Tera Ashiq May Diwana Ho Awara Mehwish Ali Novels Epi 1 to 10

Tera Ashiq May Diwana Ho Awara Mehwish Ali Novels Episode 1 to episodes 10 online reads and PDF Download.

Episode 1 Tera Ashiq May Diwana Ho Awara

Episode 1 Tera Ashiq May Diwana Ho Awara


مردہ قدموں سے چلی وہ گھر کے پیچھے سے آتی اندر دہلیز پر قدم رکھا۔۔اسکا گلا سوکھ کر اس میں کانٹے چھبنے لگے تھے۔۔آنکھیں برسنے کو بےتاب تھی۔۔

وہ دہلیز پر کھڑی تھی۔۔سامنے ہال میں سب موجود تھے۔۔جنہیں دیکھ کر اسکا دل خون کے آنسوں رونے لگا اسنے سوچا تھا۔۔
وہ چپ چاپ اپنے کمرے میں جاکر بہت روئے گی ۔۔پر ایسا نہیں ہوسکا۔۔۔
اب دوسرا اذیت بھرا لمحہ جس کے بارے میں سوچ کر اسے اندر ہی اندر بہت تکلیف ہونے لگی۔ ۔

اتنی تکلیف نا ہوتی اگر سامنے شہریار نا بیٹھا ہوتا۔ ۔

پری بیٹا تم یہاں کیوں کھڑی ہو۔۔ آئو اندر شیری تو کب سے بیٹھا ہے اور تم ہو کہ یہی کھڑی ہو آجائو تھک گئی ہوگی۔ باہر دھوپ بھی کتنی ہے آجائو شاباش۔۔عالیہ بیگم نے اسے دہلیز پر ہی کھڑا دیکھا تو پیار سے بولی۔ ۔
عالیہ بیگم کے کہنے پر سب کی نظریں دروازے کی جانب گئی جہاں وہ رونے جیسی شکل بنائے اندر کو آرہی تھی ۔۔

اااا۔۔۔اسسلام۔۔۔مشکل ہی مشکل تھی اسکے لیے ۔۔سرخ لب پھڑپھڑانے لگے۔ ۔بڑی بڑی آنکھوں میں پانی تیرنے لگا۔ ۔وہ ابھی رو دیتی جب سب نے اسکے سلام کا جواب دیا سوائے شیری کے جس کے لبو پر زہریلی مسکراہٹ تھی جسنے سترہ سال  کی پریا کو رونے پر مجبور کر دیا۔ ۔

جائو بیٹا دونوں فریش ہوجائو تب تک میں تم دونوں کے لیے کھانا لگاتی ہوں۔ ۔
عائمہ بیگم نے دونوں سے کہا۔ ۔نوشین جائو تم پری کے لیے ٹھنڈا پانی لے کر جائو اسے کمرے میں۔ نوشین جو ساتھ بیٹھی تھی اٹھ کر پانی لینے چلی گئی۔ ۔
باقی سب نے تو نہیں پر نوشین نے اسکا آنسوں زمین پر گرتے دیکھا تھا ۔۔اور پھر اسنے شیری کے طرف دیکھا جو غصے سے پری کو ہی دیکھ رہا تھا۔
 
ہاں۔۔۔ اسکے سلام کرنے تک دو دن تو یہی گذر جاتے شکر ہے مکمل کرنے سے پہلے جواب مل گیا۔ ۔شیری اس پر طنز کرتا  قہر بھری نظروں سے اسے دیکھنے لگا ۔۔
اور وہ معصوم  اسکے زہریلے الفاظ اور نظروں پر تڑپتی اپنے اندر اتارتی اوپر اپنے کمرے میں چلی گئی۔ 

یہ کیا بدتمیزی تھی شہریار یہ کیسے بات کر رہے ہو تم پری کے ساتھ ۔۔ تمہیں شرم نہیں آتی کسی معصوم کا دل دکھاتے ہوئے۔۔
اگر  بھائی صاحب یا تمہارے پاپا نے تمہارے الفاظ سن لیے تو وہ تمہارے ساتھ کیا کریں گے میں خود سوچ بھی نہیں سکتی۔ ۔
اور اس معصوم کو کیوں تکلیف دے رہے ہو۔ اسے تو پتا بھی نہیں ہے بڑوں کے فیصلے کی۔
 یہ تو اپنے باپ کے ظلم سے بچنے کے لیے ہے یہاں۔ ذرا شرم کرو کزن ہے تمہاری نوشین اور دراب کی طرح اس لیے عزت اور نرمی سے پیش آئو۔ عائمہ بیگم نے اسے اچھا خاصا جھڑکا اور آخر میں کچھ شرم بھی ڈلائی۔ ۔جو شیری کو آنے سے رہی۔
 عالیہ بیگم تو صرف دکھ بھری نظر اس پر ڈال کر چلی گئی۔ مشال اور حوریہ اپنے کمرے میں تھی۔ اگر یہاں اپنے بھائی کہ منہ سے اپنی ڈول کے بارے میں اسے باتیں سنتی تو اچھا خاصا ناراض ہوجاتی۔ جوشیری سے برداشت نا ہوتی۔۔۔

سب قصور اس میں میں کا ہے ۔۔ آتے ہی میری زندگی برباد کرنے لگی ہے۔ سب کو صرف وہی دیکھ رہی ہے کوئی یہ نہیں دیکھ رہا کہ اس میں میں کرتی بکری کو میرے گلے میں باندہ کر میری زندگی برباد ہو جائےگی۔۔۔وہ غصے سے دھاڑنے کے انداز میں کہتا   اپنے کمرے میں چلا گیا ۔۔

وہ بیڈ پر منہ کے بل پڑی سسک رہی تھی۔ آج اسے انتہائی سے زیادہ اپنی ماں کی کمی محسوس ہورہی تھی۔ جس کی ممتا صرف دیکھنے کے علاوہ کبھی محسوس نا کی تھی۔ 
پر یہاں پر عالیہ بیگم اور عائمہ بیگم سے محسوس ہوئی۔ تھی۔ حماد صاحب اور احمد صاحب کی دل کا ٹکڑا تھی۔ دراب بھی اسے اپنی چھوٹی بہن سمجھتا تھا اور گڑیا کہتا تھا۔ 
نوشین مشال اور حوریہ بھی اسے بہت زیادہ محبت دے رہی تھی ۔صرف اپنے اس ظالم کزن کے علاوہ سب پیار محبت دے رہے تھے۔ 

پر شہریار آتے جاتے اس پر ظنز کرتا اسے اپنی قہر برساتی نظروں سےدیکھتا اسکے بولنے پر اسکا مذاق بناتا۔ جس پر وہ معصوم سی پری بلکل ٹوٹ جاتی تھی۔ کبھی تو اسکے ڈر سے باہر ہی نہیں نکلتی تھی۔  
اسے پہلے تو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا اسکا سلوک پر صبح جب بڑے پاپا نے شیری کو پریا کو گھمانے کے لیے کہا تھا۔ تو وہ کچھ نا بولا چپ چاپ ہاں کردی۔ پری بہت ڈر گئی اسنے نا کرنا چاہا پر سب نے کہا جانے کو اور شیری بھی راضی تھا تو وہ اپنے ڈر کو اندر چھپاتی چپ ہوگئی۔
 پھر سب چلے گئے آفس اور اسے کچھ دیر کے بعد تیار ہونے کو کہا گیا وہ ریڈی ہوتی نا چاہتے ہوئے بھی اسکے ساتھ آئی۔ حور اور مشال نے بھی ساتھ آنے کو کہا پر شیری نے انہیں منا کردیا اور وہ دونوں منہ بنا کر رہ گئی۔ 

وہ گاڑی کی طرف جارہی تھی جب شیری نے اسے روکا۔ ۔
رکو۔ کہاں جارہی ہو۔۔پری گھبراتے ہوئے مڑی اور شیری کودیکھنے لگی۔ یہاں آئو۔ اسنے واپس بلایا اور اسکی کلائی سے پکڑ کر گھر کے پیچھے سرونٹ کواٹر میں لے آیا۔ ۔اور اسکی ایک بھی سنے بغیر بولا۔ 
تم تب تک یہاں رہوگی جب تک میری گاڑی کی آواز نا سنو۔ اور ہاں اس سے پہلے باہر آئی تو وہ حشر کروں گا کہ جو یہ میں میں کرتی ہو اسکے بھی لائق نہیں رہوگی۔ پری مسلسل روتی نفی کر رہی پر شیری نے اسکی ایک نا سنی ۔۔وہ جانے لگا تو وہ بھی پیچھے آئی۔ 
ممم۔۔۔مج۔ھے ڈڈر لگ رہا ہہے مممیں ۔۔وہ روتی اپنی اٹکتی زبان سے بولتی اس سے التجا کرنے لگی پر اسنے 
نہیں سنی ۔اور بیچ میں ہی دھاڑا۔
 
بکواس بند کرو۔ اسے دھکا دیا جس سے وہ سیدہ چار پائی پر گری وہ اس پر جھکا ۔۔
 یہی مرو تمہاری اتنی اوقات نہیں کہ شہریار ملک کے ساتھ گھومو ۔اور ایک بات اگر تمنے نکاح سے بڑے پاپا کو منا نہیں کیا تو وہ حال کروں گا کہ خود کو پہچان نہیں پائوگی۔۔ اور ایک بات اپنے لیے ایک بکرا ڈھونڈو کوئی انسان نہیں۔ کیونکہ انسان تو تمہیں جھیلنے سے رہے۔۔وہ اسے اپنے لفظوں کی تیروں سے لہولہان کرتا چلا گیا۔ ۔ ۔
بب۔۔۔بڑے پاپا نن۔۔نہیں کریں گے اایسا ممیرے ساتھ۔۔۔

Episode #2 Tera Ashiq May Diwana Ho Awara

Episode #2 Tera Ashiq May Diwana Ho Awara


#تیرا_عاشق_میں_دیوانہ_ہوں_آوارا💞 #قسط

اسنے روتے ہوئے خود سے کہا اور حماد صاحب سے بات کرنے کا سوچا۔۔۔پھر سارہ دن وہیں پڑی رہی کبھی ڈرتی کبھی روتی۔۔پھر پیاس نے بھی برا حال کر دیا۔۔۔کئی گھنٹوں بعد اسکی گاڑی کی واپس آواز آئی تو وہ گرتی پڑتی کواٹر سے نکل کر آئ۔۔

وہ ابھی بیڈ پر پڑی تھی جب اچانک دروازہ کھلا اور کوئی اندر آیا۔۔پری جلدی سے  سرخ چہرا اور سوجی آنکھیں صاف کرکے اٹھی۔۔۔تو دیکھا وہی تھا۔۔اسکی سانسیں اٹک گئی۔۔
وہ کھڑا مسکرا رہا تھا۔۔

اب کیوں آئے ہو۔۔ اور کون سی سزا باقی ہے ۔۔اتنی ذلالت اتنا تڑپانے کے بعد بھی کیوں آئے ہو۔۔۔ دفعہ ہو جائو نکل جائو مجھے تمہاری شکل سے بھی نفرت ہے۔۔ یہ سب اسنے اپنے دل میں چیخ چیخ کر کہا منہ سے تو کہہ نہیں سکتی تھی۔۔۔اور اتنی ہمت بھی نہیں تھی اس ظالم کے سامنے بولنے کی۔۔

دیکھ لی میری نفرت بکری۔۔شیری نے اسے بازو سے پکڑ کر اپنے سامنے کیا جو بلکل ندھال سی ہوگئی تھی۔۔۔اسکی بڑی سوجی آنکھوں میں دیکھ کر تمسخرے سے ہنس کر کہا۔۔۔

چھچھ۔۔چھوڑو مجھے۔۔پری نے نفرت سے خود کو آزاد کروانے کی کمزور سی کوشش کی۔۔۔
چھچھ۔۔چھوڑو کو چھوڑو ییی یہ بتائو منا کرو گی بڑے پاپا کو آج ہی یا ایسی اور ایک ڈوز کی ضرورت ہے۔۔۔شیری نے بھی اسکے انداز میں کہہ کر اپنے مطلب کی بات پر آیا۔۔۔اسکا اشارہ اس پور دن قید کی طرف تھا۔۔

اپنے مذاق بنانے پر پری کا ایک  کرب بڑھا آنسوں زمین پر گرا۔۔
ممم۔۔میں سسب بڑے پپاپا کو بتائوں گی۔۔۔اسنے ہچکیاں بھرتے ہوئے کہا۔۔جس پر شیری کا دماغ گھوما۔۔
کیا کہا ۔۔۔تم تم میرے خلاف پاپا کو بتائو گی۔۔وہ دھاڑا۔۔۔

جس پر پری اچھل پڑی۔۔۔پھر دل میں سوچا ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔۔۔
ہاں۔۔۔ببتاوُں گی۔۔ککہ اااآپ مارتے ہہیں۔۔۔اسنے اٹکتے روتے خود کو چھڑواتے ہمت سے کہہ۔۔۔شیری کی پکڑ اتنی سخت تھی کہ اسے لگا اسکا بازو ٹوٹ جائے گا۔۔آہہہہ۔۔۔
وہ کہرائی ۔۔جب ایک زوردار تھپڑ اسکا دماغ سن کرگیا۔۔

چٹاخ۔۔۔۔۔کی آواز پورے گھر میں گونجی اور اس کے ساتھ کانچ کے گلاس کی۔۔۔

بھائی۔۔۔نوشین چیخی۔۔ہال میں بیٹھے حماد. صاحب احمد صاحب اور دراب جو ابھی آئے تھے۔۔۔سب اوپر بھاگے جہاں سے نوشین کی چیخ اور تھپڑ کی آواز آئی۔۔۔

نوشین بھاگ کر زمین پر پڑی پری کو سنبھالا۔۔جو بےہوش ہو گئی تھی۔۔
حماد صاحب احمد صاحب دراب جب اندر آئے تو اندر کا منظر دیکھ کر گھبرا گئے۔۔۔
کیا ہوا پری میری جان۔۔ حماد صاحب تڑپ کر پری کو اٹھا کر بیڈ پر ڈالا۔۔۔اور نوشین سے پوچھا۔۔۔جو رو رہی تھی۔۔

 بتائو نوشین کیا ہوا ہے پری کے ساتھ۔۔۔دراب نے ایک غصے بھری نظر خاموش کھڑے شیری پر ڈالی پھر تیز آواز  میں نوشین سے پوچھا۔۔۔
عالیہ۔بیگم عائمہ بیگم وہ دونوں بھی بیڈ پر بےہوش پڑی پری کی طرف لپکی۔۔ ڈاکٹر کو فون کردیا گیا تھا۔۔۔

حور اور مشال بھی وہاں پہنچ گئی تھی۔۔وہاں پری کی حالت دیکھ کر پریشان ہوگئی۔۔۔
بھیا۔۔وہ شیری بھیا نے مارا پری کو۔۔نوشین کے بتانے پر پورے کمرے میں سناٹا چھا گیا۔۔سب نے بے یقینی سے شیری کو دیکھا۔۔۔

عائمہ بیگم تو حیران رہ گئی اپنے بیٹے پر کہ اپنی ضد میں اتنا گر جائے گا اسنے تو کبھی سوچا نہیں تھا۔۔۔

کیا یہ سچ ہے شہریار۔۔اچانک خاموش کمرے میں احمد صاحب کی چنگارتی آواز گونجی۔۔

وہ  کچھ نا بولا تو احمد صاحب نے اسکے گریبان سے پکڑ کر جھٹکا دیا۔۔میں کچھ پوچھ رہا ہوں نوشین ٹھیک کہہ رہی ہے۔۔۔
ہاں ٹھیک کہہ رہی ہے ۔۔۔ مارا ہے مینے اسے کیونکہ میں اس سے نکاح نہیں کرنا چاہتا اور اگر آپ لوگوں نے زبردستی کی تو اس سے بھی ذیادہ برا حشر کروں گا  اسکا۔۔۔وہ بھی غصے سے چیخا اور جو منہ میں آیا بولتا چلا گیا۔۔

چٹاخ۔۔۔۔۔کئی زوردار تھپڑ اسکے منہ پر پڑے۔۔۔جس سے اسکا سفید چہرا سرخ ہو گیا۔۔حماد صاحب اور دراب کا بھی چہرا غصے سے لال ہوگیا۔۔۔سب اپنے منہ پر ہاتھ رکھ رونے لگے۔۔حور تو۔کانپنے لگی تھی جب ساتھ کھڑی مشال نے اسے سہارہ دیا ۔۔وہ بہت حساس تھی۔۔
آپی بھیا کیسے کر سکتے ہیں ایسا۔۔۔حور مشال کے گلے سے لگتے روتے کہا۔۔
 جائو مشی بہن کو لیکے جائو ۔۔عائمہ بیگم نے اسکی حالت دیکھ کر کہا ۔۔۔اور مشال ایک افسوس بھری نظر شیری
 پر ڈالکر حور کو لیکر کمرے سے چلی گئی۔۔۔
میں بھی دیکھتا ہوں اب کیسے روکتے ہو تم اس نکاح کو ہونے سے۔۔اور یہ نکاح ہوگا ابھی اور اسی وقت ہوگا۔۔۔۔دراب نکاح کی تیاری کرو۔۔۔۔احمد صاحب نے اپنا فیصلا سنایا جو شیری کا برتائو دیکھنے کے بعد کسی کو منظور نہیں تھا۔۔۔
نہیں احمد اب ایسا نہیں ہوگا۔۔حماد صاحب نے انکار کرنا چاہا پر احمد صاحب نے بھی کہہ دیا نہیں بھائی نکاح ہوگا اور ابھی ہوگا وہ بھی اسکے ساتھ اگر اسے نا منظور ہے تو ابھی کے ابھی جا سکتا ہے اس گھر سے ہمیشہ اپنا رشتا ختم کرکے۔۔احمد صاحب نے تو  شہریار کے سر پر دھماکے کر دئے تھے۔۔

میں ایسا نہیں کرونگا نا ہی میں نکاح کرونگا۔۔وہ اپنی سرخ آنکھوں میں آگ کا شالا لیے دھاڑہ۔۔۔
تمہیں ایسا کرنا پڑیگا نہیں تو باہر کا گیٹ کھلا ہے۔۔۔احمد صاحب نے بھی ضد پکڑ لی۔۔۔شیری نے ایک نظر اپنی ماں کو دیکھا جس نے منہ پھیرلیا۔۔اسکے اندر جیسے سب کچھ ٹوٹ گیا۔۔۔ایک وار ہوا سینے پر ۔۔۔غصے کی زیادتی کی وجہ سے آنکھوں سے آنسو بہہ نکلا۔۔۔پھر اسنے ایک شولا برساتی نظر بےہوش پری کے وجود پر 
ڈالی۔۔۔۔



