Tera Ashiq Me Dewana Ho Awara Mehwish Ali 31 to 35

Tera Ashiq Me Dewana Ho Awara Mehwish Ali 31 to 35 online read and pdf download free of cost.

Tera Ashiq Me Dewana Ho Awara Mehwish Ali 31 to 35


#تیرا_عاشق_میں_دیوانہ_ہوں_آوارہ🌹
#از__مہوش_علی
#قسط__31
💕💕💕💕💕💕

Tera Ashiq Me Dewana Ho Awara Mehwish Ali 31


مہک تہہ خانے میں باقی لڑکیوں کے ساتھ زمین پر پڑی بے ہوشی کا شو کررہی تھی۔۔۔۔
اسنے سب سے چھپے وہاں ہر جگہ وائس ڈیوائس لگائے تھے جس وجہ سے وہاں کی سئی گرنے کی بھی آواز شہریار سن  رہا تھا ۔۔۔
شیری اور اسکی ٹیم بیٹھی رستم کے آنے کے انتظار میں تھی ۔۔۔۔
آج رستم آنے والا تھا ۔۔۔
انہونے پاکستان میں موجود سارے جہاں جہاں لڑکیاں اور اور غیر قانونی ہتھیار جو وہ اپنے سورس استمال کرکے دوسرے۔ملکوں میں بیجتے تھے ان کو پورا گھیر چکے تھے ۔۔۔۔اور رستم۔کے وہاں پہنچنے کے بعد ان پر حملا کرنے تھا اس سے پہلے نہیں ورنہ انہیں پورا شک ہوجاتا اور ساری محنت جو وہ آدھے مہینے سے دن رات کرکے آرہے تھے ایکدم تباھ ہوجانی تھی اور انکے ہاتھ کچھ بھی نا آتا ۔۔۔۔

مہک کو انہونے اسکی جلد کے اوپر مصنوعی جلد  لگائی تھی جو وہ لوگ اسے انجیکشن لگا رہے تھے وہ خود میں جذب کر لیتی اور کی جلد کو سیف رکھتی ۔۔۔۔۔

اسی وجہ سے اس پر کوئی انجکشن اثر نہیں کر رہا تھا  جس سے وہ ساری تہہ خانے کے بارے میں انکو بتا رہی تھی ۔۔۔

وہ ایک چھوٹے سے گھر میں جو باہر سے دو مرحلے کا تھا اور کافی پرانا اور اندر اسکے بڑا تہہ خانہ تھا جس میں وہ رات کے اندھیرے میں لڑکیاں یہاں جماع کر رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔ یہ ایک غیر آبادی کی سائیڈ پر تھا جہاں لوگوں کی کم رہائش تھی ۔۔۔جس وجہ سے وہ ہر خطرے سے بےفکر تھے ۔۔۔۔ اور انکے کارکردگی سے لگ رہا تھا یہ وہ کافی عرصے سے کرتے آرہے ہیں ۔۔۔

اور لوگوں کو دیکھانے کے لیے ایک فیملی بھی رہتی تھی ۔۔۔۔

فواد بھی موجود تھا وہاں اور اب سب ملکر رستم کا انتظار کر رہے تھے ۔۔۔۔
لڑکیاں تیار کردو باس پہنچنے والا ہے ۔۔۔۔اسکے حکم پر سب نے ملکر لڑکیوں کو دیکھا جو نیم بے ہوشی میں پڑی تھی ۔۔۔۔

جی سر سب تیار ہیں اور اس بار تو باس آپ سے خوش ہوجائے گا ۔۔۔اسنے گھٹیا پن سے مہک کو دیکھ کر کہا جس پر فواد کا قہقہہ لگا ۔۔۔۔

وہ باگ باگ تو تب ہوتے جب ہم اسکے سامنے وہ بند کلی سی اپسرا پیش کرتے جسے دیکھ ہمارے بھے ہاتھ کے طوطے اڑھ گئے تھے ۔۔۔۔ اسنے کمینگی سے پری کو یاد کرکے کہہ ۔۔۔

شیری سمجھ کر مٹھیا بھینچ گیا ۔۔۔۔اسکی آنکھوں میں جو پہلے ہی وہاں اتنی لڑکیوں کی حالت دیکھ وہ پاگل ہورہا تھا آنکھ سرخ تھی اسکے پری کے خطاب پر وہ اور لہولہان ہوگیا ۔۔۔۔

کون تھا سر وہ اپسرا آپ حکم دو ہم ابھی اسکو اٹھاکر لاتا ہے ۔۔۔۔ دوسرا لڑکا بھی خوش ہوکر پوچھنے لگا ۔۔۔۔شاید اپنے سر کے منہ سے آج پہلی لڑکی کا ذکر سنکر وہ حیران ہوا تھا ۔۔۔۔ ورنا وہ یہاں آتے اور ایک سے بھر کر ایک خوبصورت لڑکی سے اپنا دل خوش کرکے اسے اپنی دردنگی کا شکار بناکر چلے جاتے ۔۔۔۔۔

تھی ایک کمینی (گالی)جو ہاتھ میں آتے آتے اڑ گئی ۔۔۔۔ پر میرا بھی اپنی مردانگی سے واعدہ ہے ایک نا ایک دن اسے حاصل کرکے رہونگا ۔۔۔

اور پھر اپنی ساری توہین کا حساب لیکر تم۔لوگوں کو آگے پھینک دونگا ۔۔۔۔۔پھر نوچتا رہنا کتوں کی طرح۔۔۔۔۔۔
 وہ۔اور بھی کچھ کہہ رہا تھا پر آگے کا شیری سن نا سکا اور پوری قوت سے وہاں رکھی ٹیبل پر لات ماری جس سے وہ شیشے کی ٹیبل چکناچوڑ ہوگئی ۔۔۔

سارے حیران ہوگئے ۔۔۔۔ اور پھر سمجھ کر ہونٹ بھینچ کر رہ گئے ۔۔۔۔

سر  انفارمیشن ملی ہے کہ رستم اگلے ہفتے آرہا ہے ۔۔۔۔سمیر نے شیری کو بتایا ۔۔۔۔ وہ پریشان تھا مہک کے لیے ۔۔۔۔وہ اتنے دن ان گھٹیا لوگوں کے بیچ کیسے رہے گی ۔۔۔۔

نہیں ایسا کچھ نہیں ہے وہ صرف  گھمراہ کرنا چاہتے ہیں  ۔۔۔۔ وہ آج ہی آئے گا ۔۔۔۔۔ تم لوگوں ریڈی رہوں اٹیک کے لیے اور سب کو کہوں مجھے کیسے بھی کرکے فواد زندہ چاہیے ۔۔۔۔

💕💕💕💕💕💕

پری کے جانے کے کچھ دن بعد ہی سفیان نے دھماکہ چھوڑا تھا کہ اسے رخصتی چاہیے ۔۔۔۔۔ فراز صاحب تو یہ سنتے اسے سمجھانے کی کوشش کی پر وہ نا مانہ اور اپنے فیصلے پر ڈھٹا رہا ۔۔۔۔

 یہ بات ملک ولا بھی پہنچ گئی تھی ۔۔۔۔ سب کو ابھی اتنی جلدی رخصتی مناسب نہیں لگی ۔۔۔۔۔ اور کہیں حور یہ جانتی تھی جو وہ کہہ رہا ہے  کرکے دیکھائے گا ۔۔۔۔ 
پھر ایسا ہی ہوا جب وہاں سے منا کی گئی تو سفیان نے کہہ کہ اگر ابھی انکار ہے تو پھر میری طرف سے سات سال کے لیے انتظار کرنا پڑیگا کیونکہ وہ امریکہ فیاض صاحب کے پاس جانا چاہتا ہے ۔۔۔۔ اور وہاں سے کچھ بن کر اپنے پیروں پر جب کھڑا ہوگا تب واپس پاکستان آئے گا اور تب جاکر پھر رخصتی کا سوچے گا ۔۔۔
 اور۔اس سب میں اسے کتنا عرصہ لگے کچھ کہہ نہیں سکتا کیوں کہ وہ اپنے باپ کا ایک پیسا بھی نہیں لےگا اور اپنے محنت سے اپنے پائوں پر کھڑا ہوگا ۔۔۔۔۔

سفیان کے جواب پر سب چپ ہوگئے تھے ۔۔۔۔اور سوچ میں پڑ گئے تھے ۔۔۔۔۔
میں کیا کہتی ہوں کہ رخصتی کردینی چاہیے ویسے بھی حور اب بیس سال کی ہے ۔۔۔۔ یہی ایج مناسب ہوتی ہے شادی کی ۔۔۔۔۔عائمہ بیگم احمد صاحب کے پاس بیٹھی بولی ۔۔۔۔

ایسا کیسے ہوسکتا ہے بیگم ابھی ہمنے اچانک اسکا نکاح کروایا ہے اور اتنی جلدی رخصتی ۔۔۔ حور بیٹی کے بارے میں بھی سوچو۔۔۔۔

احمد صاحب نے کتاب بند کرتے بولے ۔۔۔ پر آپ بھی کچھ سوچیں سفیان نے کہا ہے وہ سات سال کے لیے جارہا ہے تو کیا اتنی سال ہم بیٹی کو بیٹھائے رکھے گے اور آگے کا پتا نہیں وہ وہیں کہیں کسی سے اللہ پاک ناکرے پر مجھے بہت ٹینشن ہورہی ہے ۔۔۔۔ ذرا دل سے سوچیں اگر ایسا ہوگیا تو کیا کریں گے ۔۔۔۔ لوگ کیا کہیں گے ۔۔۔
وہ ایک ماں تھی جو اپنی بیٹی کا گھر بستا دیکھنا چاہتی تھی ناکہ اسکے ہجر میں بیٹھ اسکا راستہ تکتے ۔۔۔۔۔
اور ہماری زندگی کا بھروسہ نہیں اگر کل کلاں سانسیں بند بھی ہوگئی تو یہ سکون ہوگا کہ بیٹیاں اپنے گھر کی ہیں ۔۔۔۔

اسکی بات پر احمد صاحب سوچ میں پڑ گئے ۔۔۔۔
کیا سوچ رہیں ہیں جی ۔؟ عائمہ بیگم نے پوچھا ۔۔۔۔۔

کہہ تو آپ ٹھیک رہی ہیں ۔۔۔ میں صبح بھائی صاحب سے مشورہ کروں اور انکی رائے پوچھوں ۔۔۔۔۔کہ وہ کیا کہتے ہیں ۔۔۔۔۔پھر کوئی فیصلا کرتے ہیں ۔۔۔۔۔

ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔عائمہ بیگم سکون کا سانس لیکر لیٹ گئی ۔۔۔۔۔

💕💕💕💕💕💕

مجھے تو سمجھ نہیں آرہا یہ اچانک ہوکیا رہا ہے ۔۔۔ اور اس سفیان کو بھی ایسی کیا جلدی پڑ گئی رخصتی کی ۔۔۔۔۔

مشال بیڈ پر دراب کے بازو پر سر رکھے اسے دیکھ کر بولی ۔۔۔۔
اسکی بات پر دراب کا قہقہہ لگا ۔۔۔۔۔

تو آپ کیا سمجھتی ہیں مسز سب میری طرح کے شریف ہوتے ہیں ۔۔۔۔اسے قریب کرتے شرارت سے بولا ۔۔۔۔۔ جس پر مشال نے آنکھیں سکیڑی ۔۔۔۔

کیا آپ خود کو شریف کہتے ہو ۔۔۔۔۔اسکے کمر کے گرد بندھے اسکے ہاتھ کی طرف اشارہ کرتے پوچھنے لگی ۔۔۔۔

جی ہاں اس میں کوئی شک نہیں ۔۔ اللہ کا کرم ہے ہم میں شرافت دھیر ساری ہے اور کسی زمانے میں ہمے شرافتِ دراب کہتے تھے تھے ۔۔۔۔اگر عملی چاہیے ثبوت تو یہ لیں ۔۔۔۔۔اسکے سنبھلنے سے پہلے ہی اسکی کمر کے گرد حصار مضبوط سا ڈال کر اسکے لبوں کو فوکس کرتا ان پر جھک گیا ۔۔۔۔۔۔

مشال تو پوری بوکھلا گئی اسے کیا پتا تھا وہ اتنی سیریس بات میں بھی اسے کرے گا ۔۔۔۔۔ 
مشال اسے شانوں سے پکڑ کر دور کرنے لگی ۔۔۔۔ پر اسکی مضبوط حصار اور شدت پکڑتی جسارتوں کے آگے کچھ نا کر پائے ۔۔۔۔۔

تو کیسا لگا مسز شرافت کا ثبوت ۔۔۔۔ کچھ دیر بعد چہرا اٹھا کر اسے دیکھا ۔۔۔۔۔

جب مشال نے اسے پیچھے دھکیلا ۔۔۔۔ وہ بھی قہقہہ لگاتا پیچھے ہوگیا ۔۔۔۔ اور اسکی سانسیں بھرتی حالت کو دیکھنے لگا ۔۔۔۔

آپ د۔۔دراب بہت ہی کوئی چیپ قسم کے آدمی ہیں ۔۔۔میں اتنی۔سیریس بات کر رہی تھی اور آپ ۔۔۔۔۔ مشال وہاں سے اٹھ کر جانے لگی خفگی سے کہتے ۔۔۔۔۔

ایسے چلی جانِ دراب ۔۔۔۔وہ اسے واپس بیڈ پر گرا کر اپنے مضبوط حصار میں لیتے شرارت سے بولا ۔۔۔۔۔

اگر آپنے میری بات کا سیریس جواب نا دیا تو پھر میں جاکر حور کے ساتھ سوں گی ہمیشہ کے لیے ۔۔۔۔وہ جب اسکے حصار سے نکلنے کی کوشش کرتی ناکام ہوئی تو دھمکی پر اتر آئی ۔۔۔۔۔

ہاہاہاہا ۔۔۔۔۔ اچھا اتنی طاقتور ہو تو پہلے میرے حصار سے تو نکل کر دیکھائو پھر کسی دوسرے روم میں جانا ۔۔۔۔۔
وہ ہنستا کہنے کے ساتھ اسے خود پر الٹ دیا ۔۔۔۔ 

مشال بیچاری کیا کرتی ایک خفگی بھری نظر ڈال کر منہ پھیر گئی ۔۔۔۔۔اففف لگتا ہے مسز نارض ہوگئی ۔۔۔
دراب مصنوعی سنجیدگی سے کہتا اسے اپنے برابر ڈالا ۔۔۔۔۔ مشال کو تو موقعہ مل گیا وہ اور چہرے پر غصہ لانے لگی اور اس سے رخ موڑ گئی ۔۔۔۔۔

اچھا سوری بات بتائو میں جان حاضر کرکے سنو گا ۔۔۔۔ اسکا رخ اپنی طرف کرتے وہ پیار سے بولا ۔۔۔۔۔

میں کہہ رہی تھی کہ سفیان یہ ٹھیک نہیں کر رہا ۔۔۔۔۔۔وہ جیسے احسان کرنے والے انداز میں بولی پر بول گئی ۔۔۔۔۔
دراب نے اپنی مسکراہٹ روکے بلکل سنجیدہ ہوگیا ۔۔۔۔ ہاں یہ بھی ہے اور ؟؟ اسکے چہرے پر انگلیاں پھیرتے سیریس ہوکر بولا ۔۔۔۔۔۔

کیا یہ بھی ہے۔۔۔۔ اور یہ کیا کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔ یہ آپ نے سوری کی تھی صرف سیکنڈ کی ۔۔۔۔۔۔ وہ اسکا ہاتھ جھٹکتی پھر غصے میں بولی ۔۔۔

جس پر دراب کا قہقہہ لگا ۔۔۔۔۔۔
ہم تو ایک پل کے لیے بھی سنجیدہ نا ہوں ۔۔۔۔ جان ۔۔۔۔ وہ کہتا اسکے کو اپنے حصار میں لائٹ آف کرتا ۔۔۔۔۔ اس پر جھک گیا ۔۔۔۔۔ مشال بلش کرتی اسکے سینے میں منہ چھپا گئی ۔۔۔۔۔

💕💕💕💕💕

آپ کیا کہتے ہیں سفیان کے بارے میں ۔۔۔۔۔؟ عالیہ بیگم اسکے پاس بیٹھتی حماد صاحب سے انکی رائے لینے لگی ۔۔۔۔۔

حماد صاحب نے ایک نظر انہیں دیکھ فائل بند کرتے بولے ۔۔۔۔۔

اگر اب نکاح ہوگیا ہے تو رخصتی بھی کردیں اور جتنی جلدی بیٹی اپنے گھر کی ہوتی ہے ماں باپ اتنا ہی سکون ملتا ہے ۔۔۔۔اور اس لاڈ صاحب کا فیصلا تو احمد سن چکا ہے ۔۔۔۔ اور اسکے ضد سے تو سب واقف ہیں بچپن سے ضدی طبیعت کا ہے ۔۔۔۔ 

میں یہی کہتا ہوں کہ رخصتی کردینی چاہیے ۔۔۔۔۔ وہ کہتے عالیہ بیگم کو دیکھنے لگے ۔۔۔۔۔ انہونے بھی اثبات میں سر ہلایا جیسے کہہ رہی ہو ٹھیک کہہ رہے ہیں آپ ۔۔۔۔۔۔

💕💕💕💕💕

گدار جاتے ہی بھول گئی ۔۔۔۔ حور نے موبائل کان سے لگاتے پری سے شکوہ کیا ؟؟۔۔۔۔۔

پری اپنے خوبصورت کمرے میں جہاں سارا فرنیچر پنک اور دیواروں کا کلر بلو تھا ۔۔۔۔۔
کھڑکیوں پر گلابی پردے لگے ۔۔۔۔ خوبصورت سے سجائے کمرے میں وہ کھڑی تھی ۔۔۔۔۔

حح۔۔حور تمہیں پتا ہے پاپا نے سس۔۔۔سارہ روم پنک کروایا ہے ۔۔۔ اور ہہ۔۔۔ہم روز باتیں کرتے ہیں دیر نائٹ تک ۔۔۔ وہ خوشی سے چہکتی اسے بتانے لگی ۔۔۔۔

اسے یہاں آئے آج دورا ہفتہ تھا ۔۔۔۔ اور الطاف صاحب ایک پل بھی اسکے بغیر نہیں گذارتے تھے ۔۔۔۔ انکے کہیں باہر جانے کے بعد وہ اپنے چھوٹے بھائی سے کھیلتی تھی اور بھرپور انجوائے کرتی تھی ۔۔۔۔ ان دو ہفتوں میں وہ شیری کے ڈر سے بلکل آزاد ہوگئی تھی ۔۔۔۔۔پہلے ہفتے تو وہ بہت سہمی سہمی رہتی کہ کہیں وہ آکر اسے لے تو نہیں جائے گا پر جب کچھ دن اور گذرے تو اسے یقین ہوگیا کہ اب کوئی بھی اسے اسکے باپ سے الگ نہیں کرے گا ۔۔۔۔
اور وہ ہر غم بھلائے اپنی زندگی گذارنے لگی ۔۔۔۔

