ اسکے سامنے گھٹنو کے بل بیٹھا آہستہ سے پکارا۔۔۔۔اسکی پکار پر حور نے ایک قہربرساتی نظر اس پر ڈالی ۔۔۔۔سفیان کی آنکھوں میں خوشی، تسلی، جیت ،محبت سب کچھ تھا۔۔۔۔اور حور کی نظروں میں نفرت، غصہ، گلا شکوا تھا۔۔۔۔
مجھے گھر چھوڑ دو ۔۔۔۔۔میرا سب انتظار کر رہے ہونگے۔۔۔۔وہ بھرائی آواز میں کہتی

 چادر سے اپنا چہرا صاف کرنے لگی۔۔۔۔۔
آئی ایم سوری حور ۔۔۔۔۔۔سفیان کے ابھی کہنا ہی چاہتا تھا جب وہ غصے سے چیخی ۔۔۔
بکواس بند کرو اپنی، مجھے گھر جانا ہے ۔۔۔۔۔وہ اٹھی اور دروازے کی طرف جانے لگی جب سفیان نے کھڑے ہوتے اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔۔اور ایک جھٹکے سے کھینچ کر اسے اپنے سینے سے لگا یا۔۔۔۔۔
ناراض ہو۔۔۔۔اسکے خوف سے سفید پڑتے چہرے کو دیکھ کر محبت سے چوڑ لہجے میں پوچھا ۔۔۔۔

چھ۔۔چھوڑو مجھے ۔۔۔۔وہ اسکے سینے پر ہاتھوں سے زور دیتی خود سے الگ کرنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔۔۔
دونوں کے دل بلند آواز میں دھڑک رہے تھے۔۔۔۔حور کی حالت غیر ہونے لگی تو سفیان نے اسے الگ کیا اور اس سے بولا۔۔۔۔۔۔
اس نکاح کی بات کسی سے نہیں کرنا ۔۔۔۔اس میں تمہاری بھتری ہے ۔۔۔۔۔ٹھیک ہے۔۔۔ حور کی گال تھپتھپا کر بولا تو حور نے اسکا ہاتھ جھٹک کر نفرت سے منہ پھیرلیا۔۔۔۔۔
سفیان مسکرا کر جیب سے سگریٹ نکالا پھر۔۔۔۔حور کی پھٹی آنکھوں میں  دیکھ کر مسکراتا سگریٹ کو سلگا کر ہونٹوں میں دبایا اور ایک گہرا کش لیکر  دھواں اسکے منہ پر پھونکتا ۔۔۔۔دروازے کی طرف جانے لگا۔۔۔۔اور حور بھی کھانستی دھواں چہرے سے ہٹاتی اسکے پیچھے مردہ قدموں سے جانے لگی۔۔۔۔






Post a Comment

Previous Post Next Post