تو پھر مجھ سے بھی کسی اچھائی کی امید نا رکھنا۔۔۔زہر کر دونگا اسکا جینا۔۔۔۔وہ ایک زوردار لات ٹیبل کو مارکر ایک عزم سے کہتا کمرے سے نکلتا چلا گیا۔۔۔۔


 مرحوم ایاز ملک کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔۔۔بڑا بیٹا حماد دوسرا احمد اور دونوں سے چھوٹی نرگس ۔۔دونوں بھائیوں کی لاڈلی بہن۔۔۔
دونوں بھائی ساتھ عالیشان ملک ولا میں رہتے تھے۔۔اور ساتھ ہی بزنس کرتے تھے۔۔۔
حماد صاحب اور انکی بیگم عالیہ تھی۔۔انکا ایک بیٹا دراب تھا نرم طبعیت اور سب کا خیال رکھنے والا ۔۔ جو اپنی اسٹیڈیز مکمل ہونے کے بعد حماد صاحب اور احمد صاحب کے ساتھ بزنس میں ہاتھ بٹا رہا تھا۔ ۔
اسکے بعد نوشین تھی۔ 

دراب کی ہی طبعیت جیسی نرم دل۔ ۔وہ بھی اپنی اسٹیڈیز مکمل کرنے کے بعد گھر میں عالیہ بیگم اور عائمہ بیگم کے ساتھ کچن کا ہلکا پھلکہ کام کرلیتی تھی۔۔۔
اسکی منگنی اپنے مامو کے بڑے بیٹے حسن سے ہوگئی تھی۔ اور دراب کی مشال سے بچپن میں۔ جو بڑوں کے علاوہ صرف دراب کو پتا تھی۔ 

احد صاحب اور انکی بیگم عائمہ تھی۔ انکا ایک بیٹا تھا شہریار اور دو بیٹیا مشال اور حوریہ۔۔۔

شہریار نے اپنی سٹیڈیز تو مکمل کر لی تھی پر اسکا کہنا وہ ابھی بچہ ہے اس لیے اسکی ایج ابھی کھانے پینے گھومنے پھیرنے کی۔
 اس لیے اسے ابھی بزنس نا کہا جائے۔ وہ بچپن سے ہی ضدی ذرا سی بات پر غصہ کرنے  اور اپنی کرنے والو میں سے تھا۔ 

مشال نے بھی اپنی سٹیڈیز کمپلیٹ کرلی تھی۔ وہ طبیت کی ہنس ہنسانے والو میں سے تھی۔
 حوریہ ابھی تھرڈ ییئر میں تھی۔ وہ بہت حساس لڑکی تھی اسے صرف ایک ہی انسان سے چڑ تھی وہ تھا سفیان۔ عالیہ اور عائم بیگم کے بھائی فراز کا چھوٹا بیٹا جو اسکے ساتھ یونی میں پڑھتا تھا۔ بہت آوارہ ٹائپ تھا حوریہ کے مطابق ۔۔۔

نرگس کی شادی اپنے کزن الطاف سے ہوئی تھی۔ شادی کے بعد وہ اسے لے کر ڈبئی چلا گیا ۔۔۔شادی کے کچھ سال تو ٹھیک تھا۔ ۔
پر اسکے بعد نرگس کو اولاد نا ہونے کی وجہ سے اسے بانجھپن کا طعنے دینے لگا اور اس پر ہاتھ بھی اٹھانے لگا۔ جس سے وہ وقت کے ساتھ بہت کمزور ہونے لگی پر اپنے بھائیوں کو ہوا بھی لگنے نہیں دی۔ ہر ظلم کو

 سہنے لگی خود اور اللّٰہ کی ذات پر صبر کرنے لگی۔ اور اس پاک ذات نے اسے اپنی رحمت سے نوازا ۔۔اور اسکے یہاں بیٹی ہوئی پری جیسی۔۔اور اسکا نام بھی نرگس نے پریا رکھا ۔۔اور اپنے جان کے ٹکرے کو الطاف صاحب کے حوالے کرکے ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند گئی۔۔۔۔
جاری ہے۔۔۔۔

Episode #3 Tera Ashiq May Diwana Ho Awara

Episode #3 Tera Ashiq May Diwana Ho Awara


.
#تیرا_عاشق_میں_دیوانہ_ہوں_آوارا💞

نرگس کے جانے سے دونوں بھائیوں پر تو جیسے قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔۔۔پر انہیں دوسرا جھٹکا تب لگا جب الطاف اسکے چالیسوے کے دن دوسری شادی کرلی تھی۔۔
لوگوں کے تھو تھو کرنے پر بہانہ یہ بنایا کہ مینے پریا کے لیے دوسری شادی کی ہے اسے ماں کی ضرورت ہے۔۔۔پر یہ سب ایک بہانہ تھا بہانہ ہی رہا۔۔۔

حماد صاحب نے کہا کہ پریا ہمیں دے دو ہم اپنی بہن کی آخری نشانی کو کسی دوسرے کے حوالے نہیں کریں گے ۔۔ان کا یہ کہنا تھا کہ الطاف صاحب بگڑ گئے۔۔اسنے بھی کہا کہ یہ میرا خون ہے تمہاری بہن مر گئی ہے ۔۔۔اور ان سے کوئی رشتہ نا رکھتے انہیں اپنے گھر سے نکال دیا۔۔۔ 
وقت گذرتا رہا وہ اپنی زندگی میں اسے کھوگیا کہ اسے یہ بھی یاد نا تھا کہ اسکی کوئی بیٹی بھی جو اسکا انتظار کرتی ہے روز کی طرح۔۔۔

الطاف صاحب نے پریا کو گورنس کے حوالے کر دیا تھا ۔۔پہلے تو وہ بات کیا بھی لیتے پر جب اسے پریا کے اٹک کر بولنے کا پتا لگا تو یہ تھوڑا وقت بھی اپنی بیوی اور بیٹے کودینے لگے۔۔

وقت گذرنے کے ساتھ وہ بڑی ہوتی گئی ۔۔ماں کے نا سلیکے نا سوارنے کی وجہ سے وہ لڑکوں کے کپرے پہنے لگی ۔۔۔اور کوئی دوپٹہ تو اسنے جانا ہی نہیں تھا۔۔ایک وہ بہت حسین تھی۔۔اوپر سے کم عمر اس لیے اسکی سوتیلی ماں کا بھائی فواد کی اس پر نیت خراب ہوگئی۔۔

وہ بڑی عمر کا امیر آدمی تھا۔۔اور بہت چالاک۔۔اسنے بنا وقت لیے اپنی بہن سے بات کی جب وہ نا مانی کہ پریا کی عمر بہت کم ہے اور الطاف صاجب کبھی نہیں مانے گے ۔۔

اس پر فواد بہت مایوس ہوا اور اسنے اپنا دماغ کا استعمال کیا اسنے رفیہ جو الطاف صاحب کی دوسری بیوی تھی اسکے پراپرٹی کے خلاف کان بھرے ۔۔۔کہا کہ پریا بڑی ہے تمہارے بیٹے سے اگر تم نے اسکی شادی وقت پر نا کی تو پراپرٹی میں اسکا ذیادہ حصہ ہوگا اور اسے تو اسکے بولنے کے عیب سے لیگا بھی کوئی نہیں اس لیے مجھ سے کروالو بچ جائوگی ۔۔۔

یہ بات رفیہ کو دل سے لگی اور اسنے الطاف صاحب سے بات کی۔۔
وہ اسکی بات پر بگڑ گئے تو رفیہ بھی کم نہیں تھی اسنے کہہ کون کرے گا آپکی "میں میں "کرنے والی صاحبزادی سے شادی جسے نا پہنے کا سلیکا نا اوڑھنے کا یہ تو شکر کرو میرے بھائی کا بڑا دل ہے جو راضی ہوا آپکی بیٹی پر ورنہ ایسی لڑکیاں تو ساری عمر بیٹھ بیٹھ کر مر جاتی ہیں۔۔۔یہ شکر کرو میرے بھائی کا جو تمہاری لڑکی کو اپنی عزت بنانا چاہتا ہے۔۔۔

اور یہ باتیں الطاف صاحب کے دل کو لگی تو انہونے ہاں کردی۔۔فواد تو ایسا خوش ہوگیا جیسے اسے جنگ جیت لی ہو ۔۔
کچھ ہی دنوں میں انکا نکاح رکھا گیا۔۔پریا کی گورنس کو یہ بات پتا چل گئی تھی۔۔وہ اتنی معصوم پر اتنا ظلم ہوتے
 نہیں دیکھ سکتی تھی اسلیے اسنے چھپ کر حماد صاحب کو سب بتا دیا۔۔حماد صاحب کا پریا کی موبائل میں نمبر تھا وہ سب سے بات کرتی تھی پر ملنے کبھی نہیں گئی۔۔۔اسنے اپنوں کا احساس اور اپنو کا پیار کبھی محسوس نہیں کیا تھا ۔۔۔

پھر حماد صاحب اور احمد صاحب نے ملکر الطاف کے یہاں گئے اس سے کہاں پرانی باتوں کو بھولا کر گلے لگتے ہیں۔۔الطاف صاحب بھی اوپری دل سے مسکرا کر ان سے ملا پھر حماد صاحب پریا کو کچھ دن ملک ولا لے آئے۔۔۔رفیہ بیگم اور فواد تو بگڑ گئے پر الطاف صاحب نے کہا صرف کچھ دن وہ بیٹی میری ہے اس پر میرا فیصلا چلےگا۔۔اسکے وہاں آنے کے فوراً ہم نکاح کر دیں گے۔۔۔

حماد صاحب اور احمد صاحب اسے ملک ولا لے آئے سب نے اپنی معصوم کزن پر بہت پیار آیا اور سب اسے بہت محبت دینے لگے۔۔صرف شیری کے علاوہ ۔۔۔ شیری کو اسکا پہناوا اور بولنا دونوں زہر لگتے تھے۔۔۔یہاں آکر عالیہ بیگم اور عائمہ بیگم نے اسے آہستہ آہستہ پہنے اوڑھنے کا مطلب سمجھایا اور وہ ذیادہ کچھ نہیں صرف گلے میں دوپٹہ اور جینز پر گھٹنو تک آتی شرٹ پہنتی تھی۔۔۔

حماد صاحب اور احمد صاحب نے اسے فواد سے بچانے کے لیے شیری سے نکاح کروانا چاہتے تھے پر شیری کو یہ قطعی منظور نہیں ۔۔۔
پھر شہریار کے کیے گئے سلوک کے بعد حماد صاحب نے ایک فیصلا کیا۔۔ اسے یقین دلایا کہ یہ نکاح صرف ایک سال کا ہوگا اور ایک سال کے بعد میں خود تمہیں طلاق ڈلائوں گا ۔۔
ابھی بچی کی زندگی کو بچانا بہت ضروری ہے۔۔تمہیں کوئی اس بات کا احساس بھی نہیں ڈلائے گا کہ تمہارا نکاح

 ہوا ہے۔۔صرف الطاف اور فواد کو دفعہ کرنے کے بعد۔۔۔۔
اس پر شیری بھی کچھ سمجھا اور دونوں کا نکاح کروادیا گیا۔۔۔پریا کے رونے التجا کرنے پر عالیہ بیگم اور عائمہ بیگم نے اسے رفیہ اور فواد کی چالاکیوں کے بارے میں سمجھایا۔۔۔
جب یہ سب الطاف اور فواد کو پتا لگا تو وہ دونوں بگڑ کر آگ بگالہ ہوگئے۔کافی بڑا جھگڑا ہوا دونوں نے اپنے

 اپنے پاورز کا استعمال کیا ۔پر وہ حماد صاحب والوں سے جیت نا سکے اور پھر کچھ اندر سے بھی الطاف صاحب کو یہ سب کرنے سے باز رکھا۔۔۔
پر فواد کو یہ سب قطعی منظور نا تھا اسنے طے کر لیا تھا کہ پریا کو تو وہ حاصل کر کے ہی رہے گا۔۔آج نہیں تو کل۔۔۔


تم اٹھ رہی ہو کہ نہیں ۔۔حور کب سے اسکے سر پے کھڑی اسے اٹھانے کی کوشش کر رہی تھی اور پری اس سب سے بے پروہ چادر میں گھسڑی پڑی تھی۔۔اس کوئی فرق نہیں تھا کہ کوئی اپنا گلا ہی کیوں نہ پھاڑ لے۔۔۔اسے اپنی نیند سب سے عزیز تھی۔۔

پری سب ناشتے پر تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔۔۔اب تو اٹھ جائو یار مجھے یونی کےلیے دیر ہوجائے گی۔۔
ہوں۔۔اسکی اتنی بڑی التجا پر ہاتھ سے صرف اسے جانے کا کہا گیا۔۔۔
دھڑام سے مشال دروازہ کھول کر اندر آئی۔۔حور یار بھائی آگئے۔۔مشی کی خوشی سے چہکتی ہوئی آواز پری کے کان میں پڑی۔۔۔

کیاااااا۔۔۔حور سے پہلے پری چیخی۔۔ککون بببھائی۔۔چادر سے نکلتی بیڈ سے اترتی مشال کے پاس آئی۔۔۔اور ڈرتے ہوئے پوچھا۔۔۔تو مشال نے بہت آرام سے اسے بتایا۔۔۔
دراب بھائی ناشتے کی ٹیبل پر آگئے ہیں اور اپنی گڑیا کو بلا رہے ہیں۔۔۔کہنے کے ساتھ ہی دونوں کے بلند قہقہے لگے پری کی حالت پر۔۔جو رونے جیسی تھی۔۔۔

اییییی۔۔۔۔وہ اپنے ہاتھوں کے پنجے بناکر پیچھے بھاگی۔۔۔
آجائو فریش ہوکر کالج بھی جانا ہے۔۔۔مشی کامیابی سے کہتی حور کے ساتھ اسکے کمرے سے بھاگی۔۔۔
پیچھے وہ انکو کوستی صبح صبح اس ظالم کے نام پر۔۔اور یہ سب مذاق ہونے پر شکرادا کرتی فریش ہونے باتھروم میں چلی گئی۔۔۔اسے دنیا میں سب سے زیادہ نفرت شیری سے تھی۔۔شہریار نکاح کے بعد امریکہ چلا گیا تھا۔۔جسے ابھی صرف تین مہینے ہوئے تھے۔۔۔کسی اور کو خوشی تھی یا نہیں پر پریا کو بہت خوشی تھی شیری کے جانے سے اب یہاں وہ سب کی لاڈلی اور چھوٹی گڑیا تھی خاص کرکے دراب کی۔۔۔


کیا اٹھی پری ۔۔۔نوشین نے دونوں کو بیٹھتے دیکھ کر پوچھا۔۔ہاں اٹھ گئی۔۔مشال نے مسکرا کر کہا۔۔اور ناشتا کرنے لگی۔۔وہ مگن سی ناشتہ کر رہی تھی جب اسے اپنے اوپر نظروں کی تپش محسوس ہوئی۔۔۔اسنے ایسے ہی نظریں اٹھائی۔۔تو دھک سے رہ گئی۔۔۔کیونکہ نظروں کی تپش کسی اور کی نہیں دراب کی تھی۔۔وہ اسکے سامنے بیٹھا اسے ہی دیکھ رہا تھا اپنی گہری آنکھوں میں نئے رنگ سماکر۔۔۔مشی نے ہڑبڑا کر سب کو دیکھا۔۔تو سب ناشتا کرنے مگن تھے۔۔پھر ذرا کی ذرا اپنی گھنی پلکوں کا جالر اٹھا کر دیکھا تو گھبرا کر سر جھکا گئی۔۔۔اس پر دراب کے خوبصورت چہرے پر مسکراہٹ پھیلی۔۔۔

حور ۔۔۔ یہ بھائی کو کیا ہوگیا ہے ذرا دیکھو تو۔۔اسنے حور کو کہنی مار کر آہستہ کہا۔۔
آہہہ۔۔کیا ہے آپی کسے دیکھوں۔۔۔حور کو جو کہنی لگی کہراہ اٹھی۔۔اور پھر تیز آواز میں بولی۔۔۔جس پر انکی طرف سب متوجہ ہوگئے۔۔مشی نے جلدی سے اپنے شرم اور گھبراہٹ سے سرخ چہرے کے ساتھ حور کو دیکھا۔۔اور آنکھیں نکالی۔۔۔مطلب تھا تمہیں تو بعد میں دیکھتی ہوں ۔۔۔ 
کیا ہوا بیٹا۔۔احمد صاحب نے پوچھا۔۔۔

کہاں پھنس گئی اللّٰہ جی۔۔۔رونی سی صورت بنا کر دراب کو دیکھا جو مزے سے مسکراہٹ دبائے۔۔کبھی اسے دیکھتا تو کبھی احمد صاحب کو۔۔۔
نہیں کچھ نہیں پاپا وہ۔۔وہ یہاں وہاں دیکھا تو پری آرہی تھی۔۔۔پھر مسکرا کر بولی ۔۔۔پاپا وہ پری کا کہہ رہی تھی دیکھو آگئی۔۔۔اسکے کہنے پر احمد صاحب مسکرا پڑے اور ہاں میں سر ہلاکر کھانے لگے۔۔دراب کا تو دل کر رہا تھا قہقہے لگائے اسکی چالاکی پر ۔۔۔۔