شروع کے دنوں میں تو اسے خود ہوش نہیں تھا اور جب آہستہ آہستہ ریلیکس ہوئی تو اسنے آج حور کو کال کی ۔۔۔۔

اور میں یہاں دیر نائٹ تک تمہارے بغیر کرولٹیں بدلتی رہتی ہوں ۔۔۔۔  وہ منہ بنا کر بولی ۔۔۔۔

میں بھی ۔۔۔ اور بیڈ پر لیٹتی اسکی کے انداز میں بولتی ہنسنے لگی ۔۔۔۔

تم کیوں کروٹیں بدلو گی شیری بھائی کے خواب دیکھ لیا کرو ۔۔۔۔۔حور شرارت سے بولی پر بیڈ پر لیٹی پری کا دل بلند آواز میں دھڑکا ۔۔۔۔ جس پر وہ گھبرا کر کال کاٹ گئی ۔۔۔ اسکا معصوم چہرا سرخ تھا ۔۔ماتھے پر اے سی میں بھی چھوٹے چھوٹے ننھے قطرے نمودار ہوئے جنہیں اپنے چھوٹے روئی جسیے گلابی ہاتھوں سے صاف کرتی بھاگی ۔ ۔۔ پتا کیوں ایسا حال ہوگیا  وہ سمجھ نا پائی ۔۔۔۔۔

ایک خوف بھی تھا اسکے  بارے میں صرف سوچنے کا بھی ۔۔۔۔۔ وہ شیری کو کسی بھوت کی طرح سمجھتی اس سے ڈرنے لگی تھی ۔۔۔۔

کیا ہوا آپی ؟؟۔۔۔  اسکا چھوٹا بھائی مصطفٰی اسے اپنے کمرے میں گھبرائے کھڑے دیکھ کر پوچھنے لگا ۔۔۔۔۔

وہ۔۔۔وہ ڈر گئی تھی ۔۔۔ وہ آہستہ سے اپنے دھڑکتے دل کو سنبھالتی اندر داخل ہوتے بوکھلائی سی بولی اور دروازہ بند کردیا ۔۔۔۔۔

ہاہاہاہا۔۔۔۔۔آپی آپ کتنی ڈر پوک ہو۔۔۔۔١٨ سال کی ہیں پھر بھی ڈر رہی ہیں ۔۔۔۔۔آپ سے تو میں برو ہوں ۔۔۔۔اکیلے پاپا کے جانے کے بعد رہتا تھا ۔۔۔۔
ہوں ۔۔۔۔۔میں بھی بب۔۔۔برو ہوں  سمجھے اور آپی ہوں ت۔۔تمیز سے بات کرو ۔۔۔۔ایسے اا۔۔۔اپنی آپی کو ڈرپوک ن۔۔نہیں کہتے ۔۔۔۔اب ہٹو پیچھے مجھے جگہ دو ۔۔۔۔۔وہ آٹھ سال مصطفٰی کو جھڑکتی بیڈ پر جگہ بناتی سو گئی ۔۔۔۔۔

سو نہیں آنکھیں میچ گئی ۔۔۔۔۔

وہ بھی اپنی مسکراہٹ دباتا سائیڈ پر لیٹ گیا ۔۔۔۔۔

💕💕💕💕💕💕

حور اسکی حرکت پر ہنستی دروازہ بند کرتی ۔۔۔۔ دوپٹہ بیڈ پر رکھا اور چشما اتار کر ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ بالوں کو کلپ سے آزاد کرواتی نائٹ سوٹ لیے باتھروم میں گھسی ۔۔۔۔۔۔

پھر کچھ دیر بعد واپس آکر آئینے کے سامنے اپنے بالوں کو برش کرنے لگی ۔۔۔۔۔یہ اسکی عادت تھی کہ سونے سے پہلے وہ بالوں  کو برش ضرور کرتی تھی ۔۔۔۔

اسنے آگے کے بالوں کو برش کیا جب پیچھے سے گردن پر سرسراہٹ ہوئی ۔۔۔۔ جس سے وہ سر سے پیر تک کانپ گئی ۔۔۔۔۔۔
اور پھر نظر اٹھاکر مرر میں دیکھا تو جیسے سانسیں روک گئی ۔۔۔۔۔

بے ساختہ اسکا ہاتھ منہ پر گیا ۔۔۔۔۔ شاید اپنی چیخ کو دبانا چاہتی تھی ۔۔۔۔۔۔

💕💕💕💕💕

Tera Ashiq Me Dewana Ho Awara Mehwish Ali 32

#تیرا_عاشق_میں_دیوانہ_ہوں_آوارہ💕
#از__مہوش_علی
#قسط__32

سفیان نے سگریٹ والا ہاتھ منہ کی جانب لےجاکر اسے چپ رہنے کا کہا ۔۔۔۔۔
ششش۔۔ 
جس پر حور پھٹی آنکھوں اور خوفزدہ حالت سمیت بے ساختہ منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی چیخ ڈبانے لگی ۔۔۔۔
جب وہ اسکی پیچھے گردن پر انگلی سے کچھ لکھنے لگا ۔۔۔۔ البتہ نظریں حور پر تھی ۔۔۔۔ وہ اسکے بہت قریب کھڑا کہ اسکے وجود سے نکلتی پرفیوم کی مہک اور سگریٹ کی بو اسے کپکپانے پر مجبور کر گئی ۔۔۔۔۔

وہ جیسے جیسے کچھ لکھ رہا تھا وہ اور تیز کانپنے لگی ۔۔۔۔ اسکا لمس اسے ڈرا رہا تھا ۔۔۔ اسکی ٹانگیں کانپنے لگی ۔۔۔۔۔ پور پور میں کرنٹ سا پھیلنے لگا تھا ۔۔۔۔

اسنے لمبا سانس لیا جب سفیان نے انگلیاں گردن سے ہٹائی اور سگریٹ کا آخری کش لیکر نیچے قالین پر پھیک اپنے شوز سے مسل دیا ۔۔۔ اور نظریں حور کی طرف اٹھائی ۔۔۔۔۔

اسکے گرد پیچھے سے اپنا حصار باندھ کر منہ اسکے دراز بالوں میں چھپاکر اس سے نکلتی مدہوشکن مہک کو اپنے اندر اتارنے لگی ۔۔۔۔

حور باقاعدہ گھٹی آواز میں رونے لگی ۔۔۔۔ جب سفیان نے مرر میں اسے دیکھا ۔۔۔۔۔

رو کیوں رہی ہو ؟۔۔۔وہ کچھ سرد آواز میں پوچھنے لگا ۔۔۔۔جس پر حورنے ہچکی لی ۔۔۔۔

آآ۔۔۔آپ کیا ک۔۔کر رہے ہیں ۔۔۔۔وہ اپنے گرد بندھے اسکے مضبوط ہوتے حصار کو توڑنے کی کوشش کرتی بولی ۔۔۔

کیوں تمہیں نہیں پتا کیا کر رہا ہوں ۔۔۔؟ وہ کچھ جتاتی نظروں سے دیکھ کر طنزیہ بولا ۔۔۔۔۔
س۔۔سیفی معاف کردو پلیز غ۔۔غلط بولا تھا ۔۔۔ وہ نظریں جھکا کر سسکتی بولی جس پر وہ مسکرادیا ۔۔۔۔

حور جب فراز صاحب کے آنے کے بعد اسے بتانے عائمہ بیگم جارہی تھی تب اسنے اسے روتے کہہ تھا کہ سفیان نے اسکے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کی اور اسے دھمکیاں بھی دی تھیں کہ وہ اس سے ملنے آئے نہیں تو اسے زبردستی لے جائے گا ۔۔۔۔۔

 اسی وجہ اور انہیں باتوں سے فراز صاحب کو صدمہ ہوا تھا ۔۔۔۔ یہ بات سفیان کو بعد میں پتاچلی کہ حور نے اسکے بارے میں ایسا کہا کتنی دیر سفیان سکتے میں آگیا اور اسے یقین کرنا محال ہوگیا ۔۔۔۔۔

پر حسن کے بھی یہی کہنے اور اسکی انسلٹ کرنے کے بعد اسے یقین ہوا کہ ہاں اسنے یہ سب کہا ہے ۔۔۔۔۔ وہ اتنی نفرت میں گر گئی ہے ۔۔۔ یا بدلا لینے میں اتنی اندھی ہوگئی تھی ۔۔۔۔۔ کچھ بھی تھا پر سفیان کے اندر جیسے یہ سب سن کر فنا ہوگیا تھا ۔۔۔۔۔نوشین اس سے بات نہیں کر رہی تھی جسے کچھ ہی دنوں میں  وہ اپنی بھابھی سے ماں کا درجہ دینے لگا تھا اسکی نظروں میں گرا دیا تھا ۔۔۔۔

فراز صاحب تو ذیادہ دل کو سخت رکھ نا پائے پر سفیان ابھی بھی اسکی آنکھوں میں دیکھنے سے کتراتا تھا ۔۔۔۔۔

نہیں جانِ سفیان تمنے ٹھیک بولا تھا ۔۔۔۔ کچھ بھی غلط نہیں بولا ۔۔۔۔ غلط تو میں تھا ۔۔۔ بالکل پاگل تھا جو تمہاری آنکھیں نا پڑھ سکا۔۔۔ صرف یک طرفہ محبت میں ہی دوبتا رہا ۔۔۔۔۔ پر اب تم پریشان نا ہو جانم مینے اپنی آنکھیں مکمل وا کرلیں ہیں ۔۔۔۔۔۔
وہ حور کو لرزانے پر مجبور کر رہا تھا اور وہ اسکی سرد لہجے اور خوفزدہ باتوں پر لرز بھی رہی تھی ۔۔۔۔۔

مم۔۔۔میں سب کو چ۔۔چلا کر بتائونگی آپ م۔۔میرے ساتھ کیا کر رہے ہیں ۔۔۔۔اپنا رخ سفیان کی طرف دیکھ وہ اٹکتی  بولی ۔۔۔۔۔ دے تو دھمکی رہی تھی پر لفظوں کے پیچھے التجا تھی ۔۔۔۔

ہاہاہاہا ۔۔۔ جائو بولو ۔۔۔۔ پھر میں بھی بولوں گا مجھے کال کرکے بلایا ہے ۔۔۔۔ اور اگر میری بات پر یقین نہیں تو موبائل چیک کرلو ۔۔۔۔۔ اسکا فق چہرا دیکھ مزید بولا ۔۔۔۔۔

تم فکر مت کرو مینے سارہ ثبوت موبائل پر سیٹ کردیے ہیں ابھی ۔۔۔۔ وہ اسکی موبائل کی طرف اشارہ کرتے بولا ۔۔۔۔

اور دوسری بات ڈرو نہیں اب مجھے کوئی خوائش نہیں رخصتی سے پہلے کسی قسم کی زبردستی کرنی کی۔۔۔۔ ویسے بھی کچھ ہی تو دن رہ گئے ہیں ہماری رخصتی میں ۔۔۔۔ پھر تو تم مکمل سفیان کے دسترس میں ۔۔۔۔ پھر لیں گے ہم اپنی جانم سے پل پل، بات بات کا حساب ۔۔۔۔

وہ کہتا اسے کمر سے پکڑ قریب کرتے ۔۔۔ چہرا اسکے چہرے کے قریب کیا کہ حور اسکی تیز گرم سانسیں اپنے چہرے پر چھبتی محسوس کرتی دھڑکتے دل کے ساتھ آنکھیں میچ گئی ۔۔۔۔۔ اور آنکھوں سے گرم سیال برسانے لگی ۔۔۔۔

اسکے ماتھے پر بھی پسینے آگئے تھے ۔۔۔ رواں رواں کانپ رہا تھا ۔۔۔۔ دونوں کے چہرے میں انچ بھر کا بھی فاصلا نہیں تھا ۔۔۔۔ 

جب سفیان نے اسکے سرخ چہرے کو دیکھ اور پھرپھراتے ہونٹوں سے نظریں چراتے پورے زور سے گھماکر  اسے بیڈ پر پھیکا ۔۔ وہ ایک زور دار جھٹکے سے پیچھے دہرام سے گری ۔۔۔ مینے کہا نا کچھ نہیں کرونگا پھر یہ خوف کیسا ۔۔۔وہ سرد آواز میں غرایا اور ایک نظر اسکے ہچکیاں لیتے وجود کودیکھ۔۔۔  اسے ایک ٹیلر دیکھا کر جس طرح کھڑکی سے آیا تھا اسی طرح وہ سے جا بھی چکا اور وہ پیچھے ۔۔۔۔ کانپتی لرزتی وہیں پڑی رو رہی تھی ۔۔۔۔۔ 

میں مم۔۔مانتی ہوں غلط بیانی کی ۔۔۔ ک۔۔کیا اب وہ معاف بھی نہیں کرے گا۔۔۔۔۔

💕💕💕💕💕💕
شیری کے مطابق رستم آج ہی آیا ۔۔۔۔ اسکے پہنچنے سے وہ جو دونوں  سیاہی کا ایک حصا بنے زمین پر بیچھے ہوئے تھے آہستہ سے  اٹھتے گھر کے گرد پہرا دیتے آدمیوں کی طرف آئے ۔۔۔۔

پھر پیچھے اور آگے سے کھڑے فواد کے آدمیوں کو گراتے چلے گئے ۔۔۔۔۔
جو جو سامنے آتا سائلنس لگے پسٹل سے گلے یا ماتھے پر نشانا لیکر  انہیں گھسیٹتے ایک طرف جمع کرتے گئے ۔۔۔
جب باہر سے پہریدار کو ختم کرلیا تو آگے سے آہستہ سے شیری اندر گیا ۔۔۔بلال کو دوسرے پیچھے کے راستے سے آنے کا کہا ۔۔۔۔

گھر اتنا بڑا نہیں تھا صرف دوہی کمرے تھے اور ان پر بھی آدمی کھڑے تھے ۔۔۔۔ 
شیری کو دیکھ میں سے ایک چلایا ۔۔۔۔ 
اور پھر سب اسکی طرف متوجہ ہوگئے تھے ۔۔۔۔ پچھلے راستے سے بلال  اندر گھس آیا تھا ۔۔۔۔۔ دونو طرف سے انہیں گھیرلیا ۔۔۔۔ 

ان کے نشانہ لینے سے پہلے ہی شیری نے ان پر فائر کیا ۔۔۔۔ آواز گونجی ۔۔۔ اور اسکے ساتھ ہی باقی کے لوگ باہر نکلے ۔۔۔۔
اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا گھر انکے خون سے لال ہوگیا ۔۔۔

فواد اور رستم جو لڑکیوں کو اپنے آدمیوں کے ذریے اٹھوارہے تھے ۔۔۔ فائر کی آواز پر الرٹ ہو گئے ۔۔۔۔

اور فواد کو غصے سے دیکھ ۔۔۔ وہ تو پہلے ہی اس چانک حالت پر بوکھلایا ہوا تھا مزید بوکھلایا گیا ۔۔۔

پپ۔۔پتا نہیں باس ۔۔۔۔۔کک۔۔کون ہیں آپ فکرنا کریں دومنٹ میں مسل دیں گے ۔۔۔۔۔آپ اپنا کام جاری رکھیں اور پچھلے دروازے سے نکلیں ۔۔۔۔۔
فواد کے کہنے پر وہ لڑکیوں کو چھوڑ  منشیات کے بیگ اٹھا کر وہاں سے نکلنے کے لیے تہہ خانے سے باہر جاتے راستے کی جانب ہوا جب وہاں سے بلال اندر داخل ہوا۔۔۔۔
فواد بھی اپنے ہتھیار نکال کر تہہ خانے کی سیڑھیوں پر نشانا لیکر کھڑے ہو گئے ۔۔۔۔۔ 
اچانک بم شکل کی کوئی چیز اندر سیڑھیوں سے لڑکھتی نیچے آئی ۔۔۔۔

فواد بم بم کرتا چلایا اور اسکا دھیان جیسے بٹکا شیری  اندر داخل ہوتے ۔۔۔اس  پر ہتھیار تان کر کھڑا ہوگیا۔۔۔۔۔

پیچھے سے بلال بھی رستم کو گھسیٹتا اندر کی جانب لایا ۔۔۔

مہک بھی اٹھ کر بے ہوش لڑکیوں کو اٹھائے باہر کھڑے گاڑیوں لیجانے لگی ۔۔۔۔جہاں انہونے پہلے ہی کھڑی کی تھی ۔۔۔۔ کچھ آفیسرز اسکی مدد کے لیے تھے جو میسج ملتے وہاں پر آئے ۔۔۔۔۔۔

رستم اور فواد یہ سب دیکھ اور انکی پلاننگ دیکھ چیخ اٹھے ۔۔۔۔ 
تم جانتے نہیں ہو آفیسر تم نے کس پر ہاتھ ڈالا ہے ۔۔۔ رستم کے کہنے پر شیری نے اسے پیٹ میں لات ماری ۔۔۔۔۔

تم بھی جانتے نہیں ۔۔ آگے کس کے ہاتھ لگنے والے ہو ۔۔۔۔۔بہت مزے کرلیے بچے اب چلیں ذرا دوسرا مزہ لو ۔۔۔۔ 

لے جائو اسے ۔۔۔ اسکے حکم پر بلال رستم کی طرف بڑھا جب اسنے اچانک فائر کیا اور پاس لڑکیوں کو باہر نکالتی مہک کے بالوں سے پکڑ کر اپنے شکنجے میں لے لیا ۔۔۔۔۔

ہٹو پیچھے ورنہ میں اس (گالی) یہی چھتھڑے اڑا دونگا ۔۔۔۔۔وہ ان سے راستا مانگتا بولا ۔۔۔۔

 تم کیا سمجھے رستم کو اتنی جلدی پکڑ لوگے شیر۔۔۔۔ہاہاہا۔۔ نا ممکن ۔۔۔۔
وہ ہنستا مہک کو گھسیٹتا لے جانے لگا ۔۔۔ 

بلال  اسے بچانے کو آگے بڑھا جب رستم نے مہک کے بازو پر فائر کردیا ۔۔۔ وہ تو تڑپ کر ہی رہ گئی اور ایک زوردار چیخ ماری ۔۔۔۔