EPISODE #4 tERA aSHIQ mAY dIWANA hO aWARA

EPISODE #4 tERA aSHIQ mAY dIWANA hO aWARA


حور اور پری یونی پہنچی۔۔ پری تو اپنے ڈیپارٹمنٹ کی طرف چلی گئی تھی۔اب حور جا رہی تھی جب سامنے سے کوئی آگیا اگر وہ اپنے قدم نہیں روکتی تو زبردست ٹکرائو ہوجاتا۔۔۔مقابل کو تو کچھ نا ہوتا البتہ حور ٹوٹ پھوٹ جاتی۔۔
کون ہے یہ اندھا۔۔۔اسنے اپنا چشمہ درست کرتے اوپر دیکھا تو سامنے ہی سفیان بھرپور انداز میں مسکرا رہا تھا۔۔
کیا ہے سیفی بھائی دیکھ کر نہیں چل سکتے۔۔ابھی میں مرجاتی تو۔۔۔اسکی بات پر سفیان کا قہقہہ لگا۔۔
ہاہاہاہا۔۔مرجاتی ایسے ہی۔۔۔پھر تھوڑا جھک کر بولا۔۔اب تو بہت کچھ ہے آگے چُنی مُنہ بھی۔۔۔گھمبیر آواز میں کہتا اسے پیچھے سڑکنے پر مجبور کر گیا۔۔
یہ کیا بکواس ہے کون ہے یہ چُنی مُنہ؟۔۔۔۔غصے سے کہتی وہ اسے گھورنے لگی۔۔۔
لڑکی آہستہ بولو کیوں ہماری فیوچر فیملی کو بدنام کر رہی ہو۔۔۔سیفی بالو میں ہاتھ پھرتا آس پاس دیکھ کر پھر اس سے بولا۔۔۔پر جسے سمجھانا تھا اسکے پلے خاک نا پڑا۔۔۔
اللہ کا شکر ہے میری سویٹ فیملی ہے ۔۔اور ہماری فیملی میں کوئی ایسا فیوچر میں چُنی مُنہ نہیں ہے۔۔۔وہ منہ بناکر کر بولی اور جانے لگی۔۔
میں میری بات کر رہا ہوں ۔۔۔وہ کہتا اسکا پھر سے راستا روک گیا ۔۔۔۔
اور ایک بات ۔۔شرارت آنکھوں میں سما کر اسکے سامنے آیا ۔۔۔آج سے تم روز میرے لیے ہر نماز کے بعد یہ دعا کروگی کہ۔۔یا اللہ سفیان کی چشمش کو تھوڑی عقل اتا کردے۔۔اسنے دونوں دعا کے لیے اٹھا کر کے اسے سمجھایا۔۔۔جس پر حور کا دماغ چلا۔۔پھر کونسی چشمش پھنسائی ہے اس آوارہ نے۔۔مطلب اسنے عقل میں پی ایچھ ڈی کرلی۔۔۔اور ہاں مین پوائنٹ "بھائی"نہیں بولنا۔۔۔
پہلی بات میں کیوں مانگو دعا خود مانگا کرو۔۔اور دوسری بات میں یہ سب ماموں کو بتائونگی آپکا آوارہ بیٹا یہاں پڑھنے نہیں مجھ سے کسی روبی شوبی چشمش کشمش کی دعا کروانے آتا ہے۔۔۔تیسری بات اگر مانگی بھی تو اتنی بد اخلاق نہیں ہوں میں کہ اتنی پاک جگہ پر بیٹھ کر آپکو بھائی نا بولوں۔۔۔سمجھے اب ہٹو مجھے کلاس کے لیے دیر ہورہی ہے۔۔
اسے چارسو چالیس وولٹ کا جھٹکا دے کر جانے لگی۔۔۔اسے پتا تھا وہ بیوقوف ہے پر اتنی یہ آج اسے اندازہ ہوا تھا۔۔۔
تو مطلب نہیں مانگو گی۔۔وہ پھر سے سامنے آکر تیخے لہجے میں پوچھا۔۔تو اسنے بھی اسی انداز میں بولا۔۔۔
نہیں ملطلب نہیں۔۔۔
تو ٹھیک ہے میں بھی آج پھپھو کو بتائونگا۔۔کہ آپکی یہ لاڈلی مجھے یونی میں آوارہ لوفر بولتی ہے اور تو اور جب میں اس سے کوئی بات کرتا ہوں تو جواب دیکر بد تمیزی کرتی ہے۔۔۔سیفی بھی کسی سے کم نہیں تھا۔۔
مینے کب لوفر آوارہ بولا۔۔۔وہ گھبرا کر چشمہ درست کرتی بولی۔۔۔
اچھا تو ریورس میں جاؤ سب پتا چل جائے گا۔۔۔اسکی بات پر وہ روہانسی ہوگئی۔۔
سیفی بھائی کوئی بہن کے ساتھ ایسا کرتا ہے۔۔۔
پھر گستاخی ۔۔۔وہ بھڑک کر بولا۔۔جس پر وہ اچھل پڑی ۔۔اور ہڑبڑا کر بولی۔۔۔



کک۔۔کونسی۔۔۔
نا میں تمہارا بھائی ہوں نا تم میری بہن۔۔۔۔سمجھی اور اب کبھی بھائی بولی تو یہ سب نافرمانیاں ملک خاندان کے کان میں ہونگی۔۔اسکے درس پر حور نے زور شور سے سر فرمانبداری سے ہاں میں سر ہلایا۔۔۔اب جاؤ ۔۔۔کیونکہ سفیان اب خود کو کنٹرول نہیں کرسکتا تھا۔۔۔قہقہے لگانے سے۔۔۔
وہ اللہ کا شکر کرتی بچتی جلدی سے جانے لگی۔۔پر دل میں اسے جتنی بھی گالیاں آرہی تھی ان سے نواز رہی تھی۔۔
رکو۔۔۔پیچھے سے پھر روکا گیا۔۔۔وہ جھنجھلا گئی۔۔اور چہرے پر منصوعی مسکراہٹ سجاکر مڑی۔۔۔
ہائے قربان جاؤں اپنی چشمش پر۔۔۔وہ جھنجھلاہٹ اور مسکراہٹ کے ساتھ بہت کیوٹ لگ رہی تھی۔۔۔سیفی نے دل میں کہا۔۔۔اسے اپنی یہ بیوقوف اور کیوٹ سی کزن بہت پسند تھی۔بچپن سے ہی اور کب یہ پسندگی محبت میں بدلی اسے خود پتا نہیں لگا۔۔۔اب یہ تو طے تھا بنے گی تو یہ سفیان کی ہی دلہن۔۔۔
دعا ضرور مانگنا۔۔۔سیفی نے پھر سے روب سے کہا۔۔۔
حور کا تو دل کر رہا تھا پتھروں سے اسکا سر پھاڑ دے۔۔۔پر مجبور ۔۔۔
جی بھ بھا۔۔میرا مطلب سفیان۔۔۔جلدی سے کہتی دور لگا دی کہیں پھر سے سر نا کھانے لگ جائے۔۔۔۔
اور پیچھے سیفی کا ہنس ہنس کر برا حال ہوگیا۔۔مطلب حد تھی بیوقوفی کی۔۔۔
💞💞💞💞
دراب آج آفس نہیں گیا تھا اسے سر میں بہت درد تھا۔۔دن کے گیارہ بج رہے تھے وہ اپنے بیڈ پر آنکھیں موندیں پڑا تھا۔۔جب دروازہ ناک ہوا۔۔۔
آجاؤ ۔۔بھاری گھمبیر آواز میں اجازت ملنے پر مشال اپنے دھڑکتے دل کو سنبھال کر عالیہ بیگم کی دی گئی سر درد کی دوائی اور پانی کا گلاس ٹرے میں لےکر اندر آئی۔۔۔کمرے میں مدہم خوابناک روشنی اور دراب کے ہوش اڑادینے والی پرفیوم کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔۔مشال کے ماتھے پر ننھے ننھے پسینے کے قطرے نمودار ہوئے۔۔
وہ آہستہ سا چلتی اندر آئی اور بیڈ کے سائیڈ ٹیبل پر ٹرے رکھی۔۔۔
دد۔۔دراب بھائی۔۔بڑی مما نے دوائی بیجی ہے ۔۔اور کہا ہے کھا لینا۔۔۔وہ بنا دیکھے بولتی جانے لگی۔۔ابھی ایک قدم ہی لیا تھا جب پورا کمرا روشن ہوا۔۔اور ساتھ ہی دراب کی آواز آئی۔۔۔
رکو مشال۔۔۔مشال کی تو جیسے جان ہی نکل گئی۔۔
پر پھر بولی۔۔میں کیوں ڈر رہی ہوں ۔یہ تو اپنے والا دراب بھائی ہے۔۔ہونہہ مشی تم بھی کبھی چھکے سے بھی دور کی سوچنے لگتی ہو۔۔وہ بڑبڑاتی پلٹی تو سیدھا دراب کے چوڑے سینے سے لگی۔۔حقیقت میں ہی اسکے چھکے چھوٹ گئے۔۔اسے لگا جیسا دیوار سے ٹکرائی ہو۔۔۔
کچھ دیر تو اسے کچھ سمجھ نا آیا۔۔۔پر جب اسکے نتھنوں سے دراب کی دلفریب پرفیوم کی خوشبو ٹکرائی تو وہ جلدی سے خود کو سنبھالتی دورہونے لگی۔۔پر دراب جو اسکے گدازوجود کو اپنے بانہوں میں سما کر اس میں کھویا ہوا تھا۔۔۔اسکے ردعمل کے لیے تیار نا تھا۔۔مشال اسکے لمس پر گھبراتی اپنے شرم سے سرخ چہرے کے ساتھ خود کو چھڑوانے کے لیے اسکی بانہوں میں مچلنے لگی۔۔۔دنوں کے دل باآواز بلند دھڑک رہے تھے۔۔۔
چھوڑیں ۔۔اسکی گھٹی سی آواز دراب کو مدہوشی سے ہوش کے عالم میں لائی۔۔۔وہ اسے حصار سے آزاد کرتا دور ہوا۔۔۔
مشال اس سے دور ہوتی کمرے سے جانے لگی جب پیچھے سے اسنے پھر ہاتھ پکڑلیا۔۔۔اور جھٹکے سے کھیچ کر اپنے مقابلے کیا۔۔۔وہ اپنا سانس روک گئی۔۔۔چہرہ تو پہلے ہی گھبراہٹ اور شرم سے لال ٹماٹر تھا۔۔۔
کیا کر رہے ہیں دراب بھائی جانے دیں۔۔۔وہ اپنا ہاتھ مڑورتی چھڑوانے لگی۔۔۔پر دراب لگتا تھا آج اسکی جان لیکر ہی چھوڑے گا۔۔۔
گھبرا کیوں رہی ہو۔۔۔وہ اپنی جذبے لٹاتی نظروں سے اسے دیکھ پوچھنے لگا۔۔۔
مم۔۔میں کہاں گھبرا رہی ہوں۔۔۔مشال نے خود میں حوصلا پیدا کرتے بولی۔۔۔البتہ اندازہ ایسا تھا ابھی رو دیگی۔۔۔
اچھا تو یہ پسینا کیوں آرہا ہے۔۔دراب تو جیسے اسکی حالت پے مزے لےرہا تھا۔۔اسکی پیشانی کی طرف اشارہ کرکے پوچھا۔۔۔جو پسینے سے نم تھی۔۔۔
وہ۔۔وہ سر میں د۔۔درد ہے اس لیے۔۔جو منہ میں آیا بولتی شکر کا سانس لینے لگی۔۔۔جس پر دراب کا قہقہہ لگا۔۔
ہاہاہاہاہا۔۔۔یہ کون سا سر درد ہے۔۔۔جس میں پسینا بھی آتا ہے۔۔۔اس پر مشال شرمندگی سے پانی ہوگئی۔۔بولی تو صرف اتنا۔۔۔
آپ کو کیا ہوگیا ہے درا۔۔۔۔اسکا جملا مکمل ہونے سے پہلے اسے خود کے قریب کر کے کان میں بولا ۔۔۔
عشق ہوگیا ہے۔۔۔وہ بھی مشال احمد سے۔۔عاشق بن گیا ہوں تیرا۔۔۔وہ دھیرے سے اسکے کانوں میں اظہارِعشق کرتا اسے ساکت کرگیا۔۔۔
مشال نے اپنی ساکت نظریں اسکی جذبو کی آنچ دیتی نظروں میں گاڑھی۔۔۔اور ایک جھٹکے سے دورہوتی کمرے سے ہی بھاگتی چلی گئی۔۔۔
اور پیچھے دراب کے قہقہے تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے ۔۔کہاں گیا سر کا درد شرد۔۔۔مشال تمنے تو میری دنیا ہی بدل دی ہے۔۔۔۔۔دلکشی سے کہتا مسلسل بجتے موبائل کو اٹھایا تو حماد صاحب کی کال تھی۔۔نچلے ہونٹ کو دانتوں میں دبا کر کال پک کی۔۔
حماد صاحب نے معزرت کے ساتھ اسے امپورٹنٹ میٹنگ کے لیے بلایا تھا۔۔۔انہیں پتا تھا دراب کی طبعیت ٹھیک نہیں ہے ۔۔۔
کوئی بات نہیں پاپا میں ٹھیک ہوں۔۔۔دوائی کھانے کے بعد۔۔اس پر پھر سے مسکرا پڑا۔۔۔


چھُٹی کا ٹائم تھا آدھے سے ذیادہ یونی خالی ہوچکی تھی۔۔
حور اور پری دونوں ہی دراب کے انتظار میں کھڑی تھی۔۔پہلے اسے شیری پک اینڈ ڈراپ کرتا تھا۔۔پر وہ اب یہاں نہیں تھا تو دراب نے یہ ڈیوٹی لے لی تھی۔۔۔وہ کبھی اتنا لیٹ نہیں ہوا پر آج پتا نہیں کیوں ابھی تک نہیں آیا تھا۔۔۔
پری مزے سے آتی جاتی گاڑیوں کو گھور رہی تھی جیسے انکا گناہ ہو انہیں یہاں کھڑا کرنے میں۔۔۔
تم کیا آنکھیں پھاڑ پھاڑ لوگوں کو دیکھ رہی ہو۔۔۔اسنے چڑ کر پری سے پوچھا۔۔
ووہ۔۔میں جب ڈ۔۔ڈبئی میں تھی تو رمشا۔۔للفٹ ایسے مانگتی تھی۔۔تت۔۔تو مینے سوچا ییہاں دھوپ سے بچنے کے لیے۔۔ممیں بھی کوشش کرلوں ۔۔اسکی بات پر حور کی آنکھیں پھٹ گئی۔۔پھر جو ہنسی کا پھوارے نکلے منہ سے ۔۔۔ انہیں روکنا مشکل ہوگیا۔۔پری تو اس پاگل کو دیکھ رہی تھی ہوکیا گیا ہے اسے۔۔۔




Episode #5 Tera Ashiq May Diwana Ho Awara

Episode #5 Tera Ashiq May Diwana Ho Awara


#تیرا_عاشق_میں_دیوانہ_ہوں_آوارہ💞
#از__مہوش_علی
#قسط_05

ااس میں ہہ۔۔ہنسنے کی کیا بات ہے ۔۔۔پری نے منہ بنا کر پوچھا۔۔۔جس پر حور بمشکل ہنسی روک کر کہا۔۔
بیوقوف ہاتھ سے لفٹ مانگتے ہیں آنکھوں سے نہیں۔۔۔پھر سے ہنسنے لگی۔۔۔
مم۔۔میں بھی وہی ککر رہی ہوں۔۔آآآنکھیں اس لیے پھاڑ کے دد۔۔دیکھ رہی ہوں کہ کون ش۔۔شریف انسان ہے۔۔او۔۔اور کون بدتمیز۔۔۔اسکی بات پر حور کی ہنسی ایکدم گھٹی۔۔۔
ہیں۔۔ لڑکی کیسے۔۔۔حیران ہوکے پوچھا۔۔۔
و۔۔وہ اپنی کلاکاری ہے۔۔۔۔وہ فخر سے کالر جھار کر واپس یہاں۔وہاں دیکھنے لگی۔۔۔

اور حور کی آنکھوں کو اندر سفیان کی گاڑی نے کیا۔۔۔
آجاؤ دونوں دراب بھائی کسی میٹنگ میں گئے ہیں ۔۔۔اس لیے مجھے تم دونوں کو پک کرنے کا کہا ہے۔۔۔
حور نے تو اسے دیکھ کر ناک منہ چڑھایا۔۔۔البتہ پری مزید دھوپ میں پگلنے سے بچ کر گاڑی میں بیٹھ گئی۔۔جس پر سیفی مسکرادیا۔۔۔
عقلمند ہو سویٹ سسٹر۔۔۔سفیان کے کہنے پر پری معصومیت سے مسکرادی اور حور کو حیرت کا جھٹکا لگا۔۔۔

مجھے بہن کہنے سے موت پڑتی ہے اور اسے کیوں کہہ رہے ہو یہ گستاخی نہیں ہے۔۔وہ غصے سے کہتی بیکسیٹ پر پری کے ساتھ بیٹھ رہی تھی جب سفیان بولا۔۔
او میڈموں میں ڈرائیور  نہیں ہوں آگے آئو ایک۔۔۔وہ کہہ تو دونوں سے رہا تھا۔۔۔پر دیکھ حور کو رہا تھا۔۔۔

ہاں جائو حور آگے بیٹھو ایسے اچھا نہیں لگتا۔۔۔حور کبھی پری کو دیکھتی تو کبھی سیفی کو۔۔۔میں کیوں تم بھی تو جا سکتی ہو سویٹ سسٹر۔۔وہ سسٹر کے لفظ کو چبا کر بولی۔۔۔سفیان اسکا سارا غصہ سمجھ کر ہنس دیا۔۔اور پھر حور آگے آکر بیٹھی تو وہ اسے دیکھتا گاڑی سٹارٹ کرنے لگا۔۔۔
آئسکریم کون کھائے گا۔۔۔۔اسنے دونوں سے پوچھا۔۔
بب۔۔بھائی میں۔۔۔پری نے نا دیکھنے والا پسینا صاف کرتے کہا۔۔۔جس پر سیفی کھل کر مسکرایا۔۔۔
اور تم۔۔اسنے حور کو دیکھ کر پوچھا۔۔

نہیں ۔۔۔وہ جواب دیکر باہر دیکھنے لگی۔۔۔سیفی کو اسکی نارضگی بہت بھلی لگی۔۔۔اگر ایسے کروگی تو ابھی جاکر سب سے بات کروں گا۔۔ذو معنی لہجے میں کہتا حور کی دھرکنوں کو بےترتیب کرگیا۔۔۔
مطلب۔۔کون سی بات۔۔۔حور نے گھبراتے پوچھا۔۔
تیری میری۔۔۔

حور کو حیرت کا جھٹکا لگا۔۔اب وہ اتنی بھی نا سمجھ نہیں تھی جتنا وہ اسے سمجھ رہا تھا۔۔۔
بھئی گانا ہے تیری میری ،میری تیری پریم کہانی۔۔۔گانے کے ساتھ قہقہہ گونجا۔۔پری اور سفیان کا۔۔۔

پھر ایسے غصے میں دیکھ کر تھوڑا جھک کر بولا۔۔۔۔تمہیں بہن نہیں بول سکتا پاگل کیونکہ اس دل میں رہتی ہو۔۔اور تمہاری جگہ بہن والی نہیں جانم والی ہے۔۔۔ایک آنکھ دبا کر بولتا دونوں کے لیے آئسکریم لینے چلا گیا۔۔۔۔۔۔

حور کو وہیں اپنے لفظوں سے ساکت کرگیا۔۔۔پھر جب وہ آئسکریم لیکر آیا پری کودی جب حور کی طرف بڑھائی تو اسنے اس سے لیکر باہر غصے سے پھینکی۔۔

جس پر پری اور سیفی نے حیرت سے اسے دیکھا۔۔۔
یہ کیا حرکت تھی حور۔۔۔سفیان نے خفگی سے اس سے پوچھا۔۔۔اسے حوریہ کی یہ حرکت ذرا بھی پسند نا آئی۔ ۔۔

ہمیں گھر چھوڑ دو سفیان بھائی۔ ۔۔حور بھی اسکی خفگی کی پروہ کیے بغیر روکھے لہجے میں بولی اور باہر دیکھنے لگی۔ ۔
اور پھر سفیان بھی کچھ بولے بغیر گاڑی سٹارٹ کردی ۔۔پری تو ان دونوں سمجھنے میں لگی ہوئی تھی۔ ۔
گھر آکر وہ بغیر کسی کی طرف دیکھے اپنے کمرے میں چلی گئی۔ ۔۔
اسے سیفی سے یہ امید نہیں تھی۔ وہ اسے بھائی سمجھتی تھی اور وہ اسکے بارے میں کیا سوچ رہا تھا۔ ۔
پھر اسے صبح کی چشمش کی باتیں بھی ابھی سمجھ آرہی تھی مطلب وہ اسے تھا۔ ۔غصے سے بیگ صوفے پر پھینکا۔ ۔دھڑام سے بیڈ پر گری۔ 
اسکی ہمت کیسے ہوئی مجھے جانم کہنے کی۔ سمجھتا کیا ہے خود کو اگر مینے دراب یا شیری بھائی کو بتادیا تو ایسا حال کرتے آئندہ منہ کھولتے بھی میرے سامنے ہزار بار سوچے۔ ۔


سفیان بیٹا تم کب آئے۔ ۔عائمہ بیگم اسے لائونج میں صوفے پر پریشان بیٹھتے دیکھ کر پوچھا۔ ۔

کیا ہوا سب ٹھیک ہے ۔۔بھائی صاحب کیسے ہیں۔ وہ بھی دوسرے صوفے پر بیٹھتی اسکی پریشان صورت دیکھ کر پوچھا۔ ۔
ہاں سب ٹھیک ہیں پاپا بھی۔ میں دراب بھائی کے کہنے پر پری اور حور کو یونی سے لے  آیا ہوں ۔۔۔
اچھا۔۔۔اور پھر یہاں وہاں کی باتیں کرنے لگی پر سفیان کا سارا دھیان حور کے کمرے کی طرف تھا۔۔۔

پھپھو میں ابھی آیا ذرا حور کو اسکی موبائل دینی ہے گاڑی میں بھول گئی تھی۔ سفیان سے مزید برداشت نہیں ہوا تو اٹھا عائمہ بیگم کے ہاں کہنے پر وہ جلدی سے سیڑھیاں طے کرتا اسکے کمرے کی جانب لپکا۔۔۔۔


پری فریش ہوکر ابھی بیٹھی ہی تھی جب اسکا موبائل بجا۔ ۔اسنے اٹھا کر دیکھا تو کوئی انجان نمبر تھا۔۔دیکھ واپس رکھ دیا ۔۔۔خود ہے سمجھ جائے گا غلط نمبر ہے۔۔

پر دوسری طرف جو کوئی بھی تھا مسلسل کال کر رہا تھا ۔
پری نے غصے میں آکر کال پک کی اور غسے سے بولی۔۔۔

کک۔۔کون ہے سس۔سمجھ نہیں آرہا کوئی کال نا ااٹھائے تو بندہ خ۔ خود ہی سمجھ جائے غ۔ غلط نمبر ڈائیل کیا ہے۔ پر نہیں۔۔۔اسکی معصوم غصے بھری آواز پر شہریار کا قہقہہ لگا۔۔
بہت خوب بکری۔۔بڑے پر نکال لیے ہیں۔۔ یا میرے جانے سے اتنی ہمت آگئی ہے۔۔ہاہاہا
پری تو خوف سے نیلی پڑ گئی تھی۔۔۔

ککک۔۔۔کون۔۔۔ لفظ کپکپاتے لبوں سے ادا ہوئے۔۔۔
میں تمہارہ سال کا شوھر شہریار ملک۔۔۔اور کون ہوسکتا ہے۔۔۔سوئیٹ ہارٹ۔۔۔اسکے بدلے لفظ پری کے معصوم دماغ میں چیونٹیوں کی طرح چھبنے لگے۔۔۔
یی۔ یہ کیا کہہ رہے ہو۔۔ اسنے ڈرتے ڈرتے کہا۔۔

بس شروع تمہاری میں میں ۔۔۔اسنے طنزیہ لہجے میں کہا۔  جس پر پری کے آنسوں لڑیوں کی صورت میں بہنے لگے۔ ۔خیر چھوڑو اور سنو آرہا ہوں ۔۔یار کیا کروں نیند ہی نہیں آتی رات کو ۔۔اس لیے سوچا کیوں نا یہاں آکر تھوڑا ٹائم پاس ہی کیا جائے دونوں کا۔۔ کیا کہتی ہو تو پھر کب آئوں۔۔۔شیطانیت سے کہتا پری کا سکون برباد کرگیا۔۔۔

بکواس بند کرو مم۔ مر جائو وہیں۔ کرب سے چیختی پوری قوت سے موبائل دیوار پر دےمارا۔۔۔اور زمین پر بیٹھتی پھوٹ پھوٹ کر روتی چلی گئی۔۔۔
اور دوسری طرف شہریار کا غصے سے برا حال تھا۔۔۔اب تو آنا ہی پڑے گا بکری ۔۔۔

مشال سے تو اپنے دل کی دھڑکنے ہی نہیں سنبھالی جارہی تھی۔۔ہر کام اس سے الٹا ہورہا تھا۔۔۔
چہرے پر ایک پیاری سی مسکان بھی تھی اور ڈر بھی لگ رہا تھا اسے دراب سے۔۔۔کتنا عجیب ہوگیا تھا۔۔۔بار بار کان میں اسکے الفاظ گونج رہے تھے۔۔۔

Episode #6 Tera Ashiq May Diwana Ho Awara Mehwish Ali Novels



#تیرا_عاشق_میں_دیوانہ_ہوں_آوارہ💞
#از__مہوش_علی
#قسط__06

سفیان تیز تیز چلتا حور کے کمرے تک آیا۔۔۔اور پھر آہستہ سے دروازہ کھول کر اندر داخل ۔۔۔حور جو آدھی بیڈ اور آدھی زمین پر تھی۔۔دروازہ کھلنے پر جلدی سے اٹھی اور دیکھا تو سفیان تھا۔۔۔اسنے اسے دیکھ کر غصے سے منہ پھیرلیا۔۔
آئسکریم کیوں نہیں کھائی تھی حور؟؟۔۔۔۔وہ چلتا اسکے سامنے آیا۔۔۔اور اسکے غصے والے چہرے کو اپنے نظروں میں رکھ کر پوچھا۔۔۔۔
آپنے مجھے دی اب میں کھائوں یا پھینکوں اس سے آپکو کیا۔۔اور آپ میرے کمرے میں کیوں آئے ہیں۔۔اسنے سفیان کی نظروں سے چڑتے کہا۔۔
پہلے تو تم ایسی  نہیں تھی حور اب کیوں ایسے بے روکھی سے بات کر رہی ہو۔۔اسنے حور کا ہاتھ پکڑ کر نرمی سے پوچھا۔۔۔
کیونکہ پہلے آپکا دماغ اتنا گندہ نہیں تھا۔۔پہلے آپکی نیت بھی صاف تھی۔۔اور چھوڑو میرا ہاتھ تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرا ہاتھ پکڑنے کی۔۔۔میں ابھی سب کو بتادوں گی آپنے مجھے جانم کہا۔۔حور نے اپنی جان چھڑوانے کے لیے اسے دھمکی دی۔۔
دماغ اور نیت کی تو تم بات نا کرو یہ دونوں تو بچپن سے ہی تم پر لٹو ہیں۔۔انکے بس میں ہوتا تو ابھی تک پتا نہیں کیا سے کیا ہوجاتا۔۔یہ تو میرا معصوم دل ہے جو انہیں کنٹرول میں کیا ہوا ہے۔۔۔
اور رہی بات ہاتھ پکڑنے اور ہمت کی۔
۔۔جہاں تم ہاتھ کی بات کر رہی ہو تو سنو (اسنے ایک جھٹکے سے اسکی نازک کمر میں ہاتھ ڈال کر خود کے قریب کیا)تم پوری کی پوری میری ہو ، تمہیں بنایا ہے میرے لیے گیا ہے۔۔۔تمہاری سانسیں تمہارے سرخ ہونٹ اسکے لبو پر انگوٹھا پھیرتے ہوئے ۔۔۔بول رہا تھا اور حور کی سانسیں اسکی انتہائی قربت سے اکھڑ رہی۔۔کب اسنے سفیان کا یہ روپ دیکھا تھا۔۔۔ایسا روپ تو اسنے آج پہلی دفعہ دیکھا تھا۔۔اور تمہارے پورے وجود پر صرف سفیان ملک کا حق ہے وہ بھی بہت جلد سب کی رضامندی سے حاصل کرلوں گا یہ حق۔۔۔

اور ہمت تو وہ تم دیکھ لو۔۔۔کہنے کے ساتھ ہی اسنے اپنے دہکتے لب حور کی گردن پر رکھ دئے۔۔۔جس سے اسکے پورے وجود میں کرنٹ پھیل گیا۔۔سانسیں تو پہلے ہی اکھڑ رہی تھی اب تو جیسے بند ہوگئی تھی۔۔۔چشمے کے پیچھے خوبصورت آنکھوں سے سفید موتی گالوں پر بہنے لگے۔۔۔پورا وجود سفیان کی قید میں ٹھرٹھر کانپ رہا تھا۔۔
۔

اسے سفیان سے گھن آرہی تھی۔۔۔۔
ایک جھٹکے سے خود کو چھڑواتی ایک زوردار تھپڑ اسکے چہرے پے دے مارا۔۔۔
چٹاخ۔۔۔۔کی آواز کے ساتھ وہ ہوش کی دنیا میں آیا۔۔اور بےیقینی سے حور کو دیکھا جو ٹھرٹھر کانپتی رو رہی تھی۔۔پر چہرے پر دنیا جہاں کی نفرت اور غصہ لیے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔
تمہاری ہمت کیسے ہوئی گھٹیا انسان میرے ساتھ ایسا کرنے کی۔۔اور کون سے حق کی بات کر رہے ہو کیا ہم شادی شدہ ہیں یا تم میرے شوھر ہو۔۔ میں تمہاری بیوی ہوں۔۔۔

یا تمنے  مجھے بھی دوسری لڑکیوں کی طرح سمجھاہے جسے جب چاہو اپنے ہوس کا شکار بنالو۔۔۔کیا سمجھا ہے تمنے مجھے کیا ایک طوائف ہوں میں ۔۔۔کب سے تمہارا گھٹیاپن چپ چاپ دیکھ رہی ہوں تم تو سر پر ہی چرھنے لگے۔۔۔وہ چیختی اسکا گریبان پکڑ کر غصے سے جھنجھوڑ رہی تھی۔۔

سفیان کی آنکھوں سے مانو جیسے خون ٹپک رہا تھا اسکی باتوں پر۔۔۔کیا وہ سچ میں اسے ایک گھٹیا لوفر آوارہ سمجھتی تھی۔۔۔کیا اسکی نظر میں وہ ایک ہوس پرست تھا۔۔۔اسکی بچپن کی محبت کو وہ ہوس کہہ رہی تھی۔۔۔یہ اوقات تھی یہ امیج تھی اسکی نظر میں میری۔۔۔

اچانک سفیان نے غصے میں سختی سے اسکے بازوں سے پکڑا ۔۔حق دیکھنا ہے نا تمہیں تو دیکھائوں گا حق بہت جلد دیکھ لینا حق۔۔۔اور جو تم میری محبت کو ہوس یا گھٹیاپن سمجھ رہی ہو وہ بھی دیکھائوں گا تمہیں کہ حقیقت میں ہوس اور گھٹیاپن کسے کہتے ہیں ۔۔ابھی تم میرے ذرا سا چھونے پر ہی خود کو طوائف سمجھ رہی ہو خود کو ایسی بیہودہ گالیاں دے رہی ہو تو بعد میں دیکھتا ہوں کیا کرتی ہو۔۔۔یہ تو شکر تھا سب لائونج میں تھے ورنہ دونوں کی گفتگو سن کر پتا نہیں کیا کرتے۔۔۔

سفیان ایک آخری نظر اس پر ڈالتا افسوس اور جنون سے کہتا اسے بیڈ پر پھینکتا کمرے سے نکلتا چلاگیا۔۔۔
اور پیچھے کتنی دیر حور کو تو کچھ سمجھ نا آیا۔۔کیا ہوا کیا کہہ کر گیا۔۔۔صرف خالی پن سے روتی چلی گئی۔۔۔سیفی بھائی ایسا کیسے کرسکتے ہیں میرے ساتھ۔۔۔وہ ایسے کیوں ہوگئے ہیں۔۔۔وہ بیڈ پر اوندھی پڑی پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔۔۔


پھر سارا دن پری وہ دونوں کمرے میں بند رہی۔۔۔پری کو شیری کا ڈر تھا اور حور سفیان کا دکھ بچپن سے وہ اس پر کسی کی سخت نظر برداشت نہیں کرتا تھا۔۔اسکا بہت خیال رکھتا تھا۔۔اگر وہ کوئی غلطی کر دیتی تو اسے بچانے کے لیے وہ اسکی غلطی اپنے سر لے لیتا۔۔۔۔اور آج وہ خود اسے تکلیف دے رہا تھا۔۔۔
گھر میں سب پریشان تھے کہ اچانک دونوں کو ہوکیا گیا ہے۔۔پری کا تو سمجھ رہے تھے کہ شاید شہریار کے واپس آنے کی خبر اسے پتا لگ گئی ہوگی۔۔۔پر حور کو کیا ہوا ہے ۔۔۔کسی کو سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔۔وہ تیز بخار میں تپ رہی تھی۔۔۔بار بار پوچھنے پر بھی اسنے کچھ نا بتایا تو سب چپ ہوگئے تھے۔۔۔سب نے سوچا شاید کسی چیز سے ڈر گئی ہوگی۔۔۔وہ تھی ہی ایسی چھوٹی بات پر ڈرنے والی ۔۔۔
عالیہ بیگم نے پری کو سمجھا دیا تھا کہ شیری اپنے کیے پر بہت شرمندہ ہے اسنے جو کچھ کیا اسکے لیے معافی چاہتا ہے پری سے۔۔۔یہ سب شیری نے حماد صاحب سے معافی مانگتے ہوئے کہا۔۔۔اور پری کو دکھ دینے کی بھی معافی مانگی ۔۔۔احمد صاحب بہت خوش تھے کہ انکے غصیلے بیٹے کو کچھ عقل تو آئی۔۔۔اب خوشی سے سب اسکی واپسی کا انتظار کر رہے تھے۔۔۔
اور دوسری طرف نوشین کی  شادی باتیں چل رہی تھی۔۔
اور حماد صاحب نے نوشین کی شادی کے ساتھ دراب کے لیے بھی ایک فیصلا لیا تھا۔۔۔جو اب صرف سب سے شیئر کرنا تھا۔۔۔
💞💞💞💞

پاپا۔۔۔سفیان فراز صاحب کے کمرے میں داخل ہوتے انہیں پکارہ ۔۔جہاں فراز صاحب اور حسن بیٹھے بزنس کے بابت باتیں کر رہے تھے سفیان کی پکار پر دونوں اسکی طرف متوجہ ہوئے۔۔۔
مل گیا لاڈ صاحب کو اپنے باپ کے لیے وقت۔۔۔حسن نے اسے ہاتھ سے پکڑ اپنے ساتھ بٹھایا۔۔۔اور فراز صاحب نے اسکے سپاٹ چہرے کو دیکھ کر ٹوکا جس پر وہ بغیر شرمندہ ہوئے اپنی بات پر آیا۔۔۔
پاپا مجھے کچھ کہنا ہے۔۔۔
کیوں مجھ سے کچھ نہیں کہنا۔۔۔حسن نے اسکے سرخ چہرے کو دیکھ کر پوچھا اسے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا تھا۔۔۔
دونوں سے کہنا ہے۔۔۔اسنے اپنے ہاتھ کو گھورتے ہوئے بولا ۔۔۔اسکے آواز میں عجیب سا خالی پن تھا جو دونوں کو اسکی طرف متوجہ ہونا پڑا ۔۔۔
فیاض فراز عالیہ اور عائمہ چارو بھائی بہن تھے ۔۔فیاض امریکہ میں رہتا تھا اپنے ایک بیٹے کمیل اور بیگم نسرین کے ساتھ۔۔
فراز کے دو بیٹے تھے بڑا حسن چھوٹا سفیان ۔۔اور انکی بیگم  فاطمہ جب سفیان تین سال کا تھا تب ہی اس دنیا سے چل بسی تھی۔۔تب سے فراز نے دونوں کو اپنے جان سے لگا کر پالا تھا۔۔سیفی تھوڑا کبھی کبھی ضدی ہوجاتا تھا پر دل کا بہت اچھا تھا۔۔۔
ہاں بتائو میں سن رہا ہوں۔۔۔
پاپا میں حور سے شادی کرنا چاہتا ہوں اور آپ دونوں میرے رشتے کی بات کریں وہاں۔۔۔اسکے دھماکے پر کچھ دیر تو دونوں ہی دیکھتے رہے اسے پھر دونوں کے ایک ساتھ قہقہہ لگا۔۔۔
اب بڑے  ہوجائو سیفی 21 سال کے ہوگئے ہو۔۔۔اور اب حور بھی تین سال کی بچی نہیں انیس سال کی ہے۔۔۔حسن نے ہنستے ہوئے اس سے کہا۔۔۔
بھائی میں سیریس ہوں مجھے حور سے شادی کرنی ہے بس۔۔اب دونوں کو سیریس ہونا پڑا سفیان کے بگڑے موڈ کو دیکھ کر۔۔۔
پر سفیان ایسا کیسے ہوسکتا ہے ابھی تو اسکی اسٹیڈی کمپلیٹ نہیں ہوئی۔۔اور ابھی حسن کی شادی کی بات چل رہی ہے ایسا ابھی ناممکن ہے۔۔۔احمد صاحب ہی ایسا نہیں ہونے دینگے کیونکہ ابھی انکی بڑی بیٹی مشال بیٹھی ہے۔۔
اسکے انکار پر سفیان نے اپنی سرخ آنکھوں سے انہیں دیکھا۔۔
کیا ہوا ہے سیفی سب ٹھیک ہے۔۔۔حسن نے اسکی سرخ آنکھوں میں دیکھ کر پوچھا۔۔جس کا اسنے کوئی جواب نہیں دیا۔۔
کیا بھائی صرف نکاح بھی نہیں ہوسکتا۔۔۔اسنے امید سے حسن کو دیکھا کچھ بھی ہوجاتا یہ تو طے تھا حور کو اپنے نام  تو دینا تھا اسے اپنا حق تو دیکھانا تھا اسے۔۔۔
بات سمجھنے کی کوشش کرو سفیان۔۔۔فراز صاحب نے ابکی بار کچھ سخت لہجے میں کہا۔۔۔
ٹھیک ہے میں سمجھ گیا۔۔کچھ سوچ کر کہتا وہ وہ بنا دونوں کی طرف دیکھے جس طرح آیا تھا اسی طرح سپاٹ چہرہ لیے چلاگیا۔۔۔
اسے کیا ہوگیا ہے ۔۔اچانک کیسے شادی کا بھوت سر پر سوار ہوگیا ہے۔۔فراز صاحب نے حسن کی طرف دیکھ کر کہا۔۔
آپ پریشان نا ہو میں دیکھتا ہوں ۔۔وہ انہیں دلاسہ دیتے ہوئے سفیان کے کمرے میں آیا پھر اس سے کافی پوچھنے کے بعد بھی کچھ نا بتایا ۔۔پر اسے یقین تھا کچھ غلط نہیں کرے گا۔۔۔
پر حسن یہ نہیں جانتا تھا.  اس بار بات دل اور حور کی جس پر یقین کرنا بے وقوفی تھی۔۔۔