ہتھیار نیچے پھینکو ۔۔۔۔اور تم فواد کو چھوڑو ۔۔۔ حکم دینے ساتھ شیری کو بولا ۔۔۔ جس پر اسنے اور فواد کے گرد مضبوط پکڑ کی ۔۔۔۔ وہ گھٹی آواز میں چلانے لگا ۔۔۔۔۔ پر جب رستم کو مہک کے دوسرے بازو کا نشان لیتے دیکھا تو اسے جھٹکے سے زمین پر پھیکنے کے انداز میں رستم پر پھیکا جس سے وہ اپنا توازن برقرار نا رکھ سکا اور دہرام سے زمین پر گرا ۔۔۔۔ بلال نے مہک کو سنبھالا اور شیری رستم پر لپکا جب فواد موقعہ دیکھ وہا سے بھاگا پیچھے شیری نے ایک بازو رستم کی گردن میں پھنسائے دوسرے سے اسکی ٹانگ پر نشانا لیا ۔۔۔۔ وہ چیختا زمین پر گرا ۔۔۔۔

اسکی ٹانگ لہولہان ہوگئی پر جب اسے اپنی طرف آتا دیکھ بغیر درد کی پروہ کیے پچھلے راستے سے  بھاگنے لگا شیری رستم کی دونوں ٹانگوں پر اپنے گھٹنے سے وار کیا جس سے اسکی کرب ناک چیخین گونجی ۔۔۔ اور اسکی آنکھوں پر مکہ مارا جس سے نظر دھندلی کرکے اسے زور سے زمین پر پھیکا اور فواد کے پیچھے بھاگا ۔۔۔۔

بلال مہک کو اٹھائے جاچکا تھا وہ بے ہوش ہوگئی تھی ۔۔۔۔ باقی کے لوگ انکی مختلف جگائوں پر حملا آور تھے ۔۔۔۔

وہاں محلے کے لوگوں کے بیچ اندھیرے میں فواد بھی ٹانگ گھسیٹتا ان میں گھم ہوگیا ۔۔۔۔۔۔

شیری کو تو وہ زندہ چاہیے تھا ۔۔۔۔ اور اسکے یو ہاتھ سے نکلے پر وہ بپھرا شیر ہوگیا ۔۔۔۔۔۔

💕💕💕💕💕💕

آپی اٹھو ۔۔۔ گیارہ بج رہے ہیں آپ تو ایسے ڈر کے سوئی ہیں کہ اب ہوش نہیں ۔۔۔۔مصطفیٰ اسکے کان کے قریب چیختا بولا جس پر پری ہڑبڑا کر اٹھی ۔۔۔۔

ک۔۔کیا ہوا ۔ آگیا ..کیا کوئی آگیا۔۔۔؟ وہ ہڑبڑا کر بولی اور یہاں وہاں دیکھتی پوچھنے لگی ۔۔۔
ہاہاہاہا ۔۔۔۔ واقعی آپی کی شکل میں ڈرپوک بلی ہو ۔۔۔۔ وہ ہنستا دور جاتے بولا ۔۔۔۔
پری نا سمجھی سے اسے دیکھنے لگی ۔۔۔۔ وہ ابھی خواب میں شیری کو اسکا آپنے آپ کو گھسیٹتے دیکھ کر پہلے ہی خوفزدہ تھی اور اب  مصطفیٰ کے کان میں چیخنے پر اور ہڑبڑا گئی ۔۔۔۔

کیا باہر کوئی آیا ہے ؟؟ وہ جھانکنے کے انداز میں دیکھتی پوچھنے لگی ۔۔۔۔

ہاں آیا ہے ؟؟ وہ بھی مزا لیتے بولا ۔۔۔۔۔
کک۔۔کون ؟۔۔۔۔۔وہ ماتھے پر پسینے صاف کرتی بولی ۔۔۔۔

وہ ۔۔۔۔۔ مصطفیٰ صرف وہ کہتا اسکے چہرے کو دیکھنے لگا جو پھٹی آنکھوں سے اسکے بتانے کے منتظر تھی ۔۔۔۔۔۔

وہ پاپا ناشتے کی ٹیبل پر آئیں ہیں ۔۔۔۔ہاہاہاہا ۔۔۔ وہ کہتا ہنستا بھاگا کمرے سے ۔۔۔۔۔
کہیں وہ جوتے نا مارے جو ہر بات پر بھیگی بلی ہوتی تھی صرف اس پر شیرنی بن جاتی ۔۔۔۔۔

پری اسکی بات جب سمجھی تو ۔۔۔ایییی۔۔۔۔ کرتی  مٹھیا بھینچتی اسکے پیچھے آئی ۔۔۔۔پر دل میں یہ شکر ضرور تھا کہ یہ سب خواب تھا ۔۔۔۔۔

تم لمبو س۔۔سمجھتے کیا ہو ۔۔۔بار بار مم۔۔۔مجھے تنگ کر رہے ہو ۔۔۔۔ وہ لائونج میں صبح صبح ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ۔۔۔جس سے اندازہ لگانا مشکل تھا پری اسے پکڑنے کی کوشش کر رہی ہے یا وہ پری کو ۔۔۔۔۔ وہ چیختی بولی ۔۔۔۔ چہرے پر مصنوعی غصا تھا ۔۔۔۔

الطاف صاحب لائونج میں ان دونوں کو صبح کھلکھلاتے دیکھ مسرور ہوگئے اسے اپنی خوشیاں مکمل ہوتی محسوس لگی ۔۔۔۔

پاپا ۔۔۔پ۔۔پکڑیں اسے ۔۔۔ وہ الطاف صاحب کو لائونج میں دیکھ کر پھولے سانسوں کے درمیان بولی ۔۔۔۔۔
نہیں نہیں ۔۔۔پاپا پلیز ۔۔۔۔ مصطفیٰ الطاف صاحب کو اپنی طرف آتے دیکھ کر ۔۔۔ نا نا کرتے ہاتھ آگے کرگیا ۔۔۔۔۔

جب الطاف صاحب اسے پکڑ کر اوپر اٹھایا ۔۔۔۔۔ اور خود بھی قہقہہ لگا گئے ۔۔۔۔۔ہاہاہہا۔۔
پ۔۔پاپا نیچے دد۔۔۔دیں اسے مجھے ۔۔۔۔ وہ مصطفیٰ کو اوپر دیکھ بولی ۔۔۔۔۔
نہیں پاپا یہ جنگلی بلی کھا جائے گی پلیز ۔۔۔۔۔ وہ اپنے پائوں بھی اوپر کرتا پری کی پہنچ سے دور ہوتے اسے زبان دیکھا کر بولا ۔۔۔

آپ دیکھ رہے ہیں ۔۔وہ۔۔ وہ خوش ہورہا ہے ۔۔۔۔ غ۔۔غلطی بھی اسنے کی تھی ۔۔۔
اچھا چھوڑو میرا بیٹا اسے میں دیکھتا ہوں ۔۔۔ آپ جاکر فریش ہو آئو ساتھ ناشتا کریں ۔۔۔۔۔وہ اسکا پھولا معصوم چہرے دیکھ پیار سے پچکارنے لگے ۔۔۔۔ البتہ مصطفیٰ کو اسکی پہنچ سے دور ہی رکھا ۔۔۔۔
پری پہلے اپنے باپ کو دیکھا پھر بھائی جو مسلسل مسکراہٹ روک رہا تھا ۔۔۔۔۔اور بڑے لڑکوں کی سٹائل سے بالوں میں ہاتھ پھیرا ۔۔۔۔

تمہیں بب۔۔بعد میں دیکھتی ہوں بچے ۔۔۔۔۔ وہ کہتی اپنے کمرے کی طرف چلی گئی ۔۔۔۔جب پیچھے الطاف صاحب نے اسے بازوں سے اتارا ۔۔۔۔
کیوں تنگ کرتے ہو میری جان کو ۔۔۔۔۔ الطاف صاحب اسکے مسکراتے چہرے کو دیکھ کان پکڑ کر پوچھنے لگے ۔۔۔۔

میرا کیا قصور۔۔۔۔۔ ہے ہی اتنی کیوٹ آپی ۔۔۔۔۔ دل کرتا ہے بس تنگ کرتا رہوں ۔۔۔۔۔وہ کہتا ہنسنے لگا ۔۔۔۔ الطاف صاحب بھی مسکرا کر اسے اپنے ساتھ لگا گئے ۔۔۔۔۔

تھنکس پاپا اتنی پیاری آپی کو میرے پاس لانے کے لیے ۔۔۔۔۔کہتا پری کے کمرے کو دیکھ خوشی سے مسکرانے لگا ۔۔۔۔

💕💕💕💕💕💕

وہ کمرے میں داخل ہوتی وارڈروب سے اپنے کپڑے نکالنے لگی جو سب یہاں آنے کے بعد شاپگ کی تھی تینوں نے ملکر ۔۔۔۔
وہ ان میں سے ایک ڈریس نکال کر وارڈروب بند کرنے والی تھی جب اسکی نظر شرٹ پر پڑی ۔۔۔۔

وہ چوروں کی طرح یہاں وہاں دیکھتی وہ شرٹ نکال کر اپنے ناک کے قریب لے آئی ۔۔۔۔ جیسے کسی نشے کے مریض کی طرح اسکی شرٹ کو اپنے قریب کرنے لگی اس سے اٹھتی خوشبو جو اسکے دماغ میں رچ بس گئی تھی ۔۔۔ جسنے اسے یہ اٹھانے پر مجبور کیا تھا کسی چوری کرنے پر ۔۔۔۔۔۔
وہ اسے دیکھتی مسکرادی ۔۔۔۔
ت۔۔تم بب۔۔۔بہت برے ہو ۔۔پر تمہاری ش۔۔شرٹ ب۔۔بہت اچھی ہے ۔۔بالکل بھی نہیں ڈراتی ۔۔۔۔۔ وہ شرٹ کو مٹھیوں میں لیے دیکھنے لگی ۔۔۔۔ 

پر ۔۔۔اب ت۔۔تم د۔۔دیکھو کیسے تمہیں تکلیف دیتی ہوں ۔۔۔۔ وہ کہتی اسے اپنے ناک سے دور کرتی دونوں ہاتھوں سے  شرٹ کی آستینوں سے ایسے پکڑا جیسے اسے شیری کے بازوں کو پکڑتا ہو ایسے جیسے وہ اسے غصے سے پکڑتا تھا ۔۔۔۔۔۔

اور اپنے مقابلے کیا جیسے شیری کھڑا ہو ۔۔۔۔ وہ اسکے سر کو تصور میں لیتی اسے مارنے کو اپنا دوسرا ہاتھ اٹھاتی ۔۔۔۔جب۔۔

آپی ہم ویٹ کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔مصطفیٰ کی آواز اپنے کمرے کی طرف آتی لگی ۔۔۔۔ہڑبڑاہٹ میں اسکے ہاتھ سے شرٹ چھوٹ گئی ۔۔۔۔۔ 
وہ پوری فق ہوگئی ۔۔۔۔۔
جب اسکے بھائی نے دروازے میں قدم رکھے پری کی سانس اور ہی اٹک گئی ایسے جیسے کسی نے چوری پکڑ لی ہو ۔۔۔۔۔

وہ ایک نظر اسے دیکھ کر جھٹکے سے شرٹ نیچے سے اٹھاکر وارڈروب میں کپڑوں میں چھپاگئی ۔۔۔ اسکی نظر پڑنے سے پہلے ہی ۔۔۔۔۔
وہ بھی اسے بوکھلا دیکھ دونوں اپنے چھوٹے ہاتھ کمر پر ٹکا کر قریب آیا اور جھانکنے کے انداز میں دیکھتا پوچھنے لگا ۔۔۔۔

کیا ۔۔کیا چھپا رہی ہو ۔۔۔ہاں دیکھائو نہیں تو پاپا کو بتائونگا ۔۔۔۔ مصطفیٰ کے کہنے پر پری کی آنکھیں نم ہوگئی ۔۔۔۔

ت۔۔تم میرے بھائی ہو نا مم۔۔مصطفیٰ ۔۔۔۔ وہ معصومیت سے بولی ۔۔۔۔جس پر اسنے اسے دیکھا ۔۔۔
وہ اسکے مقابلے بہت تیز تھا ۔۔۔۔ ہاں وہ تو ہوں پر ابھی جو چیز چھپائی ہے وہ دیکھائو ۔۔۔۔۔ اسکا ڈرا چہرا دیکھ کچھ بڑو کی طرح روعب سے بولا ۔۔۔۔۔
پری نے پہلے وارڈروب کو دیکھا پھر اپنے چالاک بھائی کو جو آئی برو سکیڑے اسکے سامنے کھڑا تھا ۔۔۔۔۔
ت۔۔تم ٹھرو میں پ۔۔پاپا کو بتاتی ہوں تم پھر مجھے تنگ کرنے آئے ہو ۔۔۔۔ وہ کہتی جانے لگی ۔۔۔۔۔

ارے ارے  میری پیاری بہن ہو نا میں تو مزاق کر رہا تھا ۔۔۔۔ بھلا میری کیا مجال اپنی آپی کو تنگ کروں ۔۔۔۔ وہ دور کر اسکا روئی جیسا گلابی ہاتھ پکڑ کر جلدی سے بولا ۔۔۔۔۔
پری نے جیسے سکون کا سانس لیا ۔۔۔۔ تو جائو آرہی ہوں ۔۔۔۔

جا رہا ہوں اگر نہیں آئی تو ۔۔۔۔۔وہ کہتا پھر شرارت سے وارڈروب کو دیکھنے لگا ۔۔۔۔۔
ت۔۔۔تم۔۔۔وہ ابھی کچھ اور کہتی جب وہ ہنستا کمرے سے بھاگا ۔۔۔۔

اسکے جانے کے بعد پری جلدی سے دروازہ بند کرتی ۔۔۔ وہ شرٹ وارڈروب سے نکال کر یہاں وہاں پورے کمرے میں اسے چھپانے کی جگہ ڈھونڈنے لگی ۔۔۔۔ پر کہیں مناسب جگہ نا لگی ۔۔۔ تو رونے جیسی شکل بنا کر شرٹ کو دیکھنے لگی ۔۔۔۔

ت۔۔تم مجھے مار دیتے ہو ۔۔۔۔ بڑبڑائی ۔۔۔۔ اور جب اپنے سرہانے بیڈ پر نظر پڑی تو چہرے پر مسکراہٹ سی پھیل گئی اور بغیر وقت لیے وہ جلدی سے اپنے سرہانے اسکی شرٹ کو چھپانے لگی ۔۔۔۔ جب وہاں سے فارغ ہوئی تو لمبا سانس لیکر جلدی سے فریش ہوکر ناشتے کی ٹیبل پر بھاگی ۔۔۔۔۔ اور پھر تینوں  ملکر ناشتے کرنے لگے ۔۔۔۔پر اپنے بھائی کی شرارتی مسکراہٹ وہ دیکھتی جل رہی تھی اور اندر سے ڈر بھی رہی تھی ۔۔۔ کہیں پاپا کو نا بتا دے ۔۔۔

💕💕💕💕

Tera Ashiq Me Dewana Ho Awara Mehwish Ali 33

#تیرا_عاشق_میں_دیوانہ_ہوں_آوارہ💕
#از__مہوش_علی
#قسط__33
💕💕💕💕💕💕

وہ لیپ ٹاپ میں بار بار پری کے کمرے کو دیکھ رہا تھا پر وہ کمرے میں نظر نہیں آرہی تھی ۔۔۔۔کافی دیر اور پورا دن دیکھنے کے بعد اسے اندازہ ہوگیا کہ وہ واپس حور کے کمرے میں چلی گئی ۔۔۔یہ سوچتے اسکا موڈ خراب ہوگیا ۔۔۔اور زور سے لیپ ٹاپ دیوار دے مارا ۔۔۔ جس سے اس قیمتی لیپ ٹاپ کی اسکرین چکناچوڑ ہوگئی ۔۔

 اب یہ تو پکا ہے اس کا حساب تو تمہیں دینا ہوگا ہنی ڈارلنگ ۔۔۔۔وہ کہتا مسکرا کر واپس جانے کی تیاری کرنے لگا پر غصہ بھی آنکھوں میں موجود تھا ۔۔۔ایک فواد کے ہاتھ سے نکلنے پر اسکا پارہ لائے تھا مزید جو کچھ بچا تھا وہ اسنے اپنی بےوقوفی نے بگاڑ دیا ۔۔۔

 رستم کو اسنے اسکی منزل تک پہنچا دیا تھا ۔۔۔ اور اب تک تو شاید اسکے ذرے ذرے بھی نہیں ہونگے ۔۔۔۔۔

اور رہا فواد اس تک پہنچنا زیادہ دور نہیں تھا ۔۔۔ پر یہ شکر رب کا تھا اسکی جان صحیح سلامت ملک ولا میں محفوظ تھی ۔۔۔ اور اب  جاکر سب کو اپنا نکما پن دیکھا کر اپنے باپ کی ہر شکایت دور کرنا چاہتا تھا  ۔۔۔۔ اور اس پری کو ہمیشہ کے لیے مانگنا چاہتا تھا اور اپنے کیے کی معافی بھی چاہتا تھا ۔۔۔۔۔

پھر اسنے باقے جو پری کے سنگ زندگی گذارنے کا سوچا تھا ۔۔۔ شاید وہ اسکی سوچوں کو پڑھتی تو ضرور اپنے ہوش وحواس کھو دیتی ۔۔۔ اتنی شدتیں تھیں اسکی پری کے لیے ۔۔۔۔ وہ اسکی دیوانگی بنگئی تھی ۔۔۔۔ اسکا جنون تھی ۔۔۔ اسکے بنا شاید زندگی کا تصور کرنا ہی محال تھا ۔۔۔۔ اور جو تصور کرتا تو شاید خود کے ہی ذرے ذرے کردیتا ۔۔۔۔ نوچ لیتا خود اور جو پری ایسا تصور کرتی پھر وہ جان نا سکتا کیا کرتا ۔۔۔۔۔ 

وہ اپنی سوچوں میں گھم مسکراتا پیکنگ کرنے لگا آج آٹھ بجے کی فلائٹ تھی اسکی ۔۔۔۔۔
کل ہی اسکے باپ نے اسے حور کی رخصتی کا بتایا اور اسے واپس آنے کا کہا تھا ۔۔۔۔۔
اب وہ جاکر سب کو سرپرائز کرنا چاہتا تھا اور اپنے باپ کی چہرے کی خوشی دیکھنا چاہتا تھا ۔۔۔۔۔

💕💕💕💕💕

اا۔ ۔اتنی جلدی حور کی شادی ہو رہی ہے ۔۔۔یہ بھی بھلا ک۔ ۔کوئی بات ہوئی ۔۔۔۔پری اپنے باپ کے ساتھ انکے کمرے میں بیڈ پر بیٹھی  منہ بناکر بولی ۔۔۔۔