کافی دن گذر گئے تھے۔۔۔سفیان یونی نہیں آرہا تھا۔۔حور شاید دیکھنا بھی نہیں چاہتی تھی اسے۔۔
پری کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔جہاں شیری موبائل پر اس سے کیسی باتیں کی تھی جس تو اسے نہیں لگ رہا تھا کہ وہ سدھر گیا ہے۔۔پر دوسری طرف وہ سب سے اپنی کی گئی زیادتی کی معافی مانگ رہا تھا۔۔وہ تو بلکل الجھ گئی تھی شیری کی چالاکی میں ۔۔پر یہ شکر تھا وہ ابھی آنہیں رہا تھا کیونکہ کمیل اسکا کزن بھی ساتھ آرہا تھا اور اسے ابھی کچھ کام تھا اس لیے کسی بھی وقت آسکتے تھے۔۔


مشال تم ذرہ دراب بھائی کو چائے دیکر آئو میں سب کے لیے لیکر جارہی ہوں۔۔نوشین اسے کچن میں آتا دیکھ بولی۔۔
میں کیوں آپ پری یا حور کو بولو۔۔۔اسنے تو سنتے ہی جھٹ سے انکار کردیا۔۔۔


Episode #7 Tera Ashiq May Diwana Ho Awara Mehwish Ali Novels


وہ ایسی تھی نہیں پر تپا نہیں کیوں اسے آج کل دراب کچھ عجیب سا لگ رہا تھا۔۔۔ جیسے اس دن کمرے میں ۔۔اسکے بارے میں سوچتے ہی سرخ ہوگئی۔۔جیسے اسے گھور گھور کر دیکھتا۔۔۔اففف۔۔۔اور وہ اسکے لفظ جو مسلسل اسکے کانوں گونج کر اسکی نیندیں اڑادیں تھیں۔۔۔۔اس وجہ سے وہ اس سے گھبرا رہی تھی۔۔۔
بکواس بند کرو اور لیکر جائو کام چور کہیں کی۔۔نوشین اسے جھڑکتی ٹرے اٹھا کر باہر لان میں چلی گئی جہاں سب بیٹھے تھے۔۔۔پیچھے مشی منہ بنا کر رہ گئی۔۔میں نہیں جارہی خود ہی حور یا پری دےکر آئے گی۔۔۔جاکر کہتی ہوں انسے۔۔۔وہ خود سے کہتی جیسے ہی مڑی تو سامنے ہی جس سے بھاگ رہی تھی وہ موجود تھا۔۔۔
کیوں نہیں تم لیکر آرہی تھی۔۔وہ مصنوعی غصے سے کہتا تھوڑا آگے آیا۔۔۔تو مشال خودبے خود پیچھے ہٹی تو کائونٹر سے جا لگی۔۔۔

دراب نے آگے بڑھ کر کائونٹر کے دونوں طرف ہاتھ کر اسے بلکل قید کرلیا اپنے حصار میں۔۔۔بتائو ۔۔۔اسنے پھر سے اسکے کان میں پوچھا۔۔
مشال اسکی اتنے قریب ہونے پر سانس روک گئی۔۔۔پھر گھبراہٹ میں ہمیشہ کی طرح جو منہ میں آیا بول گئی۔۔۔
وہ دد۔۔دراب بب۔۔بھائی پیر میں تھوڑی موچ آگئی تھی اس لیے۔۔۔اسکے بہانے پر دراب اپنی  مسکراہٹ کو روکنے لگا۔۔۔

مشال نے ڈرتے گھبراتے آنکھیں اوپر کر کے اسے دیکھا۔۔۔تو وہ اسے ہی دیکھ رہا اپنے جذبوں سے چوڑ آنکھوں سے۔۔۔اسنے فوراً نظریں جھکالی۔۔۔
کوئی آجائے گا۔۔۔دراب بھ۔۔اسکا ابھی فقرہ منہ میں ہی تھا۔۔جب دراب نے اسکے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ دیا۔۔۔
شش۔۔۔پھر اسکا چہرہ اوپر کر کے بولا۔۔۔
 مشال کیا تم میری ہمسفر بنوگی۔۔۔اسکی بات پر مشال کی آنکھیں پھٹ گئی۔۔شرم سے چہرہ سرخ ہوگیا۔۔۔اسے  ڈر تھا کہ کوئی آ نہ جائے۔۔۔

دراب تو جیسے اسے پاگل لگ رہا تھا۔۔پرپوز کر رہا تھا۔۔کس جگہ پر کچن میں۔۔۔اگر کسی اور کی بات ہوتی تو وہ ہنس ہنس کے پاگل ہوجاتی۔۔اور پتا نہیں کتنا مذاق اڑاتی اسکا۔۔۔پر یہاں تو اسکا ہی مذاق بنا ہوا تھا۔۔۔اسے دراب کی بیوقوفی پر رونا آرہا تھا۔۔۔
دراب بھی شاید کچھ سمجھ گیا تھا۔۔۔اپنی بیوقوف حرکت پر شرمندہ سا مسکراتا پیچھے ہٹا۔۔۔
اور بالوں میں ہاتھ پھیڑتا اپنی مسکراہٹ دبا کر یہاں وہاں دیکھنے لگا۔۔۔
مشال کے چہرے پر بھی نا دکھنے والی مسکان تھی۔۔۔
کیا کروں یار تمہیں دیکھنے کے بعد دل پر کنٹرول ہی نہیں رہتا۔۔۔یہ سب اس دل کی بیوقوفی ہے میرا کوئی ارادہ نہیں تھا تہیں کچن میں پرپوز کرنے کا۔۔۔۔خیر میں تمہارہ انتظار کروں گا۔۔۔کمرے میں۔۔۔وہ اسکے کان میں

 سرگوشی کرتا چلاگیا۔۔۔مشال پر ایک اور بم گرا کر۔۔۔۔
یہ کیا کہہ رہا ہے پاگل تو نہیں ہے میں کیوں جائوں روم میں ۔۔۔پہلے ہی کہہ رہا ہے تمہیں دیکھنے کے بعد کنٹرول نہیں رہتا ۔۔ پھر پتا نہیں ۔۔۔توبہ توبہ مشی کیا سوچ رہی ہو۔۔۔پہلے اسکا نقل اتارتی پھر ۔۔اپنی سوچ پر توبہ کرنے لگی۔۔۔

فراز صاحب اب حسن اور نوشین کی شادی کرنا چاہتے تھے اس لیے آج وہ ملک ولا میں شادی کی تاریخ لینے آئے تھے۔۔۔
انہونے تو کچھ دن پہلے ہی بتادیا تھا۔۔اب سب کی رضامندی سے شادی کی تاریخ کے بابت سب لائونج میں بیٹھے بات کر رہے تھے۔۔۔۔
پھر ایک مہینے کے بعد کی تاریخ رکھی گئی۔۔۔حماد صاحب نے دوسرہ بھی فیصلا سب کو بتا دیا تھا کہ نوشین سے دراب بڑا ہے اس لیے اسکے ساتھ ہم دراب کی بھی شادی کر رہے ہیں۔۔اب اتنے اچھے فیصلے پر کس کو اختلاف ہوسکتا تھا۔۔پھر سب خوشی سے راضی ہوگئے۔۔اب مشال اور نوشین کی شادی ساتھ میں تھی۔۔۔
نوشین کو تو پتا تھا اسکے شادی کے دن قریب ہیں پر مشال پر اچانک ایک کے بعد ایک حادثوں سے بکھلائی ہوئی تھی۔۔
اس سے عائمہ بیگم نے ساتھ بیٹھ کر محبت سے اسکی رائے پوچھی۔۔اور اسے سمجھایا بھی۔۔۔وہ دل سے تو دراب کے لیے راضی تھی۔۔اپنے رب کی بہت شکرگذار تھی کہ جس مخلص شخص کے لیے دل نے دھڑکنا سیکھا ۔۔اب تاعمر اسکے لیے ہی دھڑکے گا۔۔۔پھر اسنے شرماکر ہاں کردی۔۔۔عائمہ بیگم  خوشی  ہوگئی۔۔۔۔
حماد صاحب نے دراب سے پہلے ہی اسکی رائے لے لی تھی۔۔اور دراب کو مشال کے علاوہ چائیے ہی کیا تھا۔۔۔
گھر میں سب کے چہرے پر خوشی کی ایک مسکراہٹ تھی اور حور اور پری کی خوشی کا کوئی ٹھیکانہ ہی نہیں تھا۔۔
دونوں اپنی اپنی پریشانی بھول کر خوشی میں مگن تھیں۔۔
وقت کم تھا اس لیے سب تیاریوں میں مگن تھے۔۔۔
دراب کے بلانے پر مشال نہیں گئی تھی اسکے کمرے میں۔۔۔اور اس بات پر دراب کو غصہ نہیں مزید پیار آیا مشال پر۔۔۔وہ بہت خوش تھا۔۔۔مشال جیسی جیون ساتھی ملنے والی تھی۔۔۔جیسے محبت سے پہلے اپنی عزت کی فکر تھی رشتے کی فکر تھی۔۔اسکا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ سچ میں کچھ غلط کرتا اسکے ساتھ۔۔۔وہ تو صرف اسے اپنی محبت کا اظہار کرنا چاہتا تھا۔۔۔جو جذبات میں آکر اسنے کچن میں ہی اقرار کردیا اور مشال کے سامنے خود کو بیوقوف ثابت کردیا وہی غلطی درست کرنا چاہتا تھا۔۔۔پر اب اسنے شادی کی فرسٹ نائیٹ کو ہی اظہار کے لیے چنا تھا۔۔۔اب اسے اس کا بےصبری سے انتظار تھا۔۔۔کہ کب مشال مکمل اسکے دسترس میں آئے گی۔۔۔اور اس سب کے بعد دراب کو چاہے کیا تھا ۔۔۔

💞💞💞💞

حور سفیان کے چہرے سے ناکوئی غصہ محسوس کر رہی تھی نا کوئی شرمندگی۔۔۔وہ بغیر تاثرات چہرا لیے آتا اور سب سے ہنسی مذاق ملنے کے بعد واپس چلا جاتا۔۔۔اسنے سوچا کہ وہ اس سے کہہ رہا تھا حور تم پہلے تو ایسی نہیں تھی۔۔۔پر اب خود کو نہیں دیکھتا پہلے غلطی کرنے پر سوری کرتا تھا اس سے بات کرنے کی کوشش کرتا تھا پر اب ایسا کچھ نہیں تھا۔۔۔وہ بلکل بدل گیا تھا۔۔۔اسے سفیان کے بدلنے پر بہت رونا آرہا تھا۔۔۔کچھ بھی تھا۔۔وہ اسے لوفر آوارہ کہتی تھی پر وہ اسے اپنے بچپن کا دوست مانتی تھی۔۔کبھی کبھی اسکی حرکتوں سے چڑجاتی تھی اسکے ذو معنی الفاظوں سے چڑتی تھی جو اسے بلکل سمجھ نہیں آتے تھے پر اب وہ بلکل سمجھ گئی تھی۔۔۔اسے سفیان کی جو حرکتیں تھی ان سب سے جیسے نفرت ہونے لگی تھی۔۔۔۔
اور اب وہ بھی سب کچھ بھلانے کی کوشش کرتے شادی کی خوشی میں مگن تھی۔۔۔۔
وہ بھی ظاہر اسے کر رہی تھی جیسے اسے اب سفیان سے نفرت ہے اسکے آنے اور جانے سے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔۔۔۔
اور یہی سب سفیان کو اپنے فیصلے کو مزید مضبوط بنا رہا تھا۔۔۔اسنے سوچ لیا تھا اسے اب کیا کرنا ہے ۔۔۔اسکے لیے اسنے مکمل تیاری کرلی تھی۔۔اب صرف اچھے موقعے کا انتظار تھا۔۔۔اور اسے پتا تھا اسے بہت جلدی ملنے والا ہے۔۔۔یہ موقعہ۔۔۔
💞💞💞💞

شام کا ٹائم تھا۔۔۔سب گھر پر تھے۔ حماد صاحب احمد صاحب اور دراب تین روم میں بیٹھے بزنس کی باتیں کر رہے تھے۔۔۔
عالیہ بیگم اور عائمہ بیگم مل کر شادی کے بابت ڈسکس کر رہی تھی۔۔انہیں بہت تیاری کرنی تھی۔۔۔لائونج میں صوفے پر بیٹھی تھیں۔۔۔مشال تو اب دراب کے سامنے نہیں آرہی تھی ۔۔ایک ہی گھر میں وہ اس سے چھپی چھپی پھر رہی تھی۔۔جو کافی مشکل تھا۔۔۔ابھی بھی وہ اپنے کمرے میں تھی۔۔۔
نوشین پری اور حور کے لیے کچھ چٹپٹا کھانے کو بنا رہی تھی۔۔ان کی فرمائش پر۔۔۔عائمہ بیگم کے بہت بےعزتی کرنے کے بعد بھی وہ دونوں ڈھیٹ کی ڈھیٹ تھی۔۔دونوں کا کہنا تھا پھر کہاں ایسے دن ملیں گے کچھ دنوں کی دلہن کے ہاتھ سے کھانا بنانے کے۔۔۔۔
اور اب وہ بیچاری کچن میں تھی اور یہ دونوں عالیہ بیگم اور عائمہ بیگم کی کبھی باتیں سنتی تو کبھی خود میں کھسر پھسر کرتی۔۔۔۔
پری آدھی صوفے پر تھی اور آدھی زمین پر۔۔۔اور حور دونوں پائوں اوپر کرکے بیٹھی تھی۔۔۔دونوں ایسی پوزیشن میں تھی جب پری کے کان میں ایک جانی پہچانی اور ایک انجان آواز کان میں پڑی۔۔۔۔جو جانی پہچانی تھی اس پر اسکا سانس رک گیا تھوڑی دیر پہلے کی خوشی ہوا ہوگئی اور جھلملاتے چہرا سفید پڑ گیا۔۔
السلام علیکم ۔۔۔دو مردانہ آوازیں لائونج میں گونجیں۔۔۔جس پر سب کا چہرا کھل اٹھا ۔۔۔
شہریار بھائی اور کمیل بھائی۔۔۔آگئے۔۔۔سب سے پہلے حور چیخی۔۔۔
اور وہ دونوں مسکراتے ہوئے اندر آئے۔۔۔پری جلدی سے اٹھ کر بیٹھی۔ اور اپنا بلیک دوپٹا اپنے اوپر اوڑھ لیا۔۔۔
وہ دونوں بھرپور انداز میں مسکراتے ہوئے سب سے ملنے لگے۔۔۔


Episode #8 Tera Ashiq May Diwana Ho Awara Mehwish Ali Novels online read


کمیل سب سے مل کر جب پری کے سامنے آیا تو اسے دیکھا وہ بلیک دوپٹے اوڑھے کوئی گڑیا ہی لگ رہی تھی۔۔۔۔
who is this pretty doll.
اسنے مسکرا کر سب  پوچھا۔۔اسکے پوچھنے پر سب مسکرا دئے۔۔سوائے شیری کے۔۔۔۔
یہ pretty doll میری سسٹر ہے۔۔حور نے اسے گلے سے لگاتے جواب دیا۔۔۔
کمیل اسے اپنی گہری نظروں سے دیکھ کر سلام کرتا اسکی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔
پری ہڑبڑا گئی۔۔۔اسنے ہاتھ کے بجائے اٹکتے سلام کرڈلا۔۔۔جس پر کمیل کے ساتھ سب مسکرادیے۔۔۔۔ اور یہ سب شیری کو ایک آنکھ نا بھا رہا تھا۔۔۔۔۔۔ 
آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔۔۔اسنے پری کو دیکھ کہا جس پر وہ زبردستی مسکرائی۔۔

شیری سب سے ملا سوائے پری کے مشال حور اور نوشین کے سر پر پیار کیا۔۔۔اور انہیں کو خوش رہنے کی دعا دی۔۔۔ بڑے سب کمیل سے باتوں  میں لگ گے دراب بھی شہریار سے ملا اسے خوشی تھی کہ وہ اب پری سے دور رہے گا۔۔۔ویسے بھی وہ اسے پیارا بھی بہت تھا۔۔اس سے چھوٹا تھا مگر ایسا فیل ہوتا جیسے بڑا ہو۔۔۔
کسی نے شیری کو پری سے ملنے کے لیے نہیں کہا کیونکہ وہ جانتے تھے شیری تو سدھر گیا تھا پر پری کے چہرے سے ڈر صاف نظر آرہا تھا۔۔

شیری سب بڑوں سے مل کر چہرے پر ایک نرم مسکراہٹ لیے پری کے پاس صوفے پر بیٹھ گیا۔۔۔جس پر پری حور کی طرف کھسکنے لگی۔۔وہ بلکل اسکے ساتھ چپکی بیٹھی تھی۔۔