کل ہی عائمہ اور عالیہ بیگم شادی کا کارڈ دے کر گئی تھی ۔۔۔۔ سفیان کے فیصلے سے مجبور ہوکر انہیں یہ فیصلا کرنا پڑا ۔۔۔۔ احمد صاحب نے جب حماد صاحب سے بات کی تو انہونے اپنی رضامندی دے دی ۔۔۔ پھر ایک دن کے بعد فراز صاحب حسن اور نوشین ملکر شادی کی تاریخ طے کرنے آئے ۔۔۔۔۔
 سب نے ملکر شادی کا دن طے کیا ۔۔۔۔ حور نے کافی واویلا مچایا پر اسکی کسی نے نہیں سنی ۔۔۔ عائمہ بیگم جیسے کان پر پردے ڈال لیے ۔۔۔۔

اور حور کو اچھی طرح سمجھایا کہ یہ سب کرنے کا کوئی فائدا نہیں ۔۔۔ شادی کا دن طے کردیا گیا ہے تو اب چپ رہ جائے ۔۔۔ میں ہرگز تمہیں ساری زندگی اسکے منتظر رہتے نہیں دیکھ سکتی ۔۔۔میں کیا کوئی بھی ماں ایسا نہیں چاہے گی ۔۔۔۔

بیٹا ہر بیٹی کو ایک نا ایک دن جانا ہی ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ اپنا گھر بسانا ہوتا ہے جیسے آپکی مما شادی کرکے یہاں آئی تھی ۔۔۔۔ 
الطاف اسکے سر پر بوسہ دیے بولے ۔۔۔

پ۔ ۔پر پاپا میں وہاں نہیں ج۔ ۔جارہی ۔۔۔۔ مجھے دکھ ہوگا ۔۔۔۔ وہ رونے جیسی صورت بنا کر بولی ۔۔۔۔ اصل میں دکھ کم ڈر تھا کہ اگر وہاں واپس گئی تو شیری کے اسے وارن کرنے کے بعد بھی وہ اس سے دور ہوئی تو پتا نہیں اس پر وہ اسکا کیا حشر کرے گا ۔۔۔یہی ڈر عائمہ بیگم والوں نے جب  اسے اپنے ساتھ لےجانے کا بولا تو اسی ڈر نے اسکے پائوں جکڑ لیے ۔۔۔۔
اور اسنے انکار کردیا تھا ۔۔۔۔ جس پر وہ کافی مایوس ہوئی تھی ۔۔۔۔ پر پری نے کوئی پروا نہیں کی تھی ۔۔۔ دل میں بہت شرمندہ تھی ۔۔۔
بیٹا یہ کیا بات ہوئی آپ کیوں نہیں جائیں گی میں تو کہتا ہو آپکو کل ہی بیج دوں ۔۔۔ حور بیٹی کو خوشی ہوگی ۔۔۔۔ اور آپ تو اسکی بیسٹ فرینڈ ہیں اسے ٹائم پر وہ ہی ساتھ ہوتی ہیں ۔۔۔۔ اور دوسری بات حماد اور احمد صاحب کو بھی کافی دکھ ہوگا وہ ناراض ہوجائیں گے آپسے ۔۔۔۔۔آپ بھابھی کے کہنے پر بھی نہیں گئی تھی ۔۔۔ تب میں کچھ نا بولا پر اب تیاری کر لینا صبح کی فلائٹ بک کروادونگا آپکی ۔۔یا ایسا کرو بھائی کو بھی ساتھ لیجانا میں بعد میں آجائونگا ۔۔۔  ٹھیک ہے میرا بیٹا ؟۔۔۔ وہ اسکی پھولی سرخ گال تھپتھپاکر اسے سمجھانے کے بعد اسکی رائے لینے لگا ۔۔۔۔

پر پری کا دماغ وہاں نہیں مشال کی شادی میں جو شیری نے اسکے کیا تھا اسکی طرف تھا ۔۔۔۔ اور پھر یہی منظر حور کی شادی میں کسی خوفناک سین کی طرح اسکی آنکھوں میں چلنے لگا ۔۔۔ فرق صرف اتنا تھا کہ وہ اسے مار رہا تھا دور جانے پر ۔۔۔۔۔

وہ جیسے جیسے دیکھتی گئی تصور میں ویسے ویسے چہرے کا رنگ لٹھے کی ماند سفید پڑتا گیا ۔۔۔۔

نن۔ ۔نہیں میں نہیں جائونگی ۔۔۔ وہ ایکدم گھبرائے بولی ۔۔۔۔۔
جس پر الطاف صاحب نے چونک کر اسے دیکھ جو آفس جانے کے لیے تیار ہورہے تھے ۔۔۔۔۔

کیوں نہیں جائیں گی بیٹا ۔۔۔

یہ کیا بات ہوئی ۔۔۔۔۔ ڈرو نہیں وہاں سب موجود ہونگے ۔۔۔ شہریار نہیں ہے اور وہ شادی کے دن آئے گا تب تک میں بھی آجائونگا ۔۔۔۔۔
ویسے بھی اسے آجکل اپنے دوستوں کے علاوہ گھر کی پروہ یا بہن کی ذرا بھی پروا نہیں ہے ۔۔۔۔۔
الطاف صاحب کے بھی لفظوں میں شیری کے لیے ناپسندگی تھی ۔۔۔۔

 پ۔۔پاپا وہ ب۔ بہت جھوٹا ہے ۔۔۔ اور بہت خ۔ ۔خوفناک ہے مم۔ ۔۔مجھے مارے گا میں ن۔ ۔۔نہیں جانا ۔۔۔ وہ روتی الطاف صاحب کے گلے لگ گئی اور مسلسل نفی میں سر ہلانے لگی ۔۔۔۔

مصطفیٰ ٹھیک کہتا ہے ۔۔۔ آپ بہت ڈرتی ہو بیٹا ۔۔۔ اس لیے آپکو وہ ڈراتا ہے۔۔۔ اگر آپ اس سے ڈرنا چھوڑ دینگی تو وہ آپکو نہیں ڈرائے گا ۔۔۔میری جان ڈرا ناکرو بہادر بنو ۔۔۔۔
اگر ایسے ڈر ڈر کر رہو گی تو زندگی کیسے گذاروگی ۔۔۔۔
اور آپکے لیے ایک اچھی خبر ہے جس سے آپکا سارہ ڈر بھاگ جائے گا ۔۔۔ وہ اسے اپنے ساتھ لگاتے بولے ۔۔۔۔

پری نے سرخ آنکھیں اٹھاکر دیکھا ۔۔۔۔جیسے کہہ رہی تھی آپ اسکو نہیں جانتے کتنا خطرناک ہے ۔۔۔۔۔ پر وہ بغیر سمجھے اسکے ماتھے پر اپنے لب رکھ کر بولے ۔۔۔۔۔

احمد صاحب نے طلاق کے پیپر ریڈی کروالیے ہیں اب صرف شہریار آئے گا اور ان کے سائن ہونگے پھر آپ سب سے آزاد پھر وہ آپکو دیکھے گا بھی نہیں ڈرانا تو دور ۔۔۔۔۔اسکی بات پر پری نے ناسمجھی سے دیکھا ۔۔۔۔ 
مطلب کہ یہ سمجھو ہم اس سے واعدہ لیں گے کہ وہ آئندہ ہماری ڈول کو نہیں ڈرائے گا اور اس سے بات بھی نہیں گرے گا ۔۔۔۔

اا۔ ۔۔ایسا ہوتا ہے پاپا۔۔۔ مم ۔۔مطلب طلاق پر س ۔۔سائن مجھے سیف رکھے گی ۔۔۔ وہ مجھے نہیں دیکھ سکے گا ۔۔۔۔ اور ڈرائیگا بھی ن۔ ۔نہیں ۔۔۔۔وہ سرمئی آنکھیں پھاڑے حیرت بے یقینی سے پوچھنے لگی ۔۔۔۔

آج الطاف صاحب کو خود پر غصہ آرہا تھا اور اس معصوم پر دکھ ۔۔۔۔۔ اسکی آنکھیں نم ہوگئی ۔۔۔۔

ہاں میرا بچا وہ نا آپکو دیکھے گا نا ہی ڈرائے گا ۔۔۔۔ اگر ایسا کیا بھی تو میں اسکو آپکے سامنے ماروں گا ۔۔۔۔۔

اسکی یقین ڈلانے پر پری کے چہرے کا رنگ جیسے واپس آیا اور وہ مسکرادی خوشی سے ۔۔۔۔ مطلب اب وہ اسے نہیں ڈرائے گا اور نا ہی مارے گا ۔۔۔۔۔ وہ خوشی سے الطاف صاحب کے گلے لگ گئی ۔۔۔۔

لو یو پاپا ۔۔۔۔ مم ۔۔۔۔میں آپسے بہت زیادہ پپ۔۔۔پیار کرتی ہو ۔۔۔۔ 

لو یو ٹو مائے ڈول پاپا بھی آپسے بہت زیادہ پیار کرتے ہیں ۔۔۔۔وہ نم آنکھیں ماتھے پر رکھ کر بولے ۔۔۔۔

کیا مجھ سے بھی زیادہ ۔۔۔۔ مصطفیٰ پری پر آنکھیں نکال کر اپنے باپ سے بے یقینی سے پوچھنے لگا ۔۔۔۔ جس پر وہ کھلکھلا کر ہنسی ۔۔۔۔ ہاں تم سے بب ۔۔ بھی زیادہ ۔۔۔۔لمبو۔ ۔۔

ڈرپوک بلی مجھے لمبو بولا ۔۔۔۔ اب تمہیں کھاجائونگا شیر کی طرح ۔۔۔۔
وہ مصنوعی غصے سے کہتا اسکی طرف لپکا ۔۔۔۔ 
پر پری پھر شیر میں ہی الجھ گئی ۔۔۔۔۔پاپا آآ۔۔۔آپ جلدی آئیں گے نا ۔۔۔اور سائن ب۔۔۔بھی جلدی لیں گے نا ۔۔۔۔اور بھائی کو ل۔۔۔لے جائونگی تاکہ وہ اسے مم۔۔۔ میرے پاس نا آنے دے ٹھیک ہے ۔۔۔۔
وہ پھر تسلی کے لیے پوچھنے لگی ۔۔۔۔

ارے واہ مطلب میں وہاں آپی کا گارڈ بنوگا ۔۔۔ مطلب باڈی گارڈ ۔۔۔۔ یاہوووو ۔۔۔۔۔وہ خوش ہوتا جھومنے لگا ۔۔۔۔
تو الطاف صاحب اسے یقین ڈلاتے بیٹے کی بات پر ہنس پڑے ۔۔۔۔ اور پری کو پیکنگ کرنے کا بولے ۔۔۔۔۔وہ روٹھے اور ڈرے  گھبرائے دل کے ساتھ بیڈ سے اترتی چلی گئی ۔۔۔۔۔ پیچھے وہ بھی کان کھاتے باڈی گارڈ بنا آیا ۔۔۔۔۔

💕💕💕💕💕

حور اٹھو ناشتا کرو ۔۔۔۔مشال حور سے کہتی اسکے سر کے بالوں میں انگلیاں چلانے لگی ۔۔۔۔۔جو تکیے میں منہ دیے رو رہی تھی ۔۔۔ پرسوں مایوں کی رسم تھی جسکی مبارک سفیان اسے موبائل پر  دے چکا تھا ۔۔۔کچھ جتانے والے انداز میں ۔۔۔۔۔

مجھے نہیں کرنا ۔۔۔۔وہ غصے سے کہتی منہ دوسری طرف کرگئی ۔۔۔۔
اور سسکنے لگی ۔۔۔۔
میری جان کیوں ایسا کر رہی ہو دیکھو سفیان تمسے بہت پیار کرتا ہے ۔۔۔۔ تمہارا بہت خیال رکھے گا ۔۔۔۔۔ وہ اسکا رخ اپنی طرف کرتی آنسوں صاف کرنے لگی ۔۔۔

ہوں ۔۔۔۔ نہیں کرتا پیار ۔۔۔ آگے اسے کیا بتاتی کہ وہ کیسا ہوگیا ہے ۔۔۔سوچ کر پھر سے آنسوں بہانے لگی ۔۔۔۔۔
اچھا نہیں کرتا پیار تو شادی کے بعد کرے گا اس میں رونے والی کیا بات ہے ۔۔۔۔ مشال مسکراہٹ دبائے شرارت آنکھوں میں سمائے  معنی خیزی سے بولی ۔۔۔۔
جس پر حور کا چہرا سرخ ہوگیا ۔۔۔۔۔ اور پھر مشال کو دیکھنے لگی غصے سے ۔۔۔۔۔

جس پر مشال آنکھیں دبائے یقین ڈلانے لگی ۔۔۔۔ سچی شادی کے بعد پکا پیار کرے گا ۔۔پھر بھی تم رو گی کہ وہ بہت پیار کرتا ہے ۔۔پھر تمہیں یہ شکایت ہوگی ۔۔۔۔۔۔

 اور دیکھو اگر ابھی سے پیار کرنے لگا تو ہم ہی اسکا برا حشر کردیتے کہ ابھی تو صرف نکاح ہوا ہے اور تم سے صبر نہیں ہوتا ۔۔۔۔ کہتی خود ہی حور کے شرم سے سرخ چہرے کو دیکھتی قہقہہ لگانے لگی ۔۔۔۔۔
آپی آپ شادی کے بعد بالکل بدتمیز ہوگئی ہیں ۔۔۔۔حور اسے تکیہ مارتی اپنی گھبراہٹ چھپانے لگی ۔۔۔۔ یہ تصور کرنا ہی محال تھا سانسیں رک رہی تھی ۔۔۔ جب خود کو سفیان کی سیج پر سوچتی ۔۔۔۔۔ ایک خوف بھی ہورہا تھا پتا نہیں کونسی سزا دے گا اسکے کیے کی ۔۔۔۔
آپی آپ بات کریں نا مما سے وہ اتنی جلدی کیوں کر رہی ہے ۔۔۔ مجھے تھوڑا ٹائم تو دیں کیا میری اپنی زندگی پر اتنا بھی حق نہیں ہے ۔۔۔۔۔وہ ایکدم سنجیدہ ہوتی بھرائی آواز میں بولی ۔۔۔۔۔

حور کیا ہوگیا ہے تمہیں کیوں نہیں سمجھ رہی ۔۔۔۔ اب کچھ نہیں ہوسکتا ۔۔۔۔ پرسوں مایوں کی رسم ہیں اور تمہیں ٹائم دینے کے لیے سب لوگوں کو کیا کہیں ۔۔۔۔۔کہ دلہن کو کچھ ٹائم چاہیے تھا اس لیے  ہم کچھ سالوں بعد شادی کریں گے تب آئیے گا ۔۔۔۔ مشال کو اسکی بار بار وہی ضد پسند نہیں آئی تو تھوڑا سخت آواز میں بولی ۔۔۔۔

تو پھر جائیں نا یہاں سے جب میری کسی پروا نہیں سب کو صرف وہ ہی نظر آتا ہے تو کیوں آرہی ہیں ناشتا لیکر ۔۔۔۔۔ لے جائیں واپس مجھے نہیں کھانا ۔۔۔۔
مشال کے کہنے پر وہ بھی غصے سے بھڑک اٹھی ۔۔۔۔ مشال کچھ اسے کہتی جب دروازے پر دستک ہوئی ۔۔۔۔

اور پھر احمد صاحب چہرے پر شفقت بھری مسکان لیے اندر داخل ہوئے ۔۔۔۔۔دونوں سنبھل کر بیٹھی ۔۔۔۔ حور کا رویا رویا چہرا دیکھ اسے کافی تکلیف ہوئی ۔۔۔۔اور آکر اسکے پاس بیٹھا ۔۔۔۔۔

ہاں تو ہمارا بیٹا کیوں ناشتا نہیں کر رہا ۔۔۔۔ وہ اسکے سر پر بوسہ دیتے پوچھنے لگے ۔۔۔۔ جب حور سینے سے لگی رو پڑی ۔۔۔۔۔

ہم کر رہے تھے ۔۔۔۔ رونے کے درمیان بولی ۔۔۔ تو مشال احمد صاحب دونوں مسکرا دئے ۔۔۔۔۔
اچھا تو اپنی آپی سے کس بات پر لڑ رہی تھی ۔۔۔۔ 
ہم نہیں لڑ رہے تھے وہ خود لڑ رہی ہے ۔۔۔۔ وہ اپنا ناک پونچھتی بولی ۔۔۔
اچھا جی میں لڑ رہی تھی اور تم تو مزاق کر رہی تھی نا ۔۔۔۔ وہ لڑاکو عورتوں کی طرح پوچھنے لگی ۔۔۔۔
اور نہیں تو کیا ۔۔۔۔ حور بھی احمد صاحب کے سینے سے لگی خفگی سے بولی ۔۔۔۔

مشال کچھ کہتی جب ملازمہ نے اسے دراب کے بلانے کا بتایا ۔۔۔۔ اسے جواب دیتی حور سے  ۔۔۔ تم سے تو بعد میں پوچھتی ہوں کون لڑ رہا تھا ۔۔۔۔۔کہتی چلی گئی ۔۔۔۔۔

حور منہ پھیرا ۔۔۔۔ احمد صاحب دونوں بیٹیوں کو محبت پاش نظروں سے دیکھ کر اللہ کا شکر ادا کر رہے تھے ۔۔۔۔

اچھا اب ہمارا بیٹا بتائے گا کہ وہ کیوں ناراض ہے سب سے ۔۔۔۔ اور کیوں کسی سے بات نہیں کر رہا ۔۔۔۔

احمد صاحب کے پوچھنے پر وہ بوکھلا گئی اور نفی میں سر ہلانے لگی ۔۔۔۔ نہیں ہم کیوں ناراض ہونگے ۔۔۔ وہ تو آپی لڑ رہی تھی اس لیے ۔۔۔ ایسے ہی ۔۔۔۔۔ اب وہ اپنے باپ سے کیا کہتی اتنی بد تمیز نہیں تھی کہ اسکے فیصلے سے انکار کرتی منہ پر ۔۔۔۔ یہ تو صرف سفیان کا ڈر سب کو تنگ کرتی ختم کر رہی تھی ۔۔۔۔

اتنا تو پتا تھا جب کارڈ چھپ گئے ہیں تو کیسے اب وہ اسکے شکنجے سے بچ پائے گی ۔۔۔ اب دل کا درد دل میں ہی دبا کر رہ گئی تھی ۔۔۔۔

کیا ہمارا بیٹا خوش ہے ہمارے فیصلے سے ۔۔۔۔ اگر نہیں تو ہمیں صرف ایک بار کہہ دے ہم خود یہ شادی رکوائیں گے ۔۔۔۔ 

نہیں پاپا ہم خوش ہیں آپکے فیصلے سے ۔۔۔۔ وہ اسکے سینے سے لگی رونے کے ساتھ بولی ۔۔۔۔