تم نہیں ملے اس سے شیر۔۔۔کمیل نے شیری سے کہا وہ اسے شیر ہی کہتا تھا۔۔۔اسنے پری کی طرف اشارہ کرتے کہا۔۔۔۔جس پر پری پہلے ہی شیری کے ساتھ بیٹھنے پر مر رہی تھی۔۔۔کمیل کی بات پر اسکا سر خودبےخود نفی میں ہلا۔۔وہ رونے جیسی ہوگئی۔۔۔اسکے کانوں میں شیری کے کچھ دن پہلے والے الفاظ گونجنے لگے۔۔۔
پری جائو سب کے لیے ملازم کو جوس لانے کا کہو

۔۔۔نوشین اسکی حالت دیکھ کر اسے یہاں سے نکالنا ہی صحیح سمجھا۔جس پر کمیل نے اشارے سے پوچھا تو شیری نے مسکرا کر کہا۔۔۔
کچھ نہیں یار بہت احساس ہے اور پتا نہیں کیوں مجھ سے ڈرتی رہتی ہے۔۔۔میں تو آج تک اسکے ڈر کو سمجھ نا سکا۔۔۔خیر چھوڑو تم انجوائے کرو میں فریش ہوکے آتا ہوں ۔۔۔وہ اس سے کہتا ۔۔۔پھر سب سے ٹھکن کا بولتا لائونج سے نکلتا چلا گیا۔۔۔


پری ملازمہ کو ٹھنڈہ لائونج میں لانے کا بول کر خود جلدی سے اپنے کمرے میں آئی۔۔شیری کے آنے سے اسکے اندر بے سکونی پھیل گئی تھی۔۔۔اور وہ اب خود کو جیسے اکیلا  محسوس کر رہی تھی۔۔اسے اب سمجھ میں آیا تھا کہ شیری نے سب سے معافی کیوں مانگی ہے وہ اب سب کی نظروں میں صاف خود کو دیکھانا چاہتا تھا۔۔اور 
اکیلے میں۔۔۔۔

نن۔۔نہیں مممجھے چھپنا ہہ۔۔ہوگا اس سے۔۔پھ۔۔پھر وہ ممجھے نہیں مم۔۔مارے گا۔۔وہ کسی پاگل کی طرح خود سے کہنے لگی۔۔۔اور اپنے چھپنے کی جگہ ڈھونڈنے لگی۔۔۔
اسکے انداز سے ہی لگ رہا تھا کہ وہ کوئی پاگل ہے۔۔
پپ۔۔پلیز اااللہ مجھے بچالو۔۔۔وہ اوپر دیکھ کر دعا مانگنے لگی۔۔دروازے کی طرف اسکی پشت تھی وہ اپنی دعا اور ڈر میں کھوئی ہوئی تھی۔۔اس لیے وہ کسی کا اندر آنا اور دروازہ بند کرنا محسوس نا کر سکی۔۔
جب اچانک کسی نے اسے پیچھے سے اپنے حصار میں لیا۔۔اور  اسے چیخنے چلانے کا موقعہ دئے بغیر منہ پر اپنا بھاری ہاتھ رکھ دیا۔۔۔۔

اسکی تو ایسی حالت ہوگئی تھی جیسے موت کا فرشتہ دیکھ لیا ہو۔۔۔
کیسے رہے وائفی میرے بغیر تمہارے اداس مہینے۔۔۔مجھے یقین ہے بہت مس کیا ہوگا مجھے۔۔ ہے نا۔۔۔وہ اسکے کندھے پر اپنا سر رکھ کر بہت پیار سے بولا ۔۔پری کا منہ ویسے ہی بند کیا ہوا تھا۔۔۔کمر پر ایک ہاتھ کی پکڑ اتنی سخت تھی کہ پری کو لگا ابھی اسکی ساری پسلیاں ٹوٹ جائیں گی۔۔۔خوف درد سے اسکی آنکھوں میں آنسوں بہنے لگے۔۔۔وہ اس ظالم کے مضبوط حصار میں کسی زخمی ہرنی کی طرح پھرپھرا رہی تھی۔۔۔

اففف میں بھی کتنا بیوقوف ہوں منہ پر ہاتھ ہے میرا پھر تم بتائو گی کیسے مجھے۔۔۔۔کہ کتنا مس کیا۔۔۔وہ خود پر ہنستا کہنے لگا۔۔۔پری کو وہ دنیا کا سب سے ذیادہ حیوان شخص لگا۔۔۔
پر ہاتھ ایک شرط پر ہٹے گا اگر تم چلائی نہیں۔۔۔۔شیری اسکے کان میں پوچھنے لگا۔۔۔پری کا دم گھٹنے لگا تھا وہ تھی ہی ایک معصوم نازک سی ۔۔۔وہ خود سے اسکا ہاتھ ہٹا رہی تھی۔۔۔جب اسنے اسکے پیٹ پر انگلیوں کی پکڑ مضبوط کی جس پر وہ تڑپ اٹھی۔۔۔۔بتائو چلائو گی تو نہیں بکری۔۔۔۔۔وہ اسے دھمکانے والے انداز میں پوچھنے لگا۔۔۔۔

جس پر پری نے بچنے اور سانس لینے کے لیے جلدی سے نا میں سر ہلانے لگی۔۔۔۔۔
گڈ گرل مجھے تم سے یہی امید تھی۔۔۔۔کہنے کے ساتھ ہی اسنے اپنا ہاتھ ہٹایا اور وہی ہاتھ اسکے گرد باندھ لیا۔۔۔پھر اپنے لب اسکی گردن پر مس کیے۔۔۔۔پری جو بلکل مرنے جیسی ہوگئی تھی لمبے لمبے سانس لے رہی تھی۔۔۔شیری کی اس حرکت پر اسکے منہ سے ایک مدہم سی چیخ نکلی۔۔۔۔
اوہ۔۔۔میری بکری یہ تو چیٹنگ ہے تمنے کہا چلائو گی نہیں ۔۔۔شیری نے اسکا رخ اپنی طرف کرتے بچوں کی
 شکایت کی۔۔پری خوف سے کپکپاتی رو رہی تھی۔۔۔

پپپ۔۔۔پلیز ممم۔مجھے جانے دو۔۔ممینے کک۔۔کیا کیا ہے۔۔۔وہ اسکے سامنے التجا کرنے لگی۔۔۔پر شیری کی نظر اسکے پھڑکتے نازک سرخ ہونٹوں پر تھی۔۔۔اسکی آنکھوں میں خمار پھیل گیا۔۔۔۔اسکا ہاتھ اسکے سرخ ہونٹوں کو چھونے کے لیے بڑھا پر پری نے اسکا ارادہ سمجھ کر اسکے چھونے سے پہلے ہی اپنے ہونٹ بھینج لیے۔۔۔
اسکی حرکت پر شیری نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔۔آنکھوں میں جیسے نشہ تاری تھا۔۔پری کو ڈر لگنے لگا ۔۔ اسکی رنگت زرد پڑ گئی اسے لگا وہ اب اسے مارے گا۔۔۔

کیا کیا ہے تمنے؟؟ ۔۔۔وہ اسکا سوال جیسے اس سے پوچھنے لگا۔۔۔
پہلے تو کچھ نہیں پر اب لگتا ہے بہت کچھ کر جائوگی۔۔۔اور اس سب میں میرا کوئی قصور نہیں کیونکہ مینے پہلے ہی کہا تھا انکار کردو۔۔۔پر تمنے میری سنی کہاں ۔۔۔وہ اسکی گردن پر انگلی پھیرتا اسے بتا رہا تھا۔۔۔اور پری کبھی گردن جھٹکتی تو کبھی خود کو آزاد کروانے لگتی۔۔۔دونوں ایسے لگ رہے تھے جیسے ایک ظالم دیو کی قید میں معصوم پری۔۔۔

دد۔۔دیکھو صرف ااایک سال پھر میں خخ۔۔خود طلاق دے دونگی۔۔۔آآآپکو۔۔۔۔وہ معصوم بچوں کی طرح اسے سمجھانے لگی۔۔۔طلاق کا مطلب تو وہ نہیں جانتی تھی پر سب کے منہ سے سننے سے بولی۔۔جس پر شیری نے ایک قہقہہ لگایا۔۔۔

کیا وائفی شوھر اتنے مہینے بعد آیا ہے اور تم ایسی باتیں کر رہی ہو۔۔تمہیں پتا نہیں کتنی ایکٹینگ کرنی پڑی ہے سب کو یقین ڈلانے کی شیری ایک اچھا بچا بن گیا ہے اور اپنی بکری کو اب نہیں مارے گا۔۔۔
اففف جانم پوچھو مت۔۔۔بہت کچھ کرنا پڑتا ہے سب کو اپنی طرف کرنے میں ۔۔۔اور اب تو سب کچھ ہے میرے پاس سب کا یقین ایک معصوم بکری جس کے ساتھ میں اپنا ٹائم پاس کردیا کروں گا ۔۔۔اور دونوں ساتھ مل کر کچھ

 رومانٹک ٹائم بھی گذاریں گے۔۔۔وہ اسے اپنا گھٹیا پلان بتانے لگا۔۔پری کی آنکھیں پھٹ گئی۔۔۔اسے وہ بلکل ایک نفسیاتی انسان لگ رہا تھا۔۔۔
ممم۔میں سب کو بب۔۔بتا دونگی آپکی اصلیت۔۔۔وہ اپنے آنسو صاف کرتی اسے دھمکانے لگی۔۔۔۔ایک معصوم امید کے ساتھ کہ سدھر جائے اور اسے سکون سے جینے دے۔۔۔

Episode #8  Part-2 Tera Ashiq May Diwana Ho Awara Mehwish Ali Novels


اسکی بات پر شیری کے چہرے پر غصا پھیلنے لگا۔۔۔جسے دیکھ پری کا سانس رک گیا وہ اپنے بچنے کی دعا کرنے لگی۔۔۔اور سختی سے آنکھیں میچلیں۔۔اسے پتا تھا وہ اب اسے مارے گا۔۔پچھلی دفعہ بھی ایسے ہی کیا تھا۔۔۔
پری کی اس معصوم حرکت پر شیری مسکرادیا پر اسکی مسکراہٹ میں بھی کمینگی تھی۔۔۔
اسنے ایک ہاتھ اسکی کمر سے آہستہ سے نکالا۔۔۔پری اور تیزی سے رونے لگی ۔۔۔ کوئی بھی اسے اس ظالم سے بچانے والے نہیں تھا ۔۔۔شیری کی مسکراہٹ اور بھی گہری ہوئی وہ لمحہ لمحہ اسکی کپکپاہٹ میں اضافہ کر رہاتھا۔۔۔

شیری نے اپنا ہاتھ اسکی گردن پر لپیٹ کر اسکا سر اونچا کیا .. پری کو کچھ بھی سمجھنے کا موقعہ دئے بغیر اس پر جھکا اور اسکے  ہونٹوں کو قید کر لیا۔۔۔۔
 پری کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ اسکے ساتھ کیا کررہا ہے۔۔۔۔وہ مسلسل روتی اسکے سینے پر مکوں کا وارکرتی۔۔اپنے آپ کو آزاد کروانے میں لگی ہوئی تھی۔۔۔۔اسکا سانس بند ہونے لگا تھا۔۔۔
جب اچانک شیری نے اسے اپنے قید سے آزاد کرواکے پیچھے بیڈ پر دھکا دیا۔۔۔پری بیڈ پر پڑی لمبے لمبے سانس لینے لگی۔۔۔جب شیری اس پر جھکا۔۔۔۔جس پر پری سانس لیتی منہ موڑ گئی۔۔۔
تمہیں پتا نہیں مجھے دھمکیوں سے کافی چڑ ہے یہ وہ واحد لفظ ہے جس پر میرا پارہ ہائے ہوجاتا ہے۔۔۔اور تم بیوقوف بکری باربار یہ غلطی کرتی ہو۔۔۔پر اب مینے بھی تمہارا علاج ڈھونڈ لیا ہے۔۔۔جیسے جیسے تم ایسی حرکتیں کروگی ویسے ہی تمہاری ایسی سزائوں میں اضافہ ہوتا جائے گا۔۔۔۔۔

اور۔۔اسکے چہرے کو انگلی کی مدد سے اپنے طرف کرتے اسکی سرخ سوجی آنکھوں میں دیکھ کر بولا۔۔۔دماغ پر زیادہ زور نا دو کہ مینے یہ کیا کیا ہے یہ کونسی سزا تھی۔۔۔یہ سزا اسکی ہے جب میں صرف تمہارے لبوں کو چھونا چاہتا تھا۔۔پر تمنے انہیں مجھ سے چھپانے کی کوشش کی۔۔۔تو میری معصوم چھوٹی بکری چھپنا یا مجھ سے بھاگنا سب فضول ہے۔۔۔کیونکہ شہریار آیا ہی اپنی بکری کے لیے ہے۔۔۔۔

اب  میں چلتا ہوں بہت ٹھک گیا ہوں اس لیے زیادہ ٹائم نہیں گذار سکے ایک ساتھ پر تم اپنے چھوٹے دل کو اور چھوٹا نا کرو ۔۔کیونکہ پھر جلدی ملیں گے ۔۔ وہ کہتا جانے لگا۔۔۔
پھر کچھ سوچ کر مڑا۔۔۔۔پری ویسی ہی پڑی رو رہی تھی۔۔۔
شیری نے اس پر ایک نظر ڈال کر کہا۔۔۔تم خوبصورت اتنی ہو کہ کسی کو بھی دیوانہ بنا سکتی ہو پر میرا دل پتا

 نہیں کیوں تمہیں تڑپانے کو چاہتا ہے۔۔۔اور اس بلیک سوٹ میں تو  قیامت لگ رہی ہو۔۔۔
وہ اسکے مسلسل بہتے آنسوں صاف کرتا ایک آنکھ دباتا کمرے سے نکلتا چلا گیا۔۔۔۔

اور پری خود کو سنبھالتی اٹھی اور لڑکھراتے قدموں سے چلتی دروازہ بند کیا ڈر تھا پھر آ نا جائے۔۔۔پھر باتھروم میں جاکر خود کو بند کردیا۔۔۔دروازے کے ساتھ چپکی بیٹھی سر گھٹنوں میں دئے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔۔۔اسکا سر درد سے جیسے پھٹ رہا تھا۔۔۔
ممم۔۔مما پلیز م۔۔مجھے اپنے پاس بب۔۔بلا لیں۔۔۔مجھے یہاں نہیں رہنا۔۔۔مم۔۔میرا کوئی۔۔۔نہیں ہے پلیز مما۔۔ مجھے اا۔۔اپنے  پاس بلالیں۔۔۔ پاپا بھی نن۔۔نہیں پیار کرتا اسے صرف اپنے بیٹے سے پیار ہے۔۔۔۔۔ یہاں شش۔۔شیری مجھے مار دیگا۔۔۔۔پلیز مما۔۔۔وہ ہچکیاں بھرتے گڑگڑا رہی تھی۔۔۔۔

حور کب سے دروازہ ناک کر رہی تھی۔۔۔پر پری کوئی جواب نہیں دے رہی تھی۔۔۔۔
پری یار دروازہ کھولو میں ٹھک گئی ہوں۔۔۔۔
پری جو کب سے حور کو دروازے پر دستک دیتے سن رہی تھی وہ چاہتی تھی کہ وہ چلی جائے پر جب کافی دیر تک نا کھولنے پر بھی وہ نہیں گئی تو اٹھ کر شیشے میں اپنا چہرا دیکھنے لگی۔۔۔جوآنسوں میں بھیگا  لال ٹماٹر تھا۔۔اور آنکھیں سوجی ہوئی تھی۔۔اسکی نظریں چہرے سے سڑکتی ہونٹوں پر آئی۔۔۔جو سرخ انگارہ تھے۔۔۔اسکی آنکھوں میں کچھ دیر پہلے شیری کی حرکت گھوم گئی۔۔۔جس پر اسنے اپنے ہونٹوں پر ہاتھ رکھلیا۔۔۔
پھر پانی بھر بھر کر چہرے اور ہونٹوں کو مسلنے لگی۔۔۔اسکے اندر عجیب سی گھبراہٹ تھی۔۔۔تولیے سے چہرہ صاف کرتی باتھروم سے باہر نکلی ۔۔۔اور آگے بڑھ کر دروازہ کھولا۔۔۔

کہاں مر گئی تھی کب سے دستک دے رہی ہوں کیوں نہیں کھول رہی تھی تمہیں پتا نہیں ہاتھ بھی دکھ گئے ہیں دستک دیتے۔۔۔وہ مصنوعی غصے سے کہتی اندر آئی اور اسکی طرف جیسے نظریں اٹھائی تو بولتے منہ کو بریک لگا۔۔۔
پری تم روئی ہو۔۔کیا ہوا ہے۔۔سب ٹھیک ہے کیا بھائی کے آنے سے ڈر گئی ہو۔۔حور اسکے کندھو سے پکڑ کر پوچھنے لگی پر پری نظریں جھکائے کھڑی تھی۔۔۔اسکی آنکھوں میں آنسوں بھرآئے تھے۔۔
کک۔۔کچھ نہیں ۔۔۔وہ گھٹی آواز میں کہتی جانے لگی جب حور نے اسکا ہاتھ پکڑا۔۔۔پری سچ بتائو کیا ہوا ہے۔۔۔تم مجھ سے کچھ چھپا رہی ہو مجھے پتا ہے تم روئی ہو۔۔پر کیوں یہ تم بتائو۔۔۔حور اسکا چہرا ہاتھوں کے پیالوں لے 

کر پوچھنے لگی۔۔
حح۔۔حور کیا میں تت۔۔تمہارے ساتھ رہ سکتی ہوں۔۔مجھے یہاں نہیں رہنا۔۔۔وہ اسکے ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھ کر معصومیت سے اجازت لینے لگی ۔۔وہ ایسی لگ رہی تھی جیسے کوئی ڈرا ہوا بچا۔۔۔۔
کیوں نہیں مجھے بہت خوشی ہوگی میں پہلے بھی یہی چاہتی تھی۔۔۔میں ابھی ملازمہ سے کہہ کر تمہارہ سامان اپنے روم میں شفٹ کرواتی ہوں۔۔۔وہ اسے پیار سے اپنے ساتھ لگاتی بولی۔۔۔اسکے پیار پر پری بھی مدہم سا مسکرادی۔۔۔پر  اندر سے وہ ذرا ذرا تھی۔۔۔

اگر تم بھائی کے ڈر سے روئی ہو تو اب تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔کیونکہ بھائی نے کہہ ہے اب وہ تمہیں تکلیف نہیں دےگا۔۔۔وہ تم سے بھی معافی مانگے گا جس سے تمہارے ڈر ختم ہو۔۔۔۔
حور کے بتانے پر اسکے دل میں شدت سے خوائش نکلی کہ یا اللہ میں بھی کبھی شیری کو ایسے ہی تڑپائوں۔۔۔اسے ایسے ہی تکلیف دوں۔۔۔۔جیسے آج وہ تڑپ رہی ہے۔۔۔
کمینہ اللہ دیکھے اسے ۔۔۔۔پھر دل میں ہی گالیاں دیتی رہی۔۔۔اپنے آپ کو بہلانے کے لیے۔۔۔۔

Episode #9 Tera Ashiq May Diwana Ho Awara Mehwish Ali Novel

#تیرا_عاشق_میں_دیوانہ_ہوں_آوارہ
#از__مہوش_علی
#قسط__09

وہ بیڈ پر پڑا کروٹیں بدل بدل کر ٹھک گیا تھا۔۔۔آنکھوں میں نیند نے جیسے قسم کھالی تھی کہ نہیں آ نا ہے۔۔جیسے آنکھیں بند کرتا۔۔ جھیل جیسی گرے خوبصورت آنکھیں۔  آنسوں سے بھیگا چہرہ ،سرخ گلاب کی پنکھڑیوں جیسے پھرپھراتے ہونٹ چھنک سے آجاتا۔ ۔۔
لگتا ہے یہ مجھے آج سونے نہیں دے گی۔۔۔
کیا ہوگیا شیری تمہیں... تم کیوں اس بکری کے بارے میں سوچ رہے ہو۔ ۔کہیں زیادہ تو سر پر سوار نہیں کرلیا۔ ۔وہ

 جھنجھلاکر اٹھا اور ایک سگریٹ سلگا کر ہونٹوں میں ڈبایا...پھر اٹھ کر ٹیرس پر آگیا۔۔
رات کا ٹائم تھا سب سو گئے تھے ۔۔۔باہر صرف چاند کی چاندنی چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔۔یہ کیا کردیا ہے آتے ہی مینے اگر ایسا نا کرتا اسے نا دیکھتا تو شاید سکون کی نیند تو ہوتی۔۔۔وہ خود سے کہتا سگریٹ کا ایک کش لیتا چاند کو گھورنے لگا۔۔۔یہ اسکی 24سالا زندگی میں پہلی رات تھی ۔۔جس میں وہ ایسے بے سکون تھا۔۔

اسے پتا چلا تھا پری کا حور کے کمرے میں شفٹ ہونا۔۔اگر وہ اپنے کمرے میں ہوتی تو ابھی اسکی نیندیں غائب کردیتا یا شاید اب کچھ نا کرپاتا۔۔۔جانے کیا ہورہا تھا اسے جسے سمجھنے سے وہ کاثر تھا۔۔

اس کے پٹھر دل میں پتا نہیں کیوں ایک افسوس کی لہر اٹھی تھی۔۔
کچھ اچھا بھی نہیں لگا تھا اسے پری کے ساتھ کل کی حرکت کرتے ہوئے۔۔۔پر وہ کیا کرتا پتا نہیں کیوں جب اسکے بولتے ہوئے لبوں کو دیکھا تو وہ بےخود ساہوگیا۔۔اسے تو اسکے بولنے سے چڑ تھی ۔۔۔اسے غصہ آتا تھا جب وہ میں میں کرتی تھی۔۔۔پر آج پتا نہیں کیوں اسکے بولنے پر اسکے نازک سے سرخ ہونٹوں کی پھرپھراہٹ 
دیکھ کر اندر تک ہلچل مچ گئی تھی۔۔اسے نہیں پتا تھا کہ کوئی بولتے ہوئے بھی اتنا حسین لگ سکتا ہے۔۔۔

حسن میں وہ کم عمر کی حسین لڑکی تھی۔۔اسکی معصومیت ہی کافی تھی کسی کی بھی دل کی دنیا بدلنے میں۔۔۔پر شیری کو اسکے حسن نے متاثر نہیں کیا تھا۔ ۔کرتا بھی کیسے اسے تو ہر وقت صرف اسکے میں میں ہی دکھتی تھی۔ ۔
پر آج شاید کہیں پٹھر میں درار پر پڑ گئی تھی۔ ۔جسے وہ ابھی محسوس نہیں کر پارہا تھا۔ ۔۔
وہ خود بھی ایک خوبصورت لڑکا تھا ۔۔یونی میں کئی لڑکیاں مرتی تھی اس پر ۔۔۔پر اسکے قریب آنے کی اجازت صرف کچھ خوبصورت اور بولڈ لڑکیوں کو تھی۔ ۔جن کے ساتھ وہ اپنا ٹائم پاس کرلیا کرتا تھا۔ ۔اور جن کو چھوڑنے کے بعد پیچھے نہیں پڑتی تھی ۔۔۔ایسا نہیں تھا کہ وہ ایک آوارہ غلط قسم کا انسان تھا ۔۔۔ وہ جیسا بھی تھا پر اپنی حدود کو جانتا تھا ۔۔۔

پتا نہیں کیا بنے گا اس بکری کا۔ ۔یا میں ہاروں یا وہ جیتے ،پر شہریار نے کبھی ہارنا سیکھا نہیں ہے۔ ۔۔پیکٹ کا آخری سگریٹ ختم کرکے ۔۔واپس روم میں جاکر زبردستی سونے کی کوشش کرنے لگا۔ ۔۔جو کافی مشکل تھی۔ ۔۔


صبح پری اور حور یونی کے لیے تیار ہوتی ناشتے کی ٹیبل پر آئی۔ ۔کمیل فراز صاحب کی طرف چلاگیا تھا۔ ۔باقی سب موجود تھے۔ ۔ٹیبل پر سوائے شیری کے جو ابھی تک سویا ہوا تھا۔ ۔
یہ لڑکا امریکہ سے پیدل چل کر آیا ہے کیا ۔۔جس کی نیندیں ختم نہیں ہورہی۔ ۔کل کا کمرے میں گھسا ہے ابھی تک سورہا ہے۔ ۔یہ نہیں کہ اٹھ کر سب کے ساتھ ناشتہ کرے۔ ۔احمد صاحب عائمہ بیگم سے بولے جو خود پریشان تھی۔ ۔انہیں کافی فکر رہتی تھی شیری کی۔ ۔بلکل بگڑا ہوا لڑکا لگتا تھا۔ نا کسی کی سننا نا کسی کی ماننا۔ ۔صرف خود کا ہی سوچتا ۔ ۔اور اپنی کرتا۔ ۔

رات کو دیر سے سویا تھا۔ تو ابھی تک سو رہا ہے۔ عائمہ بیگم نے پری کو ناشتہ دیتے اسے بتانے لگی۔ ۔
کونسا رات کو خزانہ ڈھونڈ رہا تھا جو دیر سے سویا۔ ۔احمد صاحب کو شیری کی لاپروائی کچھ کام نا کرنے والی عادت کافی ناپسند تھی جس کی بہراس وہ موقعہ ملتے ہی نکال لیا کرتا تھا۔۔۔
رہنے دو احمد جوان بچا ہے۔۔۔یہی تو عمر ہوتی ہے کھانے پینے اور زندگی گزارنے کی۔۔۔ہر بار کی طرح حماد یا دراب اسے کچھ نا کچھ بول کر چپ کروادیتے تھے۔۔۔
آپ دیکھ رہے ہیں بھائی دو بہنوں کی شادی ہے گھر میں پر اس لاڈ صاحب کو ذرا فکر نہیں پہلے گھومنے امریکہ چلا گیا اور اب آیا ہے تو کمرے میں اپنی برسوں کی نیندیں پوری کر رہا تھا۔ ۔کچھ اپنے مستقبل کی ہے کہ نہیں ۔۔

آگے اپنے اولاد کو بھی یہی کچھ سیکھائے گا۔۔۔
آپ فکر ناکریں میں سمجھاتا ہوں اسے۔۔۔حماد صاحب نے انہیں تسلی دی اور سب خاموشی سے ناشتہ کرنے لگے۔ ۔۔
پری بچاری تو صرف شیری کے نام پر ہی پسینا ہوتی پہلو بدل کر رہ گئی۔ ۔
میں باہر ویٹ کر رہا ہوں تم دونوں آجانا۔۔۔دراب ایک خاموش نظر مشال پر ڈال کر اپنے کمرے کی طرف چل دیا۔ ۔اور کچھ دیر میں آفس بیگ اٹھاکر باہر نکلا۔ ۔۔
پری اور حور بھی اسکے پیچھے بھاگی۔۔۔آہستہ آہستہ سب اٹھ کر چلے گئے۔۔۔

کیسی چل رہی پڑھائی دونوں کی۔ ۔۔دراب کار اسٹارٹ کرتا دونوں سے پوچھنے لگا۔۔۔
بہت اچھی۔ ۔حور نے جواب دیا۔۔۔دراب کی نظر پری پر گئی جو خاموش کہیں کھوئی ہوئی تھی۔ ۔
گڑیا۔۔۔دراب کے پکارنے پر وہ اپنے خیالوں میں سے نکل کر اسکی طرف متوجہ ہوئی۔۔۔جج۔ ۔جی بھائی۔ ۔۔
کیا ہوا سب ٹھیک ہے گڑیا۔۔۔اسکی آواز میں کافی محبت تھی جیسے ایک بھائی کو اپنی بہن کے لیے ہوتی ہے۔ ۔پری کے چہرے پر اداسی پھیلی ہوئی تھی۔۔۔اس عمر میں لڑکیاں ہنسی خوشی موج مستی سے زندگی گذارتی تھی ۔۔اور پری اس عمر میں بن ماں باپ کے اداسی اور ویرانی والی زندگی بسر کر رہی تھی۔۔۔کیا اپنوں کے دکھ کم تھے جو شیری کو بھی اللہ نے اسکی قسمت میں لکھ دیا تھا۔۔۔

نن۔۔۔نہیں بھائی سب ٹھیک ہے۔۔۔۔اسنے اپنے چہرے پر سفید چھوٹے ہاتھ پھیر کر اسے یقین ڈلایا۔۔۔اسکی اس معصوم ادا دراب کو بہت پیاری لگی ۔۔اسنے اسکے سر پر بوسہ دیا۔ ۔
سدا خوش رہو میری معصوم گڑیا۔۔۔اور شیری سے ڈرنے کی ضرورت نہیں وہ تمہیں اب تکلیف نہیں دےگا۔۔۔اسکی بات پر ہری زخمی سا مسکرا کر ہاں میں سر ہلادیا۔۔۔
بھائی آپ مجھ سے تو پیار ہی نہیں کرتے ۔۔۔پیچھے سے حورنے منہ بنا کر خفا سا کہا۔ ۔
ہاں تو مم۔۔میرا بھائی ہے تت۔ تو مجھے ہی پیار کرےگا۔ ۔پری نے مسکرا کر حور کو انگوٹھا دیکھایا۔۔۔
او ہیلو میڈم میرا بھی بھائی ہے صرف تمہارے ایک کا نہیں ۔۔۔حور نے مصنوعی غصے میں کہا۔۔۔ جس پر پری کھلکھلا کر ہنسی۔۔۔اور اسکی کھلکھلاہٹ پر دونوں محبت سے مسکرادیے ۔۔۔
پھر ایسے ہی باتوں میں دراب نے انہیں یونی ڈراپ کیا اور خود آفس کے لیے چلاگیا۔۔۔


کیا کر رہے ہو شہریار کب سدھروگے کیوں اس عمر میں اپنے باپ کو تکلیف دے رہے ہو۔۔۔بارہ بج رہے تھے۔۔۔اور وہ ابھی اٹھ کر ناشتہ کرنے کو آیا تھا۔۔۔
کیا کردیا مینے اب ۔۔ جوس گلاس میں ڈالتا عائمہ بیگم کو دیکھ حیریت سے پوچھا۔۔۔
تم اب بزنس کیوں نہیں سنبھالتے اپنے باپ کے ساتھ کب تک ان کے پیسوں پر پلتے رہوگے۔۔۔کچھ سیکھو دراب سے وہ بھی سب کا لاڈلا ہے پر مجال ہے کہ کبھی کوئی نافرمانی یا ایسے لاپروہ کی طرح رہا ہو۔۔ ٹائم پر اٹھتا ہے سب کے ساتھ ناشتا کرتا ہے ۔۔اور ہر کام میں دونوں کے ساتھ ہوتا ہے۔۔۔ایک تم ہو اٹھتے بیٹھتے اپنے باپ سے کچھ نا کچھ سنواتے رہتے ہو مجھے۔۔۔۔عائمہ بیگم کے سمجھانے پر وہ چیئر سے ٹیک لگا پوری دل جمی سے انکی بات سن رہا تھا ۔۔۔
آپکا مطلب ہے میں سب کے ساتھ بیٹھ کر کھایا کروں ۔۔۔اسنے ساری باتیں چھوڑ کر ایک ہی بات پکڑی جس میں اسکا پسندیدہ شغل شامل تھا۔ ۔۔

ہاں اگر تمہیں یہی سمجھ آیا ہے تو یہی سمجھو ۔۔۔مطلب دوسری باتیں اسنے سنی ہی نہیں۔ ۔۔۔
تو آپکی پری صاحبہ وہ تو ابھی تک مجھ سے ڈرتی ہے آس پاس بھی ہوتا ہوں تو ایسے کرتی ہے جسے مجھے نہیں بھوت کو دیکھ لیا ہو ۔۔اور اگر ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائوں گا تو وہ کیسے رہے گی یہاں ۔۔۔کھانا کھانا بھی چھوڑ دیگی ۔۔۔اگر ابھی بھی نہیں سمجھی تو رات کو ڈنر پے دیکھ لینا۔۔۔آپکو اور پاپا کو سمجھ آجائیگی کہ میں ساتھ کیوں نہیں بیٹھتا ۔۔۔۔اور رہی دراب بھائی جیسا بننے کی تو اگر میں بھی اسکے جیسا بنا تو یہ دنیاوی کہانی کیسے چلے گی ۔۔۔وہ انہیں کہتا اٹھ کر چلا گیا پیچھے عائمہ بیگم دیکھتی رہ گئی ۔۔۔۔

Episode #10 Tera Ashiq May Diwana Ho Awara Mehwish Ali Novels


چھٹی کا ٹام تھا۔۔پری کلاس سے نکلتی حور کے ڈیپارٹمنٹ کی طرف آئی۔۔پہلے حور اسکے لینے آتی تھی پر آج پتا نہیں کیوں نہیں آئی ۔۔۔
وہ چلتی ہوئی کلاس میں داخل ہوئی تو حور اور کچھ لڑکیاں ابھی بھی بورڈ سے لیکچر نوٹ کر رہی تھی۔۔
حورنے پری کو سامنے کھڑا دیکھا تو مسکرا دی۔۔۔شرمندگی سے۔۔۔
یار وہ پروفیسر نے کچھ غلط فہمی سے کلاس سے آئوٹ کر دیا تھا تو ہم سب کے ساتھ نہیں لیکچر نوٹ کرسکے تو میں ابھی کر رہی ہوں ۔۔۔
حور اسکی گھورتی نظروں کا مطلب سمجھ کر وضاحت دینے لگی۔۔۔
دد۔۔دراب بھائی ویٹ کک۔۔کر رہے ہونگے حور۔۔۔وہ اسے احساس ڈلانے لگی۔۔حور کے چہرے پر پریشانی پھیلی۔۔۔پھر کچھ سوچ کر بولی۔۔۔

اچھا تم ایسا کرو دراب بھائی کو کہو دومنٹ میں، میں آئی ۔۔۔تم جاکر کہو ورنہ وہ پریشان ہوجائیں گے۔۔۔حور کے کہنے پر پری سر ہلاتی  چلی گئی اور حور پھر جلدی جلدی لکھنے میں لگ گئی۔۔۔
پری جیسے یونی سے باہر آئی اور پھر دراب کی تلاش میں نظریں پھیرنے لگی۔۔۔دراب تو نہیں پر جو کھڑا تھا اسے دیکھ  پری کے پسینے چھوٹ گئے۔۔۔

اسکی چھوٹی سرخ ہتھیلیاں شیری کو دیکھ کر جو کار کے ساتھ ٹیک لگا کر انکے انتظار میں کھڑا تھا۔پوری پسینے میں بھیگ گئی۔۔۔۔وہ گھبرا کر جیسے جانے کے لیے پلٹی جب شہریار کی نظر بھی اس پر پڑ گئی۔۔۔
رکو پری واپس آئو۔۔۔اسکے لہجے میں حکم تھا۔۔ایک روب تھا جو پری کو رکنے پر مجبور کر گیا۔۔۔پری کا دل بلند آواز میں دھک دھک کر رہا تھا ۔۔۔
وہ۔۔وہ حور کو لینے جانا ہے ۔۔وہ رونے جیسی شکل بنا کر دور سے ہی ہاتھ کے اشارے سے حور کو لانے کا بولنے لگی۔۔۔

واپس آئو۔۔۔۔شیری نے اسے ہاتھ کے اشارے سے بلانے لگا۔۔۔
پری کبھی یونی کے گیٹ کو دیکھتی کبھی شہریار کو۔۔۔وہ اکیلی اسکے پاس نہیں جانا چاہتی تھی۔۔۔اسکے لبوں پر حور کے آنے کی دعا جاری ہوئی۔۔۔۔
تم اسے نہیں مانوگی ۔۔۔وہ کہتا سکی طرف جانے لگا۔۔۔اسنے دراب کو فون کر کے بتایا تھا کہ وہ اپنے دوست کے یہاں گیا ہے اور واپسی پر حور اور پری کو لیکر آئے گا۔۔۔۔
دراب نے کہا ۔۔۔شہریار پری ڈر جائے گی تم رہنے دو میں خود انہیں لینے جائونگا۔۔۔یہ سن کر شیری کو غصہ تو آیا پر۔۔۔ پھر بس اتنا کہا۔۔۔بھائی میں اسکا ڈر ہی دور کرنا چاہتا ہوں۔۔۔اسے سمجھانا چاہتا ہوں میں پہلے جیسا نہیں رہا۔۔۔مینے پہلے جو کیا اسکی معافی مانگنا چاہتا ہوں۔۔۔۔کہنے کے ساتھ بغیر دراب کی سنے کال کاٹ دی۔۔۔اور اب وہ پری کے سر پر کھڑا تھا۔۔۔۔