تو آپ کھانا بھی نہیں کھارہی اس سے ہم کیا اخذ کریں ۔۔۔۔ 
وہ مما نے ڈانتا تھا اس لیے نہیں کھارہے ۔۔۔۔ آنسوں صاف کرتی بولی ۔۔۔

جس احمد صاحب مسکرادئے اچھا تو یہ بات ہے ابھی ہم آپکی مما کی کلاس لیتے ہیں پھر آپ کھانا کھائیں گی ۔۔۔۔
حور کھلکھلا کر ہنستی ہاں میں سر ہلاگئی ۔۔۔۔۔ جس اسنے ماتھے پر بوسہ دے کر سدا خوش رہنے کی دعا دی ۔۔۔۔۔

💕💕💕💕💕💕

جی آپنے بلایا ۔؟وہ کمرے داخل ہوتے ڈریسنگ مرر کے سامنے کھڑے دراب سے پوچھنے لگی اور وارڈروب سے ٹائی  نکال کر اسکی طرف آئی ۔۔۔۔
کہاں تھی ۔۔وہ اسکے گرد حصار ڈال کر پوچھنے لگا ۔۔۔۔ مشال آنکھیں نکالتی ٹائی باندھنے لگی ۔۔۔۔۔

حور کے پاس تھی ناشتا نہیں کر رہی تھی اس لیے اسکے پاس ناشتا لیکر گئی ۔۔۔۔۔
اچھا پھر کھایا ۔۔۔۔؟
 ایسا کرے گی تو کیسے چلے گا ۔۔۔ وہ بھی کچھ پریشان سا بولا ۔۔۔۔ 

پاپا سمجھا رہے ہیں ۔۔۔۔ اسے شاید سمجھ جائے ۔۔۔۔ وہ بتاتی واچ اسے تھمائی ۔۔۔۔۔
میں دیکھتا ہوں کیوں ناراض ہے سب سے ۔۔۔۔ کہتا جاتی مشال کو پکڑ کر اپنے قریب کیا ۔۔۔۔۔

تو جائیں ۔۔۔۔ وہ اسکے حصار سے نکلنے کی کوشش کرنے لگی پر ناممکن ۔۔۔۔
جارہا ہوں پہلے بائے تو بولنے دو ۔۔۔روز والا ۔۔۔۔۔ پھر سارا دن آزاد رہتی ہو ۔۔۔۔ نا دراب نا دراب کی گستاخیاں ۔۔۔۔۔وہ ذو معنی لہجے میں کہتا اسکے چہرے پر جھک گیا ۔۔۔۔۔مشال کا چہرا سرخ ہوگیا ٹماٹر کی طرح ۔۔۔۔

💕💕💕💕💕💕

بہت کرلی تمنے اپنی منمانی اب سفیان تمہیں بتائے گا محبت کیا ہوتی ہے ۔۔۔۔ اتنا مجبور کردونگا کہ خود ہی راستے پر آجائوگی ۔۔۔۔ اور اسکے لیے مجھے تھوڑا بہت منہ موڑنا پڑیگا ۔۔۔ جو کافی تکلیف دے گا ۔۔۔پر اسکے بعد پھر آرام ہی آرام ۔۔۔۔۔ وہ موبائل میں اسکی تصویر دیکھے ۔۔۔ جو اسنے ہاسپٹل میں نکاح سے پہلے لی تھی جب سب کی توجہ فراز صاحب کی طرف تھی ۔۔۔۔۔ اور اسنے چپکے سے موبائل نکال کر پک لےلی اسکی ۔۔۔۔ کیونکہ اسکا سندر رویا اور بھیگا چہرا جو اسکے دل کی رفتاروں کو اور تیز کررہا تھا مجبور ہوکر نکال لی ۔۔۔۔

اب سامنے دیکھتے اپنے منصوبے بنا رہا تھا ۔۔۔۔ مجھے معاف کردینا میری چشمش میں تم سے بے انتہا عشق کرتا ہوں ۔۔۔پر تمہیں اپنے بدلنے کا یقین ڈلانے کے لیے اسکے علاوہ کوئی اور چارہ بھی نہیں تھا ۔۔۔۔اور ویسے تم جتنی چلاک ہو اسکے حساب سے یہ ٹھیک تھا ۔۔۔ وہ مسکراتے بولتا اسکی تصویر پر اپنے لب رکھ دئے ۔۔۔۔

جب تک تم اظہارِ محبت نا کردیتی تب تک تو میں بیچارہ ایسے ہی تصویروں سے کام چلاتا رہوں گا ۔۔۔۔ہاہہاہاہاہا معنی خیز سے کہتا قہقہہ لگانے لگا ۔۔۔۔۔
"Be ready to express love ....💕 "

💕💕💕💕💕💕

سب کے بازاروں کے چکر پر چکر لگ رہے تھے  ۔۔۔ وقت کم تھا اور تیاریاں ڈھیر ساری ۔۔۔۔نوشین تو اکیلی ملازموں کے ساتھ گھنچکر بنی ہوئی تھی ۔۔۔۔

ملک ولا میں عائمہ اور مشال کے چکر تھے عالیہ بیگم گھر کے ملازموں کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔

پھر سے وہی سجاوٹ اور وہی ملک ولا کو دلہن کی طرح سجایا جارہا تھا ۔۔۔۔۔

حور کا منہ بنا ہوا تھا ۔۔۔ پر پری کے صبح آنے کی وجہ سے تھوڑا پر سکون تھی وہ جیسے پری سے دلی چھوٹی بہن مانتی اور اپنے بھائی کے لیے اسکو دیکھتی ۔۔۔ پر احمد صاحب کے طلاق کے پیپر لانے پر وہ دلی آزاری ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔ بہت دکھ ہورہا تھا اسے پر یہ تو طے کرلیا تھا کہ اسکے آنے پر وہ کیسے بھی کرکے اسکے مناکر ایسا قدم اٹھانے نہیں دے گی ۔۔۔۔۔

اور اب صرف اسے اسکا انتظار تھا ۔۔۔۔۔

💕💕💕💕💕

شیری کراچی پہنچتے سب سے پہلے مہک کی طبعیت پوچھنے ہاسپٹل گیا جہاں سمیر پہلے سے ہی منہ بنائے موجود تھا ۔۔۔۔۔

کیسی ہو مہک ۔۔۔۔۔اسکے پوچھنے پر مہک جو اسکے یہاں آنے پر ہی حیران تھی مزید بے ہوش ہونے کے قریب ہو گئی ۔۔۔ اور بغیر پلکیں جھپکائے اسے گھور رہی تھی جو اسکے جواب کے منتظر تھا ۔۔۔۔

سمیر کو اسکا یوں گھورنا ہضم نا ہوا تو ۔۔۔گلا کھنکارہ جیسے اسے ہوش کی دنیا میں لانا چاہتا ہو جس کے اس طرح دیکھنے پر وہ جل بھن گیا تھا ۔۔۔۔ اور خونخوار نظروں سے دیکھنے لگا ۔۔۔۔ 

مم۔۔۔میں ٹھیک س۔۔سر ۔۔۔۔ وہ بمشکل بولی اور سمیر کی حالت پر ہنسی دبانے لگی ۔۔۔۔ خود شیری کا بھی یہی حال تھا اسکی بھی مسکراہٹ عنابی ہونٹوں کو چھونے کے لیے مچل رہی تھی جسے وہ بمشکل چھپارہا تھا ۔۔۔۔

پھر کچھ باتوں کے بعد وہ ہیڈکوائر کرنل کے ساتھ میٹنگ کے لیے روانا ہوگیا ۔۔۔۔۔۔

اسکے جاتے ہی سمیر غصے سے بولا ۔۔۔۔
بات کرتا ہوں آنٹی سے کہ لڑکی ہاتھ نکل رہی ہے ۔۔۔۔ جلدی سے ہاتھ پیلے کروادیں نہیں تو یہ شادی شدہ اپنے سر پر ہی نظریں ساکت کر جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔

اسکی جلی باتوں پر مہک نے قہقہہ لگایا اور اسے مزید جلانے کے لیے بولی ۔۔۔۔۔

تو میں بھی کہہ دونگی مما سے اس میں میری کوئی غلطی نہیں سر ہیں ہی اتنے ہینڈسم کہ صرف نرمی سے بات کرنے پر میں ساکت ہوگئی ۔۔۔۔۔ ہائے اللہ کیا نصیب بنایا ہے سر کی بیوی کا جسے شیر دیکر مجھے گیدر دےدیا ۔۔۔۔۔ ہاہہاہاہاہا ۔۔۔۔

سمیر کی تو مانو اسکی باتوں پر جلن اور غصے سے جان ہتھیلی پر آگئی ۔۔۔
اس سے پہلے لڑکی اور بگڑے مجھے انکل سے بات کرنی ہوگی اب ۔۔۔۔۔

💕💕💕💕💕💕

باس پتا لگ گیا ۔۔۔ وہ میجر کی بیوی یہیں رہتی ہے اپنے باپ کے ساتھ ۔۔۔۔۔ اور وہ وہی لڑکی ہے جو آپ نے پہلے کئی بار کراچی میں اسے پکڑوانے کی کوشش کی تھی ۔۔۔۔۔فواد کا وفادار آدمی جو کراچی میں رہتا تھا جو اسے وہاں لاکر اسلام آباد چھپایا تھا ۔۔۔۔

اور وہیں سے اسنے شیری کے بارے میں پتالگوایا ۔۔۔۔ اور قسمت دیکھو اسے اسکے میجر اور نکاح کا بھی پتا لگ گیا ہھر اسنے اپنے آدمیوں سے اسکی منکوحہ کے بارے میں انفارمیشن ڈھونڈنے کو بیجا ۔۔۔۔ تو قسمت تو جیسے اس پر مہربان ہوگئی ۔۔۔۔ وہ لڑکی پری نکلی جس کو حاصل کرنے کا وہ واعدہ کر چکا تھا ۔۔۔۔ اور اب دوسرہ بھی حساب نکلا تو اس میجر کی منکوحہ نکلی ۔۔۔۔۔

تمنے خوش کردیا ۔۔۔۔۔ میرے پالتو کتے ۔۔۔۔ اب تم دیکھنا اسکا انعام بھی تمہیں شاندار ملے گا ۔۔۔۔۔۔

یہ سب سنتے وہ اور بھی رال ٹپکاتے مزید معلومات دینے لگا ۔۔۔۔
باس وہ لڑکی کل صبح جارہی ہے واپس کراچی ۔۔۔۔ اگر آپ کہیں تو وہیں سے اڑالیں ۔۔۔۔۔ اگر ایسا نہیں کیا تو پھر وہ میجر کا بچا آجائے گا تو ہم پکڑ بھی سکتے ہیں اس لیے کل صبح کا موقعہ اچھا ہے ۔۔۔۔۔

جیو میرے پالتو ۔۔۔۔ بس پھر دیر ناکرنا اور لاکر اسے میرے قدموں میں پھینکانا ۔۔۔۔۔وہ اپنے کٹی ٹانگ کا درد بھلائے خوشی سے بولا ۔۔۔۔

پر باس کیا ہمیں بھی ۔۔۔۔۔۔ وہ کمینگی سے اشارہ دینا لگا جس پر فواد کا غلیظ قہقہہ لگا ۔۔۔۔۔ فکر ناکرو میرا بدلا مکمل ہونے کے بعد (گالی)کو تم لوگوں کے آگے پھنک دونگا ۔۔۔۔۔۔۔

پھر کمرے میں قہقہے گونجے ۔۔۔۔۔

💕💕💕💕💕

پیکنگ کرلی میری جان نے ۔۔۔۔ الطاف صاحب نے لائونج میں گیم کھیلتے دونوں کے ماتھے پر بوسہ دیتے پری سے پوچھا ۔۔۔۔۔

ج۔۔جی پاپا ۔۔۔۔ وہ مسکرا کر بولی ۔۔۔۔۔

اور اٹھ کر الطاف صاحب کے لیے ٹھنڈا پانی لینے چلی گئی ۔۔۔۔۔ 
گیم تو کمپلیٹ کرلو ۔۔۔۔ مصطفیٰ اسے الطاف صاحب کے پاس بیٹھتے دیکھ بولا ۔۔۔۔۔
مم۔۔۔۔مجھے نہیں کھیلنی ص۔۔صرف چیٹنگ کرتے ہو ۔۔۔۔۔ وہ اپنی ہار سے بھاگتے منہ بنا کر غصے سے بولی جس پر اسکا منہ کھل گیا ۔۔۔۔۔

کیاااااااا ۔۔۔۔۔۔ وہ صدمے کے انداز میں اپنے چھوٹے ہاتھ سینے پر رکھ عورتوں کی طرح شو کیا ۔۔۔۔۔

او مائے گوڈ ۔۔۔۔پاپا یہ ڈرپوک بلی کتنی چالاک ہے ۔۔۔۔۔ ہارنے والی تھی پر آپکو دیکھ بہانے سے بھاگ گئی لوزر ۔۔۔۔۔ وہ آپنے باپ کو اسکے کارنامے بتانے لگا ۔۔۔۔۔۔

ابھی مجھ بچے سے تین بار ہار چکی ہے ۔۔۔ چپکلی کہیں کی ۔۔۔۔۔

اسکے چپکلی کہنے پر اب صدمہ لگنے کی باری پری کی تھی ۔۔۔۔

پ۔۔۔پا۔۔۔۔پا ۔۔۔ وہ بے یقینی سے الطاف صاحب کو دیکھ اپنی سرخ غصے والے چہرے سے ٹھہر ٹھہر کے نام ادا کیا ۔۔۔۔۔جس پر دونوں زور سے ہنسنے لگی ۔۔۔۔

چپ مصطفیٰ یہ کیا نام بولا ہے میری معصوم بیٹی کو دیکھو تو میری جان کتنا غصا ہوگئی ہے ۔۔۔۔۔۔ اسنے مصنوعی حیرانگی اور اسکا سرخ چہرا دیکھتے مصطفیٰ کو جھڑکا ۔۔۔۔ 

جس پر اس سے اپنی ہنسی دبانا مشکل ہوگی ۔۔۔۔ کیونکہ اطاف صاحب کے لاڈ پر وہ رونے جیسی ہوگئی تھی ۔۔۔۔۔

💕💕💕�💕

Tera Ashiq Me Dewana Ho Awara Mehwish Ali 34


#تیرا_عاشق_میں_دیوانہ_ہوں_آوارہ💕
#از__مہوش_علی
#قسط__34
💕💕💕💕💕💕

دن کے چار بج رہے تھے وہ ملک ولا میں داخل ہوا ۔۔۔ اتنا خوش تھا ۔۔پری کو دیکھنے کے لیے کہ دل کر رہا تھا ابھی سامنے ہو ۔۔تو اسکی بھوری بے سکون آنکھوں اور بے ترتیب دھڑکتے دل کو سکون ملے۔۔۔۔

اور سب سے پہلے وہ اسے دیکھے آرمی کے یونیفارم میں ۔۔۔۔ پھر وہ اسکی بڑی خوفزدہ سرمئی پیاری سی آنکھیں دیکھتے اسے خود میں بھینچ لے اپنے بے سکون دھڑکنوں کی بے سکونی اس پر واضح کرے اسے بتائے کہ کتنا بے چین تھا اسے نا دیکھتے ۔۔۔ کتنے دن اسکا سہمہ کانپنا لرزنا خوفزدہ ہونا نہیں دیکھا تھا تو وہ سب اس بتائے ۔۔۔

جہاں دوسرے محبوب کہتے ہیں کہ اسکی جان اسکی سانسیں میں بسی اسکی زندگی اسکی محبت اس میں سکون پائے اس سے خوش ملے اس سے ملکر بے انتہا خوش ہو اپنی بےقراریوں کی داستان بتائے ۔۔وہ اس سے ڈرے نا اس سے خوفزدہ نا ہو ۔۔۔۔۔ وہیں شہریار الگ سوچ رکھتا تھا پاگلوں والی ۔۔۔۔ وہ چاہتا تھا وہ ڈرے اس سے ۔۔۔ اسے دیکھ خوفزدہ ہو ۔۔۔ اپنی خوبصورت آنکھوں کو خوف سے پھیلا دے اسے دیکھ کانپے لرزے ۔۔۔۔ سہمے ۔۔۔۔۔ تب اسے سکون ملتا تھا ۔۔۔ اپنی معصوم جان کو دیکھ کر اس وقت اسے سکون شرسار ہوتا تھا اسکی معصوم حرکت پر ۔۔۔۔وہ پاگل ہی تو تھا ۔۔۔ دماغ سے کھسکا ہوا ۔۔۔۔ کوئی کیسے کسی ڈرتے خوفزدہ دیکھ کر سکون حاصل کر سکتا تھا ۔۔۔ پر۔۔۔۔
 اسے  اسکا ڈرا خوفزدہ ہوا روپ بے انتہا پسند تھا اتنا کہ دیوانگی کی حد بھی پار کرتے جنون کی منزلیں طے کرگیا تھا ۔۔۔۔۔ شاید اسی لیے کہ وہ خوف میں جس طرح اسکے سینے میں منہ چھپالیتی تھی ۔۔اس سے لپٹ جاتی تھی ۔۔۔۔ اسکے کوٹ میں منہ دے کر اپنے آپکو محفوظ سمجھتی تھی ۔۔۔۔۔
یہ سب اسے پاگل بنا دیتا تھا ۔۔۔۔ یہی اسے دیوانہ بنا دیتا تھا ۔۔۔ اسکی سانسیں روک دیتا تھا ۔۔۔۔۔ اس حد تک کہ وہ بغیر اسکے درد کی پروہ کیے اپنے آپ میں بھینچ لیتا تھا اسے ۔۔۔ وہ چاہتا تھا کہ اسے اپنی دنیا میں لے جائے جہاں دونوں کے علاوہ کوئی نا ہو ۔۔۔۔ اور شاید وہ یہ فیصلا کر بھی چکا تھا ۔۔۔۔۔ وہ اب اس سے دور نہیں رہنا چاہتا تھا ۔۔۔۔۔
اسی سوچوں میں وہ اپنے عنابی گداز لبوں پے خوبصورت مسکراہٹ لیے سب ملازموں کی ساکت پھٹی آنکھوں کی پروہ کیے بغیر  مغرور پروقار انداز میں چلتا قدم بڑھاتا لان کراس کرتا گیا ۔۔۔۔ دل میں دعا تھی کہ سامنے ہی وہ موجود ہو ۔۔۔۔۔

پر دلہن کی طرح سجے گھر میں دہلیز پر قدم رکھتے اسکے چہرے پر مایوسی پھیل گئی جب لائونج میں سب کی موجودگی میں اس چہرے کو نہ پایا ۔۔۔۔ اسنے ظاہر نہیں ہونے دیا ۔۔۔۔۔
پر اگلے قدم پر وہ ساکت ہوگیا احمد صاحب کی آواز پر ۔۔۔۔۔۔ اسکا بوٹ میں مقید پائوں ہوا میں ہی رہ گیا ۔۔۔۔۔