کہا تھا نا واپس آئو۔۔۔وہ غصے سے بولا۔۔
ممم۔۔میں حور کک۔۔کو لینے جانا ہے و۔۔وہ ابھی نہیں آئی۔۔۔وہ اپنی گھنی پلکیں چھپکاتی ہونٹوں کو کاٹتی گیٹ کو دیکھ کر بولنے لگی۔۔۔وہ شیری کو نہیں دیکھ رہی تھی۔۔اسے عجیب لگ رہی تھی اسکی چھبتی ہوئی نظریں۔۔۔۔
تم چلو وہ آجائے گی۔۔۔وہ اسے کلائی سے پکڑ کر کار کی طرف لے جانے لگا۔۔۔
ننن۔۔نہیں مینے حح۔۔حور کے ساتھ آنا ہے ۔۔۔۔وہ گھبراتی التجا کرنے لگی ۔۔۔پر شیری نے اسکی ایک بھی سنے بغیر اسکے فرنٹ سیٹ پر بٹھایا اور خود دوسری طرف آگیا۔۔۔

اور موبائل نکال کر سفیان کے نمبر پر کال کی۔۔۔
یار سیفی تم حور کو گھر ڈراپ کر دو پری آج نہیں آئی ہے اور دراب بھائی بھی بزی ہیں ۔۔۔۔۔وہ ابھی یونی میں ہے تو تم بھی وہیں ہو تو اسے گھر چھوڑ جانا۔۔۔۔میں ابھی کافی دور ہوں۔۔۔۔اسکے کہنے پر سفیان نے اسے کہا کہ وہ اسے ڈراپ کر دیگا۔۔۔شہریار کو سفیان پر بھائیوں جیسا یقین تھا۔۔۔وہ بچپن سے ساتھ تھے۔۔۔۔اسکی نیچر بھی اچھے لڑکوں کی طرح تھی۔۔۔اس لیے اسنے بے فکر ہوکر سفیان کو کہا تھا۔۔اگر سفیان کی جگہ کوئی دوسرا ہوتا تو وہ ہرگز ایسا نا کرتا پر یہ سفیان تھا۔۔۔جسے حور کا سب سے زیادہ خیال رہتا تھا۔۔۔۔

پھر اسنے حور کو کال کی ۔۔۔اور اس سے کہا کہ  پری کی طبعیت تھوڑی خراب ہوگئی میں اسے لیکر گھر جارہا ہوں ۔۔تم فکر نا کرو مینے سفیان کو فون کر دیا ہے وہ تمہیں گھر چھوڑ دے گا ۔۔وہ ابھی یونی میں ہی ہے تم فارغ ہوکر اسکے پاس جانا یا یہی پر ویٹ کرنا وہ تمہیں گھر چھوڑ دیگا۔۔۔حور تو پری کی طبعیت خراب کا سنتے ہی پریشان ہوگئی اور جلدی سے بولی ہاں بھائی آپ پری کو گھر لے جائیں میں سیفی بھائی کے ساتھ آجائونگی۔۔۔۔۔
بات ختم کرتے شیری نے پری کے منہ سے ہاتھ اٹھایا جو چلانے اور بھاگنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔

پری نے شہریار کے منہ سے اپنے لیے کالج نا آنے پھر حور سے طبعیت خراب کی بات سنی تو اسکی آنکھیں پھٹ گئی۔۔۔ اسکی ریڑھ کی ہڈی میں خوف کی لہر اٹھی۔۔حلق خشک ہوگیا تھا وہ حور سے کچھ کہنا اور بھگانا چاہتی تھی جب شہریار کا مضبوط ہاتھ اسکا منہ بند کرگیا۔۔۔۔ وہ پری کی سب کوششیں ناکام کرگیا ۔۔۔جس پر پری نے اسکے ہاتھ پر اپنے دانتوں کو گاڑھ دیا تب بھی اسکا ہاتھ نا ہلا البتہ وہ پری کی اس حرکت پر مسکرادیا۔۔۔پری کو غصہ آگیا اسنے اپنے ناخون اور دانتوں سے اسکا ہاتھ کی پشت اور ہتھیلی زخمی کردی اسکے چھوٹے چھوٹے ناخون کی نشانوں سے خون کی ننھی بوندیں ٹپکنے لگی تھی۔۔۔آگے ہتھیلی اسکے دانت گاڑھنے سے سرخ انگارہ ہوگئی تھی۔۔۔ جس پر شیری صرف ہونٹ بھینچ کر رہ گیا ۔۔۔۔

شیری کے ہاتھ ہٹانے پر پری لمبے سانس لینے لگی۔۔۔اور شیری اپنے ہاتھ پر پھونک مارنے لگا جو جلس رہے تھے پر پتا نہیں کیوں اسے یہ جلن بھی میٹھی لگی۔۔۔۔۔۔
پھر ٹشو اٹھا کر ہاتھ سے خون صاف کیا۔۔۔۔
پری اپنی کیے پر آنکھوں میں خوف اور سہمی ہرنی کی طرح اسے دیکھ رہی تھی کہ اب پتا نہیں اسکا کیا ہوگا۔۔۔پر
جھٹکا اسے تب لگا جب شیری نے ایک نظر اسکی کانپتی حالت پر ڈالی اور پھر مسکرا کر آنکھ دباتا اسکے ہتھیلی پر موجود اسکے دانتوں کے نشانوں پر اپنے ہونٹ رکھ دئے۔۔۔۔۔
یہ دیکھ کر پری کا سانس ہی رک گیا۔۔۔اسکا چہرہ شرم سے سرخ ہوگیا۔۔۔۔وہ نظریں جھکا گئی ۔۔۔۔شیری اسکے معصوم چہرے کے رنگ دیکھ کر بے خود سا رہ گیا۔۔۔۔پھر خود کو سنبھال کر گاڑی اسٹارٹ کردی۔۔۔

پپ۔۔پلیز مجھے حح۔۔حور کے ساتھ جانا ہے۔۔۔آآآپ مجھے چھوڑ دیں۔۔۔۔پری اس سے التجا کرنے لگی۔۔۔
چھوڑنے کا تو اب سوال ہی پیدا نہیں ہوتا پری جان ، ایسا پاگل کر دیا ہے کہ رات کو نیند نہیں آئی۔۔۔اور تو اور صبح آنکھ کھلتے ہی سب سے پہلے یہی خیال آیا کہ تم تو ابھی گھر پر نہیں ہوگی۔۔۔تو مجھ سے رہا نہیں گیا اور آگیا تمہارا چہرا دیکھنے۔۔۔۔وہ گاڑی ڈرائیو کرتے اسے اپنی حالت بتانے لگا۔۔۔پری کے لیے تو یہ ہزار وولٹ کا جھٹکا تھا جلاد کے منہ سے ایسی بات سنکر۔۔۔وہ بے یقینی سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔دوسری احساس اسے یہ بھی ہوا تھا کہ اسنے پری کو اتنی دیر میں بات کرنے کے دوران ایک بار بھی بکری یا کوئی اسکے بولنے پر طنز نہیں کیا تھا۔۔۔۔بلکہ اسکے بولنے پر وہ خاموش نظروں سے اسکے ہلتے لبوں کو دیکھتا۔۔۔۔

جس پر پری بکھلاکر اپنے منہ پر ہاتھ رکھ دیتی۔۔۔۔۔

گگ۔۔گاڑی روکیں نہیں تو میں۔۔۔میں۔۔ پری زور سے چیخی۔۔وہ اسے پتا نہیں کون سے انجان راستوں پر لیکے جارہا تھا۔۔سنسان راستا تھا۔۔۔جیسے دیکھ کر پری کی سانسیں اٹکنے لگی تھی حلق میں۔۔۔اسنے کہہ تو دیا تھا پر آگے اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کیا بولے۔۔۔
اسکے چیخنے پر شہریار نے ایک جھٹکے سے گاڑی روکی۔۔۔اور باہر نکل کر پری کی طرف آیا اور اسے بھی باہر نکالا۔۔۔
کیا ہے ؟؟کیوں رکوائی گاڑی۔۔۔وہ اسے کار سے لگا کر پوچھنے لگا۔۔۔
مجھے ووو۔۔واپس جانے ہے۔۔۔یی۔۔یہاں ڈر لگ رہا ہے پلیززز۔۔۔وہ دائیں بائیں سنسان راستے کو دیکھ کر اس سے بولی۔۔۔جس پر شیری کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی۔۔۔پھر اسکی خوفزدہ بڑی بڑی آنکھوں میں دیکھ کر پوچھا۔۔۔
کس سے ؟مجھ سے یا جگہ سے؟؟۔۔۔۔
دد۔۔دونوں سے۔۔۔۔اب چھوڑدو ۔۔۔۔۔پری جواب دیتی اپنی چھوٹی سرخ ہتھیلیوں سے اسے خود سے دور کرنے لگی۔۔۔۔

ایک شرط پر چھوڑوں گا ۔۔بلکہ نہیں صحیح سلامت گھر پہنچائونگا۔۔۔۔
کک۔۔کیسی شرط۔۔۔پری پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔
مجھے ہگ کرکے میری سوئی ہوئی دھڑکنوں کو جگائو تو میں تمہیں چھوڑ دونگا اگر نہیں ایسا کیا تو میں تمہیں ہگ کروں گا جس میں تمہیں بہت تکلیف ہوگی۔۔۔۔آگے تمہاری مرضی۔۔۔وہ اس معصوم کے سر پر بم پھوڑ کر کندھے اچکا گیا۔۔۔۔
اسکی شرط پر پری سر سے پائوں تک سرخ ہوگئی۔۔۔اور بکھلا کر بولی۔۔۔۔
نن۔۔نہیں میں۔۔میں ایسا نہیں کرونگی۔۔۔۔آپ یی۔۔یہ کسی اور سے کروائیں۔۔۔۔اسکی بات پر شیری کا سنسان راستے پر جاندار قہقہہ لگا۔۔۔۔
اسے صرف تم ہی دھڑکا سکتی ہو۔۔اگر کسی اور میں اتنی طاقت ہوتی تو آج میں اکیلا نا ہوتا۔۔۔۔اسکا ذو معنی لہجہ پری کے سر سے اوپر گذر گیا ۔۔۔وہ تو اپنے بچائو کے لیے راستہ تلاش کر رہی تھی۔۔۔۔
اور اسے مل بھی گیا تھا۔۔۔۔
سامنے سے آتی کار جیسے ہی قریب ہوئی پری نے چلانا شروع کردیا۔۔۔
بب۔۔بچائو۔۔۔پپلیز میری مدد کرو ممجھے بچائو پلیز ۔۔۔۔اسکے چلانے پر شیری گڑبڑاگیا۔۔۔اور سامنے دیکھا تو انکے قریب ہی ایک کار رکی تھی۔۔اور پری کی چیخوں پر کار میں سے تین لڑکے نکل کر انکی طرف ہی آرہے تھے۔۔۔۔

شیری نے پہلے پری کو دیکھا جو اسے دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔۔۔۔وہ اپنی چھوٹی سی محنت پر خوش ہورہی تھی۔۔۔شیری پہلی بار اسکی مسکراہٹ دیکھی تھی ۔۔۔وہ بہت پیاری لگی اسے مسکراتے ۔۔۔۔شیری بھی مسکرادیا۔۔۔جس پر پری کی مسکراہٹ غائب ہوگی۔۔۔۔اسنے پھر رونے جیسی شکل بنا کر لڑکوں کو دیکھا۔۔۔۔
پپ۔۔پلیز یہ مجھے زبردستی یہاں لل۔۔لائیں ہیں مجھے بچالو ۔۔۔۔
شہریار تو اسکی ہمت پر ہی دھنگ رہ گیا تھا۔۔۔اسے نہیں پتا تھا کہ یہ اتنی بیوقوف ہوسکتی ہے کہ اسے لڑکوں سے پٹواکر خود کہاں جاتی۔۔۔۔
ابے چھوڑ لڑکی کو ۔۔۔۔اس میں سے ایک لڑکا آگے بڑھ شیری کو پری سے الگ کرنے لگا۔۔۔۔
سیدھے طریقے سے یہاں سے نو دو گیارہ ہوجائو ۔۔۔یہ میرا اور میری بیوی کا مسئلہ ہے۔۔۔۔اسنے اس لڑکے کا ہاتھ جھٹکتے روب سے بولا۔۔۔۔
اسکی بات پر تینوں کے قہقہے لگے ۔۔۔سالے بیوقوف سمجھتا ہے ۔۔اس سترہ سال کی لڑکی کو بیوی بول رہا ہے۔۔۔دوسرہ لڑکا پری پر گہری نظر ڈالتا شیری سے بولا۔۔۔۔شہریار کا تو میٹر ہی شارٹ ہوگیا اسکی پری پر نظروں اور سالے بولنے پر۔۔۔
وہ غصے سے پری کو پیچھے کرتا انکی طرف آیا۔۔۔۔اور بیچ میں کھڑے اس لڑکے کے منہ پر اپنی پوری طاقت سے مکہ جڑ دیا۔۔۔وہ لڑکا کہرا کر پیچھے گرا۔۔۔۔اس لڑکے کے ناک سے خون کے پھوارے نکلے۔۔۔جس پر اسکے دوسرے دو ساتھی

  شیری پر جھپٹے۔۔۔۔کبھی وہ شیری کو مارتے تو کبھی شیری انہیں مارتا۔۔۔۔اس ساری صرتحال دیکھ کر 
پری تو بلند آواز میں رونے لگی تھی۔۔۔۔اسے نہیں پتا تھا ایسا ہوجائے گا۔۔۔شیری کے منہ سے خون نکل رہا تھا۔ ۔۔اور ان لڑکوں کی بھی اچھی خاصی حالت خراب کر دی تھی۔ ۔۔


حور اپنے رجسٹر کو بیگ میں ڈالتی چشمہ تھیک رتی اٹھی۔ ۔۔اور جیسے ہی سامنے دیکھا سفیان کھڑا تھا۔۔۔وہ تھوڑی گھبرا تو گئی تھی پر ظاہر نہیں کر رہی تھی۔۔۔گھبرا اس لیے گئی تھی کیونکہ کلاس میں کوئی نہیں تھا۔۔۔اور سفیان اندر آگیا تھا۔ ۔۔وہ منہ موڑ کر اسکی سائیڈ سے نکلنے لگی ۔۔اسے سفیان کی یہ حرکت ذرا بھی پسند نہیں آئی تھی۔ ۔۔
سفیان نے ایک جھٹکے سے اسے بازو سے پکڑ کر دیوار سے لگایا۔ ۔۔
کس بات پر اکڑ دیکھا رہی ہو۔۔۔ کیا کردیا ہے مینے جو ایسا کر رہی ہو۔۔۔اتنا ہی برا کردیا ہے مینے تمہارے ساتھ جو دیکھنا بھی گوارہ نہیں ہے ۔۔۔وہ غصے سے بولا اسے حور کا ایسا رویہ اسے تکلیف دے رہا تھا۔۔۔۔
سفیان یہ کیا کر رہے چھوڑو مجھے درد ہورہا ہے۔ ۔۔حور اپنے بازوں سے اسکے ہاتھ ہٹانے کی کوشش کرتی اس سے بولی۔ ۔۔

حور تمہارا یہ رویہ مجھے بہت کچھ کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔ ۔۔ابھی بھی وقت ہے سمجھ جائو میرے پیار کو ورنہ ایسا نا ہو بعد میں ۔۔۔۔اسکے لفظ ابھی منہ میں ہی تھے جب حور بیچ میں ہی چیخی ۔۔۔
کیا کردو گے ہاں۔ ۔۔ دھمکی دے رہو ۔۔۔ کرو کیا کرنا چاہتے ہو۔ ۔۔کرو جو بھی چاہتے ہو آئو۔۔۔۔ وہ پہلے ہی پری کی طبعیت اچانک خراب ہونے کی وجہ سے پریشان تھی۔ ۔اوپر سے سفیان کی باتیں ۔۔۔۔اسنے اسکے ہاتھ بازوں سے ہٹا کر اپنے کندھوں پر رکھے۔۔۔۔۔

سفیان تو دھنگ رہ گیا تھا اسکو بدگمانیوں کے بلندیوں پر دیکھ کر ۔۔۔۔اسکی آنکھیں سرخ ہوگئی تھی ۔۔۔ایسے جیسے خون ٹپک رہا ہو اس میں سے ۔۔۔
پھر کچھ بھی بولے بغیر اسے بازو سے پکڑ کر باہر کی طرف نکلا ۔۔۔۔حور کے سر  سے چادر اتر کر کندھوں پر آگئی تھی۔ ۔۔
چشمے کے پیچھے موٹی آنکھوں میں آنسو تھے ۔۔۔سفیان کی پکڑ اتنی مضبوط تھی کہ اسے لگا اسکا بازو ٹوٹ جائے گا۔ ۔۔
پوری یونی خالی تھی اگر انہیں اسٹوڈنٹس ایسے دیکھتے تو پتا نہیں کتنی باتیں اٹھتی دونوں کے اوپر ۔۔۔۔
سفیان نے اسے اپنی کار میں دھکیلا اور خود دوسری طرف آکے بیٹھ گیا ۔۔۔
حور اپنے بازو کو پکڑ کر رونے میں مصروف ہوگئی ۔۔۔۔

مشال کا موبائل بجا تو اسنے ناول جو وہ آدھا پڑھ چکی تھی آدھا اسنے آج ختم کرنا کو سوچ کر پڑھ رہی تھی ۔۔۔اس کو بند کرکے موبائل اٹھایا دیکھا تو دراب کی کال تھی۔ ۔۔

وہ گھبرا گئی کہ اسے کیوں فون کر رہا ہے ۔۔۔پہلے اسنے سوچا نہیں اٹھائی گی ۔۔۔پر کچھ ضروری بات بھی ہوسکتی ہے ۔۔۔۔یہ سوچ آتے ہی اسنے اوکے کر کے دھڑکے دل کو سنبھالتی موبائل کان سے لگایا ۔۔۔۔پھر سلام کیا ۔۔۔۔
اسکے سلام پر کچھ دیر تو خاموشی رہی پھر دراب کی گھمبیر آواز میں سلام کا جواب آیا۔ ۔۔
کیسی ہو ؟؟دراب نے پوچھا کافی دن ہوگئے تھے اس سے بات کیے جب سے شادی کی تاریخ رکھی گئی تھی وہ اس سے چھپتی پھر رہی تھی ۔۔۔
ہیں کیا طبعیت پوچھنے کے لیے کال کی ہے ۔۔۔۔مشال کو سمجھ نا آیا دن کا ایک بج رہا تھا اور وہ اس سے طبعیت کا پوچھ رہا تھا ۔۔۔روز کھانے کی ٹیبل پر دیکھتا تو تھا ۔۔۔۔
اسکے بے ساختہ پوچھنے پر دراب کا قہقہہ لگا ۔۔۔

Read more Novels for MEHWISH ALI 



Post a Comment

Previous Post Next Post