"نہیں بیٹا وہ نالائق نہیں ہے یہاں آپ آجانا ہم سب آپکا بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں ۔۔۔۔ حور بیٹا تو آپکو بہت مس کرتی ہے ۔۔۔ اپنی آپی کو اتنا نہیں ستاتے اور پاپا کو بھی تنگ نہیں کرتے ۔۔۔
 ہاں ہاں ہمنے طلاق کے پیپر ریڈی کروالیے ہیں اور آپکے آتے ہی ہم آپ سے سائن لے لیں گے ۔۔ جی جی میری جان اس سے بھی لےلیں ۔۔
پھر اسکی کسی بات پر ہنسا ۔۔۔۔ہاہاہا۔۔۔ 
میرا بیٹا بالکل آپ چھپ جائیں گی ۔۔۔۔ نہیں وہ دیکھ بھی نہیں سکے گا آپکو ۔۔۔۔۔"اسکے بعد بھی وہ اور حماد صاحب اسے یقین ڈلاتے رہے کہ شہریار سے وہ اسے محفوظ رکھیں گے ۔۔۔۔انکی باتوں سے اسے اچھی طرح یقین ہوگیا کہ پری سے بات کر رہے تھے ۔۔۔

وہ خاموش خونخوار حالت میں لب بھینچے ہاتھ کی مٹھیوں کو اتنا تیز بھینچا کہ اسکی گردن کی رگیں واضح ہوگئی ۔۔۔۔چہرا اور آنکھیں سرخ انگارہ تھی ۔۔۔۔اسکا دل کررہا تھا سب تہس نہس کردے ہر چیز تباھ کر دے ۔۔۔ وہ کمرے سے نہیں ملک ولا سے ہی چلی گئی تھی ۔۔۔۔جسے دیکھنے کے لیے وہ اتنا بے چین تھا وہ تو تھی ہی نہیں ۔۔۔ اسکے کہنے کے باوجود وہ اس سے دور ہوگئی تھی ۔۔۔اتنا کہ طلاق کی بات بھی سوچ لی ۔۔۔ بغیر اپنے انجام کی پروہ کیے ۔۔۔۔بغیر اسکے ردعمل کا سوچے ۔۔۔۔۔

 اور اسے بیجنے والا اسکا اپنا باپ تھا ۔۔جو اپنے بیٹے کی آنکھوں میں مقید اسکا جنون محبت عشق محسوس نہیں کرسکا ۔۔۔
تمنے اچھا نہیں کیا ۔۔۔۔ بہت پچھتائو گی ۔۔۔

 پری ۔۔۔۔پری یہ کیا کر دیا ۔۔۔۔ 
 تمہیں نہیں پتا  تم اتنی معصوم ہو اس بھیڑیوں بھری دنیا میں محفوظ نہیں ۔۔۔۔۔ایک بے بس سوچ اسکے دماغ میں لہرائی تو بدن میں شرارے ابلنے لگے غصے کے ۔۔۔

اچانک وہ دھاڑا کہ سب ہل کر رہ گئے ۔۔۔ سب کو لگا جیسے کوئی زوردار دھماکہ ہوا ہو ۔۔۔۔۔
"پری "۔۔۔۔۔۔ مشال کے ہاتھ میں سے موبائل چھوٹ کر زمین پر گرا جو وہاں سے پہلے ہی لائن کاٹ دی گئی تھی ۔۔۔ شکر پری نے نہیں سنا ورنہ شاید اسکی آواز پر ہی وہ فوت ہوجاتی ۔۔۔۔۔
سب نے جھٹکے سے داخلی دروازے کی طرف دیکھا ۔۔۔۔ جہاں وہ سب ساکت ہوئے تھے وہیں وہ ہوش میں آیا اور تیش میں رکھے خوبصورت گلدان کو زمین پر مارا کہ اسکے ٹکرے ہر جگہ اسکے دل کی طرح پھیل گئے ۔۔۔۔۔
 نظریں اسکے سرخ چہرے سے ہوتی یونیفارم پر گئی ۔۔۔۔

کہاں ہے وہ ۔۔۔۔انکے سر پر پہنچتے  وہ پھر سے دھاڑا ۔۔۔۔ عائمہ بیگم ہوش میں آتے اسکی طرف لپکی جس پر وہ پیچھے ہٹا ۔۔۔۔ سب اسے پاک آرمی کے یونیفارم میں میجر شہریار ملک کے نام پڑھ کر  اور ایک خونخوار شیر کے بگڑے روپ کو دیکھ دنگ ساکت تھے ۔۔۔۔

مجھے کوئی بتائے گا وہ کہاں ہے ۔۔۔۔ اسنے انہیں ساکت دیکھ ہوش میں لانے کے لیے بیچ میں رکھی ٹیبل پر  کرسٹل کا گلدان اٹھا کر زور سے پھر زمین پر پھینکا ۔۔۔۔۔ مشال بدک کر پیچھے ہوتی دراب سے لگی ڈر سے ۔۔۔حور بھی آواز سے کمرے سے نکلی تو بھائی کے غصے کو دیکھتے ڈر گئی ۔۔۔۔اور ہمت کرکے نیچے آئی ۔۔۔۔۔

شہریار بیٹا ۔۔۔۔ عائمہ بیگم اسکی حالت پر تڑپ گئی ۔۔۔۔ اور پیار سے پکارا ۔۔۔۔
مت کہیں مجھے بیٹا۔۔۔۔ اگر بیٹا ہوتا تو شاید اب تک میری آنکھوں میں اسکے لیے محبت محسوس کرلی ہوتی ۔۔۔۔ وہ ایک زخمی شیر کی طرح غرایا ۔۔۔۔ اسے مجھ سے جدا نہیں کرتے تم سب ۔۔۔ 
یہ بھی دیکھتے کہ میں کہاں ہوتا ہوں اتنے مہینے .  کہاں گھم رہتا ہوں ۔۔۔۔۔ پر نہیں آپ لوگ کیوں مجھ پر توجہ دیں گے میں تو ہوں ہی نکما آوارہ غصے والا ۔۔۔۔ جب دیکھو یہ کرتے رہتے ہو وہ کرتے رہتے ہو ۔۔۔۔۔
وہ انہیں آئینہ دیکھانے لگا جس پر احمد صاحب کے چہرے پر شرمندگی چھاگئی ۔۔۔۔
حور اور مشال کے تو دہر دہر آنسوں بہہ رہے تھے ۔۔۔۔عائمہ بیگم بھی نم آنکھو سے چپ کھڑی لب بھینچے ہوئی تھی ۔۔۔۔۔عالیہ بیگم بھی خاموش حماد صاحب کی طرح کھڑی تھی ۔۔۔۔ دراب مشال اور حور کو چپ کروانے میں تھا ۔۔۔۔۔
دراب کو افسوس بھی ہورہا تھا اسکی حالت پر ۔۔۔۔۔
احمد صاحب کا تو مانو دل کٹ کر رہ گیا ۔۔۔پر اسکا کیا قصور تھا ۔۔۔ جب پری خود اسکے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تھی ۔۔۔۔ 

شہریار سمجھنے کی کوشش کرو وہ تمہارے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ۔۔ڈرتی ہے تمسے نہیں گذر سکے گی اسکی زندگی ۔۔۔۔۔
کیسے خوش رہوگے تم جب وہ کبھی سکون سے سانس نہیں لے پائے گی ۔۔۔۔۔

عائمہ بیگم نے پھر سے کچھ کوشش کی ۔۔۔۔پر اسنے  کہاں الفاظ مزید سنے صرف اسکے علاوہ کہ وہ تمہارے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ۔۔۔۔
اسکا تیز دماغ رفتاری سے کام کرنے لگا .۔۔۔۔ اور سارے غصہ اور تیش ایک جگہ محفوظ کرلیا ۔۔۔۔۔

پھر گہرا سانس بھر کر ۔۔۔۔ بغیر کسی کی طرف دیکھے حور کی طرف مڑا ۔۔۔۔۔ اور اسے اپنے سینے سے لگائے پھر مشال کو بھی اپنے سینے سے لگا یا ۔۔۔۔ دونوں کے سر پر بوسہ دیکر ان سے معافی مانگی ۔۔۔۔ اپنے برتائو کی ۔۔۔۔۔

بھائی کوئی اتنا غصا کرتا ہے کیا ۔۔۔۔مشال نے روتے اس سے شکوہ کیا ۔۔۔۔ جس پر وہ سرخ آنکھوں سے ہنس دیا ۔۔۔۔ سب حیران تھے اتنا غصہ کہاں گیا اور اچانک پھر کیا ہوگیا ۔۔۔۔ 
عائمہ بیگم اپنے خوبصورت بیٹے کو آرمی کے یونیفارم میں دیکھتی آنکھیں نم آنکھوں سے مسکرانے لگی۔۔۔۔ 

جب اسکا نارمل چہرا دیکھا تو۔۔۔۔ احمد صاحب کے بھی آنکھوں ایک فخر کا تاثر لہرایا ۔۔۔۔اسکے وہم گمان میں بھی نہیں تھا اسکا بیٹا ۔۔۔۔ اسکا سر یوں بلند کرے گا جسے وہ ہمیشہ نکما سمجھتا رہا ۔۔۔ بات بات پر اس سے غصہ کرتا رہا ۔۔۔۔۔ وہ ایک آرمی آفیسر تھا ۔۔۔۔ اسکا خواب جو وہ ہمیشہ دیکھتا تھا اسکے لیے ۔۔۔۔ جس کا ذکر شاید اسنے جب وہ دس سال کا تھا تب کیا تھا ۔۔۔۔ 
اور وہ اسکی بات اسے دماغ میں بیٹھائے گا ۔۔۔۔ اور اسے حقیقت کے رنگوں میں رنگے گا اسکے وہم گمان میں بھی نہیں تھا ۔۔۔۔

پر اسنے کیا کیا ۔۔۔ اسکو سمجھ نا سکا ۔۔۔۔ اپنی آنکھوں میں دیکھتے بات کرنے والے بیٹے کی آنکھیں کبھی پڑھ نا سکا ۔۔۔ وہ تو ہمیشہ اسے گستاخ کہتا تھا ۔۔۔ اسے کیا پتا تھا ۔۔۔۔ وہ گستاخ نہیں جانباز سپاہی تھا پاکستان کا ۔۔۔۔ اسکا فخر تھا ۔۔۔۔ اسکا بلند سر تھا ۔۔۔۔۔۔

شہر۔۔۔۔۔ اسکے ابھی الفاظ منہ میں ہی تھے جب وہ بولا ۔۔۔۔۔
مما میں ٹھک گیا ہوں مجھے کوئی ڈسٹرب ناکرے ۔۔۔۔۔

کہتا سیڑھیوں کی طرف روانہ ہوگیا ۔۔۔۔ بغیر احمد صاحب کی پکار سنے ۔۔۔۔۔ اور زوردار آواز سے دروازہ بند کیا ٹھا کی آواز پر سب ہل کر رہ گئے ۔۔۔۔۔۔
آپنے دیکھا میرا بیٹا ۔۔۔ ماشااللہ ماں صدقے جائے ۔۔۔۔ عائمہ بیگم کی خوشی بھری نم آواز وہاں چھائے سکوت کو توڑا ۔۔۔۔

احمد اب کیا کہتے ہو ۔۔۔۔ دیکھا اپنا نکمہ بیٹا ۔۔۔ حماد صاحب نے اسکے شانے پر ہاتھ رکھ بولا ۔۔۔۔ جس وہ مسکرا دیا ۔۔۔۔۔

ہاں بھائی دیکھ لیا میرا شیر بیٹا ۔۔۔۔۔ پر وہ ابھی غصہ ہے بہت ۔۔۔ وہ کہتا ہنس دیا جس پر سب ہنس دیے ۔۔۔۔

اب مجھے بھی اسکی محبت ۔۔۔۔جیسے وہ کہہ رہا تھا ۔۔۔۔ پری بیٹا کو سمجھانا ہوگا ۔۔۔ اور اسے بھی کچھ عقل کرنی ہوگی جو اتنا غصہ کرتا اسی وجہ سے وہ ڈرتی ہے اس سے ۔۔۔۔۔

احمد صاحب کی بات پر سب نے چونک کر اسے دیکھا پھر ۔۔۔خوشی سے مسکرا دئے ۔۔۔۔عائمہ بیگم کی تو جیسے پائوں زمین پر نہیں ٹک رہے تھے ۔۔۔۔ اچانک اسکے بیٹے نے انہیں شاک کردیا تھا ۔۔۔۔ جیسا وہ چاہتی تھی بالکل ویسا ہوگیا ۔۔۔۔۔ اور ایک ماں کو اور کیا چاہیے تھا ۔۔۔۔۔

لو یو پاپا ۔۔۔۔ حور چہکتی اسکے گلے لگی ۔۔۔۔۔
لو یو ٹو مائے جان ۔۔۔۔۔

بس اب میرے شیر کا غصہ ٹھنڈا ہوتو میں اس سے بات کروں ۔۔۔۔وہ شفقت سے بولے تو سب مسکرادئے ۔۔۔۔

بیگم اگر آپ کہیں تو روم میں چلیں ۔۔۔۔۔ دراب ساتھ لگی مشال سے سرگوشی میں کہا ۔۔۔۔ کہ صرف وہ سن سکی ۔۔۔۔ اسکی معنی خیز بات پر وہ بھیگی آنکھوں سے سرخ ہوگئی ۔۔۔ اور کہنی پیٹ میں مارتی دور ہوئی جس پر دراب قہقہہ دبا کر رہ گیا ۔۔۔۔

ہاں جی اب میجر کی بہن ہو بچارے معصوم شوھر پر ظلم تو ہوگا ۔۔۔۔ اسی انداز میں کہتا آفس بیگ اٹھا کر روم کی طرف چل پڑا ۔۔۔۔پیچھے وہ سرخ چہرے بھیگی آنکھوں سمیت مسکرادی ۔۔۔۔

💕💕💕💕💕💕

وہ چینج کرکے غصے سے یہاں سے وہاں چکر کاٹ رہا تھا ۔۔۔ اپنے آپ پر کنٹرول کرنے کے چکر میں تھا ۔۔۔۔ پر تب بھی نہیں ہوا تو سارا غصہ شیشے کی خوبصورت میز کو  لات مار کر نکالا اور کانچ کے سفید چمکتے ٹکروں کو دیکھنے لگا ۔۔۔۔ اسکا چہرا اور بھوری آنکھیں غصے سے سرخ انگارہ تھی ۔۔۔۔ آنکھوں سے آگ کے شولے اسے جلسا رہے تھے ۔۔۔۔کتنا خوش تھا آتے ہوئے کہ وہ اب اسکا چہرا دیکھے گا ۔۔۔ اسے محسوس کرے گا ۔۔۔۔ پاپا سے کہہ کر اسے مانگے ۔۔۔گا پر اسنے کیا کیا ۔۔۔۔۔
کیوں پری بتائو ۔۔۔۔کیوں ۔بھاگ رہی ہو ۔۔۔۔ بےبسی سے شکوہ کرتا ۔۔۔

اور بھڑکتے دماغ کو ہاتھوں سے تھام کر زمین پرگھٹنوں کے بل  بیٹھ گیا ۔۔۔۔ وہ چیخنا نہیں چاہتا تھا ۔۔۔۔ پردل کر رہا تھا زور سے دھاڑے کہ پوری منزلیں اپنے اوپر گرا کر خود کے ذرے ذرے میں تقسیم کر دے ۔۔۔۔ اسنے اپنے ہاتھ کا مکہ بناکر زور قالین پر پڑے ان  شیشے کے ٹکروں پر مارا ۔۔۔۔ کانچ کے ذرے اسکے ہاتھ کی پشت پر چھب گئے اور خون سے ہاتھ رنگ گیا ۔۔۔۔۔ درد کی ایک لہر اسکے تن بدن میں اٹھی ۔۔۔۔ جس کا مقابلا دل کے درد سے کرنے لگا ۔۔۔۔۔

 جس کے آگے وہ کچھ نا تھا تو پھر دماغ بھڑک اٹھا ۔۔۔۔ وہ اسے سب تہس نہس کرنے کو چاہتا تھا ۔۔۔۔ جسے کرنے سے اسے انکار تھا ۔۔۔۔ وہ اپنی بہنوں کی وجہ سے ایسا نہیں کر رہا تھا اپنی ماں کو تکلیف نہیں دینا چاہتا تھا ۔۔۔۔پر اپنے آپ کو کیا کرتا جسکے اندر بے سکونی ہی بے سکونی اور تڑپ تھی ۔۔۔۔۔دل کی بے ترتیب دھڑکنوں کو آرام چاہیے تھا ۔۔۔۔۔ جو کہاں سے لاتا ۔۔۔۔۔ سکون دینے والی تو آس پاس بھی موجود نہیں تھی ۔۔۔۔

پھر ایک گہرا سانس لے کر اسنے شیشے کے ٹکروں کو دیکھا ۔۔۔ اور زخمی ہاتھ ۔۔۔جو خون سے رنگا چھوٹے چھوٹے کانچ چھبے ہوئے تھے اس میں ۔۔۔۔ اس ہاتھ کی مدد سے اپنی شرٹ گریبان سے پھاڑ دی ۔۔مطلب صرف خود کو تکلیف دینا تھا۔۔ جس میں وہ ناکام جارہا تھا ۔۔۔۔

 اب پھٹی ہوئی شرٹ سے اسکا سفید چوڑا مضبوط سینہ نمایا ہوا ۔۔۔۔۔ 

اسنے ہاتھ بڑھا کر ایک نوکدار شیشے کا ٹکرا اٹھایا اور بغیر ہچکچاہٹ کے ۔۔۔ وہ اپنے سینے پر اسکی نوک چھبا کر بڑے سے حرفوں  میں "پریہ" لکھنے لگا ۔۔۔۔ جیسے جیسے وہ لکھتا گیا خون ہاتھ شرٹ اور سینے کو اپنے رنگ میں رنگتا چلا گیا ۔۔۔۔ایسے کہ کوئی بھی دیکھے تو شاید چیخیں مارے ۔۔۔۔۔اسکے جنون پر وہ کہیں سے بھی ۔۔۔ایک میجر نہیں لگ رہا تھا بلکہ وہ ایک جنونی اور پاگل لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔

وہ کوئی درندہ لگ رہا تھا ۔۔۔جو اپنی درندگی سے خود کو ہی تکلیف دے رہا تھا ۔۔۔۔۔۔
اسکا دماغ شاید کام کرنا چھوڑ چکا تھا ۔۔۔اسی لیے سینے سے اٹھتی درد کی لہریں محسوس نہیں ہورہی تھی ۔۔۔۔پر اس درد اذیت کا اندازہ بھینچے سرخ لبوں سے جامنی ہوئے رنگ سے پتا لگ رہا تھا  ۔۔۔۔۔ 

جب اسنے مکمل نام لکھ لیا تو شیشے کے ٹکرے کو دیکھا جس سے خون کی بوندیں ٹپک رہی تھی پھر مسکرا کر نام کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔تو اسکے چوڑے سنے پر وہ نام اپنے آب و تاب سے خون میں جگمگا رہا تھا ۔۔۔۔۔ 
خون نام سے دھاڑے مار اسکا پورا سینہ لہولہان کرگیا ۔۔قالین بھی خون سے رنگ رہی تھی۔۔۔ آنکھیں سے بھی مانو لہو ٹپک رہا ہو ۔۔۔۔

 اسنے سکون سے آنکھیں موند لی جیسے سینے میں دھڑکتے بے ترتیب دل کو سکون آگیا تھا ۔۔۔۔وہ قریب محسوس ہونے لگی بالکل پاس ۔۔۔۔
ہاتھ میں پکڑا وہ ٹکڑا وہیں پھینک کر قہقہہ لگا کر اٹھا ۔۔۔۔
اور دہرام سے بیڈ پر گر گیا ۔۔۔۔"کبھی نہیں جانے دونگا کبھی نہیں" ۔۔۔۔
"صرف ایک بار واپس قدم رکھو میرے قید میں ۔۔۔۔ چھین لونگا تمہیں تم سے ۔۔۔۔۔ ہر لمحے کا حساب لونگا "۔۔۔۔۔
 "تمہیں بھی خود کی طرح پاگل بنا دونگا جیسے مجھے بنایا ہے "

ایک عزم سے بڑبڑاتا  آنکھیں موندیں ۔۔۔ جب کچھ خیال آتے موبائل اٹھایا اور سینے سے اٹھتی درد ٹیسوں کی طرف بغیر دھیان دیے ۔۔۔۔ 
کال ملائی ۔۔۔۔جس پر دوسری طرف جلدی سے پک کرلی گئی ۔۔۔۔۔
کچھ سرد سے آواز میں مخاطب کو ھدایت دیتے کال کاٹ لی ۔۔۔

اور موبائل میں موجود اسکی تصویروں پر اپنے لب رکھ کر پھر سے آنکھیں موند گیا ۔۔۔۔۔آہستہ آہستہ سینے سے نکلتا خون وہیں جمتا گیا ۔۔۔۔۔

💕💕💕💕💕💕

صبح سب ناشتے کی ٹیبل پر موجود تھے حور کو کمرے میں ہی ملازمہ ناشتا دے کر گئی تھی ۔۔۔۔
شیری کو عائمہ بیگم بلانے گئی تو۔۔۔۔ اسنے کوئی جواب نہیں دیا شاید ابھی تک سو رہا تھا ۔۔۔۔
پھر وہ واپس ٹیبل پر آگئی ۔۔۔۔۔ احمد صاحب بہت خوش تھے جس کا اظہار اسکی مسکراہٹ کر رہی تھی ۔۔۔۔ آخر کیوں نا ہوتا اسکا شیر بیٹا جو اتنا شیردل تھا ۔۔۔۔۔
جسنے فخر سے اسکا سر بلند کردیا تھا ۔۔۔۔ پہلے کی طرح چہرے پر پریشانی نہیں بلکہ سکون تھا ۔۔۔۔
حماد صاحب اپنے بھائی کے مسکراتے چہرے کو دیکھ کر خود بھی مسکرادئے ۔۔۔۔۔وہ بات بات پر پاک آرمی کے بارے میں بتارہے تھے انکی زندگی اور انکی وطن کی حفاظت کی جہدوجہد کے بارے میں ۔۔۔۔۔
جس پر سب مسکرا کر سن رہے تھے ۔۔۔پھر سب ناشتہ شروع کیا تو وہ چپ ہوگئے ۔۔۔۔ دل ایک خوائش تھی کہ شہریار کو سینے میں بھینچ کر اسکا ماتھا چوم لے ۔۔۔۔۔

💕💕💕💕💕

وہ دونوں ہاتھ پکڑے ایئرپورٹ میں کھڑے تھے ۔۔۔۔۔الطاف صاحب اور احمد حماد صاحب سب کے یقین ڈلانے پر وہ آئی تھی ۔۔۔۔ پر الطاف صاحب سے واعدہ لےکر آئی تھی کہ وہ جلدی آنے کی کریں ۔۔۔۔

آپی کبھی سوچا تھا کہ ہم دونوں کبھی ایسے ساتھ چلیں گے ۔۔۔۔مطلب ساتھ سفر کریں گے ۔۔۔۔۔
 مصطفیٰ نے اسے کھویا دیکھ کر اسے ہی اسے اپنے طرف متوجہ کرنے کے لیے سوال داغا ۔۔۔۔۔
یہ۔۔۔یہ کیسا بےوقوف سوال ہے مم۔۔۔مجھے کیسے پتا لگے گا پپہلے ۔۔۔ وہ اسکے سر پر چپت مارتی بولی ۔۔۔۔
او۔۔۔اور میں ایسے ڈڈ۔۔۔ڈرائونی سوچ رکھتی نہیں ۔۔۔۔وہ منہ بنا کر بولی اور پھر یہاں وہاں دیکھنے لگی اسے ہوا میں سے خطرے کی بو آرہی تھی ۔۔۔۔
 وہ خود کو جیسے کسی کی تپش دیتی نظروں کے حصار میں پارہی تھی۔۔۔۔ اسکے اردگرد نظریں پھیرنے پر بھی کوئی تو نہیں دیکھا جو اسے مشکوک لگے یا کسی سے شیری کی جھلک محسوس ہو ۔۔۔ گھبراہٹ اور ڈر سے چہرے پر پسینا آگیا تھا ۔۔۔۔ 
جسے وہ گلے میں پڑے دوپٹے سے پونچھنے لگی ۔۔۔۔ بب۔۔۔بھائی گ۔۔گاڑی کہاں ہے ۔۔۔۔وہ یہاں وہاں اپنے نام کا بورڈ دیکھنے لگی ۔۔۔۔اور بوکھلائی سی بولی ۔۔۔جس پر مصطفیٰ نے سر پر ہاتھ مارا ۔۔۔۔ مطلب کچھ بھی ہوجائے وہ وہی کی وہی ۔۔۔۔۔

نام کا بورڈ دیکھتے ہی اسنے شکر کا سانس لیا ۔۔۔۔
ڈرائیور ملک ولا سے تھا ۔۔۔ وہ جلدی سے قدم بڑھاتی اسکے طرف جانے لگی مصطفیٰ کو گھسیٹتی ۔۔۔اور وہ بھی ہنستا تیز تیز چلنے لگا ۔۔۔۔

باس لڑکی آگئ ہے اور ساتھ ایک چھوٹا لڑکا بھی ہے ۔۔۔۔۔فواد کے آدمی نے پری ہر اپنی غلیظ نظریں گاڑھے دوسری طرف موبائل پر موجود فواد سے بولا ۔۔۔ جو سامنے ہی گاڑیوں کی بھیڑ میں اپنی کار میں بیٹھا تھا ۔۔۔۔

بچے کو کچھ نا ہو اور اسے جلدی سے اٹھا لائو ۔۔۔۔ وہ کچھ کرختگی سے بولا ۔۔۔کیوں کہ اسے ڈر تھا کہ معزور ہونے پر وہ اسے دوکھہ نا دے جائے ۔۔۔۔
پر باس آپکو یہاں نہیں آنا چاہیے تھا ۔۔۔۔ آپکی ایک بچی ٹانگ کو خطرا بھی ہوسکتا ہے ۔۔۔۔ وہ مزاق میں کہتا قہقہہ لگا اٹھا ۔۔۔۔۔

بکواس بند کرو اور جلدی کرو ۔۔۔۔۔ وہ غصے سے دھاڑا ۔۔۔۔۔
جس پہ اسے کوئی اثر نا ہوا ۔۔۔۔ کیونکہ پری کو دیکھ اسکا غلیظ دل  گداری پر اتر آیا تھا ۔۔۔۔۔
چیز ایسی ہی کہ آپکے حوالے کرنے کو دل نہیں کر رہا ۔۔۔۔۔ وہ پری کے سراپے پر اپنی گندیں نظریں گاڑھے کچھ معنی خیزی سے بولا ۔۔۔

پہلے ہم کچھ اس سچ مچ کی پری کی کے سنگ سیر کریں پھر آپ تک پہنچا دیں گے ۔۔۔۔۔ 
کہنے کے ساتھ قہقہہ لگاتا فواد کی دھاڑوں پر موبائل بند کر گیا ۔۔۔۔
اور جیب سے رومال نکال کر انکے پیچھے ہوا ۔۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں ڈرائیور کے ساتھ چلتی اپنی گاڑی کے طرف جارہی تھی جب پری اور مصطفیٰ کے بیچ کچھ عورتیں گذریں وہ دونوں ایک دوسرے سے جدا ہوگئے ۔۔۔۔ڈرائیور اور اسکا بھائی ایک طرف اور وہ دوسری طرف ہوگئی ۔۔۔۔۔ انسے الگ ہوکر اسکی جیسے جان نکلنے کو آگئی ۔۔۔۔

اور  ان اچانک مصیبتوں پر بھڑک اٹھی ۔۔۔۔۔ایک کی چادر پکڑ کے ابھی کچھ بولی ہی والی تھی جب پیچھے سے کسی بھاری ہاتھ نے منہ پر رومال رکھ دیا ۔۔۔۔ اور اس میں نکلتی بو نے سیکنڈ بھی نہیں لگایا اسے ہوش و حواس گھم کرتے یہاں تک کے وہ ہلکی سی مزاہمت بھی نا کرسکی اور حملا آور کے بہاہوں ڈھیر ہوگئی ۔۔۔۔ اور اسکے نازک وجود کو اپنی بازوں میں لیے ہوا کے جھونکے کی طرح غائب ہوگیا ۔۔۔۔ 
فواد صرف دیکھتا رہ گیا ۔۔۔۔۔ 
عورتوں کے ہٹتے ہی مصطفیٰ چیخا ۔۔۔۔ پری کو وہاں نا پاکر ۔۔۔۔۔ وہ چھوٹا بچا پاگل ہوگیا ۔۔۔۔ اور آپی آپی کرتے گاڑیوں کے بیچ اسے ڈھونڈنے لگا ۔۔۔۔۔ جو شاید اب تک اسکی پہنچ سے دور ہوچکی تھی ۔۔۔۔ 
چیختے مصطفیٰ کی نظر اچانک وہاں سے بھاگتے فواد کی گاڑی پر پڑی ۔۔۔۔  
وہاں کے سب لوگ اسکی طرف متوجہ ہوگئے تھے ۔۔۔۔ اور ہر کوئی اس چیختے کہتے۔۔۔۔ چھوڑو میری آپی کو ۔۔۔۔ بولتے اس پر ترس کھانے لگے ۔۔۔۔
ڈروئیور نے روتے مصطفیٰ کو سنبھالتے ملک ولا کال کرکے وہاں سب کے سروں پر بم پھاڑے ۔۔۔۔۔

💕💕💕💕💕💕💕

Tera Ashiq Me Dewana Ho Awara Mehwish Ali 35


تیرا_عاشق_میں_دیوانہ_ہوں_آوارہ💕
#از__مہوش_علی
#قسط__35
Surprise 😍😂😂💕💕🎉
💕💕💕💕💕

وہ واش روم  میں سینے پر جمع خون کو روئی سے مرر میں دیکھتا صاف کر رہا تھا ۔۔۔۔ ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی جب دروازے پر کسی نے تیز دستک دی ۔۔۔۔ شاید دونوں ہاتھوں سے دروازے پر دستک دے رہی تھی ۔۔۔۔ 
اسنے جھنجھلا کر روئی پھیکا اور ایک نظر سوجے گہرے نام پر ڈالی جس میں سے اسکا سرخ  گوشت نظر آرہا تھا ۔۔۔۔نام بہت ہی گہرائی اور موٹے شیشے سے لکھا گیا تھا ۔۔۔۔ اس لیے اندر کا گوشت واضح تھا ۔۔۔
اگر اس جگہ کوئی ہوتا تو شاید یہ درد سہہ نہیں  پاتا ۔۔۔۔ پر  اسے تو یہ درد محسوس ہی نہیں ہورہا تھا ۔۔۔۔۔

 باہر نکلا اور ایک بلیک شرٹ نکال کر پہنی ۔۔۔۔ اس لیے کہ اس میں سے خون نا دیکھے ۔۔۔۔
کمرا اسنے ملازمہ سے پہلے ہی صاف کروالیا تھا ۔۔۔۔

کیا ہوا گڑیا رو کیوں رہی ہو ۔۔۔۔دروازے پر حوریہ کو روتے دیکھ وہ پریشان ہوگیا ۔۔۔۔ 
ب۔۔بھائی ۔۔وہ ہچکیوں کے درمیان بولی ۔۔۔ گھر میں کوئی نہیں تھا عورتوں کے علاوہ سب ایئرپورٹ گئے ہوئے تھے ۔۔۔۔
ہاں ۔۔۔ بولو ۔۔ وہ اسے سر پر ہاتھ رکھے چپ کراتے فکرمندی سے پوچھا شاید خود بھی پریشان ہوگیا تھا یہ اچانک کیا ہوگیا صبح صبح ۔۔۔۔
بھائی پری کو فواد انکل نے کڈنیپ کرلیا ہے ۔۔۔۔ اور سب کے ڈھونڈنے پر بھی نہیں مل رہا ۔۔۔۔پپ۔۔۔پلیز بھائی آپ کچھ کریں نا پلیز ۔۔۔۔ وہ اسکے ہاتھ پکڑ کر التجا کرنے لگی ۔۔۔۔ بغیر اسکے ہاتھ کی پشت کی حالت دیکھے ۔۔۔۔۔
اسکی بات پر شیری کے چہرے پر ایک سایہ سا لہرایا ۔۔۔۔ جسے حور نے محسوس کر لیا تھا ۔۔۔۔ اسنے ہونٹ بھینچ لیے شاید غصے سے ۔۔۔۔
پھر روتی حور کو دیکھا ۔۔۔۔۔
بس بیٹا روتے نہیں ۔۔۔۔ وہ اسے چپ کرواتے نیچے لے آیا ۔۔۔۔ جہاں مشال عالیہ عائمہ بیگم سب کی آنکھیں سرخ اور پریشان تھی ۔۔۔۔

شیری ۔۔۔شیری ۔۔۔ بیٹا کچھ کرو ۔۔۔ بیٹا اس بچی کو بچالو ۔۔۔ وہ حیوان اسے مار ڈالیں گے ۔۔۔۔ 
عائمہ بیگم اسکے طرف لپکی ۔۔۔۔۔

جب تک یہاں تھی ہمنے اسے محفوظ رکھا ۔۔۔۔ اسکو ذرا تکلیف بھی نہیں ہونے دی ۔۔۔۔ پر اب جب وہ خوشی اور اپنے باپ کے تحفظ میں گئی اپنی مرضی سے تو میں کیا کرسکتا ہوں ۔۔۔۔ ویسے بھی جب میرے باپ کو میرا خیال نہیں آیا ۔۔۔ جب وہ پیپر ریڈی کروا چکے ہیں تو اب میرا بھی کچھ نہیں ۔۔۔۔ وہ کتنی سفاکی سے بولا کہ عائمہ بیگم سب دنگ رہ گئی ۔۔۔ مشال اور حور کا بھی یہی حال تھا ۔۔۔۔
شیری یہ کیا۔بول رہے ہو ۔۔۔۔۔ تم تو اس سے پیار کرتے ہو ۔۔۔۔ عالیہ بیحم نے بے یقینی سے پوچھا ۔۔۔۔ 
ہاں کرتا ہوں ۔۔۔ اور کرتا رہونگا ۔۔۔۔ وہ بےفکری سے کہتا کندھے اچکا گیا ۔۔۔۔۔ جیسے اس بات میں میری محبت کا کیا سوال ۔۔۔۔

تو پھر تم کیسے اسے اکیلا ان درندو کے پاس چھوڑ سکتے ہو ۔۔۔۔ عائمہ بیگم غصے سے تیز بولی ۔۔۔۔۔
وہ ڈائیننگ روم کی طرف جاتے رکا ۔۔۔۔۔
جیسے اسنے جانتے ہوئے کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں چلی گئی ۔۔۔ٹھیک ویسے ۔۔۔ اور دوسری بات مما شاید آپ بھول گئی ۔۔ آپنے کہہ تھا وہ مجھ سے ڈرتی ہے تو میں کیسے اسے ڈھونڈو ۔۔۔۔ وہ میری پرچھائی سے بھی بھاگتی ہے ۔۔۔۔ اور ویسے بھی سب گئے ہیں ڈھونڈنے ۔۔۔۔ مل جائے گی اگر ملنی ہوگی تو ۔۔۔۔۔وہ آخری لفظ کچھ غیر سنجیدہ سا بولا ۔۔۔

مجھے ناشتا دیں ۔۔۔۔۔ کہتا جب ایک اور قدم بڑھایا تو پیچھے سے دونوں بولی ۔۔۔۔
بھائی آپ ایسے کیسے کرسکتے ہیں ۔۔۔۔ حور کی آواز اور مشال کے ساتھ وہ کچھ غصے سے مڑا ۔۔۔۔۔
میں یہ ہرگز برداش نہیں کرنے والا گڑیا کہ تم اپنی کل کی رسم یا آئندہ کی زندگی کو چھوڑ کسی اور فالتو چیز یا بات کی طرف دھیان دو ۔۔۔۔ کل تمہاری رسم ہے تو میں چاہتا ہوں سب کچھ بھلائے اپنے بارے میں سوچو ۔۔۔۔۔دماغ فریش رکھو ۔۔۔۔۔۔
اور مشال تم بھی اسے سمجھانے کے بجائے ساتھ دے رہی ہو ۔۔۔۔ سب یہ مت سوچنا کہ کسی کے  وجہ سے میں اس شادی میں رکاوٹ آنے دونگا ۔۔۔۔۔ وہ کہتا رکا نہیں ۔۔۔۔ سب کو شاک میں چھوڑتا ۔۔۔۔ڈائیننگ روم میں چلا گیا ۔۔۔۔۔
پیچھے وہ سب اسے سمجھنے کی کوشش میں تھی ۔۔۔ پر شاید کوئی سمجھ ناسکا ۔۔۔ اسے سمجھنا اتنا آسان نہیں تھا ۔۔۔۔۔جتنا وہ دیکھتا تھا ۔۔۔۔۔

💕💕💕💕💕💕

الطاف صاحب کا رو رو کر برا حال تھا ۔۔۔۔ کیسے وہ اتنی بڑی غلطی کر سکتا ہے ۔۔۔۔ اتنا ٹائم گذر گیا کوئی کچھ بھی نا ملا۔۔۔نا  کوئی ثبوت  ملا ۔۔۔۔۔ 
 اپنے بیٹے سے پوچھا تو اسنے فواد کا بتایا کہ وہ بھی وہاں تھا اور ہماری طرف دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔
یہ سب سنتے اسکا اور بھی برا حال ہوگیا ۔۔۔۔۔ شیری کو کوئی فکر نا تھی ۔۔۔۔ وہ آرام سے بیٹھا انکی حالت دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔ احمد صاحب تو شرمدگی سے کچھ نا بول سکے پر حماد صاحب کے کہنے پر اسنے کہا ۔۔۔۔

معاف کرنا بڑے پاپا یہ سب آپ لوگوں کو اسے چھوڑتے اور پھوپھا کو اکیلے یہاں آنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا ۔۔۔۔ جب آپ لوگوں کو پتا تھا  وہ اسکا سوتیلا ماموں اسکے پیچھے تھا ۔۔۔۔۔(یہ لفظ ایسے چبا چبا کر بولا کہ الطاف صاحب کا سر شرمندگی سے جھک گیا ۔۔۔)
تو اسے اکیلے نا آنے جانے دیتے ۔۔۔۔۔ اب یہ تو آپ سب کی غلطی ہے ۔۔۔۔

دراب سفیان اور حسن تینوں صبح سے کراچی کا چپا چپا ڈھونڈ رہے  تھے پر کچھ بھی ہاتھ نا لگا ۔۔۔۔۔ الطاف صاحب پتا نہیں کتنی بار بے ہوش ہو چکے تھے ۔۔۔۔

ڈاکٹر بھی وارن کرگیا تھا کہ اب زیادہ دماغی دبائو آپکی جان کو خطرا ہوسکتا ہے ۔۔۔۔ پر اسے کہاں اپنی جان کی پروہ تھی ۔۔۔۔۔ 

کیسے محافظ ہو جو اپنے عورتوں کی حفاظت نہیں کرسکتے ۔۔۔ عائمہ بیگم سے کچھ اور نا ہوا ۔۔۔۔ تو اب طنز پر اتر آئی ۔۔۔۔ جس سے شیری کا چہرا سرخ ہوگیا ۔۔۔۔اسکے ماتھے پر بل نمودار ہوئے ۔۔۔ سب نے اسے دیکھا ۔۔۔۔

میں ویسا ہی محافظ ہوں جیسے سب ہوتے ہیں ۔۔۔۔ مینے نہیں کہہ تھا اس بے وقوف عورت کو کہ یہاں سے نکلے ۔۔۔۔۔

 اور ویسے بھی جس معصومیت کا آپ سب کہہ رہے ہیں اسکا تو میرے سامنے ذکر نا کریں اگر اتنی معصوم ہوتی تو مجھ سے نا بھاگتی میں کیا اسے کھائے جا رہا تھا یا مار رہا تھا ۔۔۔۔ مانتا تھا مجھ سے غلطی ہوئی  تھی پر بار بار اس غلطی کی معافی بھی مانگی ۔۔۔۔ پر کیا ہوا وہی جلاد بنا پھرا اسکی نظر میں اور جو اسکا باپ جسنے ساری زندگی اسے تکلیف دی اسکے اشارے پر ہی سب کچھ بھول گئی ۔۔۔۔اسے کے ہاتھ سامنے کرتے ہی معافی مل گئی ۔۔۔۔۔
اسکی بات پر الطاف صاحب تو جیسے اندر سے کٹ گئے ۔۔۔۔ 
سب لب بھینچ کر رہ گئے ۔۔۔۔۔ 
وہ اٹھ کر منہ بناتا وہا سے جانے لگا ۔۔۔۔۔ جب پیچھے سے الطاف صاحب نے رکا ۔۔۔۔
بیٹا شہریار ۔۔۔۔۔۔۔
اسکے خوبصورت چہرے پر پراسرار سی مسکراہٹ نمودار ہوتی وہیں دم توڑ گئی ۔۔۔۔۔
وہ چہرے پر بیزاری لیے مڑا ۔۔۔ اور بولا ۔۔۔۔۔
جی کہیے ۔۔۔۔۔ ؟
احمد صاحب ساری کاروائی دوران چپ چاپ پریشان سے کھڑے تھے ۔۔۔
بیٹا کیا تم اسے میری بےوقوفی اور میری بیٹی کی نادانی سمجھ کر درگذر نہیں کرسکتے ۔۔۔۔۔ بیٹا  مجھے پتا ہے تم ہی اسے بچا سکتے ہو ۔۔۔۔ آخرکار وہ تمہاری منکوحہ ہے ۔۔۔۔یہ لفظ کچھ شرمدگی سے بولا کیونکہ ایک دن پہلے طلاق کی باتیں ہو رہی تھی ۔۔۔۔ اب منکوحہ یاد آگئی ۔۔۔۔۔ 

 بیٹا اسکی اتنی بڑی سزا نا دو مجھے میری بچی لادو ۔۔۔۔۔میں ہاتھ جوڑتا ہوں تمہارے سامنے ۔۔۔۔۔۔
وہ روتے گڑگڑاتے بولے ۔۔۔۔ جس سے شہریار کو جیسے سکون مل رہا تھا ۔۔۔۔پر اسکے جو اگلے لفظ تھے وہ سب کو ساکت کر گئے ۔۔۔۔ اور اسکے پتھر دل کی صاف گواہی دے رہے تھے ۔۔۔۔۔
سوچ لیں اگر میں اس تک پہنچ گیا تو وہ آپ سب کی پہنچ سے دور ہوجائے گی ۔۔۔۔۔.  اب فیصلا آپ کر سکتے ہیں ۔۔۔۔ یا ویسے بھولیں یا ایسے ۔۔۔۔۔ پر میری طرف سے رخصتی سمجھنا ۔۔۔۔۔
نکاح کو تو اب آپ سب بھی مان گئے ہیں ۔۔۔۔۔ وہ ہر لفظ طنز میں  مار رہا تھا ۔۔۔۔۔ اپنا پورا حساب لے رہا تھا ۔۔۔۔ 

پر فائدے کی بات بتائو اگر میری سائیڈ ہوئے تو گڑیا کی شادی میں شاید چانس مل جائے دیکھنے کا ۔۔۔۔۔ 

جہاں سب ساکت ہوئے پورے ملک ولا میں سکوت چھایا وہیں الطاف صاحب اسکی بات کو اسکی چلاکی کو اسکا دریا دل سمجھ کر ۔۔۔۔۔ بغیر وقت لیے بولے ۔۔۔۔۔ ہاں ہاں بیٹا میں تمہارے ساتھ مجھ سے میری معصوم بچی اسے دندرے سے بچا کے دو ۔۔۔۔۔ اور اس بات پر حماد اور احمد صاحب نے بھی ساتھ دیا ۔۔۔۔۔ اور خوش بھی ہوئے کچھ تو رحم آیا اس سوئے ہوئے شیر کو ۔۔۔۔۔۔

سوری غلطی درست کریں ۔۔۔ بچاکے دو نہیں بچاکے اپنی امانت لو ۔۔۔۔ اور
آپ کیا کہتے ہیں بڑے پاپا اور  پاپا جانی ۔۔۔۔۔ اجازت ہے ۔۔۔۔۔ وہ سب کی رائے لینے لگا ۔۔۔۔۔مسکرا کر ۔۔۔۔
میری جان مجھے پتا ہے ۔۔۔ تم بہت پیار کرتے ہو ۔۔۔۔ میں تمہیں سمجھ نا سکا اس لیے مجھے خود پر افسوس ہے ۔۔۔۔ جو بیٹا اپنے باپ کی ایک خوائش کو اتنا اہم سمجھ سکتا ہے ۔۔۔۔ اگر اس بیٹے کے پاس اسکی محبت گئی تو اس میں اجازت کیوں لے رہے ہو جائو میرے شیر ۔۔۔۔۔۔
سب جیسے پھر سے کھل اٹھے ۔۔۔۔۔  الطاف صاحب نے روتے آنکھیں صاف کی ۔۔۔۔۔ اور بولے ۔۔۔۔ بیٹے ایسی سخت سزا دینا اس کو کہ آئندا یہ بات تصور میں بھی لاتے وقت کپکپائے ۔۔۔۔۔ ثابت کردینا ایک محافظ ہو ۔۔۔۔۔۔ 

شیری خاموشی سے سنتا اپنے کمرے میں چلا گیا اور کچھ ہی دیر میں اپنا موبائل گاڑی کی چابی لیکر سب سے ملتا ۔۔۔۔۔ حور کی  طرف آیا جب وہ خوشی سے اسکے گلے لگی ۔۔۔۔۔ شیری لب بھنچ کر رہ گیا ۔۔۔۔۔ 

تھینک یو بھائی یو آر مائے سپر ہیرو ۔۔۔۔۔۔۔ وہ خوشی بولی ۔۔۔۔ 
اسکا سر چوم کر بولا ۔۔۔۔ اور میری دونوں سپر سسٹرز ۔۔۔۔۔ کہتا مڑا ۔۔۔۔۔ اور عائمہ عالیہ بیگم کے ماتھا چومنے کے بعد وہ واپس ملک ولا سے نکلا ۔۔۔۔ جب پریشان سے تینوں ملک ولا میں داخل ہوئے ۔۔۔۔ 

مجرم گھر میں بیٹھا ہے اور یہ بیوقوف دنیا ڈھونڈ رہے ہیں ۔۔۔۔ بڑبڑاتا اپنی مسکراہٹ کچلنے لگا ۔۔۔۔

شکر ہے کچھ تو شرم کی ۔۔۔۔ دراب نے دیکھتے شرم ڈلائی ۔۔۔۔۔ 
ظاہر ہے کرنی پڑی بیوی جو ٹھہری ۔۔۔۔۔ وہ پریشانی سے دیکھنے لگے ۔۔۔۔ تو کیا پہلے نہیں تھی ۔۔۔۔۔ سفیان کچھ چھبتے  بولا ۔۔۔۔ 
تھی پر تم لوگوں کی طرح کوئی مان نہیں رہا تھا ۔۔۔۔ 

سنجیدگی سے گویا ہوتا گاڑی میں بیٹھ گیا ۔۔۔۔.  آل دے بیسٹ ۔۔۔ اسکی مجھے نہیں کسی اور کو ضرورت پڑنے والی ہے ۔۔۔۔ معنی خیزی سے بولا ۔۔۔۔ گاڑی اڑاتا وہاں سے چلا گیا ۔۔۔۔۔
پیچھے وہ نا سمجھی سے دیکھتے رہ گئے ۔۔۔۔۔ 

پاپا کیا اب آپی نہیں آئے گی میرے پاس ۔۔۔۔ چھوٹے مصطفیٰ شیری کی پشت کو دیکھتا روتے اپنے باپ سے پوچھا ۔۔۔۔ الطاف صاحب کچھ بھی جواب دئے اسے سینے میں بھینچ گئے ۔۔۔۔۔

💕💕💕💕💕💕

مری کے راستوں پر چلتی اسکی گاڑی ہوا سے باتیں کر رہی تھی ۔۔۔۔ اور وہ گنگناتا جا رہا تھا جب اسکی موبائل پر بلال کی کال آئی ۔۔۔۔ گاڑی سائیڈ پر کرتے کال پک کی ۔۔۔۔۔

ہاں بلال ۔۔۔۔۔
سر ان دونوں کے ساتھ کیا کرنا ہے ۔۔۔۔ بلال نے تہہ خانے میں لٹکے  بندھے فواد اور اسکے آدمی کی طرف دیکھتے پوچھا ۔۔۔۔
کچھ نہیں کچھ دن اسے ہی رہنے دو ۔۔۔۔ پھر جب عالم کی طرف سے    سپیشل ڈش آئے تو مجھے اطلاع کر دینا ۔۔۔۔ پھر ملاقات کریں گے ۔۔۔۔ابھی مجھے کوئی ڈسٹرب نا کرے ۔۔۔۔وہ کچھ سخت آواز میں کہتا موبائل بند کر دیا ۔۔۔۔۔

بلال نے تو ڈش لفظ سنتے ہی جھرجھرلی ۔۔۔۔۔ بیچارہ رستم ڈش بن گیا ۔۔۔۔ ہاہاہاہاہہاہا۔ ۔۔۔۔۔
قہقہہ لگاتے ایک ترس بھری نظر ان پڑ ڈال کر تہہ خانے کا دروازہ بند کرتا باہر ۔۔۔ آیا ۔۔۔۔۔ ۔

پیچھے وہ بندھے پرنڈے کی طرح پھڑپھڑاتے رہ گئے ۔۔۔۔۔ چیخیں بھی پر کچھ نا ہوسکا ۔۔۔۔ ویسے ہی لٹکے رہے ۔۔۔۔۔

💕💕💕💕💕💕

گاڑی بڑے سے بنگلے کے پارکنگ ایریا میں رکی ۔۔۔۔ یہ بنگلہ مری کی خوبصورت برفانی جگہ۔ پر تھا ۔۔۔۔۔باہر ہر چیز برف سے ڈھکی ہوئی تھی ۔۔۔
پر بنگلے کے اندر کمرے اور لائونج کو بالکل ہیٹر سے گرم رکھاگیا تھا ۔۔۔ وہ اندر داخل ہوا تو وہی تینوں عورتیں موجود تھی ۔۔۔ جو مشال کی شادی میں  پری کے ساتھ تھی ۔۔۔۔۔

ہر چیز جو جو پری نے اسے اپنی پسند بتائی تھی سب موجود تھی ۔۔۔۔ پھول پانی برف ۔۔۔۔  جیسے اسکی سوچ کو پڑھ کر گھر بنایا گیا ہو ۔۔۔۔

شیری کو دیکھتے ملازموں نے سلام کیا ۔۔۔۔ وہ سر ہلاکر جواب دیتا سرد آواز میں پوچھا۔۔۔۔کہاں ہے ۔۔۔۔

سر وہ اپنے کمرے میں ۔۔۔۔ ان میں سے ایک سر جھکاکر بولی ۔۔۔۔ دوسری پھولوں کی دیکھ بھال کے لیے تھی ۔۔۔ تیسری کچن کے لیے ۔۔۔۔
وہ سر ہلاتا ۔۔۔۔ سیڑھیاں طے کرتا ۔۔آہستہ سے کمرے کا دروازہ کھولا  ۔۔۔وہ کافی بڑا تھا اور بہت خوبصورت ۔۔۔۔
بنگلے میں ٹوٹل چار رومز تھے دو اوپر دو نیچے ۔۔۔۔ خوبصورت سا لائونج جس کی وسط میں تین قیمتی صوفے رکھے تھے ۔۔اور بیچ میں شیشے کی ٹیبل جس پر خوبصورت مہنگا گلدان رکھا تھا۔۔۔۔ اوپن کچن ۔۔۔۔ڈائیننگ روم ۔۔۔
اگر پری ہوش میں ہوتی دیکھتی تو شاید کھو سی جاتی اسکی خوبصورتی میں ۔۔۔۔

آ ہی گئی چڑیا قید میں ۔۔۔۔ پراسرار سا بڑبڑاتا ۔۔۔۔ کمرے میں داخل ہوتے ۔۔۔ اندھیرے میں واپس دروازہ بند کرتے لائٹ جلائی ۔۔۔۔تو چھت پر لگا خوبصورت فانوس جلملاتا روشن ہوگیا اور پورے روم کو اپنی روشنی میں لپیٹ گیا ۔۔۔۔۔
اسکی نظریں سیدھا بیڈ پر پڑی ۔۔۔۔ جہاں وہ دنیا جہاں سے گھم جہازی سائیز بیڈ پر پڑی پنک پردھے اسکے چارو طرف تھا ۔۔۔۔ 

سوتے ہوئے وہ کوئی پریوں کی دیس کی ملکہ ہی لگ رہی تھی ۔۔۔۔ ایک ہاتھ تکیے پررکھے بالوں کو پورا  پھیلایا ہوا تھا ۔۔۔۔دوسرا اپنے پیٹ پر تھا ۔۔۔۔
معصومیت تو اتنی تھی کہ دنیا تباھ کردے ۔۔۔۔

 وہ اس پر نظریں مرکوز کیے مسکراہٹ سجائے ۔۔۔ گاڑی کی چابی انگلی میں گھماتا چلتا ہوا بیڈ کے قریب آیا اور شوز کو پیروں سے آزاد کرواتے ۔۔۔۔ پردے ہٹا کر اسکے پاس بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔

بہت ستایا مجھے جانم ۔۔۔ سرگوشی میں کہتا قریب ہوتے انگلیاں اسکے بالوں میں پھنسا دی ۔۔۔۔۔ اب تمہاری باری ۔۔۔۔ کیا کہہ رہی تھی ۔۔۔۔ مجھے محفوظ رکھیں ۔۔۔۔ ہاہاہا ۔۔۔ بہت اچھی طرح محفوظ کرلونگا ۔۔۔۔۔
وہ شاید ابھی دوا کے زیر اثر تھی اسلیے نا اسکے قہقہہ پر اٹھ رہی تھی نا اسکی بالوں میں چلتی انگلیوں کے لمس پر ۔۔۔۔ 

اب جلدی سے ہوش میں آئو تو حساب کتاب شروع کریں اور وہاں میری کال کے منتظر بیٹھے ہماری فیملی کو بتائیں کہ تمہارے ہوش ٹھکانے لگا چکا ہوں ۔۔۔۔۔
اسکے سرخ ہونٹوں کو فوکس میں لیے معنی خیزی سے کہتا جھک کر اسے چھو لیا ۔۔۔۔ پھر ساتھ ہی لیٹ گیا ۔۔۔۔ دل تو اسے خود میں بھینچنے کے لیے چاہتا تھا پر سینے پر لکھا نام ابھی تازا  تھا ایسا کرنے سے واپس خون نکل سکتا تھا اسلیے صرف مجبور نظروں سے ہی اپنا سکون حاصل کر رہا تھا ۔۔۔ اور ہاتھ بڑھا کر شرٹ اتار کر بیڈ سے نیچے پھنک کر اسکے بال منہ پر پھیلا کر انکی مہک کو اپنے اندر اتارنے لگا اور آنکھیں موند گیا ۔۔۔۔۔ویسے بھی اب وہ ہر طرح سے آزاد تھا ۔۔۔۔ سب کی اجازت سے حاصل کر چکا تھا ۔۔۔۔۔

💕💕💕💕💕








Post a Comment

Previous Post Next